ذکر خیر حضرت شاہ نظیر حسن ابوالعلائی داناپوری
زندگی کے گوشۂ حیات میں کچھ شخصیات اپنے لحاظ سے نمایاں ہوتی ہیں لیکن ان میں کچھ ایسی بھی ہستیاں ہیںکہ جو دوسروں کی خوشی اور خوبی میں خوش رہتی ہیں مگر طریقت میں مریدکی معراج تب ہوتی ہے جب پیر مغاں کی تعلیم باطنی مرید کے لئے باعث افتخار اور قابل مقام ہو،انہیں کامل شخصیات میں حضرت مولانا سیدشاہ نظیر حسن ابوالعلائی داناپوری نوراللہ مرقدہ ایک نمایاں اور کامیاب شخص بن کر طالبوں کے لئے اپنے پیرا ن سلسلہ کی تعلیم کو روشن کیا جن کی شخصیت میں بیک وقت صالح جوان،تلمیذ رشید،عالم باعمل،کامل مریداور صوفیٔ باصفا کی جھلک ملتی ہے اور اپنے خاندان میں ہر اعتبار سے خاندان کی عزت اور روشن خیال تھے جنہوں نے عاشق،معشوق کا سلسلہ قائم کر کے آنے والی نسلوں کو اس کی ہدایت دے دی بقول حمدؔکاکوی کہ
انہیں کے دست مبارک پہ ہے مجھے بیعت
مرید ان کا ہوں میں اور وہ ہیں میری مراد
اور دوسری جگہ اس کے منفی اثرات کو دیکھتے ہوئے اِس خیال کو بھی ظاہر کردیا کہ
میری باتوں کو نہ مانوگے تو شکوا کیا ہے
اپنا نقصان کروگے میرا بگڑتا کیا ہے
حضرت نظیر حسن داناپوری کا خاندان صوبۂ بہار کے محلہ کاشی تکیہ میں مہمان نواز،صاحب عزت اور زمیندارانہ خاندان تھا جن کا پدری نسب نامہ یوں ملتا ہے ، نظیر حسن بن غوث علی بن میر امداد علی بن میر غلام مخدوم علی بن میر نجف علی بن میر ولی اللہ سہروردی بہاری قدس اللہ اسرارہم،بارہویں صدی ہجری کے وسط میں داناپور ہجرت کرنے والے اہم خاندان میں سے اک خاندان سید غوث علی صاحب کا کہ جن کی شادی حضرت شاہ تراب الحق موڑوی ثم داناپوری( متوفیٰ1254ھ )کی دختر بی بی کلثوم صاحبہ سے ہوئی جن سے دوصاحبزادہ سید نظیر حسن اور سیدعمردراز آفتاب و مہتاب ہوئے ،سید عمردراز یہ کم سِن ہی سے دانشمند تھے بزرگوں کے سفینے کی نقل اور اس کی نشر میں ہمہ وقت مصروف رہتے مگر شعبان المعظم 1288ھ کو یہ اللہ کو پیارے ہوئے، حضرت سیدشاہ محمد اکبرابوالعلائی داناپوری نے آپ کو’’ بردارم لخت جگرم ‘‘سے مخاطب فرمایا ہے واضح ہوکہ غوث علی صاحب کی پہلی شادی بہار شریف میں ہوکر ایک لڑکی بی بی وجیہن متولد ہوئی حکیم حمید الدین بہار شریف سے منسوب ہوکر صاحب اولاد ہوئیں۔
پیشہ سے یہ خاندان زمیندارانہ تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ عزت اور منصب کے لحاظ سے نمایاں تھا اس کا طریقتانہ رشتہ ابتدا میںسہروردی تھا بعد کو پورا خاندان ابوالعلائی رنگ سے معمور ہوا بہار شریف کے محلہ کاشی تکیہ اور موڑہ تالاب کے قریب ہونے کے باعث غوث علی کا دوسرا رشتہ خانقاہ ِ موڑہ تالاب کے حضرت شاہ تراب الحق جن کی ضیاء باریوںکی کِرنیں داناپور میں پھوٹ رہیں تھی اور صاحبزادی بی بی کلثوم سے قرار پایا رشتہ ٔ ازدواج سے منسلک ہونے کے چند لمحہ بعد ہی آپ داناپور کو آبسے رفتہ رفتہ قلبی میلان بڑھتا گیا اور دل سے دل ملتا گیااور دیکھتے ہی دیکھتے 1278ھ کو نظیر حسن داناپوری کی پیدائش اپنے نانیہال محلہ شاہ ٹولی میں ہوئی جس پر آپ کے خال اقدس حضرت مخدوم سید شاہ محمد سجاد داناپوری متوفیٰ1298ھ نے آپ کا نام نظیر حسن رکھا کہ وہ نظیر جس کا کوئی نظیر نہیں ،ابتدائی تعلیم خاندان کے بزرگوں سے حاصل کی اور تعلیم ظاہری و باطنی اپنے حقیقی خال اقدس حضرت مخدوم سجاد سے مکمل کی جلد ہی درسی کتابوں پر مہارت حاصل کرکے فقہ و اصول فقہ کے ساتھ ادب کے لئے مشہور ہوئے والدہ محترمہ کی نگرانی اور حُسن اخلاق سے ماہر فن و یگانۂ عصر ہوئے بقول صاحب نذرِ محبوب ’’برادموصوف فقیر مؤلف کے حقیقی پھوپھی زاد بھائی عالم علوم معقول و منقول ہیں‘‘زندگی کے ابتدائی دور ہی سے اخلاق کے وسیع اور تربیت کے ماہر ہوئے اور بڑا ہو چھوٹا سب کی تعظیم شریعت کے عین مطابق کیا کرتے ،مزاج میں نرمی،گفتار میں شیریں اوراخلاق میں جامع تھے علم اور عمل کے لحاظ سے بلندی کے جس قدر اعلیٰ مقام پہ تھے اتنے ہی خاکسار،انکساراور تواضع سے بھر پور تھے یقین جانئے ہر اعبتار سے صحیح عاشق کی پہچان تھے،انسان کی قدر و منزلت اس کے علم سے نہیں بلکہ ہر دور میں عمل سے ہوتی آئی ہے خاندانی جائداد کی پرواہ کئے بغیر طریقانہ ماحول اور علم و عمل کے سمندر کواسلام کی حقانیت اور اصلاح کے لئے وقف کیا ،کم سِن ہی میں حضرت مخدوم شاہ سجاد داناپوری کے دست حق پرست پر سلسلہ ٔ ابوالعلائیہ میں شرف بیعت حاصل کیا بقول صاحب نذرِ محبوب
’’بہت ہی کم عمری میں حضرت والد ماج (حضرت سجاد داناپوری)قدس سرہ سے شرف بیعت حاصل کیا اور تازمانہ وصال برابر مشرف حضور ہیں حضر ت والد ماجد (مخدوم سجاد)قدس سرہ کو برادر موصوف کے ساتھ تاحال وہی شیفتگی کی حالت تھی زاداللہ محبتہ و عشقہ ‘‘ (ص37)
اور بقول صاحب تذکرۃ الکرام
’’مولوی شاہ نظیر حسن صاحب داناپوری کہ آپ کے بھانجے اور مرید تھے‘‘ (ص712)
خاندان کے معاصر بزرگوں میں عالی مرتبت تھے مشہور صوفی بزرگ حضرت سیدشاہ محمد اکبرابوالعلائی داناپوری (متوفیٰ1327ھ )نے ’’برادربجان برابر قوت بازو فقیر اکبر،سعید زمن سیدشاہ نظیر حسن ابوالعلائی سلمہ اللہ تعالیٰ‘‘جیسے محبت بھرے اسماو القاب سے یاد فرمایاکرتے اور آپ کے چھوٹے بھائی ’’برادرم لخت جگرم سید شاہ عمردراز‘‘(تاریخ رحلت: 11شعبان1288ھ)،حضرت نظیر حسن داناپوری اپنے پیر حضرت مخدوم شاہ سجاد کے ہر اعتبار سے عاشق تھے،سفید لباس اور شانہ پرپیرومرشدمخدوم شاہ سجادکا عطا کردہ سیاہ پٹکہ ہمیشہ رکھتے، زندگی کے ہر لمحات میں اپنی آنکھوں کے سامنے سے اوجھل نہ ہونے دیا،سفر ہو یا حضر اکثر آپکے ہمراہ ہوتے،قلم کی سیاہی آپ کے حقیقی عشق و محبت کی داستان رقم کرنے سے قاصر ہے کیونکہ ازحد محبت تحریر میں نہیں آسکتی لیکن حضرت شاہ محمد ادریس چشتی ابوالعلائی متوفیٰ1354ھ (مرید و خلیفہ حضرت مخدوم شاہ سجاد) کی کتاب مجموعات گنج عرفان کی تحریر سے اس بات کا ندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں ماموں بھانجہ میں عشق کی کیسی کیفیت تھی وہو ہذا
’’اور ہمارے پیرومرشد کے بھانجہ حقیقی جناب مولوی سیدشاہ محمد نظیر حسن ابوالعلائی صاحب عرفانہ اور آپ نے ہی ماموں صاحب سے انہیں بیعت حاصل ہے اور مولوی صاحب موصوف اپنے ماموں صاحب کی صحبت میں تاوفات رہے اور بہت کچھ فیض آپکو اپنے ماموں صاحب سے حاصل ہے اوردونوں ماموں بھانجہ میں عاشق معشوق کی حالت تھی از حد محبت دونوں میں تھی جو تحریر نہیں کرسکتے ہیں اور مولوی صاحب بڑے خدمت گزار تھے جو چاہئے تھا وہ بجالاتے اور مولوی صاحب بھی نہایت عالی جات و صاحب اخلاق و درد مندہر کسی کے ساتھ و غربا پرور کم سخن اور بڑے عابد و متقی و پرہیزگار ہیں وخندہ صورت ہیں اوصاف ان کے ہم بیان نہیں کرسکتے ہیں ،خداوندحقیقی انہیں حیات درازی عطافرمائے کیونکہ ایسے لوگوں کے دیدار ہونے سے ایمان انسان کا تازہ ہوجایا کرتا ہے ،اللہ ان کے بال بچوں کو عمردراز عطا فرمائے‘‘ (ص160)
پیرومرشد کے رحلت کے بعد جب دل بالکل مایوس ہواتو دل کو بہلانے کی خاطر مدرسہ’’نعمانیہ حنفیہ‘‘کی بنیاداپنے ہی گھر پر رکھی اور مولاناسلطان احمد کابلی(قندھار،افغانستان)وغیرہ کے ہمراہ تفسیر و حدیث وغیرہ کا درس دینا شروع کیا۔
بقول صاحب بردران شغال کہ
’’جناب نظیر حسن صاحب کا مشہور ومعروف مدرسہ نعمانیہ حنفیہ موجود تھا جس میں صرف صوبۂ بہار ہی نہیں بلکہ اور دوسرے صوبہ کے طلباء علم دین حاصل کررہے تھے اور فارغ التحصیل ہوکر جاتے تھے اور اس زمانے کی جلیل القدر ہستی یعنی مولوی سلطان احمد صاحب قندھاری بھی درس دیا کرتے تھے بعد ازاں شاہ نظیر حسن کے بڑے صاحبزادے جناب مولوی سید واعظ الدین صاحب جیسے جید عالم نے درس و تدریس کا کام سنبھالا‘‘ (ص16)
جس کے باعث صوبۂ بہار کے اکثر طلبایہاں سے علم کی خیرات حاصل کرتے گئے ان طلبا میں آکے نواسہ مولانا سیدشاہ ظفر سجاد ابوالعلائی (سجادہ نشین:خانقاہِ سجادیہ ابوالعلائیہ،داناپور)،مولاناسیدشاہ محمد اسماعیل ابوالعلائی روحؔ کاکوی،سید مسعود حسن منظرؔ اقبال کاکوی،سید ابراہیم کیفیؔکاکوی ، سید شاہ عین الساجدین ،منشی منیف نعمانی ابوالعلائی(خادم :خانقاہ چشتیہ ،بشن پور)اور مفتی عبدالحافظ(نائب قاضی شریعت:ادارہ شرعیہ)وغیرہ مشہور ہوئے لیکن یہ مدرسہ زیادہ دنوں تک لوگوں کی رہبری نہ کرسکا اور چند سالوں میں معدوم ہوگیا لیکن شعر و شاعری کے چمن میں آپ کے ہاتھوں سے ایسی ایسی صنف نازک نعت پاک منظر عام پہ آئی جس کے سننے اور پڑھنے سے ایمان کا تازہ ہونا اور حضور کے عشق میں عاشق کہلانا صحیح مانوں میں وہ آپ کی شخصیت پر اُترتی ہے منفرد لب و لہجے کے شاعر تھے جب بھی کہا حضور کی شان میں کہا شاعری میں تلمیذحضرت شاہ اکبر داناپوری سے تھا آپ کی لکھی ہوئی نعتیں آج بھی خانقاہِ سجادیہ، داناپور کی محافل میں اپنے انداز قدیمانہ میں پڑھاجاتا ہے جس کی انفرادی حیثیت ہوتی ہے ،نمونۂ کلام ملاحظہ فرمائیے اور نظیرؔ حسن داناپوری کو دادسخن دیجیے
سمجھ میں جب نہ نعت پاک ختم الانبیاء آئے
تو پھر کیوں کر کسی کی عقل میں حمد خدا آئے
نبی ہو کے اگلوں میں خلیل باصفا آئے
مسلمانو مبارک ہو تم میں محبوب خدا آئے
جہاں میں لوگ سب بھولے پڑے تھے اپنے خالق کو
لگے پھر یادکرنے جب محمد مصطفیٰ آئے
ہر اک سو کفر کی ظلمت تھی اور تاریک تھی دنیا
منور ہوگیا سارا جہاں جب مصطفیٰ آئے
نظیرؔ اسکو یقیں کر جب ملائک اسمیں حیراں ہیں
سمجھ میں نعت پتلۂ خاکی کہ کیا آئے
نظیرؔ داناپوری کی اس سادگی اور صفائی کا اندازہ اس پاکیزہ غزل سے لگایئے
عنایت مجھ پہ درپردہ ستم ایجاد کرتے ہیں
جفا اوروں پہ کرتے ہیں ہمیں تو شاد کرتے ہیں
پیام آیا اسیروں کا چمن سے ہم صفیروں
ذرا صورت دکھاجاؤ تمہیں ہم یاد کرتے ہیں
نظیرؔ اللہ کو کیا منہ دیکھائیں گے قیامت میں
برہمن اسکو بھولے ہیں بتوں کو یاد کرتے ہیں
نظیرؔ حسن کے چند مقطع کے شعر اختصار کے ساتھ ملاحظہ کیجیے۔
دونوں جہاں کے غم سے چھٹنا چاہتا ہے گر نظیرؔ
دامنِ پاک حبیب خالق اکبر نہ چھوڑ
اس رشک کے آفتاب کے شانو تلک نظیرؔ
زلف سیاہ آئی ہے کس پیچ و تاب سے
جو نکلا زلف شبگوں سے نظیرؔا س کا رخ روشن
اڑا بن بن کے جگنوں نور روئے ماہ کامل سے
اخوت کی نظیرؔایسی کہاں جو تم نے قائم کی
مسیحی کے عقیدے میں تو خیرالاصفیاء آئے
سن لیجئے آپ کچھ حقیقت نماز کی
ہے ہدیہ نظیرؔ وصیت نماز کی
باضابطہ آپ کی کوئی تصنیف یامجموعہ کلام محفوظ نہیں چند کلام خانقاہِ سجادیہ کے کتب خانہ میں موجود ہے لیکن جو ہے وہ آپ کی علمی استعداد پر غماز ہے ،سلسلہ کے مرید ہونے کے بعد حضرت سیدشاہ عطاء حسین فانیؔ داناپوری ثم گیاوی( متوفیٰ1311ھ ) اور حضرت حکیم سیدشاہ کاظم حسین داناپوری (متوفیٰ 1299ھ)سے مجاز مطلق ہوئے اور اپنے نانیہال ہی میں شروع سے آخر تک زندگی گزاری ،آپ نے جن حضرات مقدس کو اجازت و خلافت سے نوازہ ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں
حضرت مولانا سیدشاہ محمد محسن ابوالعلائی اکبری داناپوری
حضرت مولانا سیدشاہ واعظ الدین حسین ابوالعلائی اکبری داناپوری (صاحبزادہ و جانشین )
حضرت مولانا سیدشاہ حسین الدین احمد منعمی گیاوی
حضرت مولانا سیدشاہ ظفر سجاد ابوالعلائی داناپوری
حضرت مولانا سیدشاہ محمد اسمعیٰل ابوالعلائی کاکوی
حضرت مولانا سیدشاہ محمد الیاس ابوالعلائی داناپوری وغیرہ
صاحب کنزالانساب ’’ثمرہ ششم ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں جسکو بجنسہ یہاں رقم کیا جاتا ہے۔
’’در ذکر دختر ثانی عمہ ایں فقیر مسماۃ بی بی کلثوم کہ از میر غوث علی شدند کہ خدا بیعت دارند از خال الاعظم خود خواہر عزیزہ صاحب عفت و عصمت از بطن ایں بی بی دو پسر شدند یکی عمر دراز کد خدا شد عمردراز نماند ثانی پسر مرید پسر شاہ نظیر حسن سلمہ موجود است بپایہ ثبات و تعلیم و ذی شعور در علم عربیت بے نظیر عبارت فارسی نیز تحصیل کثیر بسیار در طبیعت دارد صلاحیت بیعت و تربیت ایشاں از خال خود یعنی از حیات اخی سیدشاہ محمد سجاد مسند نشیں ارشاد کد خدائی شداز دختر سید ابوالبرکات ذی الولاد است ‘‘ (ص)
پہلا نکاح بی بی نبی النساء عرف نبن چھپرا سے ہوا جن سے بی بی حمیدہ خاتون (منسوب ڈاکٹرسید وجاہت التوحیدبلخی) اور بی بی خدیجہ خاتون ہوئیں لیکن یہ زوجہ جلد ہی اللہ کو پیاری ہوگئیں اس لئے دوسرا نکاح حضرت سیدشاہ ابوالبرکات ابوالعلائی عرف برکت مدن پوری ثم داناپوری (متوفیٰ1326ھ) کی صاحبزادی بی بی تمیز النساء صاحبہ سے ہو جن سے بی بی حفیظ النساء (منسوب مولانا سیدشاہ محسن ابوالعلائی سجادہ نشین:خانقاہِ سجادیہ ابوالعلائیہ،داناپور)،سیدہ رابعہ (حکیم سید سعید احمد کاکوی)،مولانا سیدشاہ واعظ الدین حسین ابوالعلائی داناپوری (متوفیٰ1359ھ)، حافظ سیدشاہ ریاض الدین حسین ابوالعلائی ہوئے ،اس شادی کے موقع پر حضرت شاہ یحییٰؔ عظیم آبادی قطعہ تاریخ لکھتے ہیں
’’قطعۂ تاریخ زواج نظیر حسن عرف دمڑی میاں ابن الاخت جناب حاجی سید محمد سجاد صاحب
نظیر حسن نوجوان کد خدائی شد
بودخانہ اش ای خدا دائم آباد
چوں گر یست نوشاہ آں ہمہ لقا را
زبس شاد شد خاطر شاہ سجاد
چہ سجاد کو را عنایت نمود ست
خدائے جہاں منصب پاک او ارشاد
چہ سجاد کز نسبت ابوالعلاہست
کرامت چو ابدال قوت چو اوتاد
ہمیں سال ثروج برجستہ فرمود
زواج نظیر حسن بادل شاد
۱۲۹۶ھ
(کنزالتواریخ، ص ۲۲۴)
سید واعظ الدین حسین جو اپنے والد کے تعلیم یافتہ اور عیدگاہ و مسجد کے امام و خطیب اور مرید و مجاز و تلمیذ شاعری حضرت شاہ اکبر ابوالعلائی داناپوری سے تھی زندگی کے آخری عمر تک اپنے پیر اور سلسلہ کی نشرواشاعت میں پیش پیش رہے آپ کی چار شادیاں یکے بعد دیگرے ہوئیں زوجہ اولیٰ امینہ خاتون بنت قاضی شیخ عبدالکریم شیر گھاٹی(فرزندسید الیاس ابوالعلائی قیصرؔ داناپوری)،زوجہ دوم عصمت النساء بنت شاہ کفایت گوری گھاٹ(لاولد)،زوجہ سوم بی بی محفوظ بنت خواجہ عبدالرحمن شیر گھاٹی (فرزند بی بی کلثوم )، زوجہ چہارم آمنہ خاتون بنت الطاف حسین بیوڑی (فرزند سید فیضان احمد ،سید رضوان احمد،بی بی حبیبہ خاتون) جو آج بھی شاہ ٹولی میں آباد ہیںاور حافظ سیدشاہ ریاض الدین زوجہ سعیدہ خاتون بنت ڈاکٹر عظیم الدین بھدول جن کی ایک لڑکی میمونہ خاتون (منسوب سید ابوسعید کراچی خلف نسیم ہلسوی)جن کی اولادوں میں سید اختر عالم (زوجہ شمس النہار بنت شاہ محسن داناپوری)،معینہ خاتون (منسوب ضیاء الحق خلف سید الیاس ابوالعلائی) وغیرہ ہوئے جن کی اولادیں محلہ شاہ ٹولی، داناپور اور کراچی میں آباد و شاد ہیں۔
المختصر خاندان کے افراد آپ کو ڈمڑ داد اور مولوی صاحب کے نام سے یاد کرتے تھے ، ایک واقعہ حافظ محمد یعقوب صاحب جو شہر دربھنگہ کے باشندہ تھے، تراویح کی نماز محلہ شاہ ٹولی کی مسجد میں 15 روزہ ہواکرتی تھی اس زمانہ میںآپ ہی پڑھایا کرتے تھے ،بڑے بے نفس متقی و پرہیزگار تھے، آپ سے نہایت درجہ مؤدت رکھتے تھے ،آخری وقت میں حافظ صاحب روانگی کی اجازت طلب کرنے جب حجرہ میں گئے اور فرمایا کہ حضور ان شااللہ پھر آئندہ سال ملاقات ہوگی تو آپ نے فرمایاکہ ہم آپ کو اب نہیں بلائیں گے یہ جملہ حافظ صاحب نے مذاق میں لے لیا اور بخوشی عازم دربھنگہ ہوئے لہٰذا اسی سال کچھ ماہ گزرے تھے کہ آپ کا انتقال ہوگیا ،حافظ صاحب جب اس واقعہ جانکاہ سے آگاہ ہوئے تو عین اسی حالت میں آپ کی طرف بڑھے لوگوں سے فرمایا کہ حضور بالکل درست کہتے تھے کہ ہم تم کو نہیں بلائیں گے، وصال آپ کا 65برس کی عمر میں 15ذی الحجہ 1343ھ دوشنبہ دو بجے دن کو ہوا آخری آرام گاہ اپنے مکان کے افتادہ حصہ میں ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.