Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

قوالی کے عہدِ ایجاد کا اہم سماجی تقاضہ

اکمل حیدرآبادی

قوالی کے عہدِ ایجاد کا اہم سماجی تقاضہ

اکمل حیدرآبادی

MORE BYاکمل حیدرآبادی

    دلچسپ معلومات

    ’’قوالی امیر خسرو سے شکیلا بانو تک‘‘ سے ماخوذ۔

    قوالی کے عہدِ ایجاد میں ہندوستان مختلف صوبوں، ریاستوں اور علاقوں میں تقسیم تھا، ہر خطہ میں مختلف لوگ آباد تھے، خود دہلی میں راجدھانی بھی ہندوؤں اور مسلمانوں وغیرہ کی مختلف تہذیبوں، زبانوں، عقائد اور روایتوں کے حلقوں میں بٹی ہوئی تھی، حالاں کہ یہ لوگ جنگ، جشن اور عید و تہوار کے موقعوں پر بہ ہر صورت ایک قوم کی حیثیت سے جمع ہو جاتے تھے، ان سب نے مل کر جنگیں بھی لڑیں، ہارے بھی، جیتے بھی، ماتم بھی کیے، جشن بھی منائے، عید و تہوار کی بہار یں بھی لوٹیں لیکن اس کے باوجود معاشی مسائی، تہذیبی اور سماجی ضروریات کے پیشِ نظر شعوری یا غیر شعوری طور پر ساری قوم ایک ایسی یک جہتی کی آرزو مند تھی جس کی حقیقتاً ہر قوم کو ضرورت ہوتی ہے، اس ضرورت کی تکمیل کے لیے قوم کے دانشور ہر آن اُن بہانوں، ان عنوانوں ان مراکز اور ان وسائل کی کھوج میں لگے رہتے تھے جن کے ذریعہ بار بار سب کے مل بیٹھنے کے مواقع فراہم ہوں، ایسے ہی مواقع اس عہد کا سب سے بڑا سماجی تقاضہ تھے اور ان ہی تقاضوں کے درمیان قوالی کی بنا پڑی، اس وقت پیش تحریر ایک ذیلی سرخی ہے لیکن ہمارا اصل موضوع چوں کہ قوالی ہے، اس لیے یہاں قوالی سے متعلقہ ایک عام غلط فہمی کا ازالہ بے محل نہ ہو گا کہ اس عہد میں اسلام کو کسی نئی طرزِ عبادت کی ضرورت کا سامنا قطعا ًنہ تھا بلکہ حق بات تو یہ ہے کہ اسلام میں قرآن اور حدیث سے ہٹ کر کسی نئے طریقہ ٔیادِ الٰہی کی ایجاد و اختراع کی اجازت ہی نہیں ہے، اس حوالہ کا مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ قوالی کا عہدِ ایجاد مسلمانوں کے کسی نے طریقۂ عبادت کا متقاضی نہ تھا، اس وقت تک اسلام کو مکمل ہوئے سات سو سال بیت چکے تھے اور سماجی حیثیت سے اس عہد کا سب سے بڑا تقاضہ صرف یہ تھا کہ کوئی نہ کوئی ایسی سبیل نکالی جائے کہ تمام مذاہب کے ماننے والے مستقلاً مل بیٹھنے کے عادی ہو جائیں پھر ایک بار یہ بات دہرانے میں تکلف نہیں کہ اسی تقاضۂ ہم آہنگی کی گونج میں قوالی کی بنا پڑی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے