ذکرخیر حاجی شاہ عبداللہ ابوالعلائی اکبری
ہندوستان میں سلسلۂ چشتیہ کے بعد جو سلسلہ سب سے زیادہ رائج ہوا وہ سلسلۂ ابوالعلائیہ ہے، جو دراصل نقشبندیہ سلسلے کی شاخ ہے۔ اس سلسلے میں توحید اور عشقِ الٰہی کی تعلیم لازمی حیثیت رکھتی ہے۔ گیارہویں صدی ہجری سے یہ سلسلہ اس قدر مشہور ہوا کہ برصغیر میں اس کی عظمت و رفعت قائم ہوگئی۔ جوق در جوق بندگانِ خدا دائرۂ ارادت میں داخل ہوئے، چاہے وہ امیر ہوں یا غریب، گورے ہوں یا کالے، عرب ہوں یا عجمی، سب اس بے کراں بحر میں غوطہ زن ہو کر معرفت و حقیقت سے روشناس ہوئے۔ سینکڑوں میل کا سفر طے کرکے لوگ اس سلسلے میں داخل ہوتے اور من کی مراد پاکر خوشی و مسرت کے ساتھ واپس لوٹ جاتے۔
سلسلۂ ابوالعلائیہ کی خاص بات یہ رہی کہ اس کی تعلیم و تلقین کا نصاب نہایت سہل اور مؤثر تھا، جس کی بدولت سالک مرید کسی بھی سلسلے میں ہوتا، مگر سلوک کے منازل اسی نصاب پر مکمل کرتا۔ یہاں توجۂ عینی اور مراقبۂ باطنی پر خاص غلبہ اور دبدبہ تھا۔
ابوالعلائی مشائخ میں ایک اہم اور وقیع نام حضرت حاجی شاہ عبداللہ ابوالعُلائی الاکبری احقر الہ آبادی قدس اللہ سرہٗ العزیز ہے، جنہوں نے تذکیۂ نفس و تصفیۂ قلب کے مراحل طے کرتے ہوئے سلوک کے منازل بآسانی طے فرمائے۔ خدمت گزار ایسے کہ اپنے سے کم عمر لوگوں کی تیاریوں کو بھی نیک نیتی سے سنبھالتے۔ حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری فرماتے ہیں:
میرے عزیزوں میں عبداللہ ابوالعُلائی سلمہؗ اپنے بھائیوں کا خادم بے عذر ہے۔
(ادراک، ص ۳۶)
حاجی صاحب کی طبیعت نہایت نرم مزاج، خاموش، پاک طینت، نرم کیفیت اور وجاہت و نجابت سے معمور تھی۔
حاجی صاحب شہر سہارن پور کے رہائشی علاقہ قصبہ انبیٹھہ کے ایک نومسلم گھرانے میں پیدا ہوئے اور خاندان کے زیر سایہ پروان چڑھتے رہے۔ جب تھوڑا عاقل ہوئے تو حصولِ علم کے لیے گھر سے باہر نکلے اور کچھ ہی روز بعد ہندوستانی فوج میں ملازم ہوئے۔ عنفوان شباب کا زمانہ تھا، اس لیے سیرو سیاحت کا شوق بھی بہت تھا۔ چند دنوں بعد ان کا تبادلہ ہندوستان کی قدیم ترین چھاونی، داناپور کینٹ میں ہوا۔ ابھی کچھ ہی روز ہوئے تھے کہ حاجی صاحب نے داناپور اور اس کے اطراف و جوانب کی سیر شروع کردی۔
پھرتے پھرتے ان کی نظر حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کے جمال کی طرف پڑی اور ایک ہی نظر میں عشق کا تیر دل پر لگا۔ خطرات کے بادل چھٹ گئے اور برسات کے موسم کی طرح قلب پر بہار آگئی۔ اب حاجی صاحب بالکل بے قرار ہوگئے۔ رفتہ رفتہ خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ، شاہ ٹولی، داناپور کی محفل اکبری میں شامل ہوتے رہے، اور آہستہ آہستہ ان کا آنا جانا معمول بن گیا، یہاں تک کہ ایک آنا دو آنا ہوا۔
کچھ ہی عرصے میں حاجی صاحب کا حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری سے رشتہ عقیدت مندانہ قائم ہوگیا۔ حاجی صاحب آپ کے دستِ حق پرست پر داخل اسلام ہوئے اور عبداللہ کے نام سے پہچانے گئے۔ چند ہی روز بعد انہوں نے فوج کی ملازمت ترک کردی اور خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ میں حاضر باش ہوگئے۔ حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری نے حاجی صاحب کی کمالِ عقیدت مندی کو دیکھتے ہوئے انہیں سلسلۂ نقشبندیہ ابوالعُلائیہ سجادیہ میں بیعت کر کے اجازت و خلافت سے مشرف فرمایا۔
بیعت و ارادت کے بعد حاجی صاحب مستقل مزاجی کے ساتھ خانقاہ میں مقیم ہوگئے۔ تمام کام خود انجام دیتے، ہر ایک سے خلوص کے ساتھ ملتے، اور خاکساری و انکساری ان کی فطرت میں شامل تھی۔ اوصاف نہایت عمدہ تھے: لمبا قد، دبلے پتلے، مارکین کی لنگی، ٹائر کی چپل، سر پر عمامہ، بدن پر عملی جامہ، اور لبوں پر ذکرِ جمیل کے ساتھ اوراد و وظائف میں مشغول رہتے۔ بہت جلد انہوں نے اپنے پیرو مرشد کے ذریعہ تحصیلِ علم ظاہری و باطنی حاصل کرلی۔
جب نعمتِ باطنی سے سرفراز ہوئے تو حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری نے انہیں الہ آباد میں اپنی جگہ پر قائم مقام بناکر رشدو ہدایت کے لیے وقف کردیا۔ مگر حاجی صاحب اپنے پیرو مرشد سے جدا نہیں ہونا چاہتے تھے، وہ اپنی زندگی آپ کی صحبت میں گزارنا چاہتے تھے۔ کچھ دن بے قراری میں گذرے، پھر حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری نے فرمایا:
اے بھائی! جان لو کہ صوفی وہ ہوتا ہے جو دوسروں تک راحت پہنچائے۔
حاجی صاحب کے دل پر اس کا گہرا اثر پڑا اور دوسرے ہی روز اپنے پیرو مرشد کی اجازت و ہدایت پر الہ آباد کی جانب رختِ سفر باندھا۔ واضح رہے کہ الہ آباد کے قلب میں چک (مان سرورچوک) پر نیا حجرہ حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کا ہی قائم کردہ ہے۔ یہ علاقہ اس وقت ویران اور قبائلی علاقوں سے دور تھا، جہاں سفالہ پوش جھونپڑیاں بزرگوں کا حجرہ ہوا کرتی تھیں۔ یہاں انہوں نے نہ جانے کتنے چلّے کیے اور کون کون سی مشقیں کیں، کتنے بگڑ کر بنے، اور کتنے لوگوں کو ایمان و احسان کا نور ملا۔
یہاں حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری، ان کے عم اقدس سیدالطریقت حضرت مولانا شاہ محمد قاسم ابوالعلائی داناپوری، اور والد ماجد مخدوم شاہ محمد سجاد پاک داناپوری کا قدیم حجرہ موجود ہے۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کے مشائخ کرام الہ آباد میں اسی جگہ قیام فرماتے۔ مولانا شاہ قاسم داناپوری کے حلقۂ ارادت میں الہ آباد کی سرکردہ اور سرفراز ہستیاں شامل تھیں، جیسے صوفی تفضل حسین الہ آبادی، منشی غلام غوث بے خبرؔ، طفیل علی الہ آبادی، حبیب علی الہ آبادی، اکبرؔ الہ آبادی، اور مخدوم سجادپاک کے حلقہ میں میر سجاد حسین الہ آبادی، مولانا امیرالدین امراللہ وغیرہ نمایاں شان کے حامل تھے۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ، داناپور اور الہ آباد کی صوفی روایت پر تفصیل سے بیان کرنا ایک علیحدہ اور مفصل موضوع ہے جو بعد میں ممکن ہے۔
حاجی صاحب اپنا پورا وقت رشدو ہدایت میں صرف کرتے۔ عرصۂ دراز تک اپنے کردار و عمل اور روحانی مشغولیات کے پیش نظر فقیرانہ زندگی گذارتے اور رشدو ہدایت کے فرائض میں مصروف رہے۔ ان کا زیادہ وقت تعلیم و تلقین میں گزرتا۔ وہ قلتِ منام، قلتِ طعام اور قلتِ کلام پر پوری طرح عمل کرتے۔ تھوڑے ہی مدت میں شہرِ الہ آباد ان کی بزرگی سے متاثر ہوا اور رشدو ہدایت و ملفوظاتِ اسلامیہ کا سلسلہ زور پکڑ گیا۔
تقویٰ و طہارت کو دیکھتے ہوئے لوگ قریب سے قریب تر ہوتے چلے گئے۔ الہ آباد کی بیشتر روحانی ہستیاں ان کی بزرگی سے متاثر ہوئیں۔ کثرت سے مریدان کا حلقہ بڑھتا گیا، لوگ داخل سلسلہ ہوتے گئے اور ان کی شہرت میں غیر معمولی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اسی درمیان حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کا انتقال پُرملال ہوا، جس پر ہندوستان اور خاص طور پر بہار میں رنج و غم کی لہر دوڑ گئی، جس سے حاجی صاحب حادثۂ قلب کا شکار ہوئے۔ پیرومرشد کے رنج و غم سے نڈھال ہوئے، ظاہری زندگی سے دوچار ہوئے تو سفرِ حج پر نکل پڑے۔ دل کو سکون ملا، زندگی کو چین ملا، اور پھر الہ آباد میں تبلیغ و ارشاد کا سلسلہ زوروں سے شروع ہوا۔
اس سفالہ پوش جھونپڑی میں انہوں نے مجردانہ زندگی گذاری۔ خانقاہ میں حاجی صاحب کے علاوہ حافظ سراج الدین صاحب بھی موجود تھے، جنہوں نے تقریباً ۴۵ برس تک الہ آباد کی خانقاہ کی مسجد میں نماز پڑھائی اور بڑے متقی و پرہیزگار شخص تھے۔ آپ کا انتقال ۲ شعبان المعظم ۱۳۸۵ھ، موافق ۲۶ نومبر ۱۹۶۵ کو ہوا۔ حاجی صاحب کے ہمراہ برابری سے خدمت میں رہنے والے خاص مرید عبدالرحیم ابن درگاہی میاں بھی برابر خانقاہ میں موجود رہے۔
حاجی صاحب آستانۂ حضرت سیدنا امیر ابوالعلاء (آگرہ) اور آستانۂ حضرت مخدوم سجاد پاک (داناپور) پر برابر عقیدت کے ساتھ حاضر ہوتے رہے۔ اپنے پیرو مرشد حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کے سالانہ عرس (۱۴ رجب) میں حالتِ ضعیفی میں بھی اپنے کاندھے پر آٹے کی بوری بازار سے خانقاہ پاپیادہ لاتے۔ راستے میں کوئی شخص مدد کرتا تو فرماتے: یہ میرا کام ہے، مجھے کرنے دیجئے۔ عرس میں آنے والے تمام زائرین کی خدمت خود انجام دیتے۔ (از افادہ حضرت شاہ خالدامام ابوالعلائی)
معاصر علما و مشائخ میں حاجی صاحب بلند مرتبہ پر فائز تھے۔ نام و نمود، عیش و عشرت اور عروج و اعتلا سے کوسوں دور تھے۔ ان کی بزرگی پر شہرِ الہ آباد نازاں تھا۔ شاہ محمد بشیرالدین اجملی (سجادہ نشیں: دائرۂ شاہ اجمل، الہ آباد)، شاہ نعمت اللہ صابری (سجادہ نشیں ہفتم: دائرۂ شاہ محب اللہ، الہ آباد)، مولانا شاہ عبداللہ چشتی صابری (الہ آباد)، مولانا سید سخاوت حسین کاکوی، مولانا سید عبدالسبحان (الہ آباد) وغیرہ ان کے خاص احباب میں شامل تھے۔
حاجی صاحب ذہین و فطین انسان تھے۔ باضابطہ ان کی کوئی تصنیف تو موجود نہیں، مگر ان کے قلمی بیاض میں بزرگوں کے کئی رسالے نقل کئے ہوئے ملتے ہیں، جیسے رسالۂ فنا و بقا، جواہر الانوار، رسالۂ مرشدیہ، غنیہ الطالبین، رسالۂ درس و سوال در بیان صوفیہ، شجرہ، عملیات، ادعیات، غزلیات وغیرہ۔
طبیعت بہلانے کے لیے حاجی صاحب کو شعرو شاعری سے بھی شغف تھا اور اس فن میں بھی انہوں نے اپنے پیرو مرشد سے اصلاحِ سخن حاصل کی۔ تخلص احقر تھا، اور ممکن ہے کہ بہت کچھ تحریر کیا ہو۔ چند کلام ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔
عجب دلکش ہے شکل اس کی عجب ہے چال مستانہ
دیکھا کر اک جھلک مجھ کو بنایا اپنا دیوانہ
ہمارے دم سے ہے ساقی مرا آباد میخانہ
ہماری وجہ سے دن رات ہے گردش میں پیمانہ
پلا چُلّو ہی سے مجھ کو اک مدت سے پیاسا ہوں
کہاں کا جام ساقی کس کا ساغر کیسا پیمانہ
خوشی ہے کس کی آمد کی جو تو سرگرم ہے ایسا
سجا ہے کس کی خاطر مرے ساقی آج میخانہ
میں ایک پیمانے کے سر کرتا نذر اپنا
یہ ہو مقبول ساقی عاجز و بیکس کا نذرانہ
بتوں نے گھر بنایا ہوگیا آباد دل مرا
نہیں تو ایک مدت سے پڑا تھا یوں ہی ویرانہ
گذرنام خدا اب تو ہے اس میں خوب رویوں کا
بنایا ہے بتوں نے دل کو مرے اپنا بت خانہ
دعا دیتے ہیں تجھ کو سب یہ رندانِ خراباتی
خبر لے ان کی اے ساقی رہے آباد میخانہ
خبر لے اپنے احقرؔ کی ذرا اے غیرتِ لیلیٰ
گدا بن کر ہے بیٹھا تیرے در پر تیرا دیوانہ
دیگر
کبھی ظاہر تمہیں دیکھا کبھی پنہاں دیکھا
ہر طرح سے میں نے غرض ایک جاں دیکھا
ہم نے کافر کبھی اس بت کو مسلماں دیکھا
ہر جگہ اس کو غرض آفت دوراں دیکھا
اک نظر جس نے تجھے اے شہِ خوباں دیکھا
شکل آئینے پھر نہ سوئے کشتۂ ارماں دیکھا
تیرے آنے سے مریض شب غم جی اٹھا
ہم نے اس درد کا اے جان تجھے درماں دیکھا
دم آخر بھی نہ آیا وہ بت عہد شکن
رہ گئے دل میں ہزاروں مرے ارماں دیکھا
حسرت و یاس سے بہتر نہیں کچھ زاد سفر
لے چلا ساتھ میں اپنی یہی ساماں دیکھا
کشش عاشق یہ ہے جذبۂ حسرت یہ ہے
آبدیدہ ہوئے وہ مجھ کو جو گریاں دیکھا
تم تو آگاہ ہو احوال سے اک عالم کے
یہ بتاؤ کوئی مجھ سا بھی پریشاں دیکھا
کیا جوش جنوں دست درازی نے تیری
تیرے دامن کے ہوئے چاک گریباں دیکھا
رخ سے برقع کو اٹھا ڈالا مرے ذبح کے وقت
اپنے قاتل کا دم مرگ یہ احساں دیکھا
صورت بزم عجب ہے تیری او آئینہ رو
تیری محفل میں جو آیا اسے حیراں دیکھا
اس کے آنے میں جو کھٹکا ہے تجھے اے احقرؔ
ہوگا بے چین وہ مجھ کو جو پریشاں دیکھا
دیگر
مرے دل میں وہ دلبروہ جلوہ نما ہے
چھپا تھا جو پردہ میں ظاہر ہوا ہے
لیا جس نے دل مرا اس اک نظر میں
وہی مرا دلبر وہی دلربا ہے
ہوا نحن اقرب سے معلوم ہم کو
نہیں وہ کسی آن ہم سے جدا ہے
مرے دل کو لے کر کیے تو نے ٹکڑے
مری جاں تیرا ہی یہ آئینہ ہے
پھرے چھانتا خاک دشت جنوں کی
جسے زلف کا تیری سودا ہوا ہے
دیگر
جو سمجھا ہے اپنی حقیقت کو ابدال
وہ بندہ ہے مالک کو پہنچانتا ہے
عجب ہے یہ انساں ہو کے نہ سمجھے
ذرا عقل پر اس کے پردہ پڑا ہے
ذرا غور سے دیکھ دانے کی حالت
کہ سر سبز مٹی میں ملا کر پڑا ہے
مٹا کر مری بود ہستی وہ بولے
تو پہلے تھا بگڑا ہوا اب بنا ہے
نہیں بھید ملتا ہے انساں کا احقرؔ
یہ کیا چیز ہے اس میں کیا بولتا ہے
دیگر
خبر لے جلد مرے ساقی مجھے ہے پیاس شدت سے
پڑا ہوں تشنہ لب بھٹی پہ تیری ایک مدت سے
ہماری عمر کے سب گنہ دُھل جائیں دم بھر میں
اگر مل جائے اک قطرہ تیرے دریائے رحمت سے
رکھا ہے بازو ہ سر پر قدم اپنے نہیں اٹھتے
گناہوں سے دباجاتا ہوں وحشت ہے قیامت سے
پلا کر مجھ کو اب سرخ کھودی سب یہ مستی
سراپا بھردے میخانہ مرے ساقی کار رحمت سے
ہمارے قتل کرنے کا ارادہ ہے جواب قاتل
نقاب رخ کو سرکا آشنا ہونے دے صورت سے
نہ ٹوٹے تاراشکوں کا میرے یارب قیامت تک
سنا ہے شست و شو ہوتی ہے دل کی خوب رقت سے
دیگر
اس کی فرقت میں مزا یہ ہے کہ روتا جاؤں
گوہر اشک میں تاعمر پروتا جاؤں
روتے روتے میری آنکھوں سے ہو دریا جاری
داغ عصیاں کو اسی آب کے دھوتا جاؤں
اس کے کوچے میں پہونچ کر یہ کہوں کیا اے شیوخ
دانۂ دل کو اسی خاک میں بوتا جاؤں
وہ طلب مجھ کو کریں ہو یہی حالت میری
جب چلوں سامنے اس بت کے تو روتا جاؤں
مرمٹوں عشق میں ایسا کہ پتہ تک نہ رہے
اس کو پیدا کروں اور آپ کو کھوتا جاؤں
واہ شاباش یہی کام ہے اچھا احقرؔ
فرقت یار میں تاعمر میں روتا جاؤں
دیگر
مرتے دم صورتِ زیبا جو دیکھائی تو نے
بات بگڑی تھی مری خوب بنائی تو نے
اٹھ گئے ظاہر و باطن کے حجاب آنکھوں سے
خانۂ دل میں جوکی جلوہ نمائی تو نے
خاک کر ڈالا مری جان جلا کر مجھ کو
فرقتِ یار کیا آگ لگائی تو نے
تنگ جی سے ہوں گلاکاٹ کے مرجاؤں گا
قتل میں مرے اگر دیر لگائی تو نے
دل میں رہ جائیں گے سب حسرت و ارماں میرے
قتل کے وقت جو صورت نہ دکھائی تونے
ہوگا ظلمت کدۂ خاک مرا نورانی
قبر میں صورتِ زیبا جو دکھائی تونے
ندیاں خون سے بہہ جائیں گی آنکھوں سے مری
وصل کی رات کو مہدی جو لگائی تو نے
میں تو کہتا تھا نہ لے نام محبت اے دل
آپ کے سر پہ مصیبت یہ اٹھائی تو نے
روند ڈالا مرے مرقد کو دم عشق خرام
دربدر خاک مری خوب اُڑائی تو نے
اک دن وصل کے بھی دیکھنا لوٹے گا مرے
سخنِ ہجر ہے اے دل جو اٹھائی تو نے
شکل پروانہ جلادے نہ کہیں اے احقرؔ
شمع رخسار سے لوتوہے لگائی تو نے
دیگر
جب سے دیکھی ہے مری جاں ہم نے صورت آپ کی
ہوگئی ہے جاگزیں دل میں محبت آپ کی
اک دم کر لیا قبضہ دل عشاق پر
ہے عجب چلتا ہوا جادو محبت آپ کی
ہے بہت دلچسپی مرے دل سے تیری ذات کو
گھر بنا بیٹھی ہے مرے دل میں صورت آپ کی
اشک جب جاری ہوئے آنکھوں سے دریا بہہ گئے
جوش زن ہے یہ میرے دل میں محبت آپ کی
مست کردیتا ہے دل کو نام نامی آپ کا
یا علی میں کیا کہوں، کیا ہے محبت آپ کی
آپ کی دوری میں مری جان جائے گی ضرور
ہے قضا مرے لئے اے جان فرقت آپ کی
اس صفائے رُخ نے آئینہ بنا ہے مجھے
مری صورت میں نظر آتی ہے صورت آپ کی
دیگر (حمد)
تو ہی لاشریک اور واحد خدایا
تری ذات ہر شئے سے بے شک بری ہے
تو خالق ہے، سالک ہے ہر جزو کل کا
یہ جو کچھ ہے سب تری کاریگری ہے
کرے غور لازم ہے انسان خاکی
اسی کے ہر شے میں جلوہ گری ہے
تیرے ہجر کی آگ نے گو جلایا
مگر شاخ امید مری ہری ہے
محبت تری مرے سینہ میں اے جان
دیر کا یہی وہ جیسی چھوتی دہری ہے
مدد میری کی تونے سب مشکلوں میں
یہ بندہ نوازی کرم گستری ہے
دیا خاک کو تونے رتبہ جو عالی
تیری شان اقدس کی یہ برتری ہے
شمار اس کا ہے ترے بندوں میں احقرؔ
یہ تو بس تمہاری کرم گستری ہے
دیگر
حسرت تری کس کو رُخ زیبا نہیں ہوتی
پتھر ہے وہ دل جس میں تمنا نہیں ہوتی
کس وقت مجھے یاد مدینہ نہیں ہوتی
کب روضۂ اقدس کی تمنا نہیں ہوتی
دکھلاتے دم مرگ جو وہ صورت زیبا
سختی مجھے پھر موت کی اصلا نہیں ہوتی
امید ہے مدت کے پھر جاؤں مدینہ
کیوں پوری تمنا مرے مولیٰ نہیں ہوتی
جو لوگ ہیں اچھے وہ نہیں کرتے بُرائی
اچھوں کو بُری بات بھی زیبا نہیں ہوتی
ہے وہ ترے دل کے طلب گار اے جان
تیرے مرے ملنے کی تمنا نہیں ہوتی
ہم عاشق جاں باز ہیں راضی برضا ہیں
جو ظلم و ستم ہو ہمیں پرواہ نہیں ہوتی
وہ جو روجفا کرے ہیں سب کا ان کا
کیوں تجھ سے وفا اے دل شہدا نہیں ہوتی
اے جان جہاں تو جو رہے دیدۂ دل میں
پھر غیر کے دیدار کی پرواہ نہیں ہوتی
مرتا ہوں تیرے ہجر میں مدت سے میری جاں
کیوں مجھ پے نظر رشک مسیحا نہیں ہوتی
معلوم ہے مجھ کو ستم و جوران کا
مرجائے کوئی پر انہیں پرواہ نہیں ہوتی
میں محو جمال رُخ دلدار ہوں ایسا
سرتن سے اُترجائے پرواہ نہیں ہوتی
دیگر (نعت پاک)
نسیمِ مدینہ مسرت ہے مری
نہ آنا ہی اس کا قیامت ہے مری
ملیں تم سے کہوں کیا حقیقت ہے مری
ہیں خود آپ موجد جو صورت ہے مری
ہو خود راز داں تم کہو خود میں کیا ہوں
بیاں میں کروں کیا حقیقت ہے مری
وہ بت مجھ سے کہتا ہے صورت دکھا کر
ہر اک شکل میں ہوں یہ صورت ہے مری
تجھے کیا ہے حیرت کیوں حیران ہے
جو پھیلی ہے ہرسو وہ نسبت ہے مری
ہر اک دل پہ قبضہ کیا جس نے اپنا
یہی فی الحقیقت محبت ہے مری
اگر پردہ ہو تری صورت کو مجھ سے
یہی تو مری جاں قیامت ہے مری
جو کرتی ہے بے چین عالم کے دل کو
وہ کیا ہے تو کہتے ہیں الفت ہے مری
غزل (مشاعرہ اسلام پور)
ہر شے سے عیاں ہر اک شے میں نہاں ہوں
مقصود ہوں کونین کا مطلوب جہاں ہوں
میں صورت محمل ہوں سرا پردۂ لیلیٰ
لیلیٰ ہوں مگر قیس کی صورت میں عیاں ہوں
رہتا ہوں دل و دیدۂ عشاق میں روپوش
تارِ نظر شوق ہوں میں رشتۂ جاں ہوں
سنتے ہی ہر اک شخص جو ہوتا ہے بے چین
کس عاشق بے تاب کی میں آہ و فغاں ہوں
توحید میں عین انانیت عاشق ہے
منصور انا گو کی طرح اپنا بیاں ہوں
سب جانتے ہیں جن و ملک ارض و فلک سے
اٹھا ہے نہ اٹھے گا میں وہ بارگراں ہوں
یہ ظاہر و باطن میں سبھی جلوہ ہے اپنا
پردے میں کبھی ہوں کبھی بے پردہ عیاں ہوں
میں درد کی صورت میں لوگوں کی زباں ہوں
پھر ہند سے جس وقت مدینہ کو رواں ہوں
آپ کی غزل کے کچھ ٹکڑے ملاحظہ ہوں
نام اُس کا لیا ہے جب دل سے
ہوش قائم رہا ہے مشکل سے
یہ ستم اور ڈھایا ہے قاتل نے
منہ چھپا کر چلا ہے بسمل سے
تاقیامت نہ جائے گی احقرؔ
یاد اُس شوخ کی مرے دل سے
دوسری غزل کے مقطع کا شعر یہ ہے
لن ترانی کا ہے شوق احقرؔ اگر
صورت موسیٰ بنانا چاہیے
دیگر
رہنے کا مرے خاص ٹھیکانے تو ملا ہے
میں سمجھوں گا جاگا ہے نصیبا مرا احقرؔ
حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کے دیوان دوم جذباتِ اکبرؔ (مطبوعہ آگرہ اخبار، ۱۹۱۵) میں آپ کی تین تاریخیں درج ہیں۔
’’قطعہ تاریخ از نتیجۂ فکر بلیغ ،صوفی صافی منش ، جامع کمالات صوری و معنوی، ماہرفن سخنوری، متوکل باللہ ،جناب حاجی شاہ محمد عبداللہ صاحب ابوالعلائی الاکبری داناپوری سلمہٗ اللہ الاکبر‘‘
طبع گردید چو دیوان احقرؔ
شور احسنت زماہی آمد
دہ چہ پاکست کلامِ حضرت
ناطقہ خود بگواہی آمد
سالِ دیوان جناب مرشد
’’چشمۂ فیض الٰہی آمد‘‘
۱۳۲۹ھ
ایضاً
میں لکھوں اس صحیفہ کی تاریخ
چھوٹا منہ بات گو بڑی ہے یہ
دوست و احباب کے تقاضے سے
فکر اک تازہ میں نے کی ہے یہ
یعنی دیوان پیر و مرشد کی
میں نے تاریخ اب لکھی ہے یہ
بحرزخار فیض ہے دیوان
موج دریا سے دلبری ہے یہ
گرنہ دیں اہلِ فن کلام کی داد
قہر ہے ظلم و دشمنی ہے یہ
دو عدد گرچہ بڑھ گئے ہیں مگر
’’چشمۂ فیض‘‘ دائمی ہے یہ
۱۳۳۱ھ
آپ کا نام رات دن جپنا
اب تو احقرؔ کی زندگی ہے یہ
ایضاً
اربابِ سخن پڑھ کر احسنت پکار اٹھے
جب طبع ہوا پیر و مرشد کا مرے دیواں
دل نے کہاں حضرت کے دیوان کی تاریخیں
سب لکھ چکے اے احقرؔ کچھ تو بھی کر ساماں
جب فکر ہوئی مجھ کو آئی یہ ندا لکھ دو
محبوب دل آرا کا ’’مرغوب ہوا دیواں‘‘
۱۳۳۱ھ
(جذباتِ اکبرؔ،ص ۷۷، مطبوعہ آگرہ اخبار، ۱۹۱۵)
حاجی صاحب کا ابتدائی عہد میں کلکتہ، بانکا، بھاگلپور، اسلام پور اور کاکو میں آنا جانا رہا۔ کاکو میں وہ رئیس اعظم شیخ عبدالرحمٰن صاحب کے دولت کدہ پر ٹھہرتے۔ سال میں متعدد بار وہ کئی کئی ماہ تک الہ آباد سے باہر رہتے، خاص طور پر داناپور اور آگرہ میں ان کا قیام طویل رہتا۔ بعض لوگوں کے ادب و احترام کا یہ عالم تھا کہ بعض رئیس جب الہ آباد کی خانقاہ سے اپنے تانگے پر بیٹھے ہوئے حاجی صاحب کی قیام گاہ کے سامنے سے گزرتے، تو بلحاظ ادب تانگے سے اتر جاتے اور کچھ فاصلے پیدل چلنے کے بعد دوبارہ سوار ہوتے۔
۱۳۴۳ھ کا ایک مشہور واقعہ یہ ہے کہ آگرہ میں حضرت سیدنا امیر ابوالعلاء کے عرس (۹؍ صفر) کے موقع پر آستانے میں محفلِ سماع منعقد تھی۔ حاجی صاحب اس محفل میں جلوہ افروز تھے کہ قوال کے کسی مصرعے پر ایک صاحب کیف مرید پر کیفیت طاری ہوگئی۔ دھیرے دھیرے یہ کیفیت شدت اختیار کر گئی، یہاں تک کہ شدید بے چینی و بے کلی کی وجہ سے نقل و حرکت بالکل رک گئی، اور گمان ہوا کہ شاید اس کا دم نکل رہا ہے۔
اتنے میں حاجی صاحب نے قوال کو اسی مصرعے کی تکرارِ پیہم کا حکم دیا، کہ اس کے سوا کچھ اور نہ پڑھا جائے۔ دریں اثنا، آپ پر بھی کیفیت طاری ہوئی۔ اُس عالمِ جذب و کیف میں حاجی صاحب اٹھے اور اس بے حال مرید کے پاس گئے، اسے معانقہ کیا، سینے سے لگایا، آنکھوں سے آنکھیں ملا کر اس کی اُکھڑی ہوئی سانس بحال کرنے میں مدد فرمائی۔ معانقۂ پیر اور مصرعہ کی پیہم تکرار ہی اس کیفیت کا اصل علاج ثابت ہوئی۔
یہ وجد و کیف حاجی صاحب پر بھی بے حد اثر انداز ہوا اور ان کی طبیعت میں غیر معمولی تغیر پیدا ہوا۔ بعد ازاں آپ آگرہ میں طویل قیام نہ کر سکے، اور اسی کیفیت میں الہ آباد تشریف لائے۔ اکثر بسترا پر رہتے، مگر اس دوران فرض و سنن میں کسی بھی قسم کی کمی محسوس نہ ہوئی۔ روزانہ حکیم علاج و معالجہ کے لیے آتے اور حاجی صاحب کی خیریت دریافت کرتے۔
حاجی صاحب کو شاہ نعمت اللہ صابری (سجادہ نشیں: دائرۂ شاہ محب اللہ) سے غایت درجہ محبت تھی، اسی لیے وہ روزانہ خانقاہ آ کر ان کی خیریت دریافت کیا کرتے۔ جب حاجی صاحب کا آخری وقت قریب آیا، تو شاہ نعمت اللہ صاحب وہاں موجود تھے۔ دونوں بزرگ غمگین و تنہا تھے۔ حاجی صاحب اپنے سر کو شاہ نعمت اللہ صاحب کی گود میں رکھ کر اُن کی طرف دیکھ رہے تھے، اور شاہ نعمت اللہ صاحب کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھیں۔ چند ہی لمحوں میں، عصر و مغرب کے وقت حاجی صاحب کی روح پُرفتوح دار فانی سے دار بقا کی جانب کوچ کر گئی۔
حاجی صاحب کے رحلت کی تاریخ ۵؍ جمادی الثانی، روز پنجشنبہ، ۱۳۴۳ھ، موافق ۱؍ جنوری ۱۹۲۵ ہے۔ دوسرے روز خانقاہ میں مدفون ہوئے۔ اس پر منشی نظرؔ محسنی الہ آبادی نے قطعۂ تاریخِ رحلت بھی رقم کیا ہے۔
صدفیٔ گوشہ نشین زایر بیت الحرام
شیخ عبداللہ حاجی پاک روح و پاکدم
گوہر بحر ولایت ذات پاک او نظرؔ
’’محرم اسرارِ الٰہی منبع لطف و کرم‘‘
۱۳۴۳ھ
(مولانا سیدعبدالرشید قادری کی دینی خدمات و حیات کا مختصر جائزہ)
حاجی صاحب کے عرس کے مبارک موقع پرمنشی نظرؔالہ آبادی نے چند اشعار گلہائے عقیدت کے کہے ہیں، قارئین کی دلچسپی کے لئے وہ اشعار لکھے جارہے ہیں۔
عبدوہ جو بندۂ فرمان ہے
شکر مالک ہر نفس ہر آن ہے
اس کے پیارے کی اطاعت کیجئے
کملی والے کی محبت کیجئے
دین و دنیا کے ہیں یہ مشکل کشا
مانتا ہے بات اُن کی سب خدا
ساقیا پھر آ گیا سالانہ دور
ہے کریمانہ ترا رندانہ دور
مے کدہ آباد تیرے دور میں
دوست و دشمن شاد تیرے دور میں
ایک مستِ ابوالعُلا کا عرس ہے
حاجی عبداللہ شاہ کا عرس ہے
درس وحدت ہے حقیقت آپ کی
الفتِ اکبر ہے الفت آپ کی
بوالعُلائی سلسلہ کا ناز ہے
پاک دل ہے چشم حق بیں لیجئے
کیفیت تربیت کا نظارہ کیجئے
لیجئے ہاں فیض بین لیجئے
زینت بزم سماع حضرات آئیں
تصدیعہ پرداز ہوں تشریف لائیں
صبح ہے قرآن خوانی کے لیے
رات ہے کیف ترانی کے لیے
شام نورانی سہانی ہے سحر
باخبر ہے آج قلب بے خبر
عاجز و مسکیں فقیر عبدالحلیم
بندۂ خاصانِ حق خادم قدیم
فیض صحبت آپ سے حاصل کرے
سال بھر پھر دم محبت کا بھرے
فیض روحی ہے نظرؔ کے واسطے
پھول پھل سوکھے شجر کے واسطے
(اشتہار عرس حاجی صاحب، الہ آباد،۱۹۴۸)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.