Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

معیار سماع بتدریج قوالی کے عہدِ ایجاد تک

اکمل حیدرآبادی

معیار سماع بتدریج قوالی کے عہدِ ایجاد تک

اکمل حیدرآبادی

MORE BYاکمل حیدرآبادی

    دلچسپ معلومات

    کتاب ’’قوالی امیر خسرو سے شکیلا بانو تک‘‘ سے ماخوذ۔

    سماع دوسری صدی ہجری کی ایجاد ہے، حضرت جنید بغدادی نے اسے تیسری صدی ہجری میں اختیار کیا، عوارف المعارف میں درج ہے کہ

    ’’کہتے ہیں حضرت جنید بغدادی نے ہمارا سننا چھوڑ دیا تھا، لوگوں نے کہا آپ پہلے سماع سنتے تھے، آپ نے فرمایا کس کے ساتھ؟ وہ کہنے لگے آپ اپنے لیے سنتے تھے کہ آپ نے فرمایا کن لوگوں سے؟ آپ نے یہ سوالات اس لیے کیے کہ مشائخ اپنے ہی ہم پلہ لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنے جیسے لوگوں سے سماع سنا کرتے تھے، لہٰذا جب ایسی روحانی صحبت ختم ہو جائے تو سماع بھی ترک کر دیا جاتا ہے۔

    اس حوالہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت جنید تیسری صدی ہجری ہی کے شرکائے بزم سماع کے معیار سے غیر مطمئن تھے پھر حضرت امام غزالی نے ایک معیار قائم کرنے کی غرض سے پانچویں صدی ہجری کی اپنی تصانیف احیاؤالعلوم اور کیمیائے سعادت میں سماع کے آداب و موانع مرتب فرمائے، اس کے ایک سو سال بعد شیخ الشیوخ شیخ شہاب الدین سہروردی نے چھٹی صدی ہجری کی اپنی تصنیف عوارف المعارف میں اپنے عہد کے سماع کے معیار پر جو تبصرہ فرمایا وہ حسبِ ذیل ہے، آپ فرماتے ہیں کہ

    سمان کے ذریعہ بہت فتنے پھیل گیے ہیں، اس کی معصومیت باقی نہیں رہی بلکہ لوگوں میں اس کا شوق اس قدر بڑھ گیا ہے کہ انہوں نے نیک عمل کم کر دیتے ہیں اور ان کی حالتیں اس قدر بگڑ گئی ہیں کہ وہ سماع کے لیے بہ کثرت جمع ہونے لگتے ہیں، یہاں تک کہ ایسے اجتماعات کے موقع پر کھانے بھی پکو ائے جاتے ہیں، اب مخلص درویشوں کی طرح محض سماع سے دلی رغبت کی بنا پر یہ اجتماع منعقد نہیں ہوتا بلکہ نفسانی خواہش اور سیر تماشہ کے لیے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں نتیجہ یہ ہوا کہ مریدین کی روحانی ترقی منقطع ہوگئی ہے، اس طرح نہ صرف ان کا وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ لطفِ عبادت بھی حاصل نہیں ہوتا، موجودہ زمانہ میں اس کے اجتماعات کا مقصد محض نفسانی خواہشات کی تکمیل اور عیش و عشرت سے لطف اندوزی ہوگیا ہے، ایسا اجتماع اہلِ باطن کے نزدیک نا جائز ہے۔

    یہ ہے شیخ شہاب الدین سہروردی کا ارشاد ان کے خود کے عہد کے سماع کے بارے میں، جب اس عہد میں سماع کا یہ معیار رہ گیا تھا تو ساتویں صدی ہجری میں قوالی کے عہد ایجاد تک اس کا کیا رنگ ہوگیا ہوگا اور جب سماع میں اتنا فرق پیدا ہوگیا تھا تو فنِ قوالی جیسی نئی ایجاد سماع سے کس قدر مختلف رہی ہوگی، آج اس قوالی کے بارے میں جو لوگوں کا مذہبی تصور ہے کیا وہ قوالی واقعی اس تصورپر پوری اترتی ہوگی جو تصور سماع کے بارے میں سب کا ہے۔

    اب ایک سوال یہی رہ جاتا ہے کہ جب یہ قوالی سماع سے مختلف تھی تو وہ اپنے عہد کی سب سے بڑی خانقاہ میں کیسے جگہ پاسکی؟ اس کا جواب آگے کے اوراق میں کسی نہ کسی عنوان کے تحت کئی جگہ موجود ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے