Font by Mehr Nastaliq Web

تذکرہ حضرت حکیم شاہ علیم الدین بلخی فردوسی

ریان ابوالعلائی

تذکرہ حضرت حکیم شاہ علیم الدین بلخی فردوسی

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    برصغیر ہندوپاک کی جن شخصیتوں کو صحیح مانوں میں عہد ساز اور عبقری کہا جاتا ہے، ان میں ایک نمایاں اور محترم نام خانقاہ بلخیہ فردوسیہ فتوحہ کے سجادہ نشین اور صوبۂ بہار کی مشہور علمی شخصیت حضرت مولانا حکیم سید شاہ علیم الدین بلخی فردوسی نور اللہ مرقدہ و تربتہ کا ہے۔

    آپ قدآور عالم دین، فاضل متین، بلند پایہ حکیم، صاحب طرز ادیب، زہد و تقویٰ کے امین اور توکل و استغنا اور توضع و انکساری سے بھرپور تھے۔ آج وطن کی ہوائیں اور چمن کی فضائیں شاہ صاحب کی عجز و انکساری کو سلام و نیاز پیش کر رہی ہیں۔ آپ پیکر صدق و وفا تھے، جو ایک بار ان کے پاس جاتا وہ بار بار جانے کی لگن میں لگا رہتا۔

    لگن لگی ہے کسی سے ایسی کہ مرنے پر بھی نہ چھٹ سکے گی

    یہ عاشقی دل لگی نہیں ہے جو ہم مٹے ہیں تو دل لگاہے

    (حضرت شاہ اکبر داناپوری)

    راقم الحروف اگر ان کے کارہاے نمایاں کا تذکرہ کرے گا تو بالیقین یہ بات بہت مشکل ہے۔ ان کا اعجاز یہ ہے کہ جہاں بھی گئے، جس سے بھی ملے، داستان چھوڑ آئے۔ وہ ہمیشہ اپنے آبا اجداد کے نقش پر چلتے رہے، جہاں بیٹھا دو بیٹھ جاتے، جو کھلا دو کھا لیتے، جہاں بلالو آجاتے۔ شہرت، عزت، مقام اور مرتبہ کے کبھی متلاشی نہیں رہے۔ بڑے سنجیدہ مزاج، پر لطف اور پرانے قصے سنانے کے شوقین تھے۔

    تحقیر و تذلیل سے بہت دور تھے، بلکہ عیب داروں کے عیوب پر بھی اچھائیوں کی چادر ڈال دیتے۔ لباس سبز ہے یا سرخ، ٹوپی دو پلیہ ہے یا چوگشیہ، پٹکہ صندلی ہے یا سبز، جوتی راجستھانی ہے یا کولا پوری، ان سب چیزوں سے کوئی مطلب نہ رہتا۔ ہر حال میں مستِ بادۂ الست رہتے اور جھومتے ہوئے نکل پڑتے۔ کس کو کہاں خوش کرنا ہے، ایسی دنیاوی سازشوں سے وہ لاعلم تھے۔

    آج چند ہی اشخاص نے شاہ صاحب کے والد ماجد حضرت مولانا حکیم سید شاہ تقی حسن بلخی فردوسی (متوفیٰ 1392ھ) کو دیکھا ہے، جو بہار کی مشہور علمی شخصیت تھے۔ جگہ جگہ ان کے بیانات و تحریرات شائع و ذائع ہوا کرتے تھے۔ حکمت و دانائی اور اسرار و رموز ان میں خوب پائی جاتی تھی۔ اپنے عہد کے ممتاز علما و مشائخ میں وہ اپنی چھاپ رکھتے تھے۔ شاہ صاحب حضرت شاہ تقی حسن بلخی کے صحیح مانوں میں جانشین اور ان کی یادگار تھے۔

    راقم کی نظر میں اب قبلہ جناب سید حسنین پاشا فردوسی صاحب زاد اللہ عمرہٗ اپنے پیر و مرشد حضرت شاہ تقی حسن بلخی رحمتہ اللہ علیہ کے آخری یادگار ہیں۔

    بہار میں خاندانِ بلخیہ کی ایک پہچان ہے کہ جہاں دیکھیں، بلخیوں کی نمایاں شان ہے: علم و ادب، شعر و سخن، تاریخ و تذکرہ، حکمت و دانائی، اسرار و رموز، علم و عمل اور تحقیق و تدقیق، گویا ہر میدان میں بلخی حضرات پیش پیش رہے ہیں۔ ہم عزیز الدین بلخی، فصیح الدین بلخی، نادم بلخی، سیف الدین احمد بلخی، یعقوب بلخی، یوسف بلخی، اور ابوالحسن بلخی وغیرہ کی خدمات جلیلہ کو فراموش نہیں کرسکتے۔ یہ وہ بہار کا گزرہ ہوا عظیم قافلہ ہے جس کو پانے کی تمنا ہم سب کی ہے۔

    مذکورہ ناموں میں شامل شاہ علیم الدین بلخی صاحب کی شخصیت بھی حکمت و دانائی اور علم و عمل کے ساتھ رونقِ بزم تھی۔

    بزم ہستی میں ابھی آکے تو ہم بیٹھے تھے

    یوں اجل آئی کہ زانوں بھی بدلنے نہ دیا

    (حضرت شاہ اکبر داناپوری)

    اس خاندان میں اولیا، اصفیا، علما، زہاد، عباد، ابدال، اوتاد وغیرہ سب ہیں۔ بہار میں اس خاندان کے سب سے بڑے بزرگ تن مظفر جاں شرف الدین، یعنی حضرت مولانا مظفر بلخی قدس سرہٗ کہے جاتے ہیں، جو حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری قدس سرہٗ (متوفیٰ 782ھ) کے خلیفۂ اعظم اور جانشین ہیں۔

    شاہ علیم الدین بلخی صاحب نے 1946ء کا فساد بھی دیکھا تھا، جب ملک میں قتل و غارت کا سلسلہ زوروں پر تھا۔ لوگ دیہی علاقوں سے شہروں کی جانب کوچ کر رہے تھے، اور ان میں شاہ صاحب بھی اپنے والد کے ساتھ فتوحہ سے شہر عظیم آباد آنے والوں میں شریک تھے۔ مولانا ابوالکلام آزادؔ، مولانا عبدالقادر آزاد سبحانیؔ، سیر سید علی امام بیرسٹر وغیرہ کی صحت و سنگت نے بھی شاہ صاحب کو زندگی کے عملی میدان میں بہت کچھ سکھایا۔

    راقم السطور آپ سے ملاقات کرنے جاتا رہتا تھا۔ جب کسی خاص موضوع پر گفتگو ہوتی تو کہتے کہ ہم تو بھول گئے ہیں، ارے بھائی ہمیں کچھ یاد نہیں ہے۔ مگر اس کچھ نہیں میں دو گھنٹے تک اس موضوع پر کلام کرتے۔ ہم لوگوں نے بڑے بڑے ذہین و فطین کے بارے میں سنا ہے، آپ نے بھی سنا ہوگا، مگر ہم نے شاہ صاحب کے ذہن و دماغ جیسا نہیں دیکھا۔ بھلا کوئی 97 برس کی عمر میں اس طرح بیان کرسکتا ہے۔ فرزدق، میثم اور متنبّی کے سینکڑوں عربی اشعار تو شاہ صاحب ایسے خوشگوار انداز میں سناتے کہ مانو ہم غالب یا اقبال کی شاعری سن رہے ہیں۔ مذکورہ شعرا کے اشعار کثرت سے یاد تھے۔ امام احمد غزالی، امام سعد الدین تفتازانی اور ملا علی قاری جیسی عالمی شخصیات کی خدمات اور ان کے نکتہ کو بہت سہل انداز میں سناتے تھے۔ تعجب ہوتا تھا کہ اس عمر میں شاہ صاحب کو احیا العلوم کی سطریں بھی یاد تھیں، بوعلی سینا اور حکیم لقمان کے قصے بھی سناتے اور مسکراتے تھے اور اسی دوران کہتے تھے کہ ہاے وہ دن۔۔۔

    شاہ صاحب بڑے متحرک و فعال تھے، بڑے بڑے علما و سرکردہ شخصیات سے تعلقات ان کے عام تھے۔ اردو، فارسی کے ساتھ عربی زبان پر بھی ملکہ رکھتے تھے۔ آپ کے خاندانی و جاہت کا اعتراف کئی چھوٹی بڑی، نئی و پرانی کتابوں میں مل جائے گا۔ ان کے والد حضرت سید شاہ غلام شرف الدین بلخی فردوسی عرف درگاہی (متوفیٰ 1356ھ) بہار کے مشہور و معروف خانقاہی شخصیت کے علاوہ ایک سماجی اور مثالی آدمی تھے، مسلمانوں کی حمایت میں ہر جگہ پیش پیش رہتے تھے۔ اسی طرح آپ کے والد بھی قوم کی خاطر مصروف رہاکرتے، مولانا عبدالقادر آزاد سبحانی جیسی ہستیوں کی صحبت پائی۔

    یہ سب کچھ شاہ صاحب کی زندگی پر ایک خاص اثر چھوڑ گیا۔ وہ مجھ سے برابر کہتے تھے کہ

    ’’میں اپنے والد ماجد سے مجاز مطلق ہوں نیز خانقاہ سجادیہ، شاہ ٹولی، داناپور کے سجادہ نشین اور میرے خالو حضرت مولانا سید شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی رحمتہ اللہ علیہ (متوفیٰ 1394ھ) سے بھی بعض اوراد و وظائف کی اجازت حاصل تھی۔‘‘

    واضح ہو کہ شاہ صاحب کے والد حضرت شاہ تقی حسن بلخی اور میرے جد امجد حضرت شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی دونوں ہم زلف تھے، اس لیے خاندانِ ابوالعلائیہ سجادیہ اور خانقاہِ بلخیہ میں بڑی محبت و انسیت رہی ہے۔

    خود شاہ صاحب فرماتے تھے کہ

    ’’میرے بچپن کے اکثر اوقات خانقاہ سجادیہ، شاہ ٹولی میں گذرے ہیں۔‘‘

    دارالعلوم ندوہ کی چھٹی پر آتے تھے تو شاہ ٹولی ضرور آتے۔ حضرت شاہ محفوظ اللہ ابوالعلائی، حضرت شاہ خالد امام ابوالعلائی اور جہانگیرہ خاتون، جو میرے خالہ زاد بھائی ہیں، ہمیشہ ان لوگوں کی خیریت و سلامتی کی دعائیں کرتے اور خوشگوار لمحوں میں ڈوب جاتے، پھر کہتے: “ہاے وہ دن۔۔۔”

    شاہ صاحب کے خالہ زاد بھائی اور خانقاہ سجادیہ، شاہ ٹولی، داناپور کی بزرگ شخصیت حضرت سید شاہ خالد امام ابوالعلائی مدظلہ کے روز نامچہ سے کچھ سطریں آپ کی عیادت پر نقل کی جاتی ہیں کہ

    ’’میرے اپنے خلیرے بھائی حضرت مولانا سید شاہ حکیم علیم الدین بلخی سجادہ نشین خانقاہ بلخیہ فردوسیہ فتوحہ طویل عرصہ سے بیمار ہیں۔ موصوف کی عمر قریب 96 سال ہے۔ ان کی عیادت کے لیے ہم آج صبح دس بجے عالم گنج، پٹنہ اُن کے گھر گئے۔ میرے ساتھ اہلیہ اور عزیزم سید ریان سلمہ بھی تھے۔ ہم لوگ ایک گھنٹہ ٹھہرے، موصوف بے حد کمزور ہوگئے ہیں، ماضی کے تذکرے اور بہت مبارک گفتگو رہی۔ ابھی بھی حافظہ مضبوط ہے، اس وقت بہار کی مایہ ناز بزرگ ہستی ہیں، شرفِ نیاز حاصل کرکے روحانی سکون ملا، فقط محمد خالد امام ابوالعلائی، مورخہ 3 ربیع الثانی 1440ھ‘‘

    ہندوستان کے علاوہ پاکستان، بنگلہ دیش اور سات سمندر پار دیگر ممالک میں حضرت مخدوم محمد حسین بلخی نوشۂ توحید قدس سرہ کی آل و اولاد پائی جاتی ہے۔ خاندانِ بلخیہ آج ایک وسیع و عریض علاقہ میں پھیل چکا ہے، مگر شاہ صاحب کا مرتبہ آج بھی سب سے بلند و بالا ہے۔

    ہمارے خاندانِ ابوالعلائیہ سجادیہ کے علاوہ کئی خاندان کے افراد جو ہندوستان کے علاوہ دیگر ممالک میں رہتے ہیں، جیسے قمر النسا بلخی اور ان کی اولاد فاروق حیدر، تابندہ پھوپھی وغیرہ نے بھی آپ کی شخصیت کا اعتراف کیا۔

    ’’موت اس کی ہے جس کا کرے زمانہ افسوس‘‘

    یہ جام کبھی نہ کبھی تو پینا ہی تھا، مگر اس طرح شاہ صاحب کو ایک گھونٹ میں پینا ہوگا یہ نہیں معلوم تھا۔ ابھی تو کئی احساسات باقی تھے، ابھی تو پوری رات باقی تھی، کئی امیدیں اور کئی لوگ باقی تھے۔ کل کی بات جو ادھوری تھی وہ سب باقی تھی۔‘‘

    شاہ صاحب کی اہلیہ صادقہ خاتون کے گزر جانے کی خبر ایسی تھی جیسے چنگاری کی لپیٹ میں انسان لپٹ جائے۔ پہلی ملاقات تھی، وہاں برادرم ابصار میاں بھی موجود تھے۔ صادقہ دادای نے اس پہلی ملاقات کو ناجانے کیسے برسوں کی ملاقات بنادی۔ دو گھنٹے کیسے گزر گئے، یہ معلوم ہی نہیں ہوا۔ اس دوران صادقہ دادای نے بیٹھے بیٹھائے پٹنہ مارکیٹ اور ہتوا مارکیٹ کی سیر کرادی، خاص طور سے سبزی باغ میں جو کلکتہ بیکری ہے وہاں سے پپا بسکٹ بھی خریدوا دیا۔ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا، پر کبھی ایسی ملنساری اور خوشگوار خاتون کے ساتھ وقت گزارنے میں ایسا ہوجاتا ہے۔

    کیا کیجئے گا، قدرت کو کچھ اور ہی منظور ہوتا ہے کہ آج وہ صرف ہماری یادوں میں ہی محفوظ ہیں۔ شاہ صاحب کی اہلیہ کا غم ابھی تھما ہی نہیں تھا کہ شاہ صاحب خود داغِ مفارقت دے گئے۔ ان کے جانے کا غم ہے، مگر اس سے بھی زیادہ غم اس بات کا ہے کہ ساتھ وہ ایک زمانہ بھی لے گئے جو شاید اب نہ ملے۔ ہم ترقی تو کر رہے ہیں، بلندیوں کے مینارہ کو تو چھوڑ رہے ہیں، مگر بہار کی خانقاہی روش جو تھی، اس کا دامن ہم چھوڑ رہے ہیں۔ شاید یہ سوال انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہے۔

    اللہ پاک شاہ صاحب کی مغفرت فرمائے اور ہمیں ان کا نعم البدل عطا فرمائے، آپ کی رحلت پر تعزیتی نشست حجرۂ اکبری (آگرہ) میں، خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، شاہ ٹولی، داناپور کے سجادہ نشین حضرت سید شاہ سیف اللہ ابوالعلائی مدظلہٗ کی سرپرستی میں عمل میں آئی، شاہ صاحب کے بعد خانقاہ بلخیہ فردوسیہ فتوحہ کے سجادہ نشین آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت ڈاکٹر سید شاہ مظفر الدین بلخی فردوسی صاحب منتخب ہوئے ہیں، آپ ’الولد سر لاابیہ‘ کے مصداق ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے