نصرت فتح علی خان
’’سہرا یہ حقیقت کا نصرتؔ کو سنانے دو‘‘
نصرت فتح علی خاں پاکستان کے بڑے قوال، موسیقار، موسیقی ڈائریکٹر اور بنیادی طور پر قوالی کے گلوکار تھے، نصرت کو اردو زبان میں صوفی گلوکار اور جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے قوالی کے گلوکار کے طور پر جانا جاتا ہے، انہوں نے پاپ و کلاسیکی موسیقی کو ’’یک جاں‘‘ کرکے موسیقی کو نئی بلندی بخشی، انہیں شہنشاہ قوالی بھی کہا جاتا ہ، انہوں نے اپنی پہلی پرفارمنس ریڈیو پاکستان کے سالانہ موسیقی کے پروگرام ’’جشنِ بہاراں‘‘ کے ذریعے دی، ان کی پہلی کامیاب قوالی ’’حق علی علی‘‘ تھی جو دنیا بھر میں ان کی پہچان کا ذریعہ بنی، نصرت زیادہ تر اردو، پنجابی جبکہ کبھی کبھی فارسی، بِرج بھاشہ اور ہندی زبان میں بھی گاتے تھے، انہوں نے اپنی زندگی میں کئی البم ریلیز کیے، جس میں قوالی کے 125 آڈیو البم شامل ہیں، جس کی وجہ سے ان کا نام ’’گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ‘‘ میں بھی درج کیا گیا، نصرت نے اپنی تمام عمر قوالی کے فن کو سیکھنے اور اسے مشرق و مغرب میں مشہور کرنے میں لگا دی، انہوں نے صوفیوں کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا اور ان کے فیض سے خود انہیں بے پناہ شہرت نصیب ہوئی۔
نصرت کے باپ دادا اٹھارویں صدی کے آخر میں اپنے مرشد حضرت شیخ کے ساتھ افغانستان سے ہندوستان آئے تھے، وہ افغان کے شاخ نورزئی سے تعلق رکھتے تھے، جالندھر کے قریب ایک بستی میں پیر نے قدم روک لیے، مریدوں نے وہیں ڈیرہ ڈال دیا، بعد میں یہ جگہ ’’بستی شیخ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی، ہجرت کرنا بزرگوں کا پسندیدہ عمل ہے، دنیا میں زیادہ تر وہی افراد کامیاب ہوئے ہیں جنہوں ہجرت کیا ہو، بڑے بڑے صوفی ایک شہر سے دوسرے شہر ایک ملک سے دوسرے ملک میں رہتے ہیں، ہندوستان کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں کسی صوفی کے قدم نہ پڑے ہوں، حضرت داتا گنج بخش، خواجہ معین الدین چشتی، حضرت شمس تبریزی سبزواری، قطب الدین بختیار کاکی، بابا فریدالدین گنجِ شکر، حضرت نظام الدین اؤلیا، حضرت سیدنا امیر ابوالعلا، حضرت میاں میر ایسے روشن ستارے ہیں جن کی چمک سے مردہ دل بھی روشن ہو جائے۔
حضرت شیخ بھی افغانستان سے اسی نیک کام کے لیے جالندھر آئے تھے، نصرت کے پوروَج ان کے لیے محفلِ سماع برپا کرتے تھے، صوفیانہ کلام کا خزانہ لٹاتے تھے، ہندوستانی کلچر میں موسیقی کو بہت اہمیت حاصل تھی، سننے والا اس کے جادو میں محو ہو جاتا تھا، فقیروں نے شاید اسی لیے قوالی کا انتخاب کیا تھا، مصلحت یہ تھی کہ موسیقی سن کر لوگ جمع ہوں گے اور سُروں میں چھپی ہوئے پیغام انہیں اپنی سچائی میں جکڑ لے گا۔
حضرت شیخ نے اپنا پیغام اور صوفیانہ کلام نصرت کے بزرگوں کی زبانی لوگوں کے سامنے پیش کیا، جالندھر کے آس پاس میں حضرت شیخ کے ساتھ ساتھ ان کے مریدوں کا نام بھی گونجنے لگا، حضرت شیخ درویش کی وفات کے بعد نصرت کے پرکھوں نے مزار کی دیکھ بھال اپنے ذمہ لی اور قوالی کی روایت دن بدن اپنے عروج کی طرف بڑھتی رہی، عارفانہ کلام، حمد، نعت، منقبت کے ذریعے قوالی مقبول ہوتی رہی اور یہ خاندان اپنے مخصوص انداز گائیکی سے نام پیدا کرتا رہا، اس گھرانے نے مختلف وقتوں میں مختلف نامور استاد گائیک پیدا کیے جو کسی نہ کسی شخص کے ذہن میں اب بھی محفوظ ہیں۔
نصرت کے دادا حاجی معروف افغانستان سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے، چار پشتوں تک ان کی ترتیب کچھ یوں ہے۔
1- حاجی معروف
2- محمد شریف
3 - امانت خان
4 - سعادت داد
سعادت داد کے دو بیٹے تھے۔
1 - صاحب داد
2 - خالق داد
خالق داد کا نسب اس طرح چلا۔
1 - خالق داد
2 - جہانگیر خان
3 – میراں بخش
4 - مولیٰ بخش
مولیٰ بخش کے چار بیٹے تھے۔
فتح علی خان
مبارک علی خان
نوازش علی خان
سلامت علی خان
مولیٰ بخش کے چاروں بیٹے اپنے اپنے فن میں منفرد تھے، ان کے پاس آواز کی صلاحیتوں کی ایک غیر معمولی حد تھی اور وہ کئی گھنٹوں تک اعلیٰ درجے کی شدت میں قوالی پیش کر سکتے تھے، 1947ء کے بعد یہ لوگ پاکستان آ گئے، نصرت کے باپ داداؤں نے وہاں موسیقی اور گانا سیکھا اور اسے بطور پیشہ اپنایا، نصرت اپنے پیتا فتح علی خاں کے پانچ بچوں میں بڑے بیٹے تھے۔
قوالی کو اگر گلدستہ کہا جائے تو یہ اپنے اپنے رنگ کے پیارے پیارے پھول تھے جن کی اپنی خوشبو اور اپنا رنگ تھا، فتح علی خان اور مبارک علی خان کے بعد سلامت علی خان کا نام ہارمونیم پلیئر کی حیثیت سے بڑا مشہور تھا، کہتے ہیں کہ برصغیر میں ان جیسا ہارمونیم بجانے والا شاید ہی کوئی دوسرا ہو، سلامت علی خان نے بڑے غلام علی خان، توکل حسین، چھوٹے غلام علی خان اور نزاکت علی خان کے ساتھ سنگت کی اور ان استادوں سے داد وصول کی لیکن اس فن میں کمال حاصل کرنے کی بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔
گزرے ہوئے زمانے کی بات ہے کہ برصغیر میں ایک مشہور گانے والی الٰہی جان ہوا کرتی تھی، بہت گن گیان والی عورت تھی، گاتی تھی تو پرندے ہوا میں رک جاتے تھے، علمِ موسیقی سے پوری طرح واقف، بڑے سے بڑا سارنگی بجانے والا اس کے ساتھ سنگت سے خوف کھاتا تھا جو کچھ وہ گلے سے ادا کرتی تھی، سارنگی والے کے لیے تاروں سے نکالنا مشکل ہو جاتا تھا، ایک بار وہ بستی شیخ آکر فتح علی خان کی مہمان ہوئی، گانے کی محفل ہوئی، ہارمونیم پر سنگت کرنے کے لیے سلامت علی خان آگے آئے تو الٰہی جان نےکہا کہ
یہ کون صاحب ہیں ؟
فتح علی خاں نے کہا کہ
’’مولیٰ بخش کا بیٹا اور ہمارا بھائی سلامت علی خان ہے‘‘
یہ بات سن کر جب الٰہی جان نے گانا شروع کیا تو سلامت علی خان اس کی گائیکی کو ہارمونیم کی گرفت میں نہ لا سکے، ہارمونیم بجانا بند کر دیا اور الٰہی جان قہقہہ لگا کر کہنے لگی۔
’’فتح علی خان! یہ مولیٰ بخش کا بیٹا نہیں لگتا‘‘
الٰہی جان کی یہ بات سن کر سب خاموش ہو گئے، سلامت علی خان بہت شرمندہ ہوئے مگر مبارک علی خان نے الٰہی جان سے کہا کہ
’’یہ مولیٰ بخش ہی کا بیٹا ہے، الٰہی جان ! چھ ماہ بعد آؤ گی تو اس کے ساتھ گا نہ سکو گی‘‘
الہٰی جان نے کہا کہ
’’کیوں؟ اسے کون سا تعویذ گھول کر پلاؤ گے‘‘
الٰہی جان نے پان کی گلوری منہ میں رکھ کر کہا کہ ’’محنت اور ریاضت کا تعویذ‘‘
مبارک علی خان نے کہا کہ پھر واقعی ایسا ہی ہوا، سلامت علی خان نے ہارمونیم پر ریاض کی انتہا کر دی، اپنی انگلیوں کو ہارمونیم کی تینوں سبکتوں سے جوڑ دیا، دن رات ایک کر دئیے، انگلیاں ریاض کرتے کرتے تھک جاتیں تو برف کے یخ پانی میں ڈبو دیتا مگر اس نے چھ ماہ انگلیوں کو آرام نہیں کرنے دیا، چھ ماہ بعد جب الٰہی جان آئی تو سلامت علی خان فنی طور پر پختہ ہو چکے تھے، ایک بار پھر محفل جمی، الہٰی جان نے تان اٹھائی، سلامت علی خان نے ہارمونیم چھیڑا، الٰہی جان چند قدم چلی پھر رک گئی، سلامت علی خان کی انگلیوں کو ہارمونیم پر بجلی کی طرح چلتے دیکھ کر حیران رہ گئی اور ہاتھ جوڑ کر کہنے لگی کہ
’’میں بھول گئی تھی سلامت علی خان، تم واقعی مولیٰ بخش کے بیٹے ہو‘‘
اور پھر سلامت علی خان کے ہاتھ چوم لیے۔
نوازش علی خان مولیٰ بخش کا چھوٹے بیٹے تھے، اپنے بھائیوں سے بالکل مختلف، شاعرانہ مزاج رکھتے، کبھی قوالی کے شوق کو نہ اپنایا، بھائیوں نے بھی اسے اس طرف راغب نہیں کیا، بی۔ اے تک تعلیم دلائی، محبوب بنا کر رکھا، ہر خواہش پوری کی، نوازش اچھے شاعر تھے، اپنے بھائی فتح علی خان سے بے حد پیار کرتے تھے، فتح علی بھی ان پر جان نچھاور کرتے ایک بار نوازش کو فتح علی نے نوے ہزار روپیہ دیا کہ کوئی کاروبار کرلو، نوزاش علی نے روپے لیے اور نواز والی چارپائی کے خلا میں روپے رکھ دئیے اور بھول گئے، چھ ماہ بعد نوکر چار پائی کسنے لگے تو نوے ہزار روپے فرش پر آ گرے، نوازش کو نہ روپے پیسے کی خواہش تھی، اسے صرف شاعری کا شوق تھا اور وہ کلاسیکل طرز اسلوب میں اچھے شعر کہتے تھے کہ فتح علی خان کی وفات پر اس کے کہے ہوئے یہ چند شعر اس کی شاعرانہ صلاحیت اور جذبات کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں، احمد عقیل روبی کے حوالے سے اسے ان اشعار کو نقل کر دیتا ہوں۔
ناز فن فتح علی خان مکانی ہے تو
بے نیاز خلش عالمِ فانی ہے تو
یہ دعا ہے کہ رہے تجھ پہ خدا کی رحمت
تا ابد تجھ کو میسر ہو نشاط جنت
حشر کے دن ہو رسولِ عربی کا دیدار
روح تیری ہو مئے جلوہ حق سے سرشار
تو نوازشؔ کو اگر حشر کے میداں میں ملے
قلب کے ساز چھڑیں غنچہ خاطر بھی کھلے
مولیٰ بخش کے ان چاروں بیٹوں میں سے فتح علی خان اور مبارک علی خان کی جوڑی بے حد کامیاب رہی اور اس جوڑی میں سے فتح علی خان زیادہ نامور، مقبول اور باوقار شخصیت کے گائیک تسلیم کئے گئے، وہ کئی خوبیوں کے مالک تھے، فتح علی خان نے قوالی میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا کی جس کا باقاعدہ ایک پسِ منظر ہے۔
فتح علی خان نے اپنے والد مولیٰ بخش سے کلاسیکی موسیقی کا درس حاصل کیا لیکن ان کی آواز مبارک علی کے مقابلے میں بہت بھاری تھی، ان کے گلے میں قدرتی رمزے اور مرکی نام کی کوئی شئے نہ تھی، یہ کمزوری اور خامی ہی انقلاب کا سبب بن گئی، فتح علی خان نے اپنی گائیکی کے لیے دھرپد رنگ اپنایا، سرگم کے پلٹوں اور نفس مضمون کو بار بار دہرانے سے گائیکی کو سنوارا، راگ اور لے کا خوبصورت امتزاج پیدا کیا، قوالی میں تضمین کا اجرا کر کے قوالی میں ایک نئے انداز کو جنم دیا، چنانچہ یہی انوکھا اور اچھوتا رنگ فتح علی خان کی وجہ شہرت بن گیا، قوالی کے رسیا ان کی منفرد گائیکی کے ایسے قائل ہوئے کہ برصغیر میں چاروں طرف دونوں بھائیوں کا نام گونجنے لگا، ہندوستان کے کونے کونے میں انہوں نے اپنی قوالی پیش کی اور ہر فن کے شائقین سے داد وصول کی، روایتی قوالی میں فتح علی خان کی یہ Inovation ایک انداز اختیار کر گئی اور خواجہ حسن نظامی نے 1935ء میں اپنے سات روزہ روز نامچہ میں فتح علی کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ
’’فتح علی خان ہندوستان میں فن قوالی کے مدبر ہیں، ان کی اس اچھوتی صنف نے اس قدر مقبولیت عام و خاص پائی ہے کہ آج فلمی موسیقاروں سے لے کر کلاسیکل گانے والوں تک کے لیے فتح علی خان کانام ایک سند کی حیثیت رکھتا ہے‘‘(روز نامچہ)
فتح علی خان کو حمد، نعت، گیت، غزل، ٹھمری، دادرا، ترانہ خیال، ہلکی پھلکی موسیقی اور کلاسیکل گانے میں پوری مہارت حاصل تھی اور وہ ہر قسم کے سننے والے کے دل پر اپنی استادی کا سکّہ جما لیتے تھے، اسی فن نے انہیں مقبول اور محبوب فنکار بنا دیا تھا، راغب مرادآبادی کہتے ہیں کہ
اک سحر تھا یا نغمہ سرائی تیری
آواز سوئے گوش جب آئی تیری
دل جھوم اٹھا روح کو بھی وجد آیا
اللہ اللہ۔۔۔ خوش ادائی تیری
شاہد احمد دہلوی اپنے ایک مضمون میں ان کی مخصوص گائیکی کو بے حد سراہا ہے اور قوالی کی آبرو بڑھانے میں ان کے انقلابی قدم کو داددی ہے، لکھتے ہیں کہ
’’فتح علی نے نہ صرف قوالی کا ایک مخصوص ڈھنگ اختیار کیا ہے بلکہ قوالی کو چار چاند لگا کر فن کی آبرو بڑھائی ہے، ورنہ قوالی صرف درگاہوں اور خانقاہوں تک محدود ہوگئی تھی اور قوال اپنی روزی کے لیے در بدر بھٹکتے تھے، ان دو بھائیوں کی دیکھا دیکھی بہت سی ٹولیاں ان کی نقل کرنے لگیں اور ان کے نقش قدم پر چل کر منزل مقصود کو پہنچیں‘‘(آہنگ، جون 1946ء)
کہتے ہیں کہ فتح علی اور مبارک علی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو ہندوستان کی گلی گلی میں پہنچا دیا تھا، اقبال جو کالجوں اور اسکولوں تک محدود تھے، فتح علی اور مبارک علی نے اسے گلی گلی مقبول کر دیا، یہ فتح علی خان کی گائیکی ہی تھی جس نے غیروں کو بھی کلامِ اقبال کا شیدا بنا دیا تھا، کلام اقبال گانے کا ان کا مخصوص انداز تھا، وہ اقبال کی ایک غزل یا نظم شروع کرتے اور پھر اس میں مزید کلام شامل کر کے دورانیہ بڑھاتے رہتے تھے، شکوہ اور جوابِ شکوہ سنانے میں ان کا ثانی کوئی نہیں تھا، دونوں بھائی جب اس طویل نظم کو قوالی کے انداز میں گاتے تو ایک سماں بندھ جاتا تھا، لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ کلامِ اقبال ہم پڑھتے تو ہیں لیکن سمجھ اس وقت آتا ہے جب فتح علی خان گا کر سناتے ہیں، چنانچہ اقبال کے حوالے سے فتح علی اور مبارک علی نے لوگوں کے دلوں میں اس کی حقیقی تڑپ پیدا کر دی۔
فتح علی خاں 1947 کے وقت میں مسلم لیگ کے حمایتی تھے اور اپنی قوالی میں مسلم لیگ کا پرچار بھی کرتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعض جماعت آپ کی دشمن ہوگئی، انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں، 1947ء کا قتل عام شروع ہوا تو انہوں نے کچھ بدمعاشوں کو فتح علی خان کے قتل پر مقرر کیا اور یہ کوشش کی کہ وہ کسی طور پر بھی پاکستان نہ جا سکیں، رائے خورشید تلونڈی ایک کھاتے پیتے زمیندار تھے، انہوں نے فوجی دستوں کی حفاظت میں اپنی عورتوں کو پاکستان بھیجنے کا انتظام کیا، تمام عورتوں کو برقعے پہنا کر باڈر کراس کرایا گیا، ان میں فتح علی کو بھی برقعہ پہنا کر پاکستان بھیجا گیا۔
نصرت کی پیدائش 1948ء میں فیصل آباد میں ہوئی، پیدائش کے وقت وہ صحت مند اور گول مٹول تھے، ان کے پیتا نے ان کا نام پرویز رکھ دیا، پیتا کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنائیں، نصرت نِکر پہن کر، گلے میں بستہ ڈال کر بڑے اعتماد سے اسکول جاتے تھے، اسکول سے فارغ ہو کر گھر آتے تو ماسٹر عبدالعزیز انہیں پڑھاتے، ایک بزرگ حضرت غلام غوث صمدانی سے فتح علی خاں کے گہرے تعلقات تھے، ایک بار وہ تشریف لائے، سب کھانے سے فارغ ہوکر بیٹھے تھے کہ نصرت اندر سے باہر آئے، فتح علی نے اسے آواز دے کر بلایا کہ
’’پرویز ادھر آؤ!‘‘
پرویز کا نام سن کر آپ چونکے اور فتح علی کا شانہ ہلا کر پوچھا کہ ’’کیا نام رکھا ہے تم نے؟‘‘
تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ پرویز ایران کا بادشاہ تھا جس نے حضرت محمد پاک کے خط کو پھاڑ دیا تھا، یہ بات سن کر سب چپ ہوگئے، آپ نے کہا کہ کیا اب بھی یہ نام رکھنا چاہتے ہو، نام کا اثر انسان کی شخصیت پر پڑتی، اسی وقت پرویز سے بدل کر نصرت رکھا گیا، اس نام کا اثر تو دنیا نے دیکھ ہی لیا، نصرت کا گھریلو نام پیجی تھا۔
نصرت کا بچپنہ کوئی خاص نہیں تھا، بس ایک گول مٹول بچہ، بستہ گلے میں ڈال کر لوگوں کو نرسری اسکول آتا جاتا نظر آتا تھا،
فتح علی خان نے گھر کو پوری آرائشوں اور سہولتوں سے آراستہ کیا تھا، ہر قسم کی نعمت اپنے بچوں کو دی، نصرت کی چار بہنیں اور ایک بھائی فرخ آرام سے رہ رہے تھے، فتح علی خان نے نصرت کو بار بار احساس دلایا تھا کہ
’’موسیقی تمہارے لیے نہیں ہے، اس فن سے دل نہ لگانا، تمہیں گویّا نہیں ڈاکٹر بنانا چاہتا ہوں‘‘
نصرت چپکے چپکے طبلے اور ہارمونیم پر موسیقی کے ابتدائی سبق دہراتے رہے، فتح علی خان بڑے رعب والے انسان تھے، گھر میں داخل ہوتے تو ہنستے چہرے سنجیدہ ہو جاتے تھے، بچوں پر ان کا بڑا رعب تھا، ان کی موجودگی میں کوئی ہوں تک نہیں کرتا تھا، ایک دن نصرت ہارمونیم پر دل بہلا رہے تھے، سروں میں اتنے مگن تھے کہ انہیں اس بات کا بھی پتہ نہ چل سکا کہ ان کے والد ان کے پیچھے کھڑے سب کچھ سن رہے ہیں، جب کسی نے اشارے سے فتح علی خان کی موجودگی کا احساس دلایا تو نصرت ہار مونیم چھوڑ کر کھڑے ہو گئے، فتح علی خان کے مسکرائے اور ان کے شوق کو سراہا، کبھی کبھی موسیقی سے دل بہلانے کی اجازت دی لیکن یہ بھی یاد دلا دیا کہ ’’میں تمہیں ڈاکٹر بنانا چاہتا ہوں، گویّا نہیں
باپ کی اجازت سے نصرت کے اندر موسیقی کے سوتے پھوٹنے لگے اور وہ فارغ وقت میں موسیقی کا ریاض کرنے لگے، فتح علی خان بیٹے کے اندر چھپے ذوق کو دیکھ کر اسے گاہے گاہے کلاسیکل موسیقی کا سبق دیتے رہے اور پھر نصرت نے جی جان سے موسیقی کی طرف دھیان دینا شروع کر دیا اور اپنے والد کو یقین دلا دیا کہ میں غبی نہیں بلکہ کچھ کرنے کا جذبہ اور حوصلہ رکھتا ہوں اس کا ثبوت دینے کے لیے نصرت کو ایک امتحان سےگزرنا پڑا۔
کلکتے کے ایک مشہور گائیک پنڈت دینا ناتھ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے تھے، سارا پاکستان گھوم کر وہ فیصل آباد آگیے، فتح علی خان سے ان کی شناسائی تھی، ان کے پاس آ کر ٹھہرے، باتوں باتوں میں فتح علی خان نے پنڈت سے پوچھا کہ سنایئے پنڈت جی! کیسا رہا پاکستان کا دورہ۔
پنڈت نے جواب دیا کہ
’’بالکل بیکار، سُر گلے میں تڑپ رہے ہیں، گانے کو ترس گیا ہوں‘‘
کیوں پنڈت جی؟
’’ارے فتح علی خان! کیا گاؤں، کوئی طبلے پر سنگت کی حامی بھرے تو گاؤں، گانا شروع کرتا ہوں تو طبلے والا، طبلے پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتا ہے، میں اپنی گائیکی جیسی لایا تھا، واپس کلکتے لے کر جا رہا ہوں‘‘
پنڈت جی یہ کہہ کر سونے چلے گئے، فتح علی خاں سوچ میں پڑ گئے کہ پنڈت کیا کہہ گیے، کیا پاکستان میں کوئی ان کی سنگت کے قابل نہیں، وہ اسی سوچ میں گم تھے کہ نصرت سکول سے واپس آگیے، فتح علی خان نے بیٹے کو دیکھا، چند لمحے اسے غور سے دیکھتے رہے پھر اچانک کسی فیصلے پر یقین کی مہر لگائی اور اشارے سے پاس بلایا، فتح علی خان کو پتہ تھا کہ نصرت ہار مونیم کے ساتھ ساتھ طبلے پر بھی ریاضت کرتا ہے، اسے قریب بٹھایا اور کہنے لگے کہ
’’پنڈت دینا ناتھ کہتے ہیں کہ کوئی طبلے والا ان کے ساتھ سنگت نہیں کر سکتا‘‘
نصرت نے جواب دیا کہ
’’آپ کی اجازت ہو تو میں حاضر ہوں‘‘
فتح علی خان کا سینہ خوشی سے پھول گیا، بیٹے کو دو چار گُر کی باتیں بتلائیں، نصرت نے مشق کر کے انہیں ذہن نشین کر لیا، شام کو پنڈت جی سے گانے کی فرمائش کی گئی، تو انہوں نے کہا کہ
’’طبلے پر سنگت کون کرے گا‘‘؟
فتح علی خان نے نصرت کی طرف اشارہ کیا، پنڈت ہنس کر کہنے لگے کہ
ارے! یہ موٹو نصرت۔
ہاں! ہے موٹو مگر ذہن بہت باریک ہے۔
پنڈت نے یہ سوچ کر گانا شروع کر دیا کہ فتح علی خان کا بیٹا ہے ہاتھ چلا ہی لے گا، گانا شروع ہوا تو پنڈت کو محسوس ہوا کہ وہ سخت الجھن میں ہے، نصرت کی انگلیاں بجلی کی طرح طبلے کے پڑوں پر تھرک رہی تھیں، وہ پنڈت کو یقین دلانا چاہتا تھا کہ میدان میں تمہارے مد مقابل فتح علی خان کا بیٹا ہے، سنبھل کے بول پکڑنا اور پنڈت گانا روک کر حیرت بھری نظروں سے نصرت کو دیکھ رہا تھا، آخر اس نے نصرت کو گلے لگایا، چوما، داد دی اور فتح علی خان سے کہا کہ
’’میں ہارا فتح علی خان ! تیرا یہ چھوٹا سا بیٹا بڑا گنی ہے‘‘
پنڈت دینا ناتھ کے ساتھ طبلے پر سنگیت کر کے نصرت کے دل میں یہ آرزو کروٹیں لینے لگی کہ سُرسنگیت کے سمندر میں ڈوبنا چاہیے کیوں کہ جو اس میں ڈوبے گا وہی پار اترے گا، حضرت شاہ اکبر داناپوری فرماتے ہیں کہ
ڈوب کر بحرِ محبت میں نکلنا کیسا
پار ہونے کی تمنا ہے تو ڈوبے رہنا
اس نے ڈوبنے کا خطرہ مول لینے کا پورا ارادہ کر لیا، ادھر فتح علی خان کو نصرت کی آنکھوں میں سُر کی پرچھائیاں دیکھ کر یقین ہو چکا تھا کہ یہ چیر پھاڑ کرنے والا ڈاکٹر نہیں بن سکتا بلکہ ہجر و فراق اور دلوں پر لگے زخموں کو سُر کی ٹھنڈی مرہم بخش سکتا ہے، چنانچہ اپنی آرزو کو مجبوری کی زمین میں دفن کر کے انہوں نے بیٹے کو سر سنگیت کے راز و اسرار سمجھانے شروع کر دیے، نصرت میٹرک کا امتحان پاس کر چکے تھے، چنانچہ اس نے کتابوں کے دروازے بند کر کے راگ راگنیوں کے دریچے کھولنے شروع کردیے، فتح علی خان نے زندگی بھر کا تجربہ اور ہنر نصرت کے سامنے رکھ دیا، سنگیت کے کٹھن اور مشکل راستوں کے خطرناک موڑ بتلائے مگر اس سفر میں فتح علی خان بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر اسے منزل تک نہ پہنچا سکے کہ موت نے دستک دے دی، فتح علی خان کی وفات پورے خاندان کے لیے ناقابل برداشت حادثہ تھی، مبارک علی خان اب تنہا تھا، قوالی ان کے خاندان کی پہچان تھی، اسے یہ روایت ختم ہوتے نظر آرہی تھی، کیوں کہ فتح علی خان ان کے دایاں بازو تھے، مبارک علی اور فتح علی دونوں مل کر قوالی کو LAED کرتے تھے، اکیلے یہ ذمہ داری نبھانا اس کے بس کی بات نہ تھی، اس ساری پریشانی میں اسے نصرت کا بالکل خیال نہ آیا بلکہ اس کے بارے میں سوچ کر اسے فکر ہوتی تھی۔
فتح علی خان کے شاگرد نصرت سے بالکل مایوس ہو چکے تھے، انہیں یقین تھا کہ قوالی کرنا نصرت کے بس کی بات نہیں، کچھ لوگ نصرت کی باریک آواز پر اعتراض کرتے، کچھ کا خیال تھا کہ جو موٹاپے کے ہاتھوں خود نہیں سنبھلتا وہ قوالی کو کیا سنبھالے گا، کچھ شاگردوں نے تو سر پیٹ لیا کہ چھ سالہ قوالی کی روایت فتح علی خان کے گھر سے رخصت ہوئی، ان مختلف آوازوں سے مبارک علی خان اور خود نصرت کو بہت الجھن ہوئی۔
نصرت کے بارے میں فتح علی خان کے شاگردوں اور دوستوں کی مایوس کن باتوں کا مبارک علی خان کے دل پر گہرا اثر ہوا، اسے پہلی بار محسوس ہوا کہ کہیں یہ ان کے گھرانے کے خلاف کوئی سازش تو نہیں، کہیں وقت کا ظالم نصرت کو مایوسی اور ناکامی کی دھند کی طرف تو نہیں لے جا رہا، ان تمام باتوں کو محسوس کر کے مبارک علی خان کے اندر حوصلے اور ارادے کی ایک آواز ابھری، وہ سوگ منانے والے لوگوں کے درمیان بیٹھا تھا، پھر نصرت کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ کھڑا کیا اور بلند آواز میں پکارا، نصرت کو موسیقی کی تربیت میں دوں گا، یہ بات سن کر لوگوں پر مایوسی چھا گئی اور نصرت کے چہرے پر یقین اور اعتماد کا سورج نمودار ہونے لگا۔
فتح علی خان کی وفات اور رسمِ چہلم کے درمیان کا وقت نصرت کے لیے ایک عذاب تھا، چاروں طرف سے ایک صدا ہی تیر بن کر اس کے دل میں اترتی تھی کہ یہ کیا گائے گا? گانا اس کے بس کا روگ نہیں، نصرت کے ساتھ ہر کوئی پریشان تھا، نہ گھر میں چین نہ باہر دل بہلتا، سب کو ایک ہی فکر کہ اب کیا بنے گا، نصرت کی ایک بہن اسے ایک نجومی کے پاس لے گئی جو بڑا کامل ہاتھ پڑھتا تھا، مستقبل کی کہانی کاغذ پر لکھ کر سامنے رکھ دیتا تھا، نصرت کا ہاتھ دیکھ کر کہنے لگا کہ ’’یہ بہت بڑا گویّا بنے گا، اس کے گانے کی چاروں طرف دھوم ہوگی‘‘
نجومی کی یہ پیشن گوئی بھی نصرت کی اداسی کم نہ کر سکی، وہ چند دنوں کے لیے علامہ اقبال کے ساتھ قصور چلا گیا، وہاں سے کوٹ رادھا کشن جہاں ایک میلے میں قوالی کا پروگرام ہو رہا تھا، وہاں بخشی سلامت قوال تھے جو نصرت کے پیتا کے شاگرد تھے، انہوں نے نصرت کو گانے کے لیے کہا مگر نصرت نے انکار کر دیا کہ مجھے گانا نہیں آتا، بخشی سلامت نے کہا کہ
’’تو اگر بادشاہ بھی بن جائے تو تجھے کوئی نہیں پہچانے گا، تیری پہچان فتح علی خان سے ہے جو برصغیر کا بہت بڑا گویّا تھا، تجھے گانا آنا چاہیے، اس کے بغیر تو کچھ نہیں‘‘
یہ بات سن کر نصرت کمرے میں چلے گئے، دروازہ بند کر کے مسلسل روتا رہا اور بڑ بڑاتا رہا کہ اگر میں گا نہیں سکتا تو میری پیدائش فتح علی خان کے گھر کیوں ہوئی اور پھر ایک انہونی بات جو شاید بہت کم لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے اور وہ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا نام تاریخ میں کسی نہ کسی فن کے حوالے سے زندہ رہتا ہے، ان لوگوں میں نصرت اور یہو خان اور یونان کے مشہور ڈرامہ نگار سو فیکلیز کا شمار ہوتا ہے، دونوں کو خواب ہی میں بڑا بننے کی بشارت ہوئی، دونوں کے دل میں فن خواب کی سیڑھیوں سے اترا، نصرت کو بھی ایک ایسے ہی خواب سے دو چار ہونا پڑا، ایک رات وہ بے سدھ ہوا تھا، خواب میں فتح علی خان آئے، اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک مزار پر لے گئے اور کہا کہ
’’میں اس مزار پر ساری عمر گاتا رہا ہوں، تم بھی گاؤ‘‘
نصرت نے گانا شروع کیا اور پھر فتح علی خان نے اسے سُر کے راستے پر ڈال کر اس کے گلے میں گیتوں کا رس نچوڑ دیا، خواب میں نصرت کو گانا سن کر سارا گھر اس کی چارپائی کے ارد گرد جمع ہوگیا جب نصرت گانا ختم کر چکا تو اسے نیند سے جگایا اور نیند میں گانے کی وجہ پوچھی، نصرت نے خواب کی ساری کہانی دہرا دی، گھر والے نصرت کا گانا اور مزار کا نقشہ سن کر چند لمحوں کے لیے حیران رہ گئے مگر یہ حیرانی تھوڑی دیر کی تھی۔
چہلم پر دستار بندی کی رسم در اصل باپ کے مرنے کے بعد بیٹے کو فنی اور گھریلو ذمہ داریاں سونپنے کی ایک رسم ہے، فتح علی خان کی رسمِ چہلم پر جب نصرت کے سر پر پگڑی باندھی گئی تو شاگردوں نے کہا کہ
’’گانا اسے کہاں آتا ہے، بس پگڑی باندھنے کا شوق پورا کر دو‘‘
ایک بار منگلا جھیل کے پار ایک گاؤں سے انہیں قوالی کا دعوت نامہ آیا، راستہ بڑا خطرناک تھا، ایک لانچ میں بیٹھ کر پہلے منگلا جھیل کراس کرنا تھی، اس کے بعد کچھ میلوں کا پتھریلا راستہ تھا، ساری پارٹی لانچ میں بیٹھی، چاروں طرف پانی دیکھ کر سب لوگ راگ راگنیاں بھول گئے، جھیل کے درمیان جا کر لانچ کا پیٹرول ختم ہوگیا، نصرت بچہ اور موٹا تھا، گھبرا گیا، کسی نہ کسی طریقے سے کنارے تک آئے، آگے راستہ پتھریلا، راستے میں کئی بار گرا کئی بار اٹھا آخر ایک جگہ تھک کر بیٹھ گیا اور زار و قطار رونے لگا، نصرت کے چچا سلامت علی خان نے نصرت کے شانے پر ہاتھ رکھا اور پیار سے کہا کہ
’’بس یہی علاقہ رہ گیا ہے جسے ہمارے خاندان نے فتح نہیں کیا، شاباش اٹھ ہمت کر‘‘
پارٹی کے ایک بزرگ ممبر عبدالستار نے سلامت علی خان سے کہا کہ
’’سبحان اللہ! آسان اور سر سبز علاقے تم بھائیوں نے فتح کر لیے، اس کے لیے یہ خطر ناک علاقہ بچا لیا کہ نصرت پیدا ہوگا تو فتح کرے گا، پہلے اس علاقے پر قبضہ کرلیا ہوتا، نصرت نے چچا کے کہنے پر ہمت باندھی، اٹھا اور پھر چلتا رہا اور مسلسل چلتے چلتے آج اس نے روس چین اور اسرائیل کے علاوہ سب علاقوں میں سلامت علی خان کے خاندان کا نام چمکا دیا ہے، اپنے شروعاتی زمانے میں نصرت کو ایسی ایسی مشکلات کا عملی سامنا کرنا پڑا کہ اگر اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو گانا چھوڑ گیا ہوتا لیکن نصرت نے اپنے چہرے پر کبھی ملال یا مایوسی کی سلوٹ نہیں آنے دی، مبارک علی خان جن کے ذمہ نصرت کی تربیت تھی وہ کبھی کبھی بے حد مایوس ہو جاتے تھے، ایک بار مبارک علی گھر کے باہر چار پائی پر بیٹھے کسی گہری سوچ میں گم تھے، چہرے پر عجیب تفکر کروٹیں لے رہا تھا، ’’عوام اخبار‘‘ فیصل آباد کے رپورٹر بشیر اعجاز آئے سلام کیا اور بیٹھ گئے، مبارک علی خان اسی طرح بیٹھے رہے، بشیر اعجاز نے نے چند لمحوں کے بعد پوچھا کہ
’’خان صاحب! خیریت ہے کس سوچ میں گم ہیں‘‘
مبارک علی نے بشیر اعجاز کو دیکھ کر کہا کہ
’’خیریت ہوتی تو یوں بیٹھتا۔۔ چھ سو سال سے قوالی کو ہمارے بزرگوں نے خون دے دے کر گل و گلزار کیا ہے، ہر عہد میں ہمارا کوئی نہ کوئی بزرگ نامور گائیکوں میں شامل رہا ہے لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے قوالی کا یہ باغ مرجھانے والا ہے‘‘
پھر مبارک علی بڑے غصے میں تن کر بیٹھ گیے کہ
’’لیکن ایک بات آپ ضرور یاد رکھیں، میں تو شاید وہ دن دیکھنے کے لیے زندہ نہ رہوں لیکن وہ دن ضرور آئے گا جب نصرت کا موٹا پا ہی اس کی شہرت کی وجہ بن جائے گا، یہ ساری دنیا پر اپنی گائیکی کا سکہ جمائے گا، آج جو اس کا مذاق اڑاتے ہیں کل یہی لوگ نصرت کی شہرت اور مقام دیکھ کر حیران رہ جائیں گے‘‘
خواب میں اجمیر شریف کا مزار دیکھنا اور مزار پر باپ کے حکم پر گانا نصرت کے لیے نیک شگون ثابت ہوا، سننے والوں نے یقین کر لیا کہ نصرت گاسکتا ہے اور قوالی میں آخر دم تک چلنے کا دم خم رکھتا ہے، چنانچہ اسے پارٹی میں باقاعدہ شامل ہونے کی اجازت مل گئی اور پھر وہ لمحہ بھی آگیا جس کا اسے انتظار تھا۔
ریڈیو پاکستان لاہور ہر سال 23 مارچ کو محفلِ موسیقی برپا کرتا تھا اور اسے جشنِ بہاراں کا نام دیا جاتا تھا، اس میں ملک کے نامور کلاسیکل گانے والے حصہ لیتے تھے، 23 مارچ 1965ء کو نصرت اپنی پارٹی کے ساتھ اس میں شامل ہوئے، شکور بیدل پروگرام کے پروڈیوسر تھے، رِہرسل جاری تھی، قوالی کی پارٹی کو نصرت کے چچا نوازش علی خان LEAD کر رہے تھے، پارٹی میں شامل افراد اپنی آوازوں میں اپنے LEADER کا ساتھ دے رہے تھے، رِہرسل دیکھنے والے ایک آواز سن کر ذرا سا چونکے، اس آواز کی اپنی انفرادیت تھی، ریاضت کی جھلک تھی، تربیت کا عُنصر پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ مجھے غور سے سنو۔۔۔ شکور بیدل نے ہاتھ کے اشارے سے رہرسل کو روکا اور سلامت علی خان سے کہا کہ
’’خان صاحب! آپ اس بچے سے قوالی LEAD کیوں نہیں کرواتے‘‘
نوازش علی خان اور دوسرے لوگوں نے ذرا سی ہچکچاہٹ کا اظہار کیا لیکن شکور بیدل کے اصرار پر مان گئے، وہ بچہ پچھلی صف سے نکل کر آگے آ بیٹھا، اپنے خدا کو یاد کیا اور اپنے سارے فن کو سمیٹ کر آواز لگائی، اس کے گلے سے نکلے سُر ہواوں میں چاروں طرف ستارے بن کر چمکنے لگے، اس کے اپنے ساتھوں کے چہرے کھل گئے، محفل میں بیٹھے نامور گانے والے بیگم روشن آرا، سلامت علی، نزاکت علی، امید علی، سردار خان نے ایک نئے اور بڑے فنکار کی پیدائش کی مبارک باد دی، ریڈیو سننے والے ایک نئی آواز سے متعارف ہوئے جن کے کان سُر کی باریکیوں سے آشنا تھے، اس جشنِ بہاراں میں نصرت کو پہلی پہچان ملی۔
نصرت کے خاندان میں قوالی کی روایت تقریباً 600 سالوں سے چلی رہی ہے، شروع میں ان کے پیتا نہیں چاہتے تھے کہ نصرت اس خاندانی پیشے کو اپنائیں، پاکستان میں نصرت کا پہلا تعارف اپنے خاندان کی روایتی رنگ میں گائی ہوئی ان کی ابتدائی قوالیوں سے ہوا، ان کی مشہور قوالی ’’علی مولا علی‘‘ انہی دنوں کی یادگار ہے، بعد میں انہوں نے لوک شاعری اور اپنے سمکالین شعرا کا کلام اپنے مخصوص انداز میں گا کر ملک کے اندر کامیابی کے جھنڈے گاڑے اور اس دور میں ’’سن چرخے مٹھی مٹھی کوک ماہی مینوں یاد آوندا’’ اور ’’سانسوں کی مالا پہ سمروں میں پی کا نام’’ نے بے گناہ شہرت حاصل کی اور یوں نصرت کا دائرہ بڑا ہوتا گیا۔
1964ء میں نصرت نے 16 برس کی عمر میں اپنے پیتا کے چہلم کے موقع پر زندگی میں پہلی بار پرفارمنس دی، پیتا کی وفات کے بعد انہوں نے موسیقی کی تربیت اپنے چچا مبارک علی خاں اور سلامت علی خاں سے حاصل کی، 1971ء اپنے چچا مبارک فتح علی خاں کی وفات کے بعد وہ قوالی پارٹی کے سرپرست بنے۔
فتح علی خان اور مبارک علی خان کی وفات کے بعد اس گھرانے سے قوالی کا سلسلہ بند نہیں ہوا تھا، ان دونوں کے بعد سلامت علی خان قوالی کو LEAD کرتے تھے، نصرت قوالی میں شامل ہوتے تھے لیکن ان کی حیثیت کرکٹ کے بارھویں کھلاڑی جیسی تھی، قوالی کے شروع میں نصرت ایک آدھ SOLO پروگرام کرتے تھے، اس کے بعد ان سے کہا جاتا کہ گاڑی میں جا کر سو جاؤ، قوالی تمہارے بس کا روگ نہیں ہم خود کر لیں گے، نصرت بادل ناخواستہ گاڑی میں جا کر لیٹ جاتا اور جب ساتھیوں کی آواز اس کے کان پڑتی تو دو ایک ہی بات سوچتا کہ ’’میں اس پارٹی کا اہم رکن کب بنوں گا‘‘
نصرت استاد فتح علی خان کے بیٹے ضرور تھے لیکن ان کی شہرت کمانے کے لیے بہت پاپڑ بیلے، بڑا کشٹ کاٹا، بڑے کنوئیں جھانکے، راستوں کی بڑی گرد پھانکی، بڑے دکھ جھیلے، بڑی باتیں سنیں، طنزیہ نگاہوں کے بے شمار تیر سینے پر کھائے تب جا کر پتھر دل موم ہوئے، اس کے لیے نصرت نے بھیک نہیں مانگی انسانوں کے آگے دامن نہیں پھیلایا، اپنے فن کا بازار لگا کر ہنر اور کلا کی نمائش کی، خریدار آئے، مال دیکھا، پسند کیا، خریدا اور اس طرح نصرت ملک میں دور دور تک مشہور ہوتے گیے، نصرت کے آغاز کا زمانہ در اصل غلام فرید صابری کے عروج کا زمانہ تھا، ہر طرف غلام فرید کا نام اور کام داد حاصل کر رہا تھا، ’’تاجدارِ حرم‘‘ کی قوالی خاص و عام کی پسند بن چکی تھی، نصرت کے سامنے یہ بہت بڑا مرحلہ تھا جو انہیں سر کرنا تھا لیکن ان کی سوچ منفی نہیں تھی، وہ فن کے ذریعے برابری کا طلب گار تھے۔
کہتے ہیں کہ نصرت نے انگریزی کا علم واصف علی واصفؔ سے پڑھنے جایا کرتے تھے، گھر کی طرف سے واصف صاحب کو یہ بتلایا گیا تھا کہ نصرت کو قوال پڑھنے پر زیادہ زور دلایا جائے تاکہ وہ اس فن کو بخوبی سیکھ سکیں، واصف صاحب نے شروعاتی دنوں میں نصرت کو حضرت داتا گنج بخش کی شان میں ایک منقبت ’’داتا کے غلاموں کو اب عید منانے دو‘‘ لکھ کر دیا اور کہا کہ اس مرتبہ دتا صاحب کے عرس کے موقع پر یہی پڑھنا، کہتے ہیں کہ نصرت نے جب عرس میں پڑھنا شروع کیا تو محفل لوٹ لیا اور دوسرے دن بوری میں بھر کے پیسے واصف صاحب کے قدموں میں ڈال دیا، واصف صاحب نے اس بوریے سے دو ایک نوٹ نکالے اور سب واپس کر دیئے، اس کے بعد واصف صاحب کا لکھا ’’نعرۂ مستانہ‘‘ اور ’’ہر چہرے میں آتی ہے نظر۔۔۔‘‘اور ’’ہے دل میں عشقِ نبی کا جلوہ، نظر میں داتا سما رہے ہیں‘‘ نے بھی کافی مقبولیت حاصل کی، نصرت نے علامہ اقبال کا شکوہ اور جوابِ شکوہ اپنے پیتا کی طرز پر پڑھ کر اسے ایک نیا موڑ دیا، انہوں نے امیر خسرو، میراں بھیک، بیدم شاہ وارثی، ناطق گلاوٹھی، حسرت موہانی، ظفر علی خاں، جگر مرادآبادی، ہری چند اختر، قمر جلالوی، شکیب جلالی، خادم اجمیری، عالم لکھنوی، ناصر کاظمی، ساغر صدیقی، حفیظ جالندھری، عالم لکھنوی، احسان دانش، صبا اکبرآبادی، طفیل ہوشیار پوری، سیف الدین سیف، اقبال صفی پوری، قیصرالجعفری کے علاوہ پیر نصیرالدین نصیر اور ان کے پیتا پیر غلام معین الدین مشتاقؔ گولڑوی، ناصر کاظمی، ناز خیالوی، راغب مرادآبادی، صائم چشتی، مظفر وارثی، عبدالستار نیازی، محمد علی ظہوری، ساجد چشتی مہروی، خالد محمود نقشبندی، بشیر فاروقی، عبدالحمید عدمؔ، نازاں شولہ پوری، صہبا، انور، بسمل، ابنِ انشا، فیض احمد فیضؔ، سلیم کوثر، احمد فراز، پروین شاکر، ایس، ایم صادق، جاوید اختر وغیرہ کے کلام خوب پڑھے ہیں۔
اسی طرح فارسی کلام میں مولانا جلال الدین رومی، عبدالرحمٰن جامی، بو علی شاہ قلندر، امیر خسرو، شاہ نیاز احمد بریلوی، حکیم نذر اشرف وغیرہ کی غزلیں اور پنجابی کلام میں شاہ حسین، سلطان باہو، بلہے شاہ، پیر مہر علی چشتی، بری نظامی وغیرہ کے کلام بھی کثرت سے پڑھے ہیں، نصرت نے ایران کے مشہور گلوکار ہمایوں شجریان کے ساتھ رومی ایک غزل پڑھی ہے جسے موجودہ وقتوں میں کافی پسند کیا جاتا ہے
اس دوران نصرت کی قوالیوں میں دو ایسے شعرا ہیں جن کی غزلیں نصرت نے شاید سب سے زیادہ پڑھی ہو، وہ فنا بلند شہری اور پرنم الہ آبادی ہیں، بلکہ یہ کہیے کہک فنا نے تو نصرت کے مزاج کا کلام بھی لکھنا شروع کر دیا تھا، فنا سے نصرت کے روحانی تعلقات بھی تھے، اس کی وجہ یہ ہے کہ نصرت اور فنا دونوں شاہ نقیب اللہ جہاں گیری سے عقیدت رکھتے تھے اور پرنم کا تو نصرت کے گھر آنا جانا تھا۔
نصرت کو گولڑہ شریف سے بڑی عقیدت تھی، وہ ہاں برابر جایا کرتے اور قوالی عرس کی محفل میں پڑھا کرتے، گولڑہ کے سجادہ نشیں پیر نصیرالدین نصیر کے کئی کلام انہوں نے پڑھے ہیں جو کافی مقبول ہوئے، اسی طرح معروف صوفی شاعر صائم چشتی کیسنگت اور فیض نے نصرت کو شہرت و عظمت کی بلندیاں عطا فرما دیں۔
نصرت کو بارگاہ مولیٰ علی میں پہنچانے والے صائم چشتی ہی تھے، نصرت خود کہتے تھے کہ میری پہچان حضرت صائم چشتی کا کلام ہے، انہوں نے B.B.C کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ حضرت صائم چشتی کی قوالی ’’حق علی علی مولا علی علی‘‘ ہی میری اولین پہچان ہے۔
صائم چشتی نے ہر موقع پر نصرت کی روحانی رہنمائی فرمائی، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مبارک علی خاں جو نصرت کے چچا تھے، انہوں نے اپنی شدید بیماری کے دوران نصرت کا بازو آپ کے ہاتھوں میں دے کر کہاتھا کہ مجھ سے وعدہ فرمائیں میرے بعد آپ نصرت کے بازو کو تھامے رکھیں گے، چنانچہ حضرت صائم چشتی نے نصرت کی ہر موڑ پر روحانی مدد فرمائی۔
نصرت کو ’’شہریارِ موسیقی‘‘ کا لقب اور تاجپوشی آپ ہی نے دھوبی گھاٹ کے گراونڈ میں فرمائی۔
نصرت کا خاندان اور آپ کی پارٹی کے جو اراکین اس وقت زندہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ خصوصاً داتا صاحب، بابا صاحب، نوری بوری سرکار اور خواجگانِ چشت میں حاضر ہونے کے وقت نصرت بطور خاص آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور نیا کلام لکھواتے۔
نصرت نے صائم چشتی کو بتایا کہ جب ہم دورۂ یورپ کے لیے گئے تو قوا لی ’’حق علی علی علی، مولا علی علی‘‘ سن کر انگریز مست ہوگئے اور وہ ہمارے ساتھ ہی علی علی کر نے لگے۔
نصرت یورپ میں قوالی پڑھ رہے تھے کہ اقبال صفی پوری کے ایک مصرعہ پر بحث چھڑ گئی۔
’’عصمت توبہ کو ٹھکرانے کا موسم آگیا‘‘
کو کچھ لوگوں نے یہ کہہ کر پیش کیا کہ نصرت نے شعر یوں پڑھا ہے۔
’’عصمت کعبہ کے ٹھکرانے کا موسم آگیا‘‘
اس بات پر پشاور میں جلوس نکالے گئے، نصرت کو برا بھلا کہا جانے لگا بلکہ ان کو قتل کی دھمکیاں ملنے لگیں، نصرت نے ٹیلیفون پر صورتحال سے صائم چشتی کو آگاہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ
’’نصرت! وطن واپس آجائیں علی علی کہنے والوں کو کچھ نہیں ہوتا‘‘
صائم چشتی نے نصرت کی قوالی جس کی وجہ سے لوگوں میں بڑا شور و غوغا تھا، نصرت کا دفاع کیا اور ’’نوائے وقت‘‘ اور دوسرے پیپروں میں مضامین لکھے، آپ کے مضمون کا عنوان تھا۔
’’نصرت فتح علی خان اور عصمتِ توبہ‘‘
آپ نے ہمیشہ نصرت کی نصرت فرمائی، اسی لیے تو ایک مقطع میں صائم چشتی نے فرمایا کہ
یہ نصرت کی نصرت یہ صائمؔ کی عزت
تمہارا ہی فیضان گنجِ شکر ہے
جس روز نصرت کی وفات کی خبر صائم چشتی کو ملی تھی، آپ نے اسی وقت تاریخِ وصال بہ حساب ابجد رقم فرمائی جسے اخبارات و میگزین میں شائع کیا گیا، وہ تاریخ یہ تھی۔
’’ہے ہوگیا غروب موسیقی کا آفتاب‘‘
صائم چشتی کے کئی کلام اردو اور پنجابی میں نصرت نے پڑھے ہیں جسے کافی مقبولیت ملی ہے۔
راقم نے یہ دوعویٰ بالکل نہیں کیا ہے جو کچھ ہے وہ سب یہی ہے بلکہ اس کے علاوہ نصرت نے کئی کلام پڑھے ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں، اس میں انہیں کلام کو جگہ دی گئی جن تک رسائی بہت آسانی سے ہوگئی یا پھر یہ کہیے کہ یہ عوام میں زیادہ مقبول ہے، شاید یہ اپنی نوعیت کا پہلا ایسا کام ہوگا جو نصرت کے اوریجنل ٹیسکٹ کو کتابی صورت میں لانے کا کام ہے، بعض قوالیاں لیرکس کے طور پر شامل کی گئی مگر زیادہ تر قوالی اور غزلوں کو اس کی اصل صورت میں شامل کیا گیا نہ کہ نصرت کہ ایکسٹرا بول اور لٹکن کو بھی جگہ دی گئی ہے۔
1958ء کے مارشل لا کے بعد ایوب خان نے حکومت سنبھالی تو بہت سی انتظامی اصلاحات میں محکمہ اوقاف کی تشکیل بھی تھی، اس محکمے نے وجود میں آتے ہی پاکستان کے تمام مشہور درگاہوں کو سرکاری تحویل میں لے لیا، اس سے یہ سے یہ ہوا کہ مزاروں سے ہونے والی تمام آمدنی کا حساب کتاب گورنمنٹ کے ہاتھ میں آگیا، نذرانوں کی صندوقیچیوں پر تالے پڑگئے، جس سے درگاہوں کی پرانی انتظامیہ کے اختیارات محدود ہوگئے، حکومت اور ان کے درمیان کبھی کبھی رنجش اور ناراضگی کی گرہ بھی پڑ جاتی تھی، پاکپٹن میں حضرت بابا فریدالدین گنجِ شکر کی درگاہ برصغیر کے مشہور درگاہوں میں سے ایک ہے، جب اس کو تحویل میں لینے کا مسئلہ پیش آیا تو نصرت کے والد فتح علی خان نے حکومت کا ساتھ دیا، درگاہ کے متولی دیوان صاحب کو یہ بات ناگوار گزری اور فتح علی خان کے ساتھ ان کے تعلقات ذرا سا کشیدہ ہوگئے اور فتح علی خان نے بابا فرید کی درگاہ پر جانا چھوڑ دیا لیکن جب نصرت کی آواز چاروں طرف گونجی تو یہ رنجش ختم ہوگئی اور نصرت پہلی بار دیوان صاحب کی دعوت پر پاکپٹن گئے، پاکپٹن میں پورے ملک کے قوال نذارنۂ عقیدت پیش کرنے کے لیے حاضر ہوتے تھے لیکن وہاں طوطی صرف فرید صابری کا بولتا تھا، ہر قوال پارٹی ان کی شہرت سے تقریباً مایوس تھی، پاکپٹن میں غلام فرید صابری آکر میلہ لوٹ لیتے تھے اور ان کے جانے کے بعد پنڈال خالی ہو جاتا تھا، خوف زدہ ہونے کی اصل وجہ یہ تھی کہ جب وہ قوالی کر کے رخصت ہوتے تو ان کے ساتھ ہی سب لوگ اٹھ کر چلے جاتے تھے، نصرت اس بات سے پوری طرح واقف تھے۔
غلام فرید صابری اپنی پارٹی کے ساتھ آئے، نہایت شان سے قوالی کا سماں پیدا کیا، چاروں طرف سے داد وصول کی اور محفل لوٹ کر رخصت ہوگئے، ان کے ساتھ لوگ بھی اٹھے اور پنڈال میں دور دور جاکر آرام کرنے لگے، غلام فرید صابری کے بعد نصرت کو وقت دیا گیا، ان کے سامنے چند آدمی بیٹھے تھے، قوالی شروع ہوئی، نصرت کی آواز نے آرام کرنے والوں کو بے چین کر دیا، وہ سب پہلو بدل کر اٹھے اور پھر غلام فرید صابری کے ساتھ جانے والے سارے لوگ نصرت فتح علی خان کے سامنے آبیٹھے، اس کی انوکھی گائیکی کے طلسم میں اسیر ہونے کا اعلان کر رہے تھے، اس دن کے بعد سے نصرت کی شہرت کا گراف تیزی کے ساتھ بلندی کی طرف بڑھنا شروع ہوگیا اور وہ اپنے سمکالین فنکاروں سے کہیں آگے نکل گیے۔
نیشنل آرٹ کونسل اسلام آباد کا ’’جشنِ امیر خسرو‘‘ قوالی کا ایک یادگار جلسہ تھا، اس محفل میں قوالی کی 700 سالہ روایت کو تازہ کیا جاتا تھا، یہ بڑی خوبصورت اور پُروقار تقریب تھی، پورے ملک کے نامور قوال اس میں شرکت کر رہے تھے، منظور نیازی، بہاؤالدین اور غلام فرید صابری ان میں آگے آگے تھے، نصرت کو دعوت نامہ ملا مگر ذرا دیر کے ساتھ۔۔۔ یہ اپنی پارٹی کے ساتھ وہاں پہنچے تو عجیب سماں تھا، سب قوال پارٹیاں دو دو تین تین دن پہلے پہنچ چکی تھیں اور اپنے اپنے آئٹم منتخب کر لیے تھے، شرط یہ تھی کہ صرف حضرت امیر خسرو کا کلام پڑھا جائے گا، نصرت جس آئٹم کا نام لیتے، جواب ملتا کہ
یہ منظور نیازی گائیں گے!
نصرت کوئی اور نام لیتے تو جواب آتا کہ
یہ غلام فرید صابری گائیں گے!
ایک ایک کر کے سب آئٹم لوگوں کے حصے میں آگیے، نصرت سوچ میں پڑگئے لیکن گھبرائے نہیں، یہ ان کے لیے امتحان کا موقع تھا، خاندانی قوال تھے، یادداشت کے پنّے پلٹے، خاندانی ورثے کی طرف نظر دوڑائی جو بزرگوں سے سیکھا تھا، اس کا جائزہ لیا، پرانی بندشوں کو یاد کیا اور پھر ایک ایسا گوہرِ نایاب سامنے رکھ دیا جو کسی قوال نے پہلے نہیں دیکھا تھا اور جو صرف نصرت کے خاندان کو یاد تھا، یہ امیر خسرو کا ایک نایاب شاہکار تھا۔
میں تو پیا سے نیناں ملا آئی رے
گر ناری گنواری کہے سو کہے
میں تو پیا سے نیناں ملا آئی رے
اس محفل کے سیکرٹری ملک سجاد حیدر کہتے تھے کہ نصرت نے جو گایا وہ سب لوگوں اور قوال حضرات کے لیے بھی بالکل نئی چیز تھی، اس کے بعد نصرت نے راگ ساز گیری گایا، ہال بے خود ہوگیا، چاروں طرف نصرت نصرت کی صدا تھی، لوگ نصرت کو اسٹیج سے جانے نہیں دے رہے تھے، یہاں نصرت نے ’’حق علی، علی‘‘ کی قوالی شروع کی تو سننے والے بے قابو ہوگئے، ایک روحانی اثر چاروں طرف پھیل گیا، ہال کا ہر آدمی کلام اور گائیکی کے جادو میں بے خود ہونے لگا، فیض احمد فیض، عبدالحفیظ پیرزاده، خالد سعید بٹ، یوسف بچ اور محمد علی وغیرہ اسٹیج پر آگئے ان سب نے مل کر تال دینا شروع کی، پورا ہال ساتھ شامل ہوگیا، حضرت امیر خسرو موسیقی اور نصرت کے انداز نے سب کو گرویدہ بنا لیا۔
نصرت نے قوالی کی مشکل ترین صنف قول قلیانہ جو 5 تالوں میں تقسیم ہوتا ہے اور جو عام قوالوں کے بس کی بات نہیں جیسے صرف خاندانی قوال گا سکتے ہیں کیوں کہ قوالوں کے لیے قوال قلیانہ گانا، پل صراط سے گزرنا ہے، گایا تو لوگ دنگ رہ گئے، اب نصرت اس منزل کے بالکل قریب آگئے تھے جس کی طرف انہوں نے فتح علی خان کے چہلم پر پہلا قدم بڑھایا تھا۔
نصرت کی چار بڑی بہنیں اور ایک چھوٹے بھائی فرخ فتح علی خاں تھے، فرخ ان کے ساتھ گاتے بجاتے تھے، وہ ان دو لوگوں میں سے ایک تھے جو اس تمام عرصہ کے دوران میں پارٹی کے ساتھ رہے، وہ پارٹی کے بنیادی ہارمونیم نواز ہونے کے ساتھ ہمنوائی بھی کیا کرتے تھے، ہارمونیم کی تمام سپتکوں پر مہارت اور چشم زدن میں دھن بدلنے کی صلاحیت کی بنیاد پر انہیں بجا طور پر اپنے پیشے میں بہترین قرار دیا جا سکتا ہے، جب وہ نصرت کے ہمراہ انگلستان کے دورے پر گئے، تب سے انہیں ہر جگہ ہارمونیم راج صاحب کے خطاب سے جانا جانے لگا، ان کی مہارت اور قابلیت بالعموم نصرت کی آواز کے پسِ منظر میں بجانے کی بنا پر ظاہر نہ ہو پاتی، 1989ء میں پاکستان ٹیلی ویژن کے ساتھ انٹرویو میں نصرت نے خلاصہ کیا کہ ان کی گائی گئی اکثر قوالیوں کی موسیقی فرخ ترتیب دیا کرتے تھے، ان کا نام کئی البموں مثلاً ’’شہنشاہ‘‘ میں بطور موسیقار درج کیا گیا۔
1964ء کی دہائی میں فیصل آباد کے بزرگ حضرت محمد بخش ’’لسوڑی شاہ‘‘ کی درگاہ پر نصرت نعتیہ اور صوفیانہ کلام پڑھا لیکن کسی کو کیا معلوم تھا کہ یہ نوجوان دنیائے موسیقی میں ’’شہنشاہِ قوال‘‘ بن جائے گا، یہ کم عمر لڑکا اپنے سُروں کی پختگی اور لے کی اُٹھان میں اتنی مہارت رکھتا تھا کہ اسے سننے والے اس کے سحر میں کھو جاتے تھے، نصرت نے بچپن ہی سے موسیقی کو اپنا جنون بنا لیا تھا اور صرف 10 برس کی عمر میں ہی وہ طبلہ بجانے پر کمال کی مہارت حاصل کر چکے تھے، ایک واقعہ کا ذکر کرتا چلوں کہ
نصرت جب دس گیارہ برس کے تھے تو ایک قوالی کی محفل میں کوئی طبلہ نواز نہیں مل رہا تھا جس پر نصرت کو طبلہ بجانے کے لیے کہا گيا، وہاں انہوں نے ایسی پرفارمنس دی کہ گانے والا تھک گیا لیکن نصرت نہیں تھکے اور سننے والوں پر انہوں نے ایک سحر طاری کر دیا۔
نصرت ایک مخلص انسان تھے، صوفیوں کی چوکھٹ کے فقیر، گلی گلی صدا دیتے پھرتے کہ اسے دکھ میں ہی نہ پکارو، سکھ میں بھی پکارو یہی بہتر بندہ ہونے کے نشانی ہے۔
دکھ میں سب سمرن کریں، سکھ میں کرے نا کوئے
سُکھ میں جو سمرن کریں، دکھ کا ہے کو ہوئے
نصرت کی ٹیم میں 10-11 لوگ شامل تھے، عطا فرید، اسد، مجاہد مبارک، دلدار حسین، محمد اقبال نقیبی وغیرہ یہ لوگ پرانے وقتوں سے نصرت کے ساتھ رہے، ان کی قوالی کی کمائی کا 20 حصہ ہوتا تھا جس میں 8 حصہ پارٹی میں شامل آدمیوں کو ملتا، 2-2 حصہ نصرت اور فرخ کا ہوتا، ایک راحت اور ایک ان کے سیکریٹری حاجی اقبال نقیبی کو ملتا، 3 حصہ بہنوں کا ہوتا اور 2 حصہ دو مرحومین کو ملتا جو ان کے ساتھ پہلے کام کرتے تھے۔
یہ بھی جاننا ضرروی ہے کہ نصرت نے کئی پروگرام بالکل فری کیے ہیں، جہاں انہیں ضرورت ایسی محسوس ہوئی وہاں انہوں نے ایک روپیہ تک نہیں لیا۔
نصرت نے موسیقی کو عبادت سمجھ کر سیکھا ہے، اس کے سُروں میں خدا، نبی، علی کے ناموں کی خوشبوؤں نے مل کر سُروں کی عظمت اور زندگی کو امر بنا دیا ہے، یہ موسیقی روحانی ساز یہ ہے کہ جب یہ فضا میں پھیلتا ہے تو سننے والے عقیدت کی دہلیز پر دل رکھ دیتے ہیں، یہ سب خدا کے ذکر کی تاثیر ہے، سات سُروں کا کوئی کمال نہیں۔
نصرت کہتے ہیں کہ
’’سُروں کی چِٹھیوں پر خدا کا نام اور پیغام لکھ کر دلوں کے لیٹر بکس میں ڈالتا ہوں، آواز کے پروں پر امن کی تصویریں بنا کر فضا میں سجاتا ہوں، میرا مولیٰ مجھ پر کرم کرتا ہے، اوقات سے زیادہ دیتا ہے، شہرت عزت سے جھولی بھر دیتا ہے اور میری پلکیں شکرانے کے آنسوؤں سے بھیگ جاتی ہیں‘‘
قوالی پارٹی کے سرپرست کے طور پر نصرت کی پہلی عوامی پرفارمنس ریڈیو پاکستان کے زیرِ اہتمام انوول میوزک فیسٹیول کے ذریعے ایک اسٹوڈیو ریکارڈنگ تھی، فیصل آباد کے مشہور جھنگ بازار کے ایک دربار سے اپنے فنی سفر کا آغاز کرنے والے نصرت پر میاں رحمت کی نظر پڑی جو فیصل آباد میں گراموفون ریکارڈز کی دکان کے مالک تھے، ان کے فتح علی خاں کے ساتھ پہلے سے مراسم تھے۔
میاں اسد جو رحمت گراموفون ریکارڈنگ اسٹوڈیو کے مالک میاں رحمت کے بیٹے ہیں، نصرت کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ان کی کئی ایسی یادیں ہیں جو آج بھی ان کے ذہن کے دریچوں میں تازہ ہیں، ان کے پیتا میاں رحمت نصرت کے گھرانے کو 1960ء کی دہائی سے جانتے تھے کہ
’’سب سے پہلے میرے پیتا کی ملاقات نصرت کے والد فتح علی خاں سے ہوئی تھی جو اس وقت فیصل آباد کے مشہور قوال تھے۔۔۔ نصرت سے میرے پیتا کی دوستی تو ان کے بچپن سے ہی تھی مگر 70 کی دہائی میں جب انہوں نے باضابطہ طور پر اپنے چچا مبارک علی خاں کے انتقال کے بعد اپنے قوال گھرانے کی سرپرستی سنبھالی تو میرے پیتا نے نصرت کو بطور فنکار نوٹس کرنا شروع کیا‘‘
میاں اسد کا کہنا ہے کہ
’’شروع میں نصرت فیصل آباد کے ایک صوفی سائیں محمد بخش لسوڑی شاہ کے دربار پر نعتیہ کلام پڑھتے اور قوالی گایا کرتے تھے، ان کا گھر بھی اس درگاہ کے سامنے ہی تھا‘‘
اجمیر شریف کی زیارت نصرت خواب میں تو کر چکے تھے، اب صرف وہاں جاکر عقیدت کے پھول سروں کے طشت میں سجا کر پیش کرنا باقی تھا، حاضری کی خواہش دل میں مچل رہی تھی، نصرت اپنے خواب کا ہو بہو نقشہ دیکھ کر حیران رہ گئے، انہوں نے وہ جگہ بھی دیکھی جہاں فتح علی خان نے نصرت کو بیٹھ کر گانے کے لیے کہا تھا، نصرت روتے ہوئے اس جگہ پر بیٹھ گئے، خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کی مینجمنٹ نے کہا کہ
’’اندر آکر قوالی شروع کیجیے‘‘
نصرت نے جواب دیا نہیں میں اسی جگہ بیٹھ کر گاؤں گا، جس جگہ بیٹھ کر خواب میں گایا تھا‘‘
چنانچہ نصرت اور ساتھیوں نے اسی جگہ قوالی کی، نصرت کا ہنر ایسا نکھرا کہ چاروں طرف روحانی فضا طاری ہو گئی، دلوں کی دھڑکنیں رک گئیں اور آنکھیں آبدیدہ ہوگئیں، خواب حقیقت بن گیا اور نصرت کا نام سننے والوں کے دلوں پر نقش ہوگیا۔
حضرت امیر خسرو کی درگاہ سُر اور لے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا جذباتی مرکز ہے، ہر گانے والے کا عقیدہ ہے کہ امیر خسرو کے مزار کی مٹی پھانک کر سُر میں گانے لگتے ہیں، ہندوستانی موسیقی اور قوالی میں امیر خسرو کی ایجادات اور اختراع حیرت انگیز ہے، انہوں نے راگ تشکیل دئیے، بول لکھے، گیت، غزل اور ٹھمریوں کے مزاج کے مطابق راگنیوں میں تجربے کیے، چنانچہ گویّا ان کی درگاہ کو بے حد عقیدت کی نظر سے دیکھتا ہے اور بڑی عقیدت سے حاضری دیتا ہے۔
نصرت حضرت امیر خسرو کی درگاہ پر پہنچے تو ان کے اندر چھپے موسیقی کے سارے راز و اسرار مچل اٹھے، ہندو پاکستان کے نامور چیدہ چیدہ قوال جمع تھے، سُر شناس کان اور لے کار دماغ موجود تھے، ہر کوئی اپنے آپ پر نازاں تھا اور بڑھ چڑھ کر امیر خسرو کے حضور اپنا کلام پیش کر رہا تھا، نصرت نے اپنے گھرانے کی پوری روایت کو اپنی گائیکی میں شامل کر کے قوالی شروع کی اور انجام تک پہنچتے پہنچتے سحر ہو گئی، مضمون کی ادائیگی، لے کے کمال سُر کے رچاؤ اور کلاسیکل موسیقی کی پیوندکاری نے ایسا سماں باندھا کہ سب کے ہونٹوں پر نصرت کا نام لہرا گیا، نصرت کو امتیازی حیثیت دی گئی، اسے بہترین قوال کا انعام اور اعزاز دیا گیا، محفل سماع کے شائقین نصرت کا نام جپنے لگے اور پورا ہندوستان ان کے نام سے آشنا ہو گیا۔
دوسرا دورہ راج کپور نے اپنے بیٹے رشی کپور کی شادی کے موقع پر ممبئی آنے کے لیے تھا، یہ دوسرا موقع تھا کہ جب نصرت پاکستان سے باہر پروگرام کرنے جارہے تھے، وہاں لوگوں نے انہیں بہت ہلکے میں لیا، زیادہ توجہ نہیں اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ انہیں کوئی جانتا نہ تھا، شادی کا فنکشن بہت زور دار تھا، نصرت کے سننے والوں میں دلیپ کمار، نوشاد، دیو آنند، بھارت بھوشن، سائرہ بانو، رشی شمی کپور، سنجے خان، کلیان جی، لکشمی کانت، پیارے لال، آر-ڈی برمن، مناڈے سب ہی تھے، نصرت کے گانے سے پہلے نوشاد صاحب نے ان کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میں ان کے والد فتح علی خاں اور ان کی گائیکی سے تو اچھی طرح واقف ہوں لیکن میں انہیں پہلی بار سن رہا ہوں، کیا عرض کروں۔
نصرت نے نوشاد صاحب سے کہا کہ
’’نوشاد صاحب! آپ ہمارے بارے میں ہمارا گانا سن کر کچھ فرمائیے گا‘‘
نصرت نے قوالی شروع کی، محفل میں بہت سے لوگوں کو یقین تھا کہ نصرت محض ایک قوال ہے اس کا کلاسیکی موسیقی سے کیا تعلق، نصرت اس بات کو پا گئے تھے، چنانچہ انہوں نے اپنی قوالی کی بنیاد ہی کلاسیکل راگ پر رکھی، ایک راگ میں کئی راگ ملائے قوالی آہستہ آہستہ آگے بڑھی، جنہیں جانے کی جلدی تھی، وہ رک گئے جو انہیں قوال سمجھتے تھے، وہ نصرت کی گائیکی کے قائل ہوگئے، رات ڈھلتی گئی، راگوں کی شکلیں بدلتی رہیں، نصرت گاتے رہے اور صبح ہو گئی، نصرت چھ گھنٹے گاتے رہے اور گانے کے خاتمے پر نوشاد صاحب نے مائک ہاتھ میں لے کر مسلسل ایک گھنٹہ نصرت کی گائیکی کو ایک منفرد اور بے مثل گویا قرار دیا، بس یہاں سے نصرت کی گاڑی چل پڑی، پھر اورینٹل سٹار ایجنسیز، برمنگھم، انگلینڈ نے 1980ء کی دہائی میں ان کے ساتھ معائدہ کیا، نصرت نے یورپ، ہندوستان، جاپان، پاکستان اور امریکہ میں کئی فلمی البمز ریلیز کیے، وہ مغربی فنکاروں کے ساتھ تعاون اور تجربات میں مصروف رہے اور ایک مشہور انٹرنیشنل میوزک آرٹسٹ بن گئے، انہوں نے 40 سے زیادہ ممالک میں پرفارم کیا، قوالی کو مقبول بنانے کے علاوہ انہوں نے جنوبی ایشیائی موسیقی پر بھی گہرا اثر ڈالا اور انہوں نے پاکستانی پاپ، ہندوستانی پاپ اور بالی ووڈ موسیقی کو بھی جدید استوار پر لے کر آئے، نصرت کو 2016ء میں ایل اے سات روزہ نے اب تک کا چوتھا بڑا گلوکار بتایا گیا تھا۔
1985ء میں نصرت نے لندن میں میوزک، آرٹس اینڈ ڈانس فیسٹیول (WOMAD) میں پیشکش کی، انہوں نے 1985ء اور 1988ء میں پیرس میں پرفارم کیا، انہوں نے پہلی بار 1987ء میں جاپان فاؤنڈیشن کی دعوت پر جاپان کا دورہ کیا، جاپان میں 5ویں ایشیائی روایتی پرفارمنگ آرٹ فیسٹیول میں پرفارم کیا، انہوں نے 1989ء میں بروکلین اکیڈمی آف میوزک، نیویارک میں بھی پرفارم کیا، جس سے انہیں امریکی سامعین سے داد ملی، نصرت کو اپنے پورے کرئیر میں، عالم لوہار، نور جہاں، آشا بھوسلے اور لتا منگیشکر جیسے کئی جنوبی ایشیائی گلوکاروں اور موسیقاروں کے ساتھ کام کیا، 1988ء میں نصرت نے پیٹر گیبریل کے ساتھ دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ کے ساؤنڈ ٹریک پر کام کیا جس کی وجہ سے ان کو گیبریل کے البم ’’حقیقی دنیا‘‘ کے لیے سائن کیا گیا، انہوں نے ’’حقیقی دنیا‘‘ البم کے ذریعے روایتی قوالی کے پانچ البمز ریلیز کیے اور مزید البمز مست مست (1990)، نائٹ سونگ (1996) اور ریمکس البم اسٹار رائز (1997) پر بھی کام کیا، بریٹین میں پرفارمنس 1989ء میں اورینٹل سٹار ایجنسیز لمیٹڈ کے ذریعے شروع کی، نصرت نے موسیقار اینڈریو کرسٹی اور پروڈیوسر جانی ہینس کے ساتھ زیلا ریکارڈنگ اسٹوڈیوز میں ’’فیوژن‘‘ ٹریکس کی ایک سیریز پر تعاون کیا جس نے نصرت اور پارٹی کو بگ ورلڈ کیفے کے چینل 4 کرسمس اسپیشل میں شامل کیا، 1989ء میں نصرت نے سلوو کے ایک سکھ گوردوارے میں سکھ عقیدت کی موسیقی پیش کی، مسلمانوں کی سکھ مندروں میں بھجن کرنے کی روایت کو جاری رکھا۔
1990ء میں بی بی سی نے نیٹ ورک ایسٹ نصرت کے لیے ایک پورا پروگرام وقف کیا تھا، اس کے بعد نصرت کو ’’بگ ورلڈ کیفے‘‘ نے اینڈریو کرسٹی اور وائلن بجانے والے نائیجل کینیڈی کو شو میں ’’اللہ ہو، اللہ ہو‘‘ لائیو پرفارم کرنے کے لیے مدعو کیا تھا۔
1992ء سے 1993ء کے تعلیمی سال میں نصرت یونیورسٹی آف واشنگٹن میں ایتھنو میوزک شعبے میں وزٹنگ آرٹسٹ تھے۔
نصرت کو کینیڈین گٹارسٹ مائیکل بروک اور کئی مغربی موسیقاروں اور راک موسیقاروں نے اپنے ساتھ کام کرنے کے لیے دعوت دی، 1995ء میں نصرت نے پرل جیم کے مرکزی گلوکار ایڈی ویڈر کے ساتھ ڈیڈ مین واکنگ کے ساؤنڈ ٹریک کے لیے دو گانوں کی موسیقی دی، 2002ء میں گیبریل نے اپنے البم سگنل ٹو نوائس پر ان کی آوازیں شامل کیں، ان کے البم ''ان ٹوکسیکیٹیڈ اسپیریٹ'' کو 1997ء میں بہترین روایتی لوک البم کے لیے گریمی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا، اسی سال ان کے البم نائٹ میوزک کو بھی بہترین ورلڈ میوزک البم کے گریمی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔
نصرت کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے انہیں ہندوستانی اور پاکستانی سنیما گھروں سے بھی گانے کی دعوت آنے لگی، انہوں نے کئی پاکستانی فلموں میں گانے گائے اور ان میں خود بھی پرفارم کیا، اپنی موت سے کچھ عرصہ پہلے انہوں نے بالی ووڈ کی پانچ فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی جس میں فلم ''اور پیار ہوگیا'' (1997) میں انہوں نے فلم کی مرکزی جوڑی کے ساتھ آن اسکرین کوئی جانے کوئی نہ جانے اور زندگی جھوم کر کے لیے گانا گایا، انہوں نے فلم ’’کارتوس‘‘ (1999) کے لیے موسیقی بھی ترتیب دی جہاں انہوں نے عشق کا رتبہ اور بہا نہ آنسو جیسے گانے بھی گائے، بالی ووڈ کے لیے ان کی آخری میوزک کمپوزیشن فلم ’’کچے دھاگے‘‘ (1999) کے لیے تھی جہاں انہوں نے اس شانِ کرم کا کیا کہنا گایا تھا، یہ فلم ان کی موت کے دو سال بعد 1999ء میں ریلیز ہوئی، بالی ووڈ کی دو گلوکار بہنوں، آشا بھوسلے اور لتا منگیشکر نے ان گانے گائے جو انہوں نے بالی ووڈ میں اپنے مختصر دور میں بنائے تھے، انہوں نے فلم ’’دل لگی‘‘ (1999) کے لیے سیّاں بھی ساتھ جب چھوڑ جائے بھی گایا، یہ گانا نصرت کی موت کے دو سال بعد 1999ء میں ریلیز ہوا تھا، انہوں نے 2000ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’دھڑکن‘‘ کا گانا دولہے کا سہرا سہانہ لگتا ہے بھی گایا جسے کافی شہرت ملی۔
نصرت نے 1997ء کے البم ’’وندے ماترم‘‘ میں گانا امن کے گرو میں تعاون کیا جسے اے آر رحمٰن نے ترتیب دیا تھا اور اسے ہندوستان کی آزادی کی 50ویں سالگرہ کا جشن منانے کے لیے ریلیز کیا گیا تھا، خراجِ تحسین کے طور پر اے آر رحمٰن نے ''گروس آف پیس‘‘ کے نام سے ایک البم جاری کیا جس میں نصرت کا گایا ہوا اللہ ہو، اللہ ہو شامل تھا، فلم ’’گرو‘‘ (2007) میں آر رحمٰن کا گایا ہوا گانا تیرے بینا بے سوادی بھی نصرت کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا، نصرت نے ہندوستانی سینما میں سب سے زیادہ جاوید اختر، خواجہ پرویز، فناؔ بلند شہری، طفیل ہوشیار پوری اور سلیم وغیرہ کے لکھی غزلوں اور گیتوں کو گایا۔
نصرت کے مشہور قوالی گانوں میں سے تیرے بن نہیں لگدا‘‘ اور ''سنگم'' جو کہ جاوید اختر کے ساتھ ایک مشترکہ البم تھی کی، بھارت میں ایک ملین کاپیاں سے زائد کاپیاں فروخت ہوئیں، لتا منگیشکر نے ’’کچے دھاگے‘‘ کے لیے تیرے بن نہیں جینا کا ایک متبادل گانا ریکارڈ کیا، ’’کچے دھاگے‘‘ کا ساؤنڈ ٹریک صرف بھارت میں تین ملین یونٹس فروخت ہوئے، برطانوی ہندوستانی پروڈیوسر بالی ساگو نے تیرے بن نہیں لگا کا ایک ریمکس جاری کیا جسے 2002 کی برطانوی فلم بینڈ اٹ لائک بیکہم میں دکھایا گیا، تیرے بن کے نام سے ایک کور ورژن راحت فتح علی خان نے آسیس کور کے ساتھ 2018 کی بالی ووڈ فلم ’’سِمبا‘‘ کے لیے ریکارڈ کیا تھا۔
نصرت کی موسیقی نے بالی ووڈ موسیقی پر بڑا اثر ڈالا، جس نے 1980 کی دہائی کے آخر سے بالی ووڈ میں کام کرنے والے کئی ہندوستانی موسیقاروں کو متاثر کیا، نصرت نے اے آر رحمٰن اور جاوید اختر کو اپنی قوالیوں سے بہت متاثر کیا اور دونوں نے ان کے ساتھ تعاون کیا، بہت سے دوسرے ہندوستانی میوزک ڈائریکٹرز جنہوں نے ہٹ فلمی گانے بنائے نصرت کی موسیقی چوری کی جن میں موہرہ (1994) میں وِجُو شاہ کا ہِٹ گانا تو چیز بڑی ہے مست مست ان کی مقبول قوالی دم مست قلندر سے اٹھایا گیا تھا۔
ہندوستانی سنیما میں ان کے گانوں کی کاپیاں بھی خوب کی گئی، ان میں بعض کاپی کیے ہوئے گانوں کو کافی شہرت بھی ملی، جیسے۔۔۔
کتنا سوڑا رب نے بنایا دل کرے دیکھ۔۔۔
میرا پیا گھر آیا او رام جی۔۔۔
میرے دل کو کچھ نہیں بھائے، سجنا تیرے بِنا۔۔۔
یہ جو ہلکا ہلکا سُرور ہے، سب تیری نظر کا قصور ہے۔۔۔
اس سے زیادہ دکھ نہ کوئی، پیار نہ بچھڑے۔۔۔
سانسوں کی مالا پہ سمروں میں۔۔۔
میں یار یار کہنا، میں پیار پیار کہنا۔۔۔
ان کی موسیقی ہالی ووڈ فلم جیسے ’’دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ‘‘ (1988)، ’’نیچرل بورن کلرز‘‘ (1994) اور ’’ڈیڈ مین واکنگ‘‘ (1995) کے ساؤنڈ ٹریکس پر بھی دکھائی دیتی ہیں۔
آپ صحیح معنوں میں شہرت کی بلندیوں پر اس وقت پہنچے جب پیٹر جبریل کی موسیقی میں گائی گئی ان کی قوالی ’’دم مست قلندر مست مست‘‘ ریلیز ہوئی، اس مشہور قوالی کے منظرِ عام میں آنے سے پہلے وہ امریکہ میں بروکلن اکیڈمی آف میوزک کے نیکسٹ ویوو فیسٹول میں اپنے فن کے جوہر دکھا چکے تھے لیکن ’’دم مست قلندر مست مست‘‘ کی ریلیز کے بعد انہیں یونیورسٹی آف واشنگٹن میں موسیقی کی تدریس کی دعوت دی گئی، انٹرنیشنل لیول پر صحیح معنوں میں ان کا بنایا ہوا پہلا شاہکار 1995ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’ڈیڈ مین واکنگ‘‘ کا ساؤنڈ ٹریک تھا، بعد میں انہوں نے ہالی وڈ کی فلم ’’دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ‘‘ اور بالی وڈ میں پھولن دیوی کی زندگی پر بننے والی متنازع فلم ’’بینڈٹ کوئین‘‘ (1994) کے لیے بھی موسیقی ترتیب دی، نصرت نے جدید مغربی موسیقی اور مشرقی کلاسیکی موسیقی کے ملاپ سے ایک نیا رنگ پیدا کیا اور نئی نسل کے سننے والوں میں کافی مقبولیت حاصل کی۔
نصرت نے کئی البم ریلیز کیے جس میں قوالی کے 125 آڈیو البم شامل ہیں، اس وجہ سے آپ کا نام ’’گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ‘‘ میں بھی درج کیا گیا، میاں اسد کا کہنا ہے کہ
’’اسکول کے وقت سے ہی نصرت کے ساتھ رحمت گراموفون ریکارڈنگ سٹوڈیو یا گھر پر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا مگر نصرت کے ساتھ باضابطہ طور پر میرا پیشہ وارانہ تعلق 1992ء میں قائم ہوا جب وہ اپنے پیتا کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹانے لگے۔۔۔ ابّا جی سے ان کے قصے اور باتیں سنتے رہتے تھے، ان سے غیر رسمی ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی، کبھی دکان پر تو کبھی ہمارے گھر پر۔۔۔ رحمت گراموفون میں ریکارڈ کی گئیں، نصرت کی چند شروعاتی قوالیوں میں سے ایک '’یاداں وچھڑے سجن دیاں'‘ اور دوسری ’’علی مولا، علی مولا‘‘ تھیں جو دنیا بھر میں بہت مقبول ہوئی‘‘
میاں رحمت 70 کی دہائی کے آخر اور اسی کی دہائی کے اوائل میں نصرت کو اپنے ریکارڈنگ سٹوڈیو لے آئے جہاں سے انہوں نے اپنی قوالیوں اور غزلوں کی ریکارڈنگ کا آغاز کیا، رحمت گراموفون ہاؤس ریکارڈنگ کمپنی نے نصرت کے ایک سو سے زائد میوزک البمز ریکارڈ کرکے مارکیٹ میں ریلیز کیے جن میں بلہے شاہ کا کلام '’کی جاناں میں کون'‘ سمیت کئی دوسرے کلام شامل ہیں اور پھر ترقی اور شہرت کی منزلوں کو چھوتے گئے، نصرت کے مشہور گیتوں میں۔۔۔
اکھیاں اڈیکدیاں۔۔۔
ایس توں ڈاڈا دکھ نہ کوئی۔۔۔
آفریں آفریں۔۔۔
میرے رشکَ قمر۔۔۔
میری زندگی ہے تو۔۔۔
وغیرہ شامل ہیں، یوں تو ان کے تمام تر کلام ہی اپنی مثال آپ ہیں لیکن ’’تم اک گورکھ دھندا ہو‘‘ اپنی مثال آپ ہے۔
اسی طرح یہ سب بھی نصرت کی آواز میں کافی مقبول ہوئیں۔
شکوہ / جوابِ شکوہ
میرا پیا گھر آیا۔۔۔
دم مست قلندر مست مست۔۔۔
زِحالِ مسکیں مکن تغافل۔۔۔
آج رنگ ہے۔۔۔
حق علی علی مولا علی علی۔۔۔
نی میں جانا جوگی دے نال۔۔۔
چل میرے دل کھلا ہے میخانہ۔۔۔
یاداں وچھڑے سجن دیاں آیاں۔۔۔
علی د ملنگ میں علی دا۔۔۔
نصرت کی یاد داشت بلا کی تھی، پوربی، ہندی، اردو، فارسی، پنجابی، ملتانی اور دیگر ہندوستانی زبانوں کا کلام انہیں ازبر تھا، سامعین ان کی طرزِ ادائیگی، تکرار بندی، الفاظ اور موسیقی کے رچاؤ کو دیوانگی کی حد تک چاہتے تھے، چنانچہ وہ موسیقی اور کلام کو اس طرح یکجا کرتے کہ ایک سماں بندھ جاتا تھا، کلام کے ساتھ ساتھ وہ راگ کی شکل بھی آواز سے پیدا کر دیتے تھے، ایسا بہت کم دیکھنے یا سننے میں آیا کہ نصرت قوالی کے دوران کلام بھول گئے ہوں، درجنوں غزلیں اور سینکڑوں اشعار انہیں ازبر تھے، اس کا ایک نمونہ سن لیجیے کہ الیاس حسین جو نصرت کی جوانی سے ان کے شاگرد اور ان کی قوال پارٹی میں بطور پرومپٹ خدمات انجام دیتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کبھی نصرت صاحب کو کلام بھولتے یا کنفیوز ہوتے نہیں دیکھا، پرفارمنس سے پہلے وہ اس کی زبردست مشق کرتے تھے، جاننا چاہیے کہ پرومپٹ وہ شخص ہوتا ہے جو کسی شو یا ریکارڈنگ کے دوران مرکزی قوال کے پیچھے بیٹھے کلام یا غزلوں کی کتاب تھامے قوال کو اگلے مصرعے یاد کرواتا یا بتاتا ہے۔
الیاس حسین ان کی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
’’ہمارا خاندان فتح علی خاں کے گھرانے میں کئی پشتوں سے خدمت کرتا آیا ہے، میں 1975ء سے نصرت صاحب کو جانتا ہوں، تب میں سکول جاتا بچہ تھا اور والد کے ساتھ ان کے گھر کام کاج کرنے جاتا تھا، میں ان کا شاگرد تھا، 1983ء سے 1997ء میں ان کی وفات تک ان کی قوال پارٹی میں شامل رہا۔۔۔ دس برس کی عمر سے جب میں نے وہاں جانا شروع کیا تو کچھ عرصے بعد ہی مجھے فرخ فتح علی خاں نے کہا کہ میں پرومپٹ کا کام کرنا سیکھو، آہستہ آہستہ مجھے نصرت اور فرخ صاحبان نے یہ سکھانا شروع کر دیا۔۔۔ بعد میں کلام کو منتخب کرنا اور پڑھنا لکھنا مجھے نصرت صاحب نے سکھایا۔۔۔ رحمت گراموفون میں ریکارڈ کروائی جانے والی مشہور قوالی میں سے '’لجپال نبی میرے درداں دی دوا‘‘ اور غزلوں میں سے ’’یاداں وچھڑے سجن دیاں آیاں انکھیاں چو میہنہ وسدا‘‘ بھی دیگر سیکڑوں کے ساتھ شامل ہیں‘‘
نصرت کو بڑے پیمانے پر تاریخ کا سب سے اہم قوال مانا جاتا ہے، 1987ء میں انہیں پاکستانی موسیقی میں ان کی خدمات کے لیے پریسڈینٹ آف پاکستان کی طرف سے ’’پرائیڈ آف پرفارمنس‘‘ کا ایوارڈ ملا، 1995ء میں انہیں یونیسکو میوزک پرائز ملا، 1996ء میں انہیں مونٹریال ورلڈ فلم فیسٹیول میں سینما کے فن میں غیر معمولی شراکت کے لیے گراں ’’پری ڈیس امریکس‘‘ سے نوازا گیا، اسی سال ان کو فوکوکا ایشین کلچر پرائز کا آرٹس اینڈ کلچر پرائز ملا، جاپان میں انہیں بڈائی یا سنگنگ بدھا کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔
1997ء میں بہترین روایتی لوک البم اور بہترین ورلڈ میوزک البم کے لیے دو گریمی ایوارڈز کے لیے نامزد ہوئے، 1998ء میں انہیں پی ٹی وی لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا، 2001ء تک ان کے پاس سب سے زیادہ قوالی ریکارڈنگز کا ’’گنیز ورلڈ ریکارڈ‘‘ تھا، 2005ء میں ان کو یو کے ایشین میوزک ایوارڈز میں لیجنڈز ایوارڈ ملا، ٹائم میگزین کا 6 نومبر 2006ء کا شمارہ ایشیائی ہیروز کے 60 سال میں انہیں پچھلے 60 سالوں میں 12ویں نمبر پر رکھا گیا، وہ 2010ء میں این پی آر کی 50 عظیم آوازوں کی فہرست میں بھی شامل ہوئے، اگست 2010ء میں وہ سی این این کی گزشتہ پچاس سالوں کے بیس سب سے مشہور موسیقاروں کی فہرست میں شامل ہوئے، 2008ء میں UGO کی اب تک کے بہترین گلوکاروں کی فہرست میں 14ویں پوزیشن پر تھے، ان کو ان کے 25 سالہ موسیقی کرئیر کے دوران کئی اعزازی ٹائٹل سے نوازا گیا، انہیں اپنے پیتا کی برسی کے موقع پر لاہور میں ایک تقریب میں کلاسیکی موسیقی پیش کرنے کے بعد ’’استاد‘‘ کا ٹاٹئل دیا گیا، ان کو رولنگ اسٹون کی 200 بہترین گلوکاروں کی فہرست میں 91 ویں پوزیشن پر رکھا گیا تھا جو 1 جنوری 2023ء کو شائع ہوئی تھی۔
نصرت کو اکثر موسیقی دنیا کا ایک پیش کنندہ قرار دیا جاتا ہے، 13 اکتوبر 2015ء کو گوگل نے ان کی 67 ویں سالگرہ کو چھ ممالک بھارت، پاکستان، جاپان، سویڈن، گھانا اور کینیا میں اپنے ہوم پیج پر گوگل ڈوڈل کے طور پر منایا، گوگل کا کہنا ہے کہ اپنی لیجنڈری آواز کی بدولت انہوں نے ’’انٹرنیشنل موسیقی‘‘ کو دنیا کے سامنے لانے میں مدد کی۔
نصرت کو قوالی میں اپنے مخصوص جوش و خروش کے لیے سراہا گیا، وہ قوالی کو دنیا میں مقبول بنانے والے پہلے اور سب سے اہم فنکاروں میں سے ایک تھے، وہ اپنی طاقتور آواز سے 10 گھنٹے تک گا سکتے تھے۔
پال ولیمز نے اپنی کتاب ''20ویں صدی کی سب سے کامیاب فنکار'' جو 2000 میں شائع ہوئی، اس کی فہرست میں نصرت کو بھی شامل کیا، نصرت کے گانوں کے 2002 کے البم جوائے فل نائز میں مکی مدنی میں ان کے بھتیجے راحت فتح علی خاں کی پرفارمنس شامل ہے، 2005 کے سونگ لائنز میں نصرت کے دو گانوں صاحب تیری بندی اور مکی مدنی کا ایک مجموعہ شامل ہے، 2007 میں الیکٹرانک میوزک پروڈیوسر اور پرفارمر گاڈی نے، رحمت گراموفون ہاؤس سے بیک کیٹلاگ ریکارڈنگز تک رسائی حاصل کرنے کے بعد موجودہ آوازوں کے ارد گرد مکمل طور پر نئے گانوں کا البم جاری کیا، معروف میگزین ’’رولنگ اسٹون‘‘ نے نصرت کو تاریخِ انسانی کے 200 عظیم ترین گلوکاروں کی فہرست میں شامل کیا۔
پیٹر گبریل نے نصرت کے ساتھ کام کیا ہے، وہ اپنا تجربہ بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ
’’نصرت سے تعارف میرے لیے ایک انتہائی خوشگوار تجربہ ثابت ہوا، چند سال قبل تک میں نصرت فتح علی خان کو بالکل نہیں جانتا تھا، میں نے تو اس کا نام تک نہ سنا تھا جس انداز کا میں میوزک ڈائریکٹر ہوں میرا رابطہ دنیا کے مختلف ممالک کے گلوکاروں میوزک ڈائریکٹروں اور سازندوں سے رہتا ہے، کچھ سال قبل اس طرح کی میٹنگز کے دوران ایک Rock گلوکار نے میری توجہ نصرت فتح علی خان کی طرف دلوائی اور مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے اسے سنا ہے، اتفاق کی بات یہ کہ انہیں دنوں نصرت لندن میں ایک شو کے سلسلے میں آیا ہوا تھا، میں نے اسی شو کے دوران اسے سنا، اس کا ردم، تال بیٹ سب کچھ میرے لیے ایک نیا تجربہ تھا، صرف دو تین سازوں کے ساتھ تالیوں کا خوبصورت تال میل اور اس سب کے ساتھ نصرت کی خوبصورت آواز جس کی Range اتنی زیادہ ہے جس کا اندازہ کرنا مشکل ہے اس کی بنیاد پر میں نے نصرت کو اپنی فلم لاسٹ ٹیمٹیشن آف کرائسٹ کے پس منظرمیوزک کے لیے استعمال کیا، فلم میں جہاں حضرت عیسی کو سولی پر چڑھایا جاتا ہے اس کے پیچھے نصرت فتح علی خان نے راگ درباری میں الاپ کیا ہے، اس خاص سین کے لیے میں نے نہ جانے دنیا کے کتنے گلوکاروں کو آزمایا لیکن مجھے ان کی آواز میں زور نہیں ملتا تھا، آخر کار نصرت آیا اور اس کی خوبصورت آواز نے اس فلم کو چار چاند لگا دیئے‘‘
وہیں غلام حید خاں نصرت سے متعلق کہتے ہیں کہ
مست مست - جسے ہر خاص و عام آج کا رہا ہے، سن رہا ہے، یہ ایک مکمل راگ ہے اور یہ راگ بھیم پلاسی ہے، نصرت فتح علی خان وہ شخصیت ہے جس نے سرگم کے ذریعے کلاسیکی موسیقی کو عوام تک پہنچایا ہے، یہ وہ کام ہے جو پیشہ ور کلاسیکی فنکاروں کو کرنا چاہیے تھا لیکن ایک قوال نے کیا ہے، ایک ایسا قوال جو پاکستان کی پہچان ہے عوام کے دلوں کی دھڑکن ہے، خاص و عام میں مقبول ہے اور اس کا وجود کلاسیکی موسیقی کا وجود ہے‘‘
صادق علی مانڈو خاں کی رائے بھی سن لیجیے، وہ کہتے ہیں کہ
’’گائیکی کے لیے تین خصوصیات ضروری ہیں، لے، ذہن اور آواز، یہ تینوں خصوصیات نصرت فتح علی خان میں موجود ہیں، میں ان کی گائیکی سے صرف مطمئن ہی نہیں محو حیرت بھی ہوں کہ وہ کلاسیکی موسیقی کے دائروں میں رہ کر جدید تجربے کر رہا ہے‘‘
بدرالزماں صاحب کا کہنا ہے کہ
’’ہماری موسیقی میں بے سُرا قبول ہے مگر بے تالا ناقابل برداشت ہے، ہمارے کلاسیکی گائیکوں میں لے کاری کے میدان میں تین شخصیات استاد عاشق علی خاں، استاد توکل حسین خاں اور استاد سلامت علی خاں ناقابل فراموش اور بے بدل ہیں لیکن نصرت فتح علی خاں نے کب اور کیسے لے کاری میں اس قدر مہارت حاصل کی یہ یقیناً خدائے بزرگ و برتر کا عطیہ ہے، قوالی کے جدید دور میں بہت سے لوگ چھائے ہوئے تھے، ان کا سکہ ختم کر کے یک دم نصرت فتح علی خاں کا چھا جانا کیا واقعی معجزہ تھا؟ جی نہیں! یہ اس کا فن تھا، لے پر بے انتہا عبور تھا، سرگموں کے مشکل مکڑے اور وہ انداز جس کا استعمال آج تک اس میدان میں نہ ہوا تھا‘‘
مستنصر حسین تارڑ کہتے ہیں کہ مجھ سے پروفیسر فتح محمد ملک نے کہا کہ جب میں ہائیڈل برگ یونیورسٹی، جرمنی میں اردو پڑھاتا تھا تو جو جرمن لوگ اردو سیکھنے یا پڑھنے آتے تھے تو ہم ان سے پوچھتے تھے کہ آپ اردو کیوں پڑھنا یا سیکھنا چاہتے ہیں؟ ان میں سے زیادہ تر کا جواب ہوتا کہ چوں کہ ہمیں یہاں کے علم میں دلچسپی ہے لہٰذا ہم چاہتے ہیں کہ عربی اور فارسی سے منسلک ایک زبان یعنی اردو بھی پڑھ یا سیکھ لیں لیکن ایک دفعہ ایک لڑکے نے بڑا عجیب جواب دیا، کہا کہ ایک رات میں شراب خانے میں تھا اور وہاں ایک نغمہ گونج رہا تھا اور وہ نغمہ سنتے سنتے میں بے خود ہوگیا، اُس کے بعد جب بھی میں شراب خانہ جاتا تو فرمائش کرکے وہ نغمہ سنتا لیکن وہ نغمہ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا لہٰذا میں نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ نغمہ جس زبان میں ہے میں وہ زبان سیکھوں گا، وہ نغمہ نصرت کا تھا۔
نصرت کا وزن 137 کلو گرام سے زیادہ تھا، امریکی ریکارڈنگ کے ترجمان کے مطابق نصرت کئی مہینوں سے شدید بیمار تھے، جگر اور گردے کی تکلیف کے علاج کے لیے لندن جانے کے بعد انہیں ہوائی اڈے سے لندن کے کروم ویل اسپتال پہنچایا گیا، نصرت کا انتقال 16 اگست 1997ء کو 48 سال کی عمر میں کرول ویل ہسپتال میں اچانک دل کے دورہ کی وجہ سے ہوا، ان کی نعش کو فیصل آباد واپس بھیج دیا گیا اور وہیں اپنے پیتا کے پہلو میں دفن کیے گئے، نصرت کی شادی ان کے چچا سلامت علی خاں کی بیٹی سے ہوئی تھی جن سے ایک بیٹی ندا نصرت ہوئیں جو اب کنیڈا میں رہتی ہیں، ان کی موسیقی کی پرمپرا کو ان کے بھتیجے راحت فتح علی خان اور رضوان معظم نے آگے بڑھایا ہوا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.