Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

قوالی کے المیے

اکمل حیدرآبادی

قوالی کے المیے

اکمل حیدرآبادی

MORE BYاکمل حیدرآبادی

    دلچسپ معلومات

    کتاب ’’قوالی امیر خسرو سے شکیلا بانو تک‘‘ سے ماخوذ۔

    حادثہ وقوع پزیر ہونے کے بعد ’’المیہ‘‘ یا ’’طربیہ‘‘ بن جاتا ہے، خوش گوار حادثے کی پیداوار ’’طربیہ‘‘ اور ناخوش گوار کی ’’المیہ‘‘ ہوتی ہے، ہندی اصنافِ موسیقی میں کئی اصناف مختلف حادثوں کی بنار پر عروج پائے اور زوال بھی قوالی فی الحال مختلف نا خوش گوار حادثوں سے گذر رہی ہے، اس لیے میں ان حادثوں کو قوالی کے المیے ہی کہوں گا۔

    قوالی کا پہلا المیہ : قوالی ایک صنفِ موسیقی ہونے کے باوجود شاعری کے زیر تسلط رہی، لہٰذا اس تسلط کی بنا پر ماہرین موسیقی نے اسے آغوش خلوص سے پرے رکھا اور صنفِ موسیقی ہونے کے جرم پر پرستارانِ شاعری نے اس سے سرد مہری برتی، اس طرح کسی نے بھی اس پر زیادہ توجہ نہ دی چنانچہ امیر خسروؔ کی یہ ایجاد گھر کی رہی نہ گھاٹ کی، آج موسیقی اور شاعری کی تمام اصناف پر کتابوں کے انبار موجود ہیں لیکن قوالی وہ بدنصیب صنف ہے جس پر باضابطہ فنی اعتبار سے لکھی ہوئی کتابوں کا فقدان ہے، یہی فقدان قوالی کا سب سے بڑا اور پہلا المیہ ہے، فن کی کلاسیکی صورت گری میں کتابوں کا بہت بڑا رول ہوتا ہے مگر قوالی اس سہارے سے محروم ہے۔

    قوالی کا دوسرا المیہ : قوالی کا دوسرا مگر اہم المیہ یہ ہے کہ یہ طرز ابتدا ہی سے مسلمانوں کی شرعی بحث کا شکار ہوگئی، جس کے باعث فنی حیثیت سے اس کا جائزہ مسلمانوں کے اس خاص دور میں بھی نہ لیا جا سکا جب کہ ہندوستان تمام اصنافِ موسیقی کی تحقیق و توسیع میں مصروف تھا۔

    قوالی کا تیسرا المیہ : قوالی کا یہ المیہ یہ ہے کہ یہ طرز سیدھے سادھے راگوں اور عام پسند مضامین کے باعث موسیقی سے کم واقفیت رکھنے والے اور کم پڑھے لکھے لوگوں کے ہتھے چڑھ گئی اور ان کی جاہلانہ اور غیر مہذب حرکتوں کے باعث بجز صوفیوں کے دیگر تمام تعلیم یافتہ اور ترقی پسند حلقوں میں بے توقیر ہوگئی، یہی سبب ہے کہ آج نہ کوئی بڑا گویا قوالی گانے پر آمادہ ہوتا ہے اور نہ کوئی بڑا شاعر اپنی تخلیق کو قوالی کی ضروریات کے مطابق ڈھالنے کی درخواست قبول کرتا ہے۔

    قوالی پر اگر فنی اعتبار سے معلوماتی کتابیں لکھی جاتیں، اگر یہ فن شرعی بحث سے آزاد ہوتا، اگر اسے تعلیم یافتہ اور مکمل طور پر موسیقی شناس افراد اپناتے تو یہ فن اتنا وسیع اور دلکش تھا کہ عوامی مقبولیت کی جس منزل پر آج پہنچا ہے وہ منزل آج سے سیکڑوں سال پہلے گزر چکی ہوتی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے