قوالی میں ترانہ کے بول
دلچسپ معلومات
کتاب ’’قوالی امیر خسرو سے شکیلا بانو تک‘‘ سے ماخوذ۔
امیر خسروؔ کی قوالی میں ترانہ کے بول شامل ہیں، آپ نے قوالی میں سب سے پہلے جو قول پیش کیا وہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا حسب ذیل قول بتایا جاتا ہے۔
’’من كنت مولىٰ فعلی مولاه‘‘
ترجمہ : میں جس کا مولیٰ ہوں علی بھی اس کے مولیٰ ہیں۔
یہ قول حضرت علی مرتضیٰ کی فضیلت کے لیے سب سے اہم قرار دیا جاتا ہے، اس نثری قول میں چوں کہ موسیقی کے اوزان پورے نہیں ہوتے، اس لیے امیر خسروؔ نے ترانہ کے بولوں کی آمیزش کی جو حسبِ ذیل ہے۔
در دل، در دل، وردانی
در توم، تانانانا، تانا نا نارے
تانانا، تانانانارے، تانانانارے
در توم، تانانانانا، تانانانارے
یلالی یلالی یلا اللہ من كنت مولا
ترانہ کے بول بے معنیٰ ہوتے ہیں اور میرا خیال ہے کہ اس سے نغمہ کے دوران ذہن کو فکری تسلسل سے وقفہ ملتا ہے، فکری تسلسل سے مراد نغمہ کے دوران ذہن الفاظ کے معنیٰ و مطلب میں الجھا رہتا ہے لیکن جب ترانہ کے بول آتے ہیں تو ان کی بے معنیٰ حیثیت ذہنی عمل کو ہلکا کر دیتی ہے جیسے ہم کسی گیت کی محض دھن گنگناتے ہیں تو بڑی آسانی محسوس کرتے ہیں مگر جب اس کے ساتھ بول بھی ادا کرنے لگتے ہیں تو کسی قدر بار محسوس ہوتا ہے، لہٰذا قوالی میں ترانہ کے بول سامع کے قلب و ذہن کو لحمہ بھر کے لیے مضامین سے منقطع کر دیتے ہیں، اس انقطاع کے ساتھ ہی سامع کا نفس جاگ پڑتا ہے اور موسیقی کا لطف لینے لگتا ہے، اہلِ سماع سماع کے دوران نفس کی بیداری کو حرام قرار دیتے ہیں، اگر قوالی میں ترانہ بے معنی بول فکر کو چھوٹ اور نفس کو راحت دیتے ہیں تو یہ قوالی اور سماع کے درمیان ایک بہت بڑا بنیادی فرق پیدا کر دیتے ہیں، غالباً قوالی میں یہ فرق خسروؔ نے غیر مسلم شرکائے محفل کی دلچسپی کی غرض سے رکھا ہوگا، چوں کہ خسروؔ جیسا ماہر موسیقار تمام حاضرین کے لطف کا لحاظ نہ رکھے ایسا ممکن ہی نہیں، آوز ان کی تکمیل کے لیے وہ چاہتے تو اقوال ہی کے بعض الفاظ کی تکرار کر سکتے تھے مگر ایسا نہیں کیا سماع میں ترانہ کے بول نہیں تھے قوالی میں ہیں، ایسے اختلافات گنوانے سے ہمارا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ قوالی ایک فن ہے جو سماع سے مختلف ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.