Font by Mehr Nastaliq Web

ذکر خیر حضرت سیدنا امیر ابوالعلا

ریان ابوالعلائی

ذکر خیر حضرت سیدنا امیر ابوالعلا

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت میں صوفیائے کرام کا کردار فراموش نہیں کیا جا سکتا، انہوں نے مخلوقِ خدا کے سامنے اپنے قول کی بجائے اپنی شخصیت اور کردار کو پیش کیا، انہوں نے انسانوں کی نسل، طبقاتی اور مذہبی تفریق کو دیکھے بغیر ان سے شفقت و محبت کا معاملہ رکھا، جماعتِ صوفیا کے مقتدر مشائخ میں ایسی بھی ہستیاں ہوئیں جو اپنے لافانی کارناموں کی وجہ سے ممتاز و عدیل ہوئیں، جیسے گیارہویں صدی ہجری کے مقبول زمانہ بزرگ، حضرت محبوب جل و علا، سیدنا امیر ابوالعلا قدس اللہ تعالیٰ سرہ العزیز، جن کی ولایت و کرامات اور خوارق و عادات سے زمانہ روشن ہے۔

    حضرت سیدنا امیر ابوالعلا کی ولادت با سعادت 990ھ، مطابق 1592ء میں قصبہ نریلہ (دہلی) میں ہوئی، اسمِ گرامی امیر ابوالعلا، امیر آپ کا موروثی لقب ہے، اور تخلص انسانؔ ہے، آپ میر صاحب، سیّدنا سرکار، محبوب جل وعَلا اور سرتاجِ آگرہ وغیرہ کے خطاب سے مشہور ہوئے، آپ کے والد کا نام امیر ابوالوفا اور والدہ بیگم بی بی عارفہ تھیں، ان کے علاوہ آپ کی ایک ہمشیرہ بھی تھیں، والد کی طرف سے آپ حضرت سید عبداللہ باہر خلف امام زین العابدین کی اولاد سے ہیں اور والدہ کی جانب سے حضرت ابوبکر صدیق کی اولاد میں سے ہیں۔ (نجات قاسم، ص8)

    امیر ابوالعلا ابن امیر ابوالوفا ابن امیر عبد السلام ابن امیر عبد الملک ابن امیر عبد الباسط ابن امیر تقی الدین کرمانی ابن امیر شہاب الدین محمودا بن امیر عماد الدین اَمر جاج ابن امیر علی ابن امیر نظام الدین ابن امیر اشرف ابن امیر عزالدین ابن امیر شرف الدین ابن امیر مجتبیٰ ابن امیر گیلانی ابن امیر بادشاہ ابن امیر حسن ابن امیر حسین ابن امیر محمد ابن امیر عبداللہ ابن امیر محمد ابن امیر علی ابن امیر عبداللہ ابن امیر حسین ابن امیر اسماعیل ابن امیر محمد ابن امیر عبداللہ باہر ابن امام زین العابدین ابن امام حسین ابن امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب۔ (حجۃ العارفین، ص57)

    امیر ابوالعلا ابن بی بی عارفہ بنت خواجہ محمد فیض ابن خواجہ ابوالفیض ابن خواجہ عبد اللہ خواجکا ابن خواجہ عبید اللہ احرار ابن خواجہ محمود ابن خواجہ شہاب الدین شاشی (چار پشت بعد) خواجہ محمد النامی بغدادی سے ہوتے ہوئے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے۔ (سلسلۃ العارفین وتذکرۃ الصدیقین)

    حضرت سیدنا امیر ابوالعلا کے آبا و اجداد کسی زمانے میں کرمان (ایران) میں سکونت پذیر تھے، حضرت شاہ محمد قاسم ابوالعلائی داناپوری (متوفیٰ 1281ھ) لکھتے ہیں کہ

    ’’حضرت سیدنا امیر عماد الدین اَمر جاج قدس اللہ سرہ کہ مزار شریف اُن کا بیچ قریہ بسم مُضافات دارالامان کرمان (ایران) کے ہے، تمام عالم میں روشن تھے‘‘۔ (نجات قاسم، ص8)

    حضرت امیر عماد الدین اَمر جاج کے نبیرہ، حضرت امیر تقی الدین کرمانی، جو مرزا شاہرُخ (بادشاہ) کے عہد میں کرمان (ایران) سے ہجرت کرکے سمر قند (ازبکستان) تشریف لائے، لکھتے ہیں کہ

    ’’سولہ برس کی عمر میں آپ (امیر تقی الدین) اپنے وطنِ مالوف کرمان (ایران) سے ہجرت کرکے ولایت و ماورالنہر کو تشریف لے گئے اور مولانا قطب الدین رازی سے تحصیلِ علوم ظاہری کی، اور تھوڑے دنوں میں عالم الدّہر اور فاضل العصر ہوگئے، چنانچہ سلسلۂ ارادت آپ کا بہ چند واسطہ شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردی قدس سرہ سے ملتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اصرار سے مرزا شاہرُخ بادشاہ کے شہر سمر قند میں آپ نے توطُن اختیار کیا، وہیں انتقال فرمایا‘‘۔ (نجات قاسم، ص11)

    واضح ہو کہ خواجہ عبید اللہ احرار اور امیر تقی الدین کرمانی دونوں ہم عصر اور دوست ہیں، دونوں بزرگ کا مزار بھی ایک ہی جگہ پر، سمر قند میں واقع ہے، روایت ہے کہ امیر تقی الدین کرمانی کے جنازہ کو خواجہ عبید اللہ احرار اپنے دوش پر مزار تک لے گئے ہیں، اس وقت دونوں خاندان میں بڑی قربت ہو چکی تھی۔ (ایضا)

    مؤلف نجات قاسم لکھتے ہیں کہ

    ’’کئی پشتوں سے برابر بزرگوار حضرت محبوب جل وعَلا کے نواسے خواجگان احراری کے تھے‘‘۔ (نجات قاسم، ص13)

    یعنی حضرت سیدنا ابوالعلا، خواجہ محمد فیض المعروف فیضی ابن خواجہ ابوالفیض کے نواسہ ہوئے، آپ کے والد امیر ابوالوفا، خواجہ ابوالفیض ابن خواجہ عبداللہ عرف خواجکا (متوفیٰ 908ھ) کے نواسہ ہوئے، اور ہمارے حضرت کے جد امیر عبدالسلام، خواجہ عبداللہ عرف خواجکا ابن خواجہ عبید اللہ احرار (متوفیٰ 895ھ) کے نواسہ ہوئے، اور اس طرح امیر عبدالسلام کے والد ماجد حضرت امیر عبدالملک، خواجہ عبداللہ عرف خواجکا کے خویش عزیز ہوئے۔ (انفاس العارفین، ص21)

    ہمارے حضرت کا کئی پشتوں سے نانیہالی خاندان، شاہ بیگ خان کے قبضے کے بعد مشکلات کا شکار ہوتا چلا گیا، ماہِ محرم 906ھ، موافق ماہِ اگست 1500ء میں خواجہ عبیداللہ احرار کے صاحبزادے، خواجہ محمد یحییٰ احراری (متوفیٰ 906ھ) اور اُن کے دو بیٹے (محمد زکریا احراری اور عبدالباقی احراری) اپنے والد محترم کے ہمراہ شہید ہوئے۔ (سلسلۃ العارفین وتذکرۃ الصدیقین)

    خواجہ محمد ہاشم کشمی (متوفیٰ 1054ھ) رقمطراز ہیں کہ

    ’’اب اُن کا مولد و مسکن سمر قند کوئی پُر امن جگہ نہ رہا تھا، مجبوراً خواجہ احرار کے پس ماندگان کو کاشغر (ایران) اور ہندوستان کا رخ کرنا پڑا۔‘‘ (نِسمات القدس من حدائق الانس، مقصد دوم)

    حضرت امیر تقی الدین کرمانی کے صاحبزادے، امیر عبدالباسط، سمرقند (ازبُکستان) کے رہنے والے تھے۔ سمرقند میں آپ کے خاندان کے افراد دولت و ثروت اور جاہ و منصب کے علاوہ شجاعت و بہادری اور زہد و تقویٰ کے لیے مشہور تھے۔ ان کے دو فرزند تھے: امیر عبدالملک اور امیر زین العابدین۔ امیر عبدالملک کے صاحبزادے، یعنی ہمارے حضرت سیّدنا ابوالعُلا کے جد، امیر عبدالسلام، سمرقند سے سکونت ترک کرکے جلال الدین محمد اکبر (متوفیٰ 1014ھ / 1605ء) کے عہدِ حکومت (963ھ / 1555ء تا 1014ھ / 1605ء) میں ہندوستان اپنے اہل و عیال کے ساتھ تشریف لائے، لاہور ہوتے ہوئے قصبہ نریلہ جو دہلی میں واقع ہے، پہنچ کر وہاں قیام فرمایا۔ (اُسی اثنا میں حضرت ابوالعُلا کی پیدائش ہوئی) کچھ عرصہ وہاں قیام کرکے مع اہل و عیال فتح پور سیکری پہنچے، وہاں شہنشاہ اکبر سے ملاقات ہوئی، اکبر کی درخواست پر آپ نے یہاں قیام کرنا منظور کیا۔ (نجات قاسم، ص14)

    ابھی آپ کم سن ہی تھے کہ والد ماجد کو دردِ قولنج کی شکایت ہوئی، اور اُسی مرض میں انہوں نے فتح پور سیکری میں وفات پائی۔ نعش کو دہلی لے جایا گیا اور وہیں مدرسہ لعل دروازہ کے قریب سپرد خاک کیا گیا، لیکن اب کوئی واقفِ کار باقی نہ رہا کہ نشانِ مزار بتا سکے، بقول نجات قاسمؔ

    ’’چنانچہ کاتب (محمد قاسم) نے بہت تجسس کیا مگر زیارت (مزار) نصیب نہ ہوئی۔‘‘ (ص15)

    والد محترم سے محروم ہونے کے بعد آپ کے جد امیر عبدالسلام آپ کی ہر طرح سے دل جوئی کرتے اور ہر بات کا خیال رکھتے۔ آپ کے جد، حرمین شریفین زاد اللّٰہ تشریفاً و تعظیماً کی زیارت کے لیے روانہ ہوئے، تو پھر ہندستان واپس تشریف نہ لاسکے، اور وہیں انہوں نے وفات پائی، مزار جنت البقیع میں ہے۔ سفرِ حج سے قبل آپ کے دادا نے آپ کو نانا خواجہ محمد فیض المعروف بہ فیضی خلف خواجہ ابوالفیض کے سپرد فرمایاتھا۔ ابھی آپ اچھی طرح سن و شعور کو پہنچے بھی نہ تھے کہ نانا نے ایک مُہم میں جامِ شہادت نوش کیا۔ اس طریقے سے ہمارے حضرت کا خاندان بچپن میں کئی طرح کے صدمے کا شکار ہوتا چلا گیا، لیکن کہتے ہیں کہ اللہ اُنہیں مقامِ ولایت سے نوازتا ہے جنہیں صبر و تحمل کے راستے سے گزارتا ہے۔ (نجات قاسم، ص8)

    آپ کے نانا، خواجہ محمد فیض المعروف خواجہ فیضی، بردوان (بنگال) میں حاکم مان سنگھ کی طرف سے نظامت کے عہدے پر فائز تھے۔ دادا (امیر عبدالسلام) کی رحلت کے بعد خواجہ فیضی آپ کو اپنے ہمراہ بردوان لے گئے۔ آپ کی تعلیم و تربیت نانا کی نگرانی میں ہوئی۔ آپ کے نانا نہ صرف ایک مغل عہدے دار تھے بلکہ اپنے بلند مرتبہ آبا و اجداد کے علوم و فنون سے بھی آراستہ و پیراستہ تھے۔ ان کی صحبت میں حضرت سیّدنا ابوالعُلا تیزی کے ساتھ کمالِ معرفت تک پہنچے۔ (حجۃ العارفین، ص59)

    بقول نجات قاسمؔ

    ’’تھوڑے ہی دنوں میں جملہ علوم میں وحید العصر اور سب فنون میں فرید الدہر ہوگئے۔‘‘ (نجات قاسم، ص15)

    آپ اپنے نانا کے ذریعہ فنِ سپہ گری اور تیراندازی میں بے مثال ثابت ہوئے، معاملہ فہمی، راست گوئی، خوش تدبیری، استقلال، شجاعت اور جوان مردی کا بہت جلد اعلیٰ نمونہ بن گئے۔

    جب دل بالکل اللہ کی جانب متوجہ ہوا تو بردوان (بنگال) سے کہیں دور جاکر عبادت میں مشغول ہونا چاہا۔ بہ سلسلۂ ملازمت بردوان میں مقیم تھے کہ شہنشاہِ وقت محمد اکبر، ماہ اکتوبر 1014ھ / 1605ء میں کوچ کر گئے۔ نورالدین محمد جہاں گیر (متوفیٰ 1037ھ / 1627ء) تختِ شاہی پر جب رونق افروز ہوا تو عنانِ حکومت (1014ھ / 1605ء) میں لینے کے بعد ایک فرمان جاری کیا کہ ’’جملہ صوبے دار، منصب دار، ناظم اور اُمراء آگرہ شاہی دربار میں حاضر ہوں‘‘ تاکہ اُن کی ذہانت، قابلیت، وجاہت اور شخصیت کو پرکھا جائے۔

    آپ تو خود ہی ملازمت سے بےزار تھے اور اس راہ کو ترک کرکے دوسری راہ اختیار کرنا چاہتے تھے۔ جب یہ شاہی فرمان بردوان پہنچا تو اُس کو تائیدِ غیبی سمجھ کر سفر پر نکل پڑے، بردوان سے شہر عظیم آباد (پٹنہ) ہوتے ہوئے منیر شریف پہنچے۔ کسی نے یہ اطلاع دی کہ یہاں فاتحِ منیر حضرت امام محمد المشتہر بہ تاج فقیہ قدس سرہٗ کے نبیرہ اور حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری قدس سرہ، (متوفیٰ 782ھ) کے خاندان سے وابستہ حضرت ابا یزید مخدوم شاہ دولت منیری قدس سرہ (متوفیٰ 1017ھ) تشریف رکھتے ہیں۔ واضح ہو کہ خانقاہِ سجادیہ (داناپور) انہیں بزرگ کی اولاد و امجاد سے ہے۔

    مؤلف نجات قاسم لکھتے ہیں کہ

    ’’یہ ننگ خاندان، کاتب (محمد قاسم)، اس رسالہ کا بھی اولاد ناخلف سے انہیں حضرت مخدوم یحییٰ منیری قدس سرہ کے ہے۔ القصہ، حضرت محبوب جل وعلا کو یہ احوال سن کر مخدوم شاہ دولت قدس سرہ کی ملاقات کا اشتیاق ہوا۔‘‘ (ص28)

    مؤلف آثارِ منیر لکھتے ہیں کہ

    ’’آپ (مخدوم دولت منیری) کی بزرگی کا شہرہ سن کر آپ کی خدمتِ اقدس میں آئے، شرفِ ملاقات حاصل کیا اور پہلا فیض آپ ہی سے لیا، جس کے جلوے نے ابوالعلائیت کا شہرہ بلند کردیا۔‘‘ (ص35)

    جب اکبرآباد (آگرہ) پہنچے تو جہاں گیر کے دربار میں آپ کے حسن و جمال کے چرچے ہونے لگے۔ ایک روز دیوانِ خاص میں جہاں گیر نے لوگوں کی آزمائش کی خاطر نارنگی پہ نشانہ بازی رکھا۔ خیال ہوا کہ احضرت امیر ابوالعلا کو بلاؤ۔ چنانچہ حضرت کا پہلا نشانہ (نارنگی پر) خطا کر گیا، لیکن دوسرا نشانہ درست ہوا۔ آپ کی اس سبک دستی پر سب حیران تھے۔ خوشی کے مارے جہاں گیر نے ایک جام شراب آپ کو بڑھایا، لیکن آپ نے نظر بچا کر شراب کو آستین میں ڈال دیا۔ بادشاہ نے گوشۂ چشم سے دیکھ لیا اور کبیدہ ہو کر کہا کہ ’’یہ خود نمائیاں مجھ کو پسند نہیں، نشۂ شراب میں بدمست توتھا ہی‘‘۔ پھر جام دیا اور حضرت نے پھر ویسا ہی عمل کیا۔ نہایت ترش رو ہو کر کہا: ’’کیا تم غضبِ سلطانی سے نہیں ڈرتے ہو؟‘‘ بس اب محبوب جل وعلا کو جلال آگیا اور فرمایا: ’’میں غصبِ خدا و رسول سے ڈرتا ہوں، ناکہ غضبِ سلطانی سے۔‘‘ نعرہ مارا، سب کے سب کانپ اُٹھے، پھر مرضیٔ خدا دو شیر غرّاں آپ کے دونوں جانب نمودار ہوئے، خوف و بدحواس میں سارے کے سارے لوگ بھاگ کھڑے ہوئے۔ بقول نجات قاسمؔ:

    ’’یہ بیت پڑھتے آپ باہر (دربار سے) نکلے۔‘‘

    ایں ہمہ طمطراق کن فیکن

    ذرۂ نیست پیش اہلِ جنوں

    (انفاس العارفین، ص22؛ نجات قاسم، ص33)

    خواجہ بزرگ حضرت سید معین الدین حسن چشتی قدس اللہ سرہٗ (متوفیٰ 633ھ) کے حکم سے آپ اپنے عمِ معظم حضرت امیر عبداللہ نقشبندی (متوفیٰ 1033ھ) سے مرید و مجاز مطلق ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد حضرت عمِ محترم نے خلافت سے نواز کر آپ کو خاندانی (جدّی و مادری) تبرکات تفویض فرمائے۔ (انفاس العارفین، ص21)

    بقول نجات قاسمؔ

    ’’بوقتِ وفات کہ حضرت امیر (عبداللہ) نے حضرت محبوب جل و عَلا کو اپنا سجّادہ نشین کرکے بار امانت قُطبیت کا آپ کے تفویض کیا۔‘‘ (ص51)

    واضح ہو کہ آپ کو سلسلۂ چشتیہ کی خلافت حضرت خواجہ بزرگ قدس سرہٗ سے براہِ راست (فیض اویسی) تھی۔ جب کوئی سلسلۂ چشتیہ میں بیعت ہونا چاہتا تو خواجہ بزرگ کے بعد اپنا نام تحریر فرماتے۔ حضرت شاہ حیات اللہ منعمی لکھتے ہیں:

    ’’میں نے دارالخیر اجمیر میں خادموں کے پاس اگلے وقت کے شجرے سلسلۂ چشتیہ ابوالعلائیہ کے اسی ترتیب سے لکھے ہوئے دیکھے۔‘‘ (ص114)

    اسی طرح ہمارے حضرت نے طالبوں کو معرفت کا جام پلایا اور خوب پلایا، جس کی رمق آج بھی خوب سے خوب تر نظر آتی ہے۔ حضرت سیّدنا امیر ابوالعُلا شعر و شاعری کا بھی ذوق رکھتے تھے۔ سیمابؔ اکبرآبادی لکھتے ہیں کہ

    ’’آپ شاعر تھے، ایک رسالۂ مختصر جو مسائلِ ‘فنا و بقا’ پر مشتمل ہے، آپ کی تصنیف سے موجود ہے، اس کے علاوہ چند مکتوبات اور ایک مختصر سا دیوان بھی آپ کی یادگار ہے۔‘‘ (کلیم عجم، ص147)

    صاحب ’تذکرۃ الاؤلیائے ابوالعلائیہ‘ لکھتے ہیں کہ

    ’’آپ 'انسانؔ' تخلص کیا کرتے، آپ فرماتے ہیں

    سرِ رشتۂ نسب بہ علی ولی رسید

    انسانؔ تخلصم شد نامم ابوالعُلاء‘‘ (ص14)

    مؤلف حجۃ العارفین لکھتے ہیں کہ

    ’’اور جو کچھ آنحضرت کی اپنی تحریر ہیں، اس کمترین کی نگاہ سے گزرا ہے، وہ ایک بیت اور ایک مصرع ہے۔

    الٰہی شیوۂ مردانگی دہ

    زنا مردان دین بیگانگی دہ

    ع۔ بہ حالیکہ باشی با خدا باش

    اور بعض لوگوں کا بیان ہے کہ یہ شعر بھی ارشاد فرماتے تھے کہ

    جدائی مبادامرازخدا

    دگر ہر چہ پیش آیدم شایدم (ص73)

    مؤلف نجات قاسمؔ لکھتے ہیں کہ

    ’’ہر وقت آپ کی زبان پر ایک شعر موزوں رہتا۔

    دردم از یارست و درمانیز ہم

    دل فدائے او شدہ و جان نیز ہم (ص61)

    مؤلف مِراۃ الکونین کہتے ہیں کہ

    ’’وجد و سماع میں بہت مشغول رہتے، کبھی کبھی غایتِ جذبۂ شوق میں یہ شعر حافظؔ کا پڑھتے کہ

    فیض روح القُدس ار باز مدد فرماید

    دیگراں ہم بکنند آن چہ مسیحا می کرد (ص418)

    آپ کی تصانیف میں مشہور رسالہ ’’فنا و بقا‘‘ ہے، اس کے علاوہ آپ کے مکتوبات بموسومہ ’’مکتوبات ابوالعلا‘‘ یہ بائیس مکاتیب پر مشتمل، تشنۂ طبع ہیں۔

    حضرت سیدنا امیر ابوالعلا ایک مدت تک بیمار رہے، جس سے نشست و برخاست میں کافی تکلیف ہوتی تھی۔ بیماری نے طول کھینچا، روز بروز کمزور ہوتے گئے۔ آخری ایام میں آپ کا کھانا پینا برائے نام ہو گیا۔ حضرت امیر نورالعلا فرماتے ہیں کہ

    ’’میں اس وقت خدمت میں حاضر تھا، لیکن رات بھر جاگنے کی وجہ سے کچھ غنودگی تھی۔ اسی وقت میں نے دیکھا کہ حضرت فرمارہے ہیں، بابا! میں اپنی مرضی سے جاتا ہوں، صبح تک میں ہوں۔ فوراً بیدار ہوگیا کہ ابھی رات کا کچھ حصہ باقی ہے۔ جیسے ہی صبح ہوئی، آنحضرت کی ذات مبارک میں گویا شورش برپا ہوگئی اور ایسا محسوس ہوا کہ آپ کے ہر بن منہ سے ذکرِ حق جاری ہے۔ اس کیفیت میں آپ واصلِ بحق ہوئے۔‘‘ (حجۃ العارفین، ص91؛ نجات قاسمؔ، ص116)

    اسی حالت میں آپ کی روح پُرفتوح، گلزار جنان اور فضائے لامکان کی طرف پرواز کر گئی۔ یارانِ ابوالعُلا کا حلقہ ہجر میں تبدیل ہوگیا۔ وہ وقت نماز اشراق بروز سہ شنبہ، 9 صفر المظفر 1061ھ بمقام اکبرآباد (آگرہ) تھا۔ بقول صاحب تذکرۃ الکرام

    ’’حضرت امیر نورالعُلا اکبرآبادی نے قطعۂ تاریخِ رحلت کہی ہے کہ

    در سن الف و واحد و ستین

    شد مقامش مقام علین

    یافت تاریخ و دل غمناک

    رفت قطبِ زمان بہ عالم پاک

    1061ھ (ص661)

    حضرت محبوب جل و عَلا کا مزار پرانوار آگرہ میں مرجعِ خلائق ہے، آستانہ اور احاطۂ آستانہ جنت کا نظارہ دکھا رہا ہے، جہاں تمام مذاہب کے لوگ اپنی مرادوں کو لے کر حاضر ہوتے ہیں اور دل کی مراد پاکر واپس جاتے ہیں۔ عُرس سراپا قدس 9 صفر کو عظیم الشان پیمانے پر منایا جاتا ہے۔

    آباد رہے آگرہ تا حشرِ الٰہی

    اکبرؔ ہیں یہاں جلوہ گرانوارِ محمد

    (شاہ اکبرؔ داناپوری)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے