حضرت قطبِ عالم
دلچسپ معلومات
تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب-87
حضرت قطبِ عالم جمعِ فیوضِ سبحانی، منبعِ علومِ روحانی، درِ دریائے معرفت اور گوہرِ کانِ حقیقت ہیں۔
خاندانی حالات : آپ حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت کے پوتے ہیں جن کا نام حضرت سید جلال الدین بخاری ہے، وہ حضرت سید کبیر احمد کے لڑکے تھے، ان کے دادا حضرت شیخ جلال الدین سرخ بخاری تھے، وہ ساداتِ حسینی سے تھے اور بخارا کے ایک معزز اور ذی علم خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔
والد ماجد : آپ کے والدِ ماجد کا نام سید نصیرالدین محمد ہے اور بعض کا خیال ہے کہ آپکے والد ماجد کا نام ناصرالدین محمد ہے۔
والدہ ماجدہ : آپ کی والدہ ماجدہ کا نام حاجرہ بی بی ہے، وہ حضرت سید قاسم حسینی کی صاحبزادی تھیں، حاجرہ بی بی کا مزار پٹن میں ہے، حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت ان کو سعادت خاتون کہہ کر پکارا کرتے تھے۔
پیشین گوئیاں : ایک دن جو حسبِ معمول آپ کی والدہ ماجدہ حاجرہ بی بی صبح کے وقت حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت کو سلام کرنے کی غرض سے آئیں تو حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت ان کی تعظیم کی غرض سے کھڑے ہوگئے، یہ بات آپ کے والد حضرت سید نصیرالدین محمد کی اور بیویوں کو ناگوار ہوئی، جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت نے فرمایا کہ
”حاجرہ بی بی کے پیٹ سے ایک قطبِ وقت پیدا ہونے والا ہے، اس لیے ان کے لیے کھڑے ہوکر تعظیم کی“
ایک دن حضرت نصیرالدین محمد زمین پر سو رہے تھے، ان کے پیٹ پر سے کپڑا ہٹا ہوا تھا، حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت نے جب ان کو اس طرح سوتا دیکھا تو وہ کچھ دیر وہاں باادب کھڑے رہے پھر تعجب اور خوشی کے لہجہ میں فرمایا کہ
”اللہ اکبر! ایک قطب پیدا ہوگا جو صرف قطب ہی نہ ہوگا بلکہ قطب الاقطاب ہوگا جو فیض کا چشمہ ہوگا اور جو لوگوں کو راہِ حق دکھائے گا“
اس کے بعد انہوں نے حضرت نصیرالدین محمد کے پیٹ پر ہاتھ پھیرا اور پھر وہی ہاتھ اپنے چہرے پر پھیرا۔
ایک دفعہ حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت گجرات تشریف لے گئے، اس وقت احمدآباد میں جو نہیں آیا تھا، وہ بٹوہ بھی تشریف لے گئے، فجر اور اشراق کی نماز کے بعد انہوں نے وہاں کی تھوڑی سی مٹی اٹھائی اور مٹی سونگھ کر فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’اس پاک زمین سے تو ہماری ہڈیوں کی خوشبو آ رہی ہے“
حاضرین سے انہوں نے اس مٹی کی زیارت کرنے کو کہا اور یہ پیشن گوئی فرمائی کہ ”یہ مقام قطبیت کا خزانہ ہوگا اور روحانیت کا سرچشمہ ثابت ہوگا“
ایک دن حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت نے آپ کی والدہ جن کو وہ سعادت خاتون کہہ کر پکارا کرتے تھے، ان کو وہ چادر جس کو وہ عبادت کرتے وقت اوڑھا کرتے تھے عطا کی، پھر پانے صاحبزادے نصیرالدین کو حکم دیا کہ میری وفات کے بعد سعادت خاتون کے بطن سے لڑکا ہوگا۔
”یہ میری امانت اس بچے کو دینا“
جب بچپ پیدا ہوا تو اس کے لیے کپڑے اسی چادر سے بنائے جائیں اور چادر کے بچے ہوئے ٹکڑے بھی نہایت احتیاط سے رکھے جائیں، یہ چادر متبرک ہے، جب خداوند تعالیٰ نے شبِ قدر کی دولت سے نوازا تو یہ چادر مجھے پہنائی گئی پھر آپ نے نصیرالدین محمد کو آگاہ کیا کہ جو بچہ پیدا ہوگا وہ قطب الاقطاب ہوگا، اس کو مقامِ ابدیت حاصل ہوگا، مقامِ ابدیت پر فائز ہونے والے کو عبداللہ کہتے ہیں اور سلوک میں یہ سب سے بڑا درجہ شمار کیا جاتا ہے۔
ولادت : آپ اوچہ میں 14 رجب 790 ہجری مطابق 1388 عیسوی کو پیدا ہوئے، آپ کے والد نے آپ کے کان میں اذاں دی، آپ کے دادا کی چادر سے آپ کے کپڑے بنائے گئے۔
نام : آپ کا نامِ نامی اسمِ گرامی عبداللہ ہے۔
کنیت : آپ کی کنیت ابو محمد ہے۔
لقب : آپ کا لقب برہان الدین ہے۔
خطاب : آپ کا خطاب قطبِ عالم ہے۔
ولادت کے بعد کی کرامات : آپ نے دائی کا دودھ نہ پیا، آپ نے اپنی والدہ کا دودھ پیا، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ دائی جس کا دودھ آپ نے نہیں پیا، بدچلن تھی، ابھی آپ صرف تیرہ دن کے تھے کہ 27 رجب شبِ معراج پر ایک نور آپ کے پاس آتا دکھائی دیا اور حضرت نے نید میں کچھ الفاظ فرمائے جن کا ترجمہ یہ ہے۔
”چراغ کی روشنی دن کی روشنی سے بڑھ کر ہے“
برادران : آپ کے بھائیوں کے نام یہ ہیں۔
سید فضل اللہ، سید علاؤالدین اور سید عبدالحق۔
بیعت و خلافت : آپ اپنے والدِ ماجد کے مرید و خلیفہ ہیں، آپ کی عمر پانچ سال کی تھی کہ ایک دن آپ اپنے والد ماجد کے پاس آئے، آپ کے والدِ ماجد اس وقت حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا خرقہ پہنچے ہوہے بیٹھے تھے، آپ نے آکر اپنے والد سے دریافت کیا کہ مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا خرقہ کیا آپ کے پاس ہے، مخدوم جہانیانِ جہاں گشت کے پاس سوائے دو خرقہ کے اور کچھ نہ تھا، ان پر خراسان کے ایک تاجر اسی ہزار دینار کا قرضہ تھا، فیروز شاہ تغلق سے یہ کہا گیا کہ وہ اسی ہزار دینار کا قرضہ ادا کر دے اور اس کے بدلے مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا ایک خرقہ لے لے، فیروز شاہ تغلق اس پر راضی بھی ہوگیا تھا لیکن خراسان کے اس تاجر کو جب اس بات پتہ لگا تو وہ اوچہ آیا اور قرضہ معاف کرکے اور دستاویز پھاڑ کر اور اسی ہزار دینار کے بدلے ایک خرقہ لے کر خراسان واپس چلا گیا، مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا دوسرا خرقہ آپ (قطب عالم) کے والد کے پاس رہا اور وہی خرقہ پہنچے وہ اس وقت بیٹھے ہوئے، آپ کے والد نے وہ خرقہ اتار کر آپ کو پہنا دیا اور آپ کو تاکید کی خرقہ پہن کر مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے مزارِ پُرانوار پر حاضر ہوں۔
آپ نے اپنے والدِ ماجد کے چچا اور مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے چھوٹے بھائی اور خلیفہ حضرت صدرالدین المعروف بہ راجو قتال سے بھی روحانی فیض پایا، ایک دن آپ کے والد کو رنجیدہ دیکھ کر حضرت راجو قتال نے ان سے کہا کہ رنج اور فکر کی کوئی بات نہیں جو روحانی فیوض مجھے اور تمھیں ملے ہیں وہ ہم دونوں قطب عالم کو دے دیں، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا، اس کے بعد حضرت راجو قتال نے آپ کو اپنے کاندھے پر بٹھایا اور مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے مزارِ مبارک پر لے گئے، انہوں نے اپنے فیوض آپ کو دے دیے اور پھر آپ سے کہا کہ یہی نہیں بلکہ تین اور نعمتیں جو مجھے میرے پیر و مرشد سے ملی ہیں، وہ بھی تم کو دیتا ہوں، وہ تین نعمتیں یہ ہیں، مرشد کا خرقۂ مبارک مال و دولت کی دیگ اور تلوار جس کی دو دھاریں ہیں، آپ نے حضرت شیخ احمد کھٹو سے بھی روحانی فیض پایا، آپ نے حضرت شیخ احمد کھٹو سے بھی خلافت پائی۔
”از شیخ احمد کھٹو نیر خلافت یافت“
والد ماجد کا وصال : آپ کی عمر دس سال کی تھی کہ پدرِ بزرگوار کا سایہ سر سے اٹھ گیا، وفات سے پہلے کے والدِ ماجد نے سب اہلِ خاندان کو جمع کیا جن کی مجموعی تعداد ایک سو بیس تھی اور ان سے فرمایا کہ تم کو معلوم ہے کہ
”اللہ کو یہ بات پسند ہے کہ تم اپنی اولاد کے بیچ انصاف کرنا“
”میں سامان اور کتابوں کا بٹوارہ کرنا چاہتا ہوں، سب کو ان کا حق دینا چاہتا ہوں“
آپ کے والدِ ماجد نے 22 رمضان المبارک 801 ہجری کو اس دارِ فانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ فرمایا۔
حضرت راجو قتال کی تاکید : حضرت راجو قتال نے آپ کو تاکید فرمائی کہ تم گجرات میں سکونت اختیار کرنا اور وہیں رہ کر زندگی گزارنا اور رشد و ہدایت کرنا، گجرات کی سر زمین تمہارے سپرد ہے اور گجرات کے لوگوں تک پیامِ حق پہنچانا اور ان کو تاریکی سے روشنی میں لانا تمہارے ذمہ ہے، ان فرائض کو بخیر و خوبی انجام دینا۔
گجرات میں آمد : اپنے والد کے انتقال کے بعد آپ اوچہ سے 802 ہجری مطابق 1399 عیسوی میں گجرات میں رونق افروز ہوئے، اس وقت گجرات کا دارالخلافت پٹن میں تھا، آپ پٹن پہنچ کر حضرت شیخ رکن الدین کے مہمان ہوئے جو بابا فریدالدین گنج شکر کے نواسے تھے، حضرت شیخ رکن الدین نے آپ کی بہت عزت اور خاطر مدارات کی۔
حضرت شرف الدین مشہدی کی ملاقات : حضرت سید شرف الدین مشہدی جو بھڑوچ میں رہتے تھے کو جب آپ کے پٹن میں قیام کا علم ہوا تو وہ آپ سے ملنے کے لیے پٹن روانہ ہوئے، راستہ میں احمدآباد میں رکے اور پھر سرکھیج پہنچے جہاں حضرت شیخ احمد کھٹو رہتے تھے پھر پٹن پہنچے اور آپ (حضرت قطب عالم) سے ملے۔
سلطان مظفر شاہ کا استقبال : سلطان مظفر شاہ جو حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے مرید، معتقد اور منقاد تھا، حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور نذرانۂ عقیدت پیش کیا۔
تعلیم و تربیت : آپ کی روحانی تعلیم و تربیت آپ کے والد اور آپ کے والد کے چچا اور حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت کے چھوٹے بھائی حضرت راجو قتال کی نگرانی میں ہوئی، حضرت جب گجرات میں رنق افروز ہوئے تو دنیاوی علم حاصل کرنے کا شوق دامن گیر ہوا، آپ ایک مدرسہ میں داخل ہوگئے، اس مدرسہ میں حضرت مولانا علی شیر درس دیا کرتے تھے، حضرت نے ان کی خاص توجہ سے دنیاوی علم حاصل کیا اور علومِ ظاہری و باطنی میں درجۂ کمال کو پہنچے، جب آپ گجرات تشریف لے گئے تھے، اس وقت آپ کی عمر قریب دس سال کی تھی، سنِ بلوغ کے پہنچنے تک آپ علم حاصل کرنے میں کوشا رہے۔
حضرت گیسو دراز کی ملاقات : آپ جب چودہ سال کے ہوئے تو اسی زمانہ میں حضرت سید گیسو دراز دکن سے گجرات تشریف لے گئے، پٹن پہنچے اور حضرت شیخ رکن الدین سے ملاقات کی، پٹن میں حضرت سید گیسو دراز بندہ نواز نے جب آپ (قطب عالم) کو دیکھا تو قطبیت کے آثار آپ میں دیکھ کر خوش ہوئے اور آپ سے کہا کہ ”میرے بزرگوں سے جو فیض مجھے ملا ہے وہ میں آپ کو بطور تحفہ دینا چاہتا ہوں“
شادی و اولاد : آپ جب سِن بلوغ کو پہنچے تو حضرت شیخ رکن الدین نے آپ کی شادی کرانا چاہی، انہوں نے بادشاہ کے وزیر امین الدین خداوند خاں کو ایک خط لکھا کہ اگر بادشاہ کی لڑکی کی شادی حضرت (قطب عالم) کے ساتھ ہو جائے تو کیا اچھا ہو، امین الدین خداوند خاں نے اپنی لڑکی کی شادی حضرت کے ساتھ کرنی چاہی لیکن ہوا ایسا کہ حضرت کی شادی شہزادی کے ساتھ ہوئی، وقت گزرتا رہا اور آخر کار امین الدین خداوند خاں کی آرزو پوری ہوئی یعنی اس کی لڑکی سلطانہ خاتون (بی بی آمنہ) حضرت کے عقدِ نکاح میں آئی، اس کے بعد حضرت پر غلبۂ عشق و شوق ایسا طاری ہوا کہ حضرت کو اپنے تن کی ذرا خبر نہ رہتی، دیواروں پر دوڑتے اور کسی قسم کا کوئی آرام نہ کرتے تھے، امین الدین خداوند خاں کو جب یہ معلوم ہوا تو اس نے ایک زنجیر بنوا کر اور طباق میں رکھ کر حضرت کی خدمت میں بھیجی، جب حضرت نے زنجیر کو دیکھا تو اول مسکرائے اور پھر فرمایا کہ
”شروع کی دونوں زنجیریں مجھے قبول ہیں“
اس کے بعد حضرت نے کریم الدین کی صاحبزادی بی بی دھنّا سے شادی کی جن کے بطن سے تین لڑکے پیدا ہوئے جن کے نام یہ ہیں۔
سید محمد اصغر شیخ محمد، سید صادق محمد، سید محمد راجو اور بیویوں کے بطن سے جو بچے ہوئے ان میں سے کچھ کے نام یہ ہیں۔
حضرت شیخ محمد دریائے نوش، حضرت منجھن میاں جو شاہ عالم کے لقب سے مشہور