قوالی کے مضامین
دلچسپ معلومات
’’قوالی امیر خسرو سے شکیلا بانو تک‘‘ سے ماخوذ۔
قوالی کے اہم ترین اجزا مرکب تین ہیں، مضامین، موسیقی اور زبان، اس مرکب میں قومی یکجہتی کی خصوصیات کی کھوج کرنے کے لیے ان تینوں کا الگ الگ جائزہ لینا ضروری ہے، ان تینوں اہم ترین اجزا میں چوں کہ مضامین کی اہمیت سب سے زیادہ ہے، اس لیے پہلے مضامین ہی پر غور کرنا ہوگا، قوالی کے مضامین کی ابتدا نشری اقوال سے ہوئی، جو صرف مسلم پیشواؤں ہی کے ارشادات پر مشتمل تھے، یہ بات بھی پایۂ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ قوالی میں سب سے پہلے سرورِ کائنات محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے اقوال مبارک باندھے گیے، ان میں بھی جو قول قوالی کی حد تک سب سے زیادہ مشہور و مقبول ہوا اور قوالی میں سب سے پہلے استعمال کیا گیا وہ حسب ذیل ہے۔
من كنت مولا فعلی مولا
حالاں کہ اس قول کا قولِ رسول ہونا حدیث سے ثابت نہیں ہوتا لیکن یہ قول حضرت علی مرتضیٰ کی بہت بڑی فضیلت کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے، یہ قول اگر چہ کہ موضوع بحث رہا لیکن متعدد ایسے اقوال بھی قوالی میں ابتداً استعمال کیے گیے جن کے اقوالِ رسول ہونے کا ثبوت حدیث میں موجود ہے۔
موسیقی کی ضرورت کے پیشِ نظر خسروؔ نے قوالی کے نثری اقوال میں ’’ترانہ‘‘ کے بول بھی جوڑ لیے تھے، مثلاً
من كنت مولا فعلى مولا
در دل در دل دردانی
در قوم، تا نانا نانا، تا نانانا رے
تانانا ، تانا نا نارے
در توم، تا نانانانا تانانانارے
يلالّی یلالیِّ يلا يلا اللہ، من كنت مولا
بعض جگہ یہی قول ’’ترانہ‘‘ کے حسب ذیل بولوں کے ساتھ نقل ہوا ہے۔
من كنت مولا، فعلىٌِّ مولا
در توم تا نانانانا، تا نا نا نا رے
الالی آلالیِ آللی اللہ ياللے الالِی الالِی يا للے من كنت مولا
ان دونوں میں زیادہ چاؤ پہلی صورت ہی میں ملتا ہے لیکن اس بات کا صحیح اندازہ کسی موسیقی داں ہی کی زبان سے سن کر ہو سکتا ہے میں نے دونوں صورتوں میں یہ قول سنا ہے، مجھے پہلی صورت ہی جاذب لگی۔
اس میں شک نہیں کہ قوالی کی ابتدا سرورِ کائنات کے اقوالِ مبارک سے ہوئی لیکن امیر خسروؔ نے قوالی صرف مسلمانوں ہی کے لیے نہیں بنائی تھی، اس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے بہت جلد قوالی کو مذہبی پیشواؤں کے اقوال سے وسعت دے کر تصوف کی طرف موڑ دیا، جس میں ہندو مسلم کی کوئی قید نہ تھی۔
قوالی کا عہد ایجاد وہ عہد ہے جب کہ موسیقی کا استعمال مسلمانوں میں سخت موضوعِ بحث بنا ہوا تھا، مسلمانوں کی اکثریت اسے نا جائز مانتی تھی لیکن خسروؔ جو مثالی محب وطن اور شیدائے قوم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم موسیقار بھی تھے وہ موسیقی کی قوتِ وحدانیت سے خوب واقف تھے، وہ ایک سچے فنکار ہونے کے ناطے یہ نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان موسیقی کی اس ہمہ گیر خصوصیت سے محروم رہ جائیں، چنانچہ مسلمانوں کی اکثریت کو موسیقی سے قریب لانے کے لیے انہوں نے موسیقی میں سرورِ کائنات کے اقوال جڑ دیئے، ان کا یہ کارنامہ اگرچہ ان کی طبعیت کے مذہبی میلان کی دین قرار دیا گیا لیکن خسروؔ نے اپنی تمام تر تصنیفات اور ایجادات میں مختلف مذاہب کی ہم آہنگی کی مقصدیت کو پیش نظر رکھا ہے اور ان کے ہر کارنامہ میں ان کی حب الوطنی اور قوم پرستی بدرجۂ اتم موجود رہی، چنانچہ قوالی کو محض اس خیال سے کہ وہ ابتداً خانقاہوں میں پلی یہ کہ دینا کہ یہ کسی مذہبی جذبہ کے تحت ایجاد کی گئی سراسر تنگ نظری اور خسروؔ کے فطری رحجان سے ناواقفیت کا اعلان ہے، خسروؔ کی حیات، ان کے جذبات اور ان کے احساسات کے بغور مطالعہ کے بعد یہی رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ انہوں نے قوالی کی ابتدا ’’اقوالِ رسول‘‘ سے محض اس خیال کے تحت کی تھی کہ مسلمان ان اقوال کے تقدس کے زیرِ اثر موسیقی کی غیر شرعی حیثیت کو گوارا کر لیں، کیوں کہ وہ خود بھی موسیقی کی اس حیثیت کو گوارا کرتے تھے، چنانچہ ہوا بھی یہی مسلمان اقوال رسول کے تقدس میں ایسے کھوئے کہ اس کی عقیدت کے آگے موسیقی کی غیر شرعی حیثیت ماند پڑ گئی اور مسلمان برق در جوق قوالی کی محفلوں میں شریک ہونے لگے، قوالی کی ایجاد سے پہلے مسلمانوں کی اکثریت موسیقی سے اس قدر قریب نہ تھی، قوالی موسیقی کا وہ بابِ داخلہ ہے جس سے مسلمانوں کی اکثریت داخل ہوئی۔
خسروؔ نے قوالی کے ذریعہ مسلمانوں کی اکثریت کو موسیقی سے قریب تو کر لیا لیکن اُن کی فنی مہارت اور اُن کی قوم پرستی کے لئیے یہ کوئی کارنامہ نہ تھا، ان کے نزدیک کارنامہ تو یہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک مرکز پر انتہائی ہم مزاجی کے ساتھ جمع کر دیں، چنانچہ مسلمانوں کے قوالی کا عادی ہو جانے کے بعد خسرو نے اس فن میں اقوالِ رسول کی جگہ تصوف کے مضامین سمو دیئے۔
تصوف کے مضامین ویدانت بھگتی تحریک اور صوفی تعلیمات کی تبلیغ اور تشہیر کا ایسا سر چشمہ ہیں جن میں ذات پات، مذہب اور اونچ نیچ کی کوئی تفریق نہیں، یہاں سب اسی ایک ذات کے پرستار ہیں جس نے ساری دنیا کی تخلیق کی ہے، یہاں مذہبی ہم آہنگی، تہذیبی میل ملاپ، رواداری اور انسان دوستی کے ایسے ایسے اسباق ہیں جن کا ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی کوئی منکر نہیں ہو سکتا، تصوف کی اسی خوبی کے باعث بے شمار ہندو بھی مسلم صوفیا سے وابستہ رہے۔
ہندو مذہب میں موسیقی جزوِ عبادت ہے، چنانچہ موسیقی کی للک میں ہندو قوالی سے قریب ہوتے گیے اور مضامین کی فضیلت کے پیشِ نظر مسلمان اس کے حلقہ بگوش ہونے لگے اور جب اس میں تصوف کے مضامین سما گیے تو ہندوؤں نے اسے ایسے اپنا لیا کہ یہ مسلمانوں ہی کی طرح ہندوؤں کی بھی روحانی تسکین کا سامان بن گئی۔
قوالی کی محفلوں میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی ہم آہنگی قوالی کے مضامین ہی کی بدولت ہے اور ان مضامین کا انتخاب علمبردارِ قومی یکجہتی امیر خسروؔ ہی کی دور اندیشی کا کرشمہ ہے، اگر خسروؔ نے ان مضامین کے برمحل انتخاب میں اپنی دور اندیشی اور کمالِ ذہانت سے کام نہ لیا ہوتا تو قوالی آج اتنی وسیع نہ ہوتی۔
تصوف کے ساتھ ہی قوالی میں عربی نثر کی جگہ فاری نظم نے سنبھال لی، یہاں آکر قوالی کچھ اور پرکشش ہوگئی، کیوں کہ قوالی کا یہی وہ سنگم تھا جہاں موسیقی سے شاعری بغل گیر ہو رہی تھی۔
شاعری کی بنیاد بھی مضامین ہی پر ہے، لہٰذا قوالی کی حد تک شاعری کو بھی مضامین ہی کے زیرِ عنوان شمار کرنا چاہیے، شاعری کو فنونِ لطیفہ میں اہم مقام حاصل ہے لیکن اعلیٰ شاعری اسی شاعر کے تخلیق پاسکتی ہے جو شاعر ہونے سے پہلے ایک سچا انسان ہو اور سچے انسان کی اولین خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک درد مند دل کا مالک اور انسان دوست ہو جو شاعر سچا انسان نہ ہو اس کی شاعری کبھی بھی سچائی، خراص، رواداری اور انسان دوستی جیسے اعلیٰ جذبات کی ترجمان نہیں ہوسکتی اور جس شاعری میں ان جذبات کا فقدان ہو نہ وہ کبھی اعلیٰ شاعری کی تعریف میں آسکتی ہے اور نہ اس کو دنیا یاد رکھتی ہے، کوئی چیز اگر موضوعِ بحث ہو تو اس کی اعلیٰ اقدار ہی کی بنیاد پر فیصلہ دیا جاسکتا ہے کہ اس کی قطعی حیثیت کیا ہے، چنانچہ شاعری نے نہ صرف فرقوں، طبقوں اور جماعتوں کو جوڑ کر ایک قوم کیا ہے بلکہ اس نے بین الاقوامی وحدت کے جذبات کو بھی فروغ دیا ہے، اس نے سارے عالم میں اپنے مضامین سے انسان دوستی کا پیغام عام کیا ہے، خسروؔ کی ایجاد کردہ قوالی کا خمیر ہی وسعت پذیر تھا، چنانچہ قوالی نے تصوف کو بھی اپنے لیے نا ناکافی پایا اور مزید وسعت کی متقاضی ہوئی لیکن خانقاہ کا ماحول مزید وسعت و پھیلاؤ کے خلاف تھا، لہٰذا یہ وہ دوشیزہ جب شباب کو پہنچی تو خانقاہ کی دیوار پھاند گئی، خانقاہ کے باہر بھی عوام کی ایک کثیر تعداد اس کے جلوۂ بے باک کی مشتاق تھی، اس کھلے ماحول میں آکر اس دوشیزہ نے اپنے آپ کو عشقیہ مضامین سے آراستہ کیا اور آئینۂ موسیقی سے داد پا کر جب عوام کے آگے رونمائی کی تو اس کے اطراف چاہنے والوں کا اژدہام لگ گیا، اب قوالی کسی ایک مربی یا کسی ایک سرپرست یا کسی مخصوص گروہ کے ذہنی تسلسل میں نہ تھی، چنانچہ اس نے اپنے لا محدود چاہنے والوں کی مرضی کے مطابق حمد، تصوف، نعت، منقبت، معجزات، کشف و کرامات، حب الوطنی، رواداری، سچائی، انصاف، شجاعت، حسن و عشق، ہجرو وصال، ناز و ادا اور جام و مینا جیسے بے شمار موضوع اپنے مضامین میں سمیٹ لیے ان میں کئی موضوع وہ تھے جو بلا امتیازِ مذہب و ملت تمام انسانوں کو ایک مرکز پر جمع کر لیتے تھے، اپنے مضامین کے طفیل قوالی کی یہ مرکز یت آج تک قائم ہے اور ان ہی مضامین کے باعث قوالی آج تک قومی یک جہتی مؤثر ترین ذریعہ بنی ہوئی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.