Font by Mehr Nastaliq Web

ذکر خیر حضرت شاہ عزیزالدین حسین منعمی

ریان ابوالعلائی

ذکر خیر حضرت شاہ عزیزالدین حسین منعمی

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    صوبۂ بہار کا دارالسلطنت عظیم آباد نہ صرف معاشی و سیاسی اور تاریخی لحاظ سے ممتاز رہا ہے بلکہ اپنے علم و عمل، اخلاق و اخلاص، اقوال و افعال، گفتار و بیان اور معرفت و ہدایات سے کئی صدیوں کو روشن کیا ہے۔ یہاں اولیا و اصفیا کی کثرت ہے، بندگانِ خدا کی وحدت ہے، چاروں جانب صوفیوں کی شہرت ہے، اور اہل دنیا کے لیے یہ جگہ نشانِ ہدایت ہے۔

    چودہویں صدی ہجری میں بہار کے مشائخ کا عظیم کارنامہ ظاہر ہوا، جن میں خانقاہ منعمیہ قمریہ، میتن گھاٹ، پٹنہ سیٹی کے معروف سجادہ نشین حضرت مولانا سید شاہ عزیزالدین حسین قمری المنعمی قدس اللہ سرہٗ کی پاکیزہ شخصیت نمایاں شان کی حامل ہے۔ آپ بہار کی خانقاہ کے ان چند بلند پایہ سجادگان ذیشان میں سے ایک ہیں جن پر اس سرزمین کو بجا طور پر ناز ہے۔

    حضرت سید شاہ عزیزالدین حسین 1266ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ اپنے بھائیوں میں منجھلے تھے اور کم سنی میں ہی والد ماجد حضرت سید شاہ مبارک حسین قدس سرہٗ (متوفیٰ 1273ھ) کے انتقال کے بعد اپنے خانوادہ کے مقتدر بزرگان عظام اور برادر اکبر حضرت حافظ سید شاہ منیر الدین حسین قدس سرہٗ (متوفیٰ 1287ھ) کے زیر تربیت آئے۔ زمانۂ طفولیت ہی سے آپ کی شخصیت نمایاں ہونے لگی تھی۔

    خاندانی روش اور اسلاف کے پرتو میں پروان چڑھتے ہوئے، آپ میں کم عمر ہی سے کچھ کر جانے کا جذبہ اور ولولہ موجود تھا۔ خانوادہ عالیہ کے افراد ہوں یا سلسلۂ طریقت کے شہسوار، دونوں جگہ آپ کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ آپ کے اوصاف و کمالات کا دائرہ کافی وسیع تھا، اور راقم الحروف صرف چند ظاہری اوصاف و کمالات کو جمع کرکے ہدیۂ تبریک پیش کرنا چاہتا ہے کہ

    ذرہ سنبھل کر فقیروں پہ تبصرہ کرنا

    یہ سوکھی ندی سے بھی پانی نکال دیتے ہیں

    حضرت شاہ عزیزالدین حسین کے والد حضرت شاہ مبارک حسین قدس سرہٗ (متوفیٰ 1273ھ) اور جد امجد اعلیٰ حضرت سید شاہ قمرالدین حسین قدس سرہٗ (متوفیٰ 1255ھ) عظیم آباد میں یکتائے روزگار اور عدیم المثال بزرگ گزرے ہیں۔ عظیم آباد کی سرزمین پر اس خاندان کے فقر کا سکہ بہت بلند ہے۔ کندن کو سونا بنانا، زمین کو مثل آسمان کرنا یہ اس خاندان کی خاصیت رہی ہے۔ تاریخ عظیم آباد میں اس خاندان کا ایک روشن باب موجود ہے۔

    حضرت شاہ عزیزالدین حسین نے علوم متداولہ میں مہارت حاصل کی اور پھر سلسلۂ فقر کی جانب مائل ہوئے۔ آپ کو بچپن ہی سے حضرت مخدوم شاہ محمد سجاد داناپوری قدس سرہٗ کی صحبت کا فیض حاصل تھا، جن سے آپ نے بیعت اور مجاز مطلق حاصل کیا۔

    حضرت شاہ اکبر داناپوری قدس سرہٗ رقمطراز ہیں کہ

    ’’آپ حضرت سید شاہ قمرالدین حسین قدس اللہ سرہٗ کے پوتے اور سجادہ نشین ہیں اور جناب حضرت سید شاہ مبارک حسین قدس اللہ سرہٗ کے فرزند اوسط ہیں۔ صاحب نسبت قویہ و فہم سلیم ہیں، بشرے سے آثار کیفیت و نسبت پائے جاتے ہیں۔ آپ کو کم عمری سے والد ماجد حضرت سید شاہ محمد سجاد قدس اللہ سرہٗ سے شرف بیعت و خلافت حاصل ہوا اور اب اس سجادہ کو آپ کی ذات بابرکات سے رونق ہے، اللہمہ زد۔‘‘ (نذرمحبوب، ص 38)

    حضرت شاہ عزیزالدین حسین کو اپنے پیر و مرشد سے بے پناہ محبت تھی اور اکثر سفر و قیام میں بھی ان کے ہمراہ رہتے تھے۔ آپ کی نسبت پیر و مرشد سے اتنی مضبوط تھی کہ ساری نسبتیں دیگر سب چیزوں پر غالب ہو گئیں۔

    حضرت شاہ محمد کبیر ابوالعلائی داناپوری قدس سرہٗ لکھتے ہیں کہ

    ’’اور آخری سفر حج آپ (حضرت سجاد) کا 1296ھ میں ہوا، اس سفر میں آپ کی ہم رکابی میں جناب سید شاہ عزیزالدین حسین مدظلہ بھی تھے، جو صاحبزادے حضرت سید شاہ فخرالدین حسین المشہور شاہ مبارک حسین بن حضرت سید شاہ قمرالدین حسین عظیم آبادی قدس اللہ سرہٗ کے اور آپ کے خلفائے عظام میں سے ہیں اور فیض بخش مسند ارشاد پر فائز ہیں۔‘‘ (تذکرۃ الکرام، ص 711)

    حضرت شاہ محمد یحییٰؔ ابوالعلائی عظیم آبادی (متوفیٰ 1302ھ) نے آپ کے سفر حرمین و شریفین پر قطعہ تاریخ لکھاہے۔

    قطعہ اول

    عزیز اللقب سید وشاہ من

    کہ دارد بسر تاج فقر و فنا

    مع الخیر باز آمدہ از عرب

    نمودہ اداحج بیت خدا

    پس از حج طواف مزار رسول

    ادا کرد با عشق و صدق و صفا

    بتاریخ گفتیم و قت قدوم

    کہ’’خوش آمدی سیدی مرحبا‘‘

    1296ھ

    دیگر

    شاہاہند نکہت جاںبخش کوہے دوست

    اندرحشام جان من از بوے پاک تو

    در مکہ و مدینہ اداکردۂ نماز

    مامسجد می کنم درابروے پاک تو

    مابین قبر و منبر احمد نشیۂ

    جائے نشست ماست گیسوئے پاک تو

    تاریخ گو ئمت چہ مبارک پے آمدی

    اے کعبہ و مدینہ من کوے پاک تو

    حضرت شاہ عزیزالدین حسین کی محنت و معرفت اور قربتِ الٰہی سے ان کے پیر و مرشد حضرت قبلہ و کعبہ مخدوم شاہ محمد سجاد قدس سرہٗ (متوفیٰ 1298ھ) بھی ان کی عظمت و رفعت کے قائل ہو چکے تھے۔ حضرت مخدوم سجاد، حضرت عزیز کو مرشدزادے اور مخدومزادے کی نسبت سے بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

    حضرت شاہ غفورالرحمٰن قادری ابوالعلائی حمدؔ کاکوی (متوفیٰ 1357ھ) لکھتے ہیں کہ

    ’’جناب سید شاہ عزیزالدین علیہ الرحمت قریب میں آپ کے بیٹھے ہوئے تھے اور یہ مرشد کے پوتے تھے۔ ایک مرتبہ چشمِ دید واقعہ ہے کہ میر سجاد حسین مرحوم (ساکن: محلہ چک، الہ آباد) آپ کے مرید تھے۔ حضرت شاہ قمرالدین علیہ الرحمت کے عرس میں آئے ہوئے تھے، اس مجلس میں ناچیز بھی حاضر تھا کہ میر ممدوح (مرید و خلیفہ حضرت مخدوم محمد سجاد داناپوری) کو کیفیت آئی اور اُس حالت میں حضور کے قدم پر سر رکھ دیا۔ حضور نے اُن کے سر کو اپنے ہاتھ سے اٹھا کر پہلو میں جناب سید شاہ عزیزالدین صاحب کے قدم پر رکھ دیا۔‘‘ (آثار کاکو، قلمی)

    حضرت شاہ عزیزالدین حسین کی سجادگی کے بعد ان کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا، اور مریدان و معتقدان کی تعداد بھی بہت بڑھ گئی۔ یہاں تک کہ علماء بھی آپ کی ذات سے متاثر ہو کر صحبت کے متلاشی بن گئے۔ غرض یہ کہ مولانا محمد حسین قادری رمزؔ حاجی پوری (متوفیٰ 1343ھ) علمائے بہار میں شمار ہوئے اور تعلیم و ارشاد حضرت شاہ عزیزالدین حسین سے حاصل کی۔

    جگیشر پرشاد خلشؔ لکھتے ہیں کہ

    ’’اور جناب سید شاہ منیرالدین حسین و جناب سید شاہ عزیزالدین سجادہ نشینان تکیہ میتن گھاٹ، پٹنہ سیٹی سے تعلیم پاتے رہے۔‘‘ (فروغِ بزم، ص 89)

    وقت و حالات کے مطابق مراحل و مقامات بدلتے گئے، لیکن آپ چودہویں صدی ہجری کے اوائل میں بطور سجادہ نشین خاصان و عامیان کے درمیان معروف ہوئے۔ حضرت شاہ عزیزالدین حسین کے عہدِ سجادگی میں خانقاہ منعمیہ قمریہ، میتن گھاٹ کو خوب شہرت حاصل ہوئی۔ آپ اپنے برادر اکبر حضرت حافظ سید شاہ منیرالدین حسین قدس سرہٗ کے وصال کے بعد 1287ھ سے تاعمر وفات سجادہ نشین رہے، یعنی تقریباً 36 برس تک اس سجادہ پر رونق افروز رہے۔

    آپ کی بلند شخصیت سے متاثر ہو کر حضرت شاہ محمد اکبر داناپوری قدس سرہٗ (متوفیٰ 1327ھ) نے آپ کو یاد کرتے ہوئے فرمایا کہ

    ’’افتخار الاخوان، برادر و الشان سید شاہ عزیزالدین حسین صاحب زاداللہ عرفانہ۔‘‘

    حضرت شاہ عزیزالدین حسین نے چودہویں صدی ہجری کے اوائل میں علماء و صلحا کے درمیان محبتوں کا چراغ روشن کیا۔ آپ اہل سنت کی خدمات جلیلہ کو شائع و ذائع کرتے، اور علمائے ہند کے اختلافات و تنازعات کو حل کرنے میں فعال رہے۔ اس مقصد کے لیے قاضی عبدالوحید فردوسی (متوفیٰ 1326ھ) کی رہنمائی میں عظیم آباد میں اہل سنت کا ایک بڑا اجلاس منعقد ہوا، جس میں بدایوں، بریلی، رام پور، الہ آباد وغیرہ کے علماء بھی شریک ہوئے۔

    حضرت شاہ عزیزالدین حسین نے اس اجلاس کی کامیابی کے لیے اپنی خانقاہ سے دریاں، توشک، تکیے اور شمع دان بھی فراہم کیے، تاکہ ہر حال میں اجلاس کامیاب رہے۔ اس موقع پر اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی (متوفیٰ 1340ھ) بھی عظیم آباد تشریف لائے اور حضرت شاہ عزیزالدین حسین کے مرتبہ کو سراہا۔

    حضرت رضا بریلوی نے عربی قصیدہ امال الابرار و الام الاشرار میں یوں ذکر کیا کہ

    ’’عزیز الدین ذاعز یسّوّد‘‘ 12)

    اور حضرت حسن بریلوی نے فارسی مثنوی صمصام حسن بردابر فتن میں فرمایا کہ

    ’’شاہ سماعیل و عزیز و امیر‘‘ 40)

    اسی طرح حضرت شاہ عزیزالدین حسین کی تحریر مکتوبات و علما و کلام اہل صفا میں بھی درج ہوئی کہ

    ’’تحریر جناب مولانا سید شاہ عزیزالدین حسین صاحب قمری ابوالعلائی، زیب سجادہ قمریہ، عظیم آباد، چون کہ میں حنفی المذہب ہوں اور یہ ندوہ اجتماع مذاہب مختلفہ سے قائم کیا گیا ہے لہٰذا میں اس کے خلاف ہوں۔‘‘ (مکتوبات علما و کلام اہل صفا، ص 82)

    مزید یہ کہ دیگر رسائل میں بھی آپ کا نام و تذکرہ شامل ہے، جیسے رسالہ تہدید الندوہ، دربار حق و ہدایت، اور فک فتنہ از بہار و پٹنہ وغیرہ۔

    حضرت شاہ نصیر الحق چشتی، سجادہ نشین خانقاہ چشتیہ نوآباد، فرماتے ہیں کہ

    ’’میں جناب شاہ عزیزالدین حسین کا ہم زبان ہوں۔‘‘ (مکتوبات علما و کلام اہل صفا، ص 100)

    حضرت شاہ عزیزالدین حسین کی عالمانہ شخصیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی محفل میں فیض حاصل کرنے والے نہ صرف علماء اور فاضل حضرات تھے بلکہ مختلف اوصاف و کمالات کے حامل افراد بھی عقیدت مندی کے ساتھ حاضر ہوتے تھے۔ اصلاح ندوہ تحریک کے افراد یا سر سید احمد خان کی تعلیمی بیداری سے متاثر شدہ حضرات بھی آپ کی صحبت سے مالا مال رہے۔

    معاصر علماء و مشائخ آپ کو یاد کرتے تھے کہ

    ’’قطب الاقطاب و غوث دوران و پیشوائے سالکان و ہادی گمراہان محبوب خدا، عالم ظاہری و باطنی، مرجع خلائق، جناب مولانا مولوی سید شاہ محمد عزیزالدین صاحب ابوالعلائی، محلہ میتن گھاٹ، عظیم آباد۔‘‘ (دافع المہمات، ص 12)

    حضرت شاہ عزیزالدین حسین مختلف خوبیوں کے مالک تھے: ایک بہتر عالم دین، فاضل متین، صاحب صدق و یقین، بزرگوں کے امین، شعور و سخن کے شوقین، علمائے اہل سنت کے معاون، اور خانقاہ منعمیہ قمریہ، میتن گھاٹ، پٹنہ سیٹی کے معروف سجادہ نشین تھے۔ آپ حنفی المذہب، منعمی قمری مشرب اور رضوی النسب بزرگ تھے۔

    سید بدرالحسن (متوفیٰ 1354ھ) لکھتے ہیں کہ

    ’’راقم نے اس گدی پر شاہ عزیزالدین حسین کو دیکھا تھا۔ واقعی جوان صالح تھے اور فقیری کی شان ان میں نمایاں تھی۔ سیدھے، سادے، نیک مزاج، صاحب دل، بااخلاق اور پر کیف آدمی تھے۔‘‘ (یادگار روزگار، ص 1224)

    حضرت عزیز کو شعرو سخن سے بھی رغبت تھی۔ وہ صرف شوقین نہیں بلکہ دل دادہ بھی تھے۔ ان کی غزلیں، نعت، قطعات و رباعیات خانقاہ منعمیہ قمریہ کے کتب خانے میں محفوظ ہیں۔ جاننا چاہیے کہ حضرت عزیز کے دستِ خاص کا نوشہ بھی موجود ہے۔

    خانقاہ منعمیہ قمریہ کے کتب خانے کی زینت میں درج ذیل رسائل شامل ہیں کہ

    رسالہ فنا و بقا (از حضرت سیدنا امیر ابوالعلا)

    رسالہ مرشدیہ (از جامع حضرت سید قمرالدین حسین)

    رسالہ جواہر الانوار (از حضرت سید قمرالدین حسین)

    حضرت شاہ محمد یحییٰؔ ابوالعلائی عظیم‌آبادی (متوفیٰ 1302ھ) کی رحلت پر حضرت شاہ عزیزالدین حسین کا ایک قطعہ تاریخ فتوحات شوق میں درج ہے کہ

    ’’قطعہ تاریخ طبع سید شاہ عزیزالدین حسین صاحب دام فیضہٗ، خلف الصدق میر مبارک حسین قدس سرہٗ، مرشد صاحب دیوان علیہ الرحمۃ والرضوان

    شاہ یحییٰ بفقہ زہدو ورع شد

    چوں زندہ ہنوز ذات قدم

    تیرہ یمنود عالم فانی

    دیدۂ دل شد از غم مش پُرنم

    یکسر از موت آن خجستہ صفات

    دفتر نظم و نثر شد برہم

    بطفیل جناب رکن الدین

    یافت نعمت زمعم عالم

    قمری و ابوالعلائی بود

    برکات و فیوض داشت اتم

    از مبارک حسین قطب زماں

    نسبت فقر داشت اولحکم

    یاالٰہی بحق آل عبا

    نظرے کن باوزلطف و کرم

    بدعائے عزیزؔ کن یارب

    حشر با حمد شفیع امم

    پئے تاریخ آن ولیِ خدا

    ’عاشقِ خاص بوالعُلا فگتم‘‘‘

    (فتوحات شوق، ص 556)

    حضرت عزیزالدین حسین کو باقرؔ عظیم‌آبادی نے وحیداللہ آبادی کا شاگرد لکھا ہے، اور اپنی مثنوی کیمیائے دل میں رقمطراز ہیں کہ

    عزیز رہ دین ملقب بہ شاہ

    جو ذی رتبہ ہے اور ہے آگاہِ راہ

    20)

    حضرت عزیز کی ایک غزل بھی محفوظ ہے۔

    پتلے میں آیا خاک کے آدم کہا گیا

    جلوہ ہر ایک رنگ میں ہم کو دکھایا گیا

    توحید کا سبق ہمیں اُس نے پڑھا دیا

    پردہ تھا اک خودی کا سووہ بھی اٹھا گیا

    آخر جنونِ عشق نے کیا کیا کیا سلوک

    سب استخوان اور رگ و پ کو جلا گیا

    تھی آرزوی یہی کہ کوئی گھونٹ ہو نصیب

    وہ خم کا خم مجھے مئے وحدت پلایا گیا

    قاتل بنا ہے آپ اور مقتول ہے وہی

    منصور بن کے آپ کو سولی چڑھا گیا

    جس کو تلاش کرتا ہے تو کو بکو عزیزؔ

    اب دیکھ ہر بشر میں وہ آکے سما گیا

    (وظائف العارفین، ص 63)

    حضرت شاہ عطا حسین منعمی فانیؔ (متوفیٰ 1311ھ) لکھتے ہیں کہ

    ’’دو می سید شاہ عزیزالدین حسین کہ ایں نیز در علم عربی و فارسی حیثیت دارند، وافر بیعت ایشاں راہست از عم الاصغر سید شاہ محمد سجاد مسند نشین ارشاد۔‘‘ (کنزالانساب، ص 319)

    حضرت شاہ عزیزالدین حسین کا حلقہ مریدان و معتقدان وسیع تھا اور آپ نے کئی افراد کو بیعت و خلافت سے مشرف فرمایا۔

    حضرت سید شاہ رضی الدین حسین منعمی: آپ کو بیعت و خلافت حضرت مخدوم شاہ محمد سجاد پاک داناپوری قدس سرہٗ سے حاصل تھی، نیز تعلیم و ارشادات برادر اوسط حضرت شاہ عزیزالدین حسین سے حاصل کیں۔ حضرت عزیز کی رحلت کے بعد آپ ہی جانشین و سجادہ نشین ہوئے۔

    حضرت سید شاہ تقی الدین حسین منعمی: آپ کو بیعت و خلافت کے ساتھ تعلیم و ارشادات حضرت شاہ عزیزالدین حسین سے حاصل تھیں۔ آپ، حضرت رضی الدین حسین کے فرزند رشید تھے، اور اس طرح حضرت عزیز کے برادرزادہ بھی ہوئے۔ حضرت رضی الدین حسین کے بعد آپ ہی خانقاہ منعمیہ قمریہ، میتن گھاٹ کے سجادہ نشین ہوئے۔

    سید منظور امام: آپ کو بیعت سلسلۂ نقشبندیہ ابوالعلائیہ میں حاصل تھی، اور اپنے پیر و مرشد سے پانچ طریقوں میں اجازت و خلافت بھی حاصل کی: نقشبندیہ، ابوالعلائیہ، چشتیہ، قادریہ، فردوسیہ اور مداریہ۔ (سفینہ حضرت عزیز، مخزونہ کتب خانہ خانقاہ منعمیہ قمریہ)

    قاضی سید رضا حسین: آپ شہر عظیم آباد کی رونق تھے۔ آپ کو بیعت و خلافت حضرت امیر ابوالحسن منعمی قدس سرہٗ (متوفیٰ 1288ھ) سے حاصل تھی، اور سال رحلت 1309ھ ہے۔ مولوی سید عبدالغنی (متوفیٰ 1338ھ) لکھتے ہیں کہ

    ’’اکثر سجادہ نشینوں سے اُن کو پورا خلوص اور سچا روحانی تعلق تھا، جس میں خصوصیت کے ساتھ جناب سید شاہ میاں جان صاحب، جناب سید شاہ محمد یحییٰ، شاہ عزیزالدین صاحب، شاہ حفاظت حسین صاحب قدس سرہٗ کا تذکرہ ضروری ہے۔‘‘ (قاضی سید رضا حسین، ص 84)

    منشی حسن علی: قاضی سید رضا حسین کو حضرت شاہ عزیزالدین حسین سے بے پناہ قلبی ربط تھا، اسی وجہ سے انہوں نے منشی حسن علی (متوفیٰ 1314ھ)، جو معروف واعظ و مصنف تھے، حضرت شاہ عزیزالدین حسین سے بیعت کرائی۔ ڈاکٹر مظفر اقبال لکھتے ہیں کہ

    ’’انہیں ایک مرشد کامل کی تلاش ہوئی اور انہوں نے اپنے ہم دم قاضی رضا حسین صاحب سے مشورہ کیا۔ قاضی صاحب نے انہیں اپنے پیر و مرشد سید شاہ عزیزالدین صاحب قمری ابوالعلیٰ کی طرف رجوع کیا، چنانچہ وہ مرید ہوگئے اور مرشد نے روز اول سند خلافت بھی عنایت فرمائی۔‘‘ (بہار میں اردو نثر کا رتقا، ص 108)

    نوٹ: منشی حسن علی بعد میں قادیانی جماعت کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔

    مزید برآں، حضرت مخدوم شاہ محمد سجاد پاک داناپوری قدس اللہ سرہٗ (متوفیٰ 1298ھ) کے مریدوخلیفہ، یعنی آپ کے پیربھائی حضرت شاہ محمد ادریس چشتی ساجدی قدس سرہٗ (متوفیٰ 1354ھ) کو بعض اوراد و وظائف کی اجازت حاصل تھی۔ (دافع المہمات، ص 12)

    حضرت ادریس سیرداؔ عظیم آبادی فرماتے ہیں کہ

    حضرت عزیز جو تھے ہردل عزیز

    غورکر دیکھ وہ پیش نظر نکلا

    (دیوان سیرداؔ،ص 4)

    حضرت شاہ عزیز الدین حسین کے دو خاص مرید بااختصاص کا ذکر سیدبدرالحسن صاحب نے اپنی کتاب ’یادگار روزگار‘میں کیا ہے۔

    ’’ڈاکٹر ایثارالحق کے دو لڑکے تھے ایک کانام پیارے میاں دوسرے لڑکے کانام نبَّامیاں ہیں یہ دونوں ہنوززندہ ہیں ان لوگوں کومریدی کا تعلق میتن گھاٹ میں خانقاہ شاہ عزیزالدین مرحوم سے تھا‘‘ (ص363)

    حضرت شاہ عزیزالدین حسین کا نکاح 1292ھ میں علی گنج سیوان کے جناب شیخ غلام صمدانی صاحب کی صاحبزادی سے ہوا تھا ،حضرت عزیز کے ساتھ ان کے دو چھوٹے بھائی حضرت شاہ شرف الدین حسین رضویؔ و حضرت شاہ رضی الدین حسین کا عقد بھی اسی موقع پر ہواتھا ،واضح ہوکہ حضرت شاہ عزیز الدین اور حضرت شاہ شرف الدین دونوں کا نکاح دختران شیخ غلام صمدانی سے ہوا اور حضرت شاہ رضی الدین کا عقد حضرت شاہ علی حسین داناپوری قدس سرہٗ(متوفی1299ھ)کی صاحبزادی سے ہوا،اس پر مسرت موقع پر ’’تاریخ ہائے زواج سراسرمنہاج صاحبزادگان عالی شان ‘‘کے عنوان سے حضرت شاہ یحییٰؔ عظیم آبادی نے پانچ مختلف قطعات لکھے ہیں۔

    ’’تاریخ ہائے زواج سراسر منہاج صاحبزادگان عالی شان

    تزویج اور اکبر و اوسط با دختران شیخ غلام صمدانی صاحب بمقام علی گنج سیوان وکدخدائی برادر کوچک بادختر سیدشاہ علی حسین صاحب داناپوری گردید ،زقیم اللہ تعالیٰ اولاد

    قطعۂ اول

    ہر سہ فرزند مرشد نوشاہ

    باہمہ زیب زفر دہ چاہ شدن

    عقل بے درد سر بسال زواج

    گفت ’نوشاہ دہر سہ شاہ شدند‘

    1292ھ

    (کنزالتواریخ قلمی، ص171)

    قطعہ دوم

    چوں عزیزالدین و شرف الدین رضی الدین ما

    کدخدا گشتہ از افضل سلطان حجاز

    در دعا تاریخ انشا ساختم باجان شاد

    ’ہرسہ صاحبزادہ رایارب عطا فرزند ساز‘

    1291ھ

    (کنزالتواریخ ،قلمی ،ص171)

    قطعہ سوم

    سہ صاحبزادہ گردیدند از فضل خدا نوشاہ

    مبارک باد الٰہی ہر یکسر خانہ آباد

    شد ایں مصرع کہ گفتم در دعا تاریخ لب یحییٰؔ

    ’مہینے و مبارک ایزداہر شہ شود شاہ بر‘

    1292ھ

    (کنزالتواریخ قلمی، ص171)

    قطعہ چہارم

    شد انجام سہ شادی باکمال جشن و آرائش

    بدولت خانہ مول من بر خالق اکرم

    بہر سہ نوشہ دہر بہ فرزندان کرامت کز

    کہ گر د خاطر مسکین یحییٰؔ خرم و بینم

    مئے تاریخ جشن ایں سر شادی در دعا یارب

    مبارک ساز جشن ایں شاد ایزد ا گوہد

    (کنزالتواریخ قلمی، ص171)

    قطعہ پنجم

    عزیزالدین و شرف الدین رضی الدین نوشہ

    الٰہی تینوں بھائی کے مبارک خانہ آباد

    کہا تاریخ میں نے مجمع اقران میں ابر یحییٰؔ

    مبارک ہو سب کو تینوں بھائی کو حور شا دیر

    (کنزالتواریخ قلمی، ص172)

    مذکورہ قطعات تاریخ حضرت یحییٰؔ عظیم آبادی کی کتاب ’کنزالتواریخ ‘میں موجود ہے اس کتا ب کا قلمی نسخہ خدابخش خاں اورینٹل پبلک لائبریری کے شعبۂ فارسی مخطوطات میں محفوظ ہے۔

    آپ کو ایک فرزند سید محمد رمضان علی ہوئے جس کی سال ولادت 1293ھ ہے ،حضرت یحییٰؔ عظیم آبادی نے اس قطعہ کہاہے۔

    ’’تاریخ صاحبزادۂ حضرت سیدشاہ عزیزالدین حسین صاحب ‘‘

    ’’بفرزند مبارک ابن پسر عزیز مبارکباد‘‘

    1293ھ

    قطعہ اول

    بشر ما عزیزالدین حسین

    حق پسر داد و خاطرم بشگفت

    ملہم غیب در سہ یحییٰؔ

    نام و سالش ’’غلام حیدر‘‘گفت

    1293ھ

    قطعہ دوم

    بجناب عزیزالدین حسین

    کرد یزداں عطا نرینہ پسر

    گفت سال ولادتش یحییٰؔ

    ’’بارک اللہ بنور شمس و قمر‘‘

    1293ھ

    قطعہ سوم

    فرزند ارجمند جناب عزیز دین

    انوار کند از چراش سطوع

    یحییٰؔ نوخت سال ولادت بلوح و پیر

    ماہ عزیز ’’گشتہ برافع علا طلوع‘‘

    1293ھ

    قطعہ چہارم

    آں سید شریف عزیز الوجود ما

    چشم و چراغ او روشنی افزائے خاندان

    پاکیزہ خوخجستہ خصال و قمر جمال

    دارد بستہ نسبت جد پدر نہاں

    چوں نیرد رجوانیش ایز عطا نمود

    رابرمنیر و عقل متین در برادرآں

    یزداں نرینہ پور مبارک بقا شی داد

    اقران و مخلصان ہمہ گشتند شادمان

    تاریخ دل پیش اہل فہم

    ’’ماہ قمر طلوع براوج شرف‘‘ بخواں

    1293ھ

    (کنزالتواریخ قلمی، ص179)

    آپ کی دو صاحبزادی تھیں، پہلی صاحبزادی کی پیدائش پر بھی حضرت یحییٰؔ عظیم آبادی نے قطعہ کہا ہے۔

    ’’قطعہ تاریخ ولادت دخترنیک اختر حضرت سیدشاہ عزیز الدین حسین متولدہ رابع ذیجہ‘‘

    مادۂ’’دخت عزیزالدین صاحب‘‘

    1294ھ

    قطعہ اول

    ایزد پاک عزیز الدین را

    دختر زہرہ حسینی بخشد

    مصرع سال ولادت اینست

    ’بنت فرزند مبارک گردید

    1294ھ

    (کنزالتواریخ قلمی، ص190)

    واضح ہوکہ حضرت شاہ عزیز الدین حسین کی دونوں صاحبزادی مولانگر، مونگیر کے شاہ صاحبان شاہ کاظم و شاہ حاتم سے بیاہی تھیں۔

    حضرت شاہ عزیزالدین حسین کی زندگی بالاخر 56برس کی عمر میں تمام ہوئی، مختصر الفاظ میں یہی کہاجاسکتا ہے کہ ’زندگی ایک آہ تھی جسے حضرت عزیز نے واہ میں تبدیل کر دی۔

    حضرت سیدشاہ محمد محسن ابوالعُلائی داناپوری قدس سرہٗ(متوفیٰ 1364ھ)اپنے سفینہ میں لکھتے ہیں کہ

    ’’بروز جمعہ بتاریخ سیوم ماہ رمضان المبارک بعدمغرب جناب عموی سیدشاہ عزیز الدین صاحب رحلت فرمودند،اناللہ وانا الیہ راجعون‘‘ (سفینہ حضرت محسن،مخزونہ کتب خانہ خانقاہ سجادیہ ،داناپور)

    3رمضان المبارک 1323ھ موافق 1905ء تاریخ وصال ہے۔

    حضرت شاہ غفورالرحمن ابوالعلائی حمد کاکوی (1357ھ) نے قطعۂ تاریخ رحلت کہی ہے۔

    ’’قطعۂ تاریخ رحلت سید شاہ محمد عزیزالدین حسین صاحب عظیم آبادی‘‘

    سید شاہ عزیزالدین عالی نسب

    عارف و ہم ماجی وہم صوفی و سنی ملل

    خاندانش در عظیم آباد بس روشن تراست

    شاہ قمرالدین جدش او بود شیخ اجل

    بود برسجادہ اجد اد خود را جلوگرہ

    داد رو اے سلسلہ را زود از حسن مثل

    کرد بیعت جناب حضرت سجاد شاہ

    عقدہ ہائے فقرراز فیض او بنمود حل

    در جوانی کرد رحلت ایں جہاں بے بقا

    چوں رسیدہ پیش خالق یافت در جنت محل

    جانشین شد رضی الدین برخورد او

    در حق طالب وجودش ایں نعم البدل

    بہر سال ارتحالش گفت ہاتف ’حیف وآہ‘

    ’شمع بزم صوفیا را کردگل باداجل‘

    1323ھ

    (کلیات حمدؔ ،مخزونہ کتب خانہ خدابخش خاں،شعبۂ مخطوطات اردو)

    آپ کا مزار آستانہ حضرت شاہ قمرالدین حسین، میتن گھاٹ، پٹنہ سیٹی کے سرہانے ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے