تذکرہ حضرت شاہ قطب علی بنارسی
ہند و پاک میں سلسلۂ چشتیہ کی ابتدا سلطان الہند، عطائے روسول، خواجہ سید معین الدین حسن چشتی (م۸۳۳ھ) سے ہوتی ہے، آپ کے جانشیں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اوشی (م۶۶۱ھ) نے دہلی سے سلسلۂ چشتیہ کے فروغ میں نمایاں خدمات انجام دیں، آپ کے جانشیں خواجہ فرید الدین مسعود شکر گنج اجودھنی (م ۶۶۴ھ )تھے، ان سے سلسلۂ چشتیہ کی تبلیغ کو بے پناہ وسعت و مقبولیت حاصل ہوئی، پاکپٹن سلسلۂ چشتیہ کے روحانی نظام کا ایک زبردست مرکز ہوگیا۔ خواجہ فرید کے خلفا میں خواجہ نظام الدین اولیا (م ۷۲۵ھ) اور حضرت علاؤالدین علی احمد صابر کلیری (م۶۹۰ھ) دونوں نے اپنی انفرادی شناخت قائم کی، آپ حضرات کی ذاتِ والا صفات سے روحانیت کے ایسے چشمے ابلے جن سے تشنگانِ علم و معرفت قیامت تک سیراب ہوتے رہیں گے۔
حضرت مخدوم سید علاؤالدین علی احمد صابر کلیری سے سلسلۂ صابریہ کی ابتدا ہوتی ہے، کلیر شریف سلسلۂ صابریہ کے ایک اہم مرکز کی حیثیت سے مشہور ہوا، آپ کے جانشیں و اجلّ خلیفہ حضرت شمس الدین ترک پانی پتی (م۷۲۶ھ) تھے۔ جن کی بدولت سلسلۂ صابریہ چہار دانگ عالم میں متعارف ہوا، یہ سلسلہ آپ کے خلیفہ حضرت شیخ جلال الدین کبیر الاولیا پانی پتی (م۷۶۵ھ) سے مزید وسیع ہوا، ان دونوں بزرگوں کی بدولت سلسلۂ صابریہ کا مرکز دوپشت تک پانی پت رہا، حضرت شیخ جلال الدین کے جانشیں مجدد سلسلہ شیخ العالم حضرت مخدوم شیخ احمد عبدالحق ردولوی صاحبِ توشہ (م۸۳۷ھ) تھے۔ انھوں نے ردولی شریف کو رشد و ہدایت کا عظیم مر کز بنایا، آپ کی جلیل القدر شخصیت کا یہ روحانی فیض تھا جس کی وجہ سے ردولی شریف سلسلۂ صابریہ کی سب سے توانا اور ثمر آور شاخ ثابت ہوئی۔
ردولی شریف نے سلسلۂ صابریہ کی تبلیغ و اشاعت میں جو خدمات انجام دیں وہ اظہر من الشمس ہے، آج بھی اس سر چشمۂ فیض سے خلقِ خدا اپنی روحانی پیاس بجھا رہی ہے، آپ کے جانشیں حضرت شیخ عارف احمد ردولوی (م۸۵۵ھ) اور حضرت شیخ محمد ردولوی (م ۸۹۸ھ) نے نے اپنے اپنے طور پر سلسلے کے فروغ میں نمایاں حصہ لیا، حضرت شیخ محمد ردولوی کے اجلّ خلیفہ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی نے سلسلے کی ترویج واشاعت کو غیر معمولی کا میابیوں سے ہم کنار کیا، آپ نے’’انوار العیون‘‘جیسی کتاب تصنیف فرمائی، آپ ہندی میں الکھ داس کے تخلص سے مشہور ہوئے۔
یہ سلسلہ حضرت مولانا جلال الدین تھانیسری، حضرت مولانا نظام الدین بلخی، حضرت شیخ ابوسعید حنفی گنگوہی، حضرت شیخ صادق محمد فتح اللہ حنفی گنگوہی، حضرت شیخ بندگی داؤد ذوالنّوروی، حضرت شیخ ابو المعالی محمد اشرف حسنی مکی، حضرت سید میاں بھیک ابو یوسف ترمذی، حضرت شاہ عنایت بہلول پوری، حضرت مولانا عبدالکریم عرف آخون فقیر رامپوری، حضرت شاہ علی محمد پیر لقب میاں صاحب، حضرت علی محمد مرید لقب علی مست، حضرت مولانا قاری نورالحق رامپوری اور حضرت قطب الوقت سید شاہ صابر علی بنارسی قدّس سرّہم سے ہوتا ہوا حضرت قطب عالم حضرت حاجی شاہ محمد قطب الدین نندانوی ثم بنارسی تک پہنچتاہے۔
قطب عالم، حاجی الحرمین حضرت خواجہ شاہ محمد قطب الدین المعروف بہ قطب علی نندانوی ثمّ بنارسی کی جائے پیدائش مو ضع ننداواں ضلع اعظم گڑھ یوپی ہے، آپ کا نسبی سلسلہ حضرت شیخ مخدوم بیابانی تک پہنچتا ہے، آپ کے والد کا نام شیخ روشن پیر بخش تھا، ایام طفلی سے ہی آپ کی طبیعت بالکل مختلف تھی، آپ بچپن سے ہی مراقبے و چلّے میں مشغول رہنے لگے تھے، اس وقت کے بزرگوں نے آپ کی حالت دیکھ کر پیشن گوئی کی تھی کہ یہ لڑکا اپنے وقت کا قطب ہوگا، آپ کو ارادت و خلافت مخدومِ بنارس حضرت مولانا سید شاہ صابر علی بنارسی سے حاصل تھی، قطب عالم کے پیر و مرشد شریعت، طریقت اور معرفت میں یکتائے زمانہ اور حسن میں یو سفِ ثانی تھے، حضرت سید صابر علی بنارسی نے خرقہ و خلافت حضرت مو لانا حافظ و قاری شاہ نورالحق رامپوری سے پائی تھی، حضرت سید صابر علی کی عبادت کا یہ عالم تھا کہ 24؍ برس تک خواب استراحت نہ فرمایا تھا، اگر غنودگی کا غلبہ ہوتا تو آپ دیوار سے تکیہ لگالیا کرتے، حالاں کہ چار پائی بچھی رہتی تھی، اسمِ ذات بہ کثرت پڑھا کرتے تھے، اورادو وظائف اور یادِ خدا کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں تھا، مجاہدے کا یہ حال تھا کہ گیارہ چلّہ بے آب و دانہ کیا تھا، ۲۴؍ خلوت گیارہ گیارہ دن کے کئے، راتوں میں کثرت سے نفل نماز ادا کرتے، ایک مدت تک صائم الدھر و قایم الیل رہے، وقتِ افطار سات لقمہ یا تین خرما تناول فرماتے، ہمیشہ باوضو رہا کرتے تھے، جب وضو ساکت ہوتا فورا اسی وقت وضو کر لیتے۔ آپ کی محبت اور آپ کا اخلاق ظاہر و باطن یکساں تھا۔ آپ کا وصال ۴ ؍صفرالمظفر ۱۲۷۷ھ میں محلہ دوسی پورہ بنارس میں ہوا۔ آپ کی تدفین وہیں ہوئی، آپ کا آستانہ منبعِ فیض اور مرجعِ خلائق ہے۔
حضرت قطب عالم نے تین بار پا پیادہ اور متعدد بار سواریوں سے حرمین شریفین کی زیارت کی ہے، آپ صاحبِ کشف و کرامت بزرگ تھے، دعائے حیدری کے عامل تھے، قطب عالم نے حج بیت اللہ کے دوران اپنے مریدین اور متعلقین کے لئے سر بہ سجود ہو کر دعا کی کہ انھیں دنیا میں تنگ دستی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور بروزِ محشر ترے سامنے ان سے روسیاہ نہ ہو سکوں۔
قطب عالم تا زیست مجاہدہ اور ریاضت میں مصروف رہے، زہد و تقوا سے باہر کبھی ایک قدم نہ رکھا، آپ خواجہ معین الدین اجمیری، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، خواجہ فریدالدین گنج شکر، حضرت علاؤ الدین علی احمد صابر کلیری، حضرت شیخ العالم مخدوم احمد عبدالحق ردولوی، حضرت سید میران بھیک، حضرت مخدوم شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کی درگاہوں پر خصوصی چلے اور مجاہدے کئے، مرزاپور، چکیا اور بہار شریف کے جنگلوں میں برسوں تک ریاضت و مجاہدے میں مصروف رہے، حضرت اپنے مریدان سے تین وقت تہجد، بعد نمازِ فجر و بعد نمازِ مغرب حلقہ بناکر ذکر اللہ اللہ کرایا کرتے تھے۔
حضرت قطب عالم نے خدمت خلق کے لئے ننداواں میں مسجد شاہ کی تعمیر کرائی جس میں سنگ سیاہ کا ٹکڑا اور بابا فریدالدین گنج شکر کی زنجیر کا ٹکرا نصب ہے، آپ نے فرمایا
اس مسجد میں جس نے ۴۰؍ وقت کی نماز ادا کی اس پر دوزخ کی آنچ حرام ہے، چکیا میں سیّد صاحب کا روضہ بنوایا، ردولی شریف میں حضرت شیخ العالم مخدوم احمد عبدالحق ردولوی کی قبر پر سنگ مرمر کا تعویذ لگوایا اور چھت گیری کرائی، خانقاہ سے ملحق ایک کنواں بھی آپ کی دین ہے، آپ نے اپنے پیر و مرشد مخدوم حضرت سیدشاہ صابر کلیری علی بنارسی کا روضہ جو کلیر شریف کا نمونہ ہے بنوایا۔
حضرت قطب عالم ایک جلیل القدر بزرگ تھے سلسلۂ صابریہ کے فروغ کے لئے سیاحت فرماتے، عقیدت مندوں اور مریدوں کا قافلہ ساتھ رہتا، آپ کے تقریباً سوا لاکھ مرید تھے، ہر مذہب و ملت کے لوگ آپ کے حلقے میں شامل تھے، آپ کے مریدین و خلفا میں حضرت سید شاہ امجد علی کے علاوہ
حضرت حافظ شمس الدین مرزاپوری
حضرت مو لانا سید شاہ شمس الحق بنارسی(خلف حضرت سید شاہ صابر علی بنارسی)
حضرت محمد عبداللہ نندانوی
حضرت شاہ رحمۃ اللہ رام نگری
حضرت شاہ عبدالواحد فیض آبادی
حضرت شاہ حافظ عبدالرحمن بیوروی
حضرت شاہ سونا بھارت گنجوی
حضرت شاہ وزیر سرسیاوی
حضرت شاہ تراب بنگالی
حضرت شاہ جنگلی گونڈوی
حضرت شاہ عبدالرحیم جونپوری
حضرت شاہ علی حسین
حضرت شاہ غلام چشتی
حضرت شاہ رمضان علی بارہ بنکوی
حضرت شاہ عبدالرزاق بارہ بنکوی
حضرت شاہ عبدالمجید چکیاوی
حضرت شاہ چکیاوی مول
حضرت شاہ قاسم پنجابی
حضرت سیدشاہ شکراللہ
حضرت شاہ گلاب ٹونڈلوی
حضرت شاہ بندھو
حضرت شاہ شیخ صابر علی چکیاوی
حضرت شاہ حافظ بصری
حضرت شاہ شہادت چلی بیوروی
حضرت شاہ عبدالحق
حضرت شاہ یار علی بھدوہوی
حضرت مولوی شاہ مہندی نوادوی
حضرت شاہ شین خان
حضرت محمد ولی وغیرہم قابلِ ذکر ہیں۔
حضرت قطب عالم کا لنگر وسیع تھا، تقریباً سواسو مریدین ہردم ساتھ رہتے، ان کو دو وقت کا کھانا حضرت کے بھنڈارے سے عطا ہوتا جو مرید خشک غذا لیتے انھیں تین چھٹانک چاول اور ایک چھٹانک دال دی جاتی تھی، حضرت قطب عالم کی کم خوراکی کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھی غذا ۱۶(سولہ)تولہ سے زیادہ تناول نہ فر ماتے تھے، خوشبو میں آپ کو عطر حنا بہت پسند تھی، اسی لئے آپ کے مزارِ مبارک پر عطر حنا بعد غسل پیش کی جاتی ہے۔
آپ ردولوی حضرت شیخ العالم کے عرس میں کثیر جماعت کے ساتھ شریک ہوتے، لنگر کے لئے غلّہ اور نذر پیش کرتے، سجادۂ وقت مخدوم زادہ حضرت شاہ التفات احمد احمدی سے حددرجہ قربت تھی، اسی قربت کا نتیجہ ہے کہ حضرت شیخ العالم کے خانقاہ کا سجادہ آپ کے عرس میں شریک ہوکر قل و مجلس سماع کی صدارت فرماتے ہیں، فی الوقت شہزادۂ شیخ العالم حضرت شاہ عمّار احمد احمدی مدظلہٗ سجادگی پر رونق افروز ہیں تشریف لاتے ہیں۔ بنارس اور ردولی شریف کی قربت دیکھئے کہ ۲۷؍ رجب المرجب ۱۴۳۶ھ المطابق ۲۰۱۵ء کے عرس کے موقع پر خانقاہ قطبیہ کے موجودہ سجادہ نشیں حضرت شاہ مشیر السلام صاحب مدظلہٗ کی غیر مو جودگی میں حضرت قطب عالم کی رسم غسل شریف و خرقہ و عمامہ حضرت شاہ عمّار احمد احمدی مدظلہٗ نے زیبِ تن کر کے زیارت کرا ئی تھی، اس عرس میں راقم الحروف بھی شریک تھا۔
حضرت قطب عالم چکیا میں جب سیاحت کرتے ہو ئے قیام پذیر ہوئے اس موقع پر راجہ پربھو نرائن سنگھ رام نگر اپنے برہمن وزیر کے ہمراہ حاضر خدمت ہوا اور ملتجی ہو ا کہ یا حضرت قلعہ چراغ بتی سے محروم ہے۔ دعا کیجیے کہ مجھے اولاد نصیب ہو۔ آپ نے اسے کرم ناشاندی سے دوگھڑے پانی بھر کے سید صاحب کا مزار دھونے کا حکم دیا۔ حضرت قطب عالم کا حکم پاتے ہی راجہ گھڑا لے کر دریائے کرم ناشا کی طرف بڑھے، اسی درمیان اس برہمن وزیر نے راجا کو جھانسا دیا کہ مہاراج جی لائیے آپ کیوں دھوئیے گا ہم ہی دھودیتے ہیں، بر ہمن وزیر دوگھڑے پانی سے سید صاحب کا مزار دھوکر حضرت قطب عالم کے پاس حاضر ہوا، حضرت نے مسکراتے ہوئے فرمایا ’’آیا تھا رجوا اور لے گیا وزیروا‘‘ چوں کہ راجہ و بر ہمن وزیر دونوں لاولد تھے۔ اس بر ہمن وزیر کو اللہ نے دو اولادوں سے نوازا اور راجہ بے چارہ لاولد ہی رہ گیا۔
حضرت قطب عالم رام نگر چکیا ہوتے ہوئے درگاہ اجمیر شریف تشریف لے گئے اور زیارت سے مشرف ہوکر ردولی شریف پہنچے۔ ردولی شریف میں سخت بیمار ہوگئے۔ اسی علالت میں آخر کار ۲۶؍ رجب المرجب ۱۳۱۹ھ بروم شنبہ بوقتِ ۸؍ بجے شب واصلِ بحق ہوئے، آپ کی نعش اطہر کو مریدان با صفا بنارس علی پورہ لائے اور آپ کے پیرومرشد حضرت صابر علی بنارسی کے احاطۂ مزار کے پورب اتر جانب سپردِ خاک کیا، تربت سفید سنگ مرمر کی بنی ہوئی ہے، سرھانے جالی پر سورۂ اخلاص کی آیت کندہ ہے، مزار پر انوار کے اوپر اجمیر شریف کے جیسا دلکش گنبد تعمیر ہے۔
حضرت قطب عالم کا عرس ہر سال ۲۶؍ اور ۲۷؍ رجب المرجب کو بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے جس میں آپ کے خلفا کے مریدین و متوسلین، زائرین دور دراز سے تشریف لاتے ہیں، ۲۶؍ رجب کی صبح ۹؍ بجے محفل سماع ہوتی ہے، بعد نمازِ مغرب قل شریف و محفل سماع ہوتی ہے، شب ایک بجے گاگر شریف کی رسم ہوتی ہے، صبح صادق بعد نمازِ فجر غسل کی رسم و چادر پوشی ہوتی ہے، ۲۷؍ ویں تاریخ کو ۹؍بجے صبح محفل سماع کا انعقاد ہوتا ہے، بعد نماز ظہر سجادۂ وقت خرقہ و عمامہ حضرت قطب عالم کا زیبِ تن کر کے مسجد میں دو رکعت نماز شکرانہ پڑھتے ہیں اس کے بعد قوال کے ہمراہ روضۂ حضرت قطب عالم میں حاضری دیتے ہیں، زیارت دعا کے بعد مختصر محفل ہوتی ہے، اس کے بعد عرس کے اختتام کا اعلان ہو جاتا ہے، عرس میں زائرین کے درمیان لنگر تقسیم کیا جاتاہے۔
مآخذات
(۱) گل چمنِ چشتی۔ شیخ علی احمد مرزاپوری (سنہ اشاعت ندارد)
(۲) ارشاداعظم واحد (جلداول) سیدتصدق علی اسدؔ سنہ اشاعت۲۰۰۰ء۔ ناشر خانقاہ امجدیہ سیوان بہار
(۳) سرہستی سید تصدق علی اسدؔ (مقالہ قطب عالم از سید شاہ صغیر احمد)سنہ اشاعت ۱۹۹۷ء خانقاہ امجدیہ سیوان بہار۔
(۴) حیات شیخ العالم شاہ مبین احمد فاروقی منظر ردولوی۔ طبع دوم ۲۰۱۲ء ناشرشعبۂ نشرواشاعت جامعہ چشتیہ خانقاہ حضرت شیخ العالمؒ
(۵) سیرت ملّا فقیر اخوند رامپوری۔ مفتی سید شاہد علی حسنی سنہ اشاعت ۲۰۱۴ء
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.