قوالی میں خواتین سے مقابلے
دلچسپ معلومات
کتاب "قوالی امیر خسرو سے شکیلا بانو تک"سے ماخوذ۔
بیسویں صدی کے چھٹے دہائی میں جب پہلی خاتون قوال شکیلہ بانو بھوپالی نے قوالی کے میدان میں قدم رکھا تو مقابلوں کی دنیا میں ایک ہلچل سی مچ گئی، مردوں اور عورتوں کا پہلا مقابلہ شکیلہ بانو بھوپالی اور اسمٰعیل آزاد کے درمیان ۱۹۵۷ء میں ہوا، حسن و عشق کی یہ سرِ عام تکرار عوام کے لیے ایک قطعی انوکھی چیز تھی، جس کی مثال اس عہد سے پہلے قوالی کے کسی اسٹیج پہ نہیں ملتی، اس میں ہر دو جانب سے ایک دوسرے کو بے وفا، ہر جائی اور نا آشنا کے ادبِ عشق ثابت کرنے کی کوشیش کی جاتی ہے، شکیلہ بانو کی تقلید میں بہت سی دوسری خواتین بھی قوالی کے میدان میں آگئیں اور مرد عورت کا کبھی نہ ختم ہونے والا مقابلہ اسٹیج پر شروع ہو گیا، آج مقابلوں کی دنیا میں یہی مقابلہ سب سے زیادہ مقبول ہے، مقابلوں میں چوں کہ معیاری کلام پیش کرنے کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے، اس لیے پہلی خاتون قوال شکیلہ بانو بھوپالی نے بہت جلد مقابلوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی، ان کے بعد آنے والی خواتین میں شکیلہ بانو پونوی، کامنی دیوی، رضیہ بانو اور رشیدہ خاتون نے مردوں سے خوب ڈٹ کر مقابلے کیے اور کافی شہرت و مقبولیت پائی۔
آج قوالی کے عوامی مقابلوں میں خاتون فنکاروں کی شرکت ایک جزوِ لازم بن گئی ہے، جس کے باعث سیکڑواں خواتین قوالی کے میدان میں آگئی ہیں لیکن شکیلہ بانو بھوپالی کے سوا ان میں کسی کی عمرِ مقبولیت طویل نہ رہی اور ان میں کوئی ایک خاتون بھی تادم تحریر ایسی نہ ابھر سکی جو مقابوں کے غیر سنجیدہ اسٹیج سے ہٹ کر کسی سنجیدہ محفل میں اپنے تنہا پروگرام پر زندہ رہ سکے، اس کا پہلا سبب یہ ہے کہ یہ خواتین اپنے ذاتی شوق اور تجسس کے بجائے قوال حضرات کی ترغیب پر چند غزلیں، نظمیں اور چند گنے چنے اشعار رٹ کر میدان میں آ جاتی ہیں پھر نامور قوال اپنی برتری جتانے کے لیے ان نو آموز ان میں خواتین کو آلۂ کار بنا کر اپنے غیر معیاری مذاق کا مظاہرہ کرنے کی راہ نکال لیتے ہیں جس سے عوام کے کم ذوق طبقے میں ان حضرات کی مقبولیت برقرار رہتی ہے، ادھر اپنے نئے پن کی وجہ سے یہ خواتین بھی سال دو سال تو چل جاتی ہیں لیکن اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کی کمی اور گھٹیا انتخاب کلام کے باعث دیر پا مقبولیت سے محروم رہ جاتی ہیں، دوسری مجبوری یہ کہ جن خواتین کے ساتھ قوال حضرات مقابلے لینے بند کر دیتے ہیں، اس طرح یہ ابھرتی ہوئی خواتین گوشۂ گمنامی میں رہ جاتی ہیں، اگر یہ خواتین شکیلہ بانو کی طرح تنہا پروگرام دے کر کامیابی حاصل کرنے کی صلاحیت پیدا کر لیں تو گمنامی ان کی پر چھائیں کو بھی نہ چھو پائے، اس مقصد کے حصول کے لیے خواتین کو اردو مطالعہ با ذوق ماحول، ادبی مشاغل، معیاری کلام، ادا آموزی و موسیقی کی مشق اور خود اعتمادی سے صف آرا ہونا ہوگا، ورنہ وہ ہمیشہ قوال حضرات کے رحم و کرم پر رہیں گی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.