تصوف کی ابتدا اور اس کی معنویت
صفائے قلب، حسنِ خلق اور اتباعِ شرع کا مجموعہ تصوف، کوئی بعد کے زمانے کی چیز نہیں بلکہ اس کا نقطۂ آغاز حرا کا پر سکون غار ہے، جہاں نورِ ہدایت کی پہلی کرن نمودار ہوئی۔ سرکارِ دو عالم نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاں آدابِ ظاہر بتائے، وہیں باطن کی تطہیر کا سامان بھی فرمایا:
’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا‘‘ (الشمس: 9) ترجمہ: بے شک مراد کو پہنچا جس نے اسے ستھرا کیا۔ (کنزالایمان)
یہی اس کی روشن دلیل ہے۔ اس کی تائید میں کثیر احادیثِ کریمہ مل جائیں گی، صرف ایک حدیث پاک کا ذکر کرتا ہوں:
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یقینا بعض علوم ایسے پوشیدہ راز ہوتے ہیں جنہیں عرفائے حق ہی جان سکتے ہیں۔ جب عارفین ایسے پوشیدہ علوم کے بارے میں کلام فرماتے ہیں تو ان پر صرف اسرارِ الٰہیہ سے ناواقف صاحبان ہی نکیر کرتے ہیں۔‘‘
(الاربعین فی التصوف، ابوعبدالرحمن محمد بن الحسین السلمی م 412ھ)
ان احادیثِ مبارکہ سے تصوف اور اہلِ تصوف دونوں کی تائید ہوتی ہے۔
خوفِ خدا، احساسِ بندگی، ذکر و فکر، زہد و تقویٰ، صبر و رضا، اخلاص و عمل، شکر و اطمینان، قناعت و توکل، حبِ دنیا سے بے نیازی — آپ تفسیروحدیث کے ذخیرے اٹھا کر دیکھ لیجئے، انہی جذبوں سے تو تصوف کا خمیر تیار ہوتا ہے۔ تو پھر اسے اسلام سے باہر کی چیز کہنا کیسے درست ہوگا؟
مشہور مستشرق نکلسن جو پہلے تصوف کو عیسائیت کا تحفہ کہتے رہے، حقیقت آشکار ہونے پر برملا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’آج تک اسلامی تصوف کے آغاز اور نشوونما کے بارے میں غلط اندازے لگائے گئے ہیں۔ یہ کہنا کہ تصوف اسلام میں باہر سے آیا، قطعاً قابلِ تسلیم نہیں بلکہ روزِ اول ہی سے مسلمانوں میں ایک ایسا گروہ تھا جو تلاوتِ قرآن اور مطالعۂ حدیث میں مشغول رہتا تھا اور ان کے تمام افکار و نظریات کا منبع قرآن و سنت کے سوا کچھ نہ تھا۔‘‘
(انسائیکلو پیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھک)
دوسرے مشہور مستشرق پروفیسر ماسینون جو تصوف پر تیکھی تنقید میں شہرت رکھتے ہیں، لکھتے ہیں:
’’سچ بات تو یہ ہے کہ ظہورِ اسلام کے وقت سے تصوف کا رنگ اور چاشنی مسلمانوں میں دیکھ رہے ہیں اور یہ چیزیں کہیں باہر سے نہیں آئیں بلکہ قرآن و حدیث کی تلاوت و مطالعہ کا نتیجہ ہیں۔‘‘
(دائرۃ المعارف الاسلامیہ، مادہ تصوف، بحوالہ تصوف تاریخ اسلام، پروفیسر رئیس احمد جعفری، مطبوعہ لاہور، ص 49)
اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ گروہِ عرفا کا تذکرہ خود قرآنِ حکیم اور احادیثِ کریمہ میں موجود ہے۔ مشہور صاحبِ تصنیف عارف سیدنا ابو نصر سراج (م 378ھ) فرماتے ہیں کہ قرآنِ حکیم میں ’’صادقین، قانتین، خاشعین، موقنین، مخلصین، محسینین، خائفین، راجئین، اولیاء، متقین، مصطفین، ابرار، مقربین، صدیقین، شاہدین، مقتصدین، سائرین الی الخیرات، صالحین‘‘ جیسے اوصافِ کریمہ اس گروہِ عرفا کا تعارف بن کر وارد ہیں۔
اصحابِ رسول میں سبھی ان اوصافِ کریمانہ سے سرفراز اور مشکوٰۃِ نبوت کی ضیاؤں سے مستنیر تھے، لیکن اسبابِ دنیا سے بے نیازی میں سب سے ممتاز اصحابِ صُفّہ تھے جن کی تعداد خواجہ سہروردی کے ارشاد کے مطابق چار سو تھی۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدد احادیثِ طیبہ میں اس گروہ کی نشاندہی فرمائی اور ان کا قرب تلاش کرنے کی ترغیب بھی دی۔ سنن ترمذی کی کتاب المناقب میں یہ حدیث مذکور ہے:
’’میری امت میں کئی ایسے بکھرے، غبار آلود بالوں والے اشخاص موجود ہیں کہ اگر وہ کسی معاملے میں اللہ پر قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو سچا فرما دے۔‘‘
(صحیح مسلم، سنن ترمذی، رواہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ)
تاریخِ تصوفِ اسلام صفحہ 59 پر یہ حدیث منقول ہے:
’’اللہ کے بندوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کا شمار نہ انبیاء میں ہے نہ شہداء میں، لیکن انبیاء اور شہداء ان پر بروزِ قیامت اللہ تعالیٰ کی عنایت دیکھ کر رشک کریں گے۔ کسی نے سوال کیا: وہ کون لوگ ہیں؟ بتایا جائے تاکہ ہم انہیں محبوب رکھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جن کے چہرے نورانی ہیں اور جب لوگ خوفزدہ ہوں گے تو یہ ذرا بھی ہراساں نہ ہوں گے، اور جب لوگ غمگین ہوں گے تو ان کے پاس غم بھٹکنے بھی نہ پائے گا۔ پھر حضور نے یہ آیتِ کریمہ تلاوت فرمائی: اَلَا اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (یونس: 62) ترجمہ: سن لو! بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے، نہ کچھ غم۔‘‘
(تاریخ تصوف اسلام، پروفیسر رئیس احمد جعفر، ص 59)
یہ پاکیزہ سلسلہ عہدِ رسالت سے لے کر آج تک چلا آ رہا ہے۔ حضرت امام عبدالرحمن سلمی نے اپنی کتاب طبقات الصوفیہ میں پانچویں صدی ہجری کے آغاز تک کے ممتاز مشائخ کا تذکرہ اور ان کے اقوال محدثانہ سند کے انداز میں ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے اپنے عہد تک صوفیہ کو پانچ طبقوں میں تقسیم کیا ہے۔ ان طبقاتِ خمسہ کے چند مشائخ اور نامور صوفیہ کے اسمائے گرامی درج کیے جاتے ہیں جنہوں نے اپنے نفَسِ سوختہ سے دلوں کو زندگی کی حرارتیں بخشیں:
پہلا طبقہ: حضرت اویس قرنی، امام حسن بصری، امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت حبیب عجمی، امام مالک بن دینار، حضرت سفیان ثوری، قاضی فضیل بن عیاض، حضرت ذوالنون مصری، حضرت بایزید بسطامی، بشر حافی، معروف کرخی، حاتم اصم وغیرہ۔
دوسرا طبقہ: حضرت جنید بغدادی، سہیل بن عبداللہ تستری، ابوعلی جوزجانی، ابوعبداللہ سنجری وغیرہ۔
تیسرا طبقہ: ابواسحاق ابراہیم خواص، حسین بن منصور حلاج، ممشاد دینوری وغیرہ۔
چوتھا طبقہ: ابو بکر شبلی، ابو عبداللہ بن سالم بصری، ابوبکر کتانی، ابو محمد مرتعش، ابواسحاق شامی وغیرہ۔
پانچواں طبقہ: ابو سعید بن اعرابی، جعفر بن محمد خلدی، عبداللہ بن محمد رابی، ابوالحسن خرقانی، شیخ ابوالقاسم کُرگانی، امام قشیری، داتا گنج بخش لاہوری، امام غزالی وغیرہ۔
پھر چھٹی اور ساتویں صدی کے صوفیہ کے نام اور اس کے بعد کی کتب و ملفوظات و مکتوبات کی فہرست آپ نے تفصیل سے درج کی ہے، جنہیں میں نے صرف جملوں اور اسپیس کے اعتبار سے ہموار کر دیا ہے۔
اہم کتبِ تصوف
الرعایۃ الحقوق اللہ
اللمع فی التصوف
قوت القلوب
حلیۃ الاولیا (10 جلدیں)
رسالہ قشیریہ
شفا شریف
کشف المحجوب
احیاء علوم الدین
کمیات سعادت الغزالی
فتوح الغیب
الفتح الربانی
غنیۃ الطالبین
آداب المریدین
فتوح مکیہ
فیہ مافیہ
عوارف المعارف
مکتوبات صدی (مکمل)
نفحات الونس
الطبقات الکبریٰ
تحصیل التعریف فی معرفۃ الفقہ والتصوف
سبع سنابل شریف
ادراک
ارادہ
مولد غریب
انشاء فرمان علیم
چراغ کعبہ
ملفوظات صوفیہ
نمبر عنوان زبان مشہور صوفی جامع/مرکز
1 انیس الارواح فارسی خواجہ عثمان ہارونی جامع خواجہ معین الدین چشتی
2 دلیل العارفین فارسی خواجہ غریب نواز چشتی جامع خواجہ قطب الدین بختیار کاکی
3 فوائد السالکین فارسی قطب الدین بختیار کاکی جامع خواجہ مسعود فرید الدین گنج شکر
4 راحت القلوب فارسی شیخ مسعود فرید الدین گنج شکر جامع خواجہ نظام الدین اولیا
5 فوائد الفواد فارسی خواجہ نظام الدین اولیا دہلوی جامع شیخ امیر حسن سنجری دہلوی
6 افضل الفوائد فارسی خواجہ نظام الدین اولیا دہلوی جامع حضرت امیر خسرؔو
7 خیر المجالس فارسی شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی جامع حضرت شیخ حمید قلندر
8 معد المعانی فارسی مخدوم جہاں بہاری جامع مولانا زین الدین بدر عربیؔ
9 انوار المجالس فارسی خواجہ سید محمد بندہ نواز گیسو دراز جامع سید محمد اکبر حسینی
10 انوارِ قمریہ فارسی اعلیٰ حضرت شاہ قمر الدین عظیم آبادی جامع حضرت شاہ قاسم داناپوری
11 دل اردو حضرت شاہ اکبر داناپوری جامع نثارؔ اکبرآبادی
مکتوبات صوفیہ
نمبر عنوان تعداد/وضاحت
1 مکتوبات صدی / دوصدی / بست ہشت حضرت مخدوم جہاں
2 مکتوبات امام ربانی -
3 مکتوبات شاہ خوب اللہ بہاری 4 جلدیں
4 مکتوبات مخدوم جہانیاں جہاں گشت -
5 مکتوبات قدوسی عبدالقدوس گنگوہی -
6 مکتوبات کلیمی حضرت کلیم اللہ شاجہاں آبادی
7 مکتوبات شیخ عبد الحق محدث دہلوی -
8 مکتوبات شاہ ولی اللہ محدث دہلوی -
9 مکتوبات شاہ غلام علی نقشبندی دہلوی -
10 مکتوبات شاہ حسن علی منعمی عظیم آبادی -
11 مکتوبات حضرت شاہ اکبر داناپوری -
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.