تصوف
تصوف کا لفظ اس طریقۂ کار یا اسلوبِ عمل کے لئے اختیار کیا جاتا ہے جس پر کوئی صوفی عمل پیرا ہو، اسلام سے قربت رکھنے والے صوفی، لفظ تصوف کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ تصوف کو قرآنی اصطلاح میں تزکیۂ نفس اور حدیث کی اصطلاح میں احسان کہتے ہیں، تصوف کی اس مذکوہ بالا تعریف بیان کرنے والے افراد تصوف کو قرآن و سنت کے عین مطابق قرار دیتے ہیں اور ابتدائی ایام میں متعدد فقہی علمائےکرام بھی اسی تصوف کی جانب مراد لیتے ہیں پھر بعد میں تصوف میں ایسے افکار ظاہر ہونا شروع ہوئے کہ جن پر شریعت و فقہ پر قائم علما نے نہ صرف یہ کہ ناپسندیدگی کا اظہار کیا بلکہ ان کو رد بھی کیا۔
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ صوفی صوف سے نکلا ہے جس کا معنی اون کا کپڑا ہے جبکہ یہ بھی یونانی لفظ سوف سے آیا جس کا معنی حکمت و معرفت ہے۔
تصوف کا لفظ، اسلامی ممالک میں روحانیت، ترکِ دنیا داری اور اللہ سے قربت حاصل کرنے کے مفہوم میں جانا جاتا ہے اور مسلم علما میں اس سے معترض اور متفق، دونوں اقسام کے طبقات پائے جاتے ہیں، کچھ کے خیال میں تصوف شریعت اور قرآن سے انحراف کا نام ہے اور کچھ اسے شریعت کے مطابق قرار دیتے ہیں، اس لفظ تصوف کو متنازع کہا بھی جاسکتا ہے اور نہیں بھی، اس کی وجہ یہ ہے کہ جو اشخاص خود تصوف کے طریقۂ کار سے متفق ہیں وہ اس کو روحانی پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے قرآن و شریعت سے عین مطابق قرار دیتے ہیں اور جو اشخاص تصوف کی تکفیر کرتے وہ اس کو بدعت کہتے ہیں اور شریعت کے خلاف قرار دیتے ہیں یعنی ان دونوں (تصوف موافق و تصوف مخالف) افراد کے گروہوں کے نزدیک تصوف کوئی متنازع شے نہیں بلکہ ان کے نزدیک تو معاملہ صرف توقیر اور تکفیر کا ہے، دوسری جانب وہ افراد، عالم یا محققین (مسلم اور غیر مسلم) کہ جو مسلمانوں میں موجود تمام فرقہ جات کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے تصوف کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے نزدیک تصوف کا شعبہ مسلمانوں کے مابین ایک متنازع حیثیت رکھتا ہے۔
لفظ تصوف تو اصل میں خود اس پر عمل کرنے والے (صوفی) کے نام سے مشتق ہے، گویا صوفی کا لفظ تصوف سے قدیم ہے، رہی بات تصوف کی تعریف کی، تو مختلف نقطہ ہائے نظر رکھنے والے افراد کی جانب سے تصوف کی مختلف تعریفیں بیان کی جاتی ہیں، سیدھے سادھے الفاظ میں تو تصوف کی تعریف یوں بیان کرسکتے ہیں کہ تصوف، اس طریقۂ کار کو کہا جاتا ہے جس پر صوفی عمل پیرا ہوتے ہیں۔
جبکہ خود صوفیا تصوف کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں کہ تصوف اسلام کی ایک ایسی شاخ ہے جس میں روحانی نشو و نما پر توجہ دی جاتی ہے، صوفیا، تصوف کی متعدد جہتوں میں اللہ کی ذات کا شعور حاصل کرنا، روحانی کیفیات اور ذکر (رسماً و جسماً) اور شریعت بیان کرتے ہیں۔
بعض صوفیا کے خیال میں یہ لفظ صوفی اصل میں صف اول کی صف سے ماخوذ ہے کہ صوفی تمام دیگر انسانوں کی نسبت اپنا دل خدا کی جانب کرنے اور اس سے رغبت رکھنے میں پہلی صف میں ہوتا ہے، یہاں بھی دیگر متعدد ماخذ کی طرح لسانی قواعد کی پیچیدگی پیش آتی ہے کیونکہ اگر صوفی، صف سے اخذ کیا گیا ہوتا تو پھر اس لفظ کو صَفّی ہونا چاہیے تھا نا کہ صوفی جو مروج ہے۔
زمانۂ جاہلیت میں ’’صوفہ‘‘ نام سے ایک قوم تھی، اس قوم کے افراد خانہ کعبہ کے مجاور تھے اور جن لوگوں نے ان سے مشابہت اختیار کی وہ صوفیہ کہلائے، گو عربی قواعد کی رو سے لفظ ’’صوفہ‘‘ سے ’’صوفی ‘‘ نہیں بلکہ ’’صوفانی‘‘ بنتا ہے لیکن بعض ماہرین اس اشتقاق کو درست مانتے ہیں اور اس سلسلہ میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اگر ’’کوفہ‘‘ سے ’’کوفانی‘‘ کی بجائے ’’کوفی‘‘ بن سکتا ہے تو ’’صوفہ‘‘ سے ’’صوفی‘‘ کا اشتقاق بھی ممکن ہے، اس دلیل کے باوجود اس اصل الکلمہ کے خلاف متعدد دیگر وجوہات بھی بیان کی جاتی ہیں۔
قوم صوفہ ایک غیر معروف قوم تھی جس کی جانب صوفیا کی توجہ مرکوز ہونا یا اس کے نام سے تشبیہ کا امکان قوی نہیں۔
اگر بالفرض یہ اصل الکلمہ درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر صوفی کا لفظ خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ اکرام کے زمانے سے موجود ہونا چاہیے تھا نا کہ دوسری صدی ہجری سامنے آتا۔
صوفیا کے نزدیک تصوف کے چار درجے ہیں۔
شریعت
طریقت
حقیقت
معرفت
برصغیر میں صوفیائے اکرام کا کردار بہت اہم تسلیم کیا جاتا ہے جن میں میر سید علی ہمدانی، سید عون قطب شاہ علوی البغدادی، عبداللہ شاہ غازی، داتا گنج بخش ہجویری، ضیغم الدین محمد رزاق علی گیلانی، شاہ رکن عالم، خواجہ معین الدین چشتی، سلطان سخی سرور، قطب الدین بختیار کاکی، بابا فریدالدین گنج شکر، علاؤالدین علی احمد صابر، نظام الدین اؤلیا، بہاؤالدین زکریا ملتانی، مولانا عبدالعزیز پرہاڑوی، شیخ سلیم چشتی، شیخ محمد غوث شطاری، مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری، مخدوم عبد القادر ثانی، شیخ داؤد کرمانی، شاہ ابوالمعالی، ملا شاہ گادری، خواجہ باقی باللہ، میاں میر قادری، سیدنا امیر ابوالعلا، مجددالف ثانی شیخ احمد، شاہ ولی اللہ محدث، مرزا مظہر جان جاناں، شاہ غلام علی، غلام محی الدین قصوری، خواجہ غلام مرتضیٰ کے علاوہ دیگر بے شمار ہستیاں شامل ہیں، ان صوفیا کے حسن اخلاق اور تبلیغ دین کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اچھائی کے راستے کو قبول کیا۔
تصوف کے مشہور سلاسل مندرجہ ذیل ہیں۔
سلسلہ قادریہ
سلسلہ نقشبندیہ
سلسلہ سہروردیہ
سلسلہ چشتیہ
چند بہترین کتابیں۔
امام قشیری کا رسالہ قشیریہ
شيخ عبدالقادر جيلانی کی فتوح الغیب اور فتح الربانی
داتا گنج بخش کی کشف المحجوب
شیخ شہاب الدین سہروردی کی عوارف المعارف
امام غزالی کی احیاؤالعلوم، کیمیائے سعادت اور منہاج العابدین
ابن عربی کی فصوص الحكم اور فتوحات مکیہ
صوفی نامہ تصوف کی ترویج و اشاعت میں آن لائن برصغیر کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔
شکریہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.