Font by Mehr Nastaliq Web

ذکر خیر حضرت جنابحضور شاہ امین احمد فرودسی بہاری

ریان ابوالعلائی

ذکر خیر حضرت جنابحضور شاہ امین احمد فرودسی بہاری

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    کسی بھی شئے کو ممتاز اور خوشگوار بنانے کے لئے غیر معمولی صفت کا ہونا ضروری ہے۔ خواہ وہ شاہانِ زمانہ ہوں یا صوفیائے کرام۔ جن کی حسین تر زندگی یعنی اخلاق و کردار کی بنا پر وہ شہر جہاں یہ بستے ہیں ممتاز ہوجاتا ہے۔

    وقت کے ساتھ شاہانِ زمانہ کی شوکت و جاہ و جلال ماند پڑ جاتی ہے اور ایک دن وہ اپنی چند جھلکیوں کے ساتھ معدوم ہو جاتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف صوفیائے کرام کا فیض ایسا ہے کہ ہزار برس بعد بھی اُن کے معتقدین اُسی شان و شکوہ کے ساتھ حاضر ہو کر اپنی مراد پاتے ہیں اور ان کی شخصیت کو زندہ رکھتے ہیں۔

    انہی مقتدر صوفیوں میں ایک نام حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری ثم بہاری (متوفیٰ 782ھ) کا ہے، جن کے مکتوبات و ملفوظات نے ہر دور میں عوام و خواص کو فیض پہنچایا۔ شاہانِ زمانہ کے ساتھ ساتھ اصحابِ فکر کی مخصوص جماعت نے بھی مکتوباتِ صدی کو اخلاق و اخلاص اور تذکیۂ نفس کا بہترین نسخہ قرار دیا۔

    یہ حقیقت ہے کہ بعد کی شخصیات نے حضرت مخدوم کی تعلیمات کو نہ صرف عام کیا بلکہ انہیں نئی وسعتیں بھی بخشیں۔ تاہم ان کی رحلت کے چار سو چہتر برس بعد بہار شریف کو ایسے عالمِ باعمل، شاعرِ بے مثال اور صوفیِ کامل کی ضرورت تھی جو عارفانہ شاعری میں عدیم النظیر ہو، مثنوی گوئی میں مہارت رکھتا ہو اور مختلف اصنافِ سخن کا بادشاہ ہو۔ خاص طور پر ضرورت تھی کہ اولادِ مخدوم جہاں کے خانوادے میں سے کوئی ایسا فرد سامنے آئے جو مسندِ رشد و ہدایت کا امین بھی ہو اور کرامتوں سے بھی معمور ہو۔

    یہ خواہش بارہویں صدی ہجری کے وسط میں خانوادۂ فردوسیہ کے گلِ سرسبد، حضرت سید شاہ امین احمد فردوسی المتخلص بہ ثباتؔ شوقؔ بہاری قدس اللہ تعالیٰ سرہ العزیز کے ذریعے پوری ہوئی۔

    حضرت سید شاہ امین احمد کی ولادت حیاتِ ثباتؔ کے مطابق 23 رجب المرجب 1248ھ بروز ہفتہ شب کے وقت ہوئی۔ نام امین احمد رکھا گیا اور لقب جناب حضور قرار پایا۔ والد ماجد حضرت سید شاہ امیر الدین فردوسی المتخلص بہ ظلومؔ وجدؔ بہاری تھے۔

    ابتدائی تعلیم خانوادہ کے بزرگوں سے حاصل کی اور تکمیل بہار کے جید علماء سے کی۔ تعلیم کے بعد مطالعہ کا شوق بے حد بڑھ گیا۔ قدیم کتب سے خصوصی انس تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی کثرتِ مطالعہ میں آپ اپنی ظاہری بینائی سے محروم ہوگئے لیکن باطنی بصیرت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔

    آپ خوش نویس تھے اور خطِ نستعلیق میں نہایت خوبصورت انداز رکھتے۔ تصنیف و تالیف میں بھی بلند مقام رکھتے تھے۔ طفولیت ہی کا ایک واقعہ آپ کی ذہنی قوت اور قوی حافظہ کی روشن دلیل ہے۔ والد ماجد نے مثنوی کے دو جزو منگوائے۔ آپ نے انہیں مطالعہ کے لئے خلوت میں لیا، پڑھا اور حاضرین کو سنایا۔ کچھ دن بعد مثنوی گم ہوگئی۔ والد صاحب سخت پریشان ہوئے۔ آپ نے کاغذ و قلم لیا اور من و عن پوری مثنوی قلمبند کر دی۔ جب اصل نسخہ ملا تو دونوں میں محض دو چار مصرعوں کے الفاظ کا معمولی فرق تھا۔

    فارسی زبان سے طبعی مناسبت تھی۔ خود فرماتے تھے کہ دیوانِ حافظ کی چند غزلیں پڑھنے کے بعد ہی پوری استعدادِ فارسی حاصل ہوگئی۔

    خاندانی وراثت میں جائیداد و دولت وافر تھی۔ پرورش رئیسانہ ہوئی لیکن آپ نے کبھی مال و متاع کو دل سے نہیں لگایا۔ تقسیم کرتے اور خوش رہتے۔ زندگی میں کئی جگر خراش حادثات پیش آئے۔ ایک موقع پر تین صاحبزادوں کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا لیکن آپ نے صبر ایوب اختیار کیا۔

    صاحبِ مراۃ الکونین لکھتے ہیں کہ

    آپ کی زندگی ریاضت و فکر میں گزری۔ صبر ایسا کہ اگر حضرت ایوب علیہ السلام کی یادگار کہیں تو مبالغہ نہ ہوگا۔ ایسے ایسے مصائب برداشت کئے کہ اگر آسمان پر آتے تو ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا۔ لیکن آپ رضائے الٰہی پر ثابت قدم رہے۔ آپ کی ذات جامع صفاتِ ملکوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے وجود کو تا دیر قائم رکھے۔

    آپ کی پانچ شادیاں ہوئیں اور بہترین اولاد ہوئی جو علم و فضل میں بلند مقام پر فائز رہی۔ تعلیمِ ظاہری میں کمال حاصل کرنے کے بعد آپ نے تعلیمِ باطنی کی طرف توجہ کی۔ حضرت سید شاہ جمال علی بلخی (سجادہ نشین: خانقاہ حضرت مخدوم شعیب فردوسی، شیخ پورہ) کے دستِ مبارک پر بیعت کی اور خلافت پائی۔ بعد ازاں حضرت سید شاہ ولایت علی ہمدانی ابوالعلائی اور والد بزرگوار سے بھی خلافت اور خصوصی عنایات حاصل ہوئیں۔

    آپ کے مریدین اور خلفاء کی کثرت تھی۔ ہندوستان کے مختلف گوشوں میں آپ کے فیض یافتگان موجود تھے۔ شاعری میں بھی اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ والد کی صحبت نے ابتدائی عمر سے ہی شعری فضا قائم کر دی تھی۔ مطالعہ کثیر اور صحبتِ مشائخ کی بدولت آپ نے کسی کے سامنے زانوئے تلمذ طے نہیں کیا۔ خود شعر میں فرمایا:

    ہوں میں اک تلمیذ رحمانی فیضِ روحی سے کہ گاہ

    شعر گوئی میں منہ نہ دیکھا کسی استاد کا

    تذکرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ آپ قادرالکلام شاعر تھے۔ مثنوی گوئی میں بے عدیل اور فنِ سخن میں یگانۂ روزگار تھے۔ خود جناب حضور شوقؔ بہاری فرماتے ہیں:

    طرز غالبؔ مجھے اب شوقؔ بہت ہے مرغوب

    ابتدا میں تو کچھ معتقد میرؔ بھی تھا

    الغرض، مثنوی گوئی میں آپ کو کمال حاصل تھا۔ متعدد مثنویاں آپ کے تبحرِ علمی پر دال ہیں۔ سلسلۃ الالی، روضۃ النعیم وغیرہ کے علاوہ گلِ بہشتی جناب میر نجات اصفہانی (متوفیٰ 1136ھ) کی طرز پر لکھی گئی، جو مطبع انوارِ محمدی لکھنؤ سے شائع ہو کر مقبولِ عام ہوئی۔ ان میں حضراتِ خواجگان قدس اسرارہم کی شان میں منقبتیں پیش کی گئی ہیں، خصوصاً ہمارے سرکار و سردار حضرت سید شاہ امیر ابوالعلا (متوفیٰ 1061ھ) کی، جو ہندوستان کے اولیائے کبار میں شامل ہیں۔ راقم بھی اسی خانقاہِ سجادیہ ابوالعلائیہ کا فرزند ہے۔

    جنابِ حضور نے شانِ ابوالعلا میں خوب مدح سرائی کی۔ اس کے علاوہ ہمارے حضرت امیر ابوالعلا کے فضل و کمال اور عظمت و جلال کو جنابِ ثباتؔ نے رغبت و شوق کے ساتھ منظوم کیا ہے۔ مثنوی کے اخیر میں معاصر صوفی سخن فہم حضرات کے قطعہ ہائے تاریخ موجود ہیں جن میں حضرت مخدوم سید شاہ محمد سجاد پاک (المتخلص بہ ساجدؔ داناپوری، متوفیٰ 1298ھ) اور حضرت سید شاہ یحییٰ ابوالعلائی عظیم آبادی (متوفیٰ 1302ھ) قدس اسرارہم خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔

    حضرت ثباتؔ کے کلام میں حقائق و معارف کی تعلیم ملتی ہے۔ عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی کی جھلک بھی نمایاں ہے۔ آپ کے یہاں صوفیانہ خیالات نہایت دل کش پیرایے میں جلوہ گر ہیں۔ تصوف میں عشق و مستی کی بڑی قدر ہے، اس لیے کہ انہی کے ذریعے منازلِ سلوک طے ہوتے ہیں۔

    فارسی اور اردو کلام محفوظ ہے، جس کی جھلک سہ ماہی مخدوم (اردو) میں کبھی ذوقؔ سے اور کبھی شوقؔ سے ملتی ہے۔ واضح رہے کہ ’’جنابِ حضور شاہ امین احمد فردوسی ثباتؔ: حیات و آثار‘‘ کے عنوان سے حضرت مولانا ڈاکٹر سید شاہ ارشد علی شرفی فردوسی صاحب مدظلہ بہار شریف نے پٹنہ یونیورسٹی میں تحقیقی مقالہ لکھ کر 1982ء میں پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    ہمارے پیرانِ سلسلہ و طریقہ ابوالعلائیہ سے جنابِ حضور کو دیرینہ محبت ہو چکی تھی۔ حضرت شاہ ولایت علی ہمدانی کے توسل سے یہ سلسلہ آپ پر بھی بارشِ رحمت کی طرح پورے جوش و خروش کے ساتھ برستا رہا۔ بقول صاحب تاریخ سلسلہ فردوسیہ:

    ’’جو شخص اپنی مرضی آپ پر چھوڑ دیتا، اس کی بیعت سلسلہ فردوسیہ میں لیتے اور ابوالعلائی تعلیم دیتے۔‘‘

    بلکہ دوسری جگہ رقم طراز ہیں:

    ’’حضرت سید شاہ وصی احمد عرف براتی پر ابوالعلائیت کا بڑا غلبہ تھا اور کیوں نہ ہوتا کہ ان کے دادا حضرت امیر الدین فردوسی نے ابوالعلائی تعلیم حضرت شاہ ابوالحسن ابوالعلائی (خلف حضرت خواجہ سید شاہ ابوالبرکات ابوالعلائی عظیم آبادی، متوفیٰ 1256ھ، مدفون: بارگاہِ عشقؔ، تکیہ شریف پٹنہ) سے اخذ کی تھی۔‘‘

    ان کا ذکر ساقی نامہ میں یوں کیا ہے:

    من بعد زِ فضلِ منعماں تو

    دمے جامے ابوالحسن سے ایک چُلو

    آنکھوں کی میری وہ روشنائی

    صاحبِ نشہ ابوالعلائی

    حیاتِ ثباتؔ کے مصنف رقم طراز ہیں:

    ’’منشی لیاقت حسین صاحب مختار کا بیان ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ ابوالعلائیہ طریقہ میں بڑا قوی اثر ہے اور بہت زیادہ فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ اول تو یہ کہ اس طریقہ میں آنا ضروری نہیں۔ دوسرے یہ کہ اس قدر مجاہدہ و ریاضتِ شاقہ لازمی نہیں۔ زیادہ محنت کرے گا تو زیادہ فائدہ اٹھائے گا، کم محنت کرے گا تو بھی محروم نہ رہے گا۔ مثلاً اس طریقہ کا ذاکر و شاغل نمازِ عشاء کے بعد مختصر سا وظیفہ پڑھ کر اور تین بار ذکرِ ابوالعلائیہ باشرائط ادا کر کے سو جائے، اور دوسرے طریقہ والا نمازِ تہجد کے ساتھ ذکر و اوراد صبح کرے، تو صبح کی نماز پر جب دونوں کھڑے ہوں گے تو احوال و معانی و فیضان و یافت کے اعتبار سے دونوں کے قلبی حالات مساوی ہوں گے۔‘‘

    یہی نہیں بلکہ جب کبھی مریدین و معتقدین کی خاصی جماعت اجمیرِ معلیٰ حاضری کی نیت سے جاتی تو آپ مطلع فرماتے:

    ’’اکبر آباد (آگرہ) ٹھہر کر جانا، اور آگرہ میں حضرت امیر ابوالعلا کے حضور حاضر ہونا اور عرض کرنا کہ پیر نے مجھ کو آپ کی بارگاہ میں بھیجا ہے۔ تب اجمیر کی راہ لینا۔ جب حضور کی خواہش ہو اور بارگاہِ ابوالعلا سے اجازت ملے تو اجمیر جانا، ورنہ لوٹ آنا۔‘‘

    لوگوں نے عرض کیا: ’’یا حضرت! اجازت کا حال کیسے معلوم ہوگا؟‘‘

    فرمایا: ’’اس طرح کہ اس ارادے میں استحکام پیدا ہوگا اور بغیر گئے دل نہ مانے گا۔‘‘

    آپ خود بھی بڑی عقیدت کے ساتھ ہمارے سرکار کی بارگاہِ ناز میں حاضر ہوا کرتے۔ عشق و محبت کی مثال سلسلہ فردوسیہ اور سلسلہ ابوالعلائیہ میں آپ نے زندہ کر دی۔ سفر در وطن تو رہتا ہی تھا، جب غلبۂ شوق بڑھتا تو اکبر آباد حاضر ہوتے اور ہمارے حضور کی عنایت کردہ عشق و مستی کو اپنے اندر محسوس کرتے۔ جہاں جہاں حضراتِ ابوالعلائی آرمیدہ تھے بڑی عقیدت سے حاضر ہوتے اور عقیدت کی جھولی میں محبت کا جام بھر کر واپس آتے۔ یہی وجہ تھی کہ اس خانوادے کی یہ روایت بن گئی کہ جو صاحبانِ سلسلہ فردوسیہ اجمیر جائیں وہ ہمارے حضرت کے آستانۂ ملائک سے گزر کر جائیں۔

    الغرض، جنابِ حضور کے افکار و نظریات بڑے وسیع و عریض تھے۔ خالص علما ہوں یا مشائخ، مختلف مکاتبِ فکر کے لوگ آپ کی بزرگی اور اخلاقی کردار سے ہمیشہ مستفیض و مستنیر ہوتے رہے۔ عقائد کے معاملات میں بڑے محتاط رہتے، ناموسِ رسالت اور تحفظِ رسالت کا خاص خیال رکھتے۔ ضعف و پیری کے باوجود عقائدِ اہل سنت کی خاطر ہمہ وقت کوشاں رہتے۔ علما و مشائخ نہ صرف نسبتِ مخدوم کی وجہ سے آپ کی تکریم کرتے بلکہ آپ کی ذاتی لیاقت و صلابتِ دینی کی بنا پر بھی سب آپ کی شخصیت کے معترف تھے۔

    ہمعصر علما فرماتے تھے کہ:

    ’’ہندوستان میں سوز و گداز جنابِ حضور کے سوا دوسرے میں نہیں پاتا ہوں۔‘‘

    علمائے اہل سنت کا حسین قافلہ جب شہر عظیم آباد وارد ہوا تو مجلس اہل سنت کے صدر باتفاقِ آرا جنابِ حضور منتخب ہوئے۔ بقیۃ السلف، حجۃ الخلف، زبدۃ العلماء، سلالۃ الاکابر العرفا جیسے القاب سے آپ یاد کیے جانے لگے۔

    جب آپ پر افترا اور تہمت کا بہتان لگایا جانے لگا اور شخصیت کو مجروح کرنے کی ناپاک کوشش کی گئی تو آپ نے اپنے مرید قاضی عبدالوحید فردوسی کے نام ایک مکتوب ارسال کیا جو تحفہ حنفیہ کے شمارے میں شائع ہوا۔ اس میں تحریر فرمایا:

    ’’بعد دعواتِ ترقیِ درجات مطالعہ باد۔ الحمد للہ بہمہ نوع خیریت ہے۔ خیریت آپ کی اور جمیع متعلقین کی خدائے کریم کی درگاہ سے مستدعی ہوں۔ خال تازہ بتقریب عرس شریف مولوی سلیمان صاحب بہار آئے، شریکِ عرس شریف ہوئے اور مجھ سے بھی ملاقات کی۔ دوسرے روز میرے یہاں کئی صاحبوں کی دعوت تھی، میں نے انہیں بھی مدعو کیا۔ چنانچہ وہ دس گیارہ بجے آئے تو کچھ ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں، پھر وہ ندوہ کے متعلق باتیں کرتے رہے، میں چپکا سنتا رہا۔ وہ چلے گئے۔ یہاں سے جا کر انہوں نے مشہور کیا کہ شاہ صاحب نے ندوہ کو بہت سی دعائیں دیں اور اپنی موافقت ظاہر کی۔ اب ذرا ان لوگوں کی کید دیکھیے، اول تو ناشدہ بات، وہ بھی کسی وہم و گمان سے باہر، اور کہاں اسی شہر میں یوں مشہور کی۔ خدا جانے کس قماش کے یہ لوگ ہیں۔

    امین احمد، از بہار۔‘‘

    ردِّندہ وۃ العلماء کانفرنس میں آپ کی ذات پیرانہ سالی کے باوجود پیش پیش رہی۔ بقول حیاتِ ثباتؔ:

    ’’جناب مولانا عبدالقادر بدایونی جلسہ مصلحین ندوۃ العلماء میں تشریف لائے تھے اور جنابِ حضور بھی تشریف لے گئے تھے۔ پہلی ملاقات جلسہ عام میں ہوئی۔ مولانا نے بعد سلام کے قدم مبارک کا بوسہ دیا اور فرمایا:

    ای لقائے تو جواب ہر سوال

    مشکل از تو حل شود بے قیل و قال‘‘

    اس پاکیزہ مجلس میں ہندوستان کی معتبر اور مقدس خانقاہوں کے سجادگانِ ذیشان علی العلوم اور صوبہ بہار کی خانقاہوں کے سجادگان خصوصیت کے ساتھ مدعو تھے بلکہ سرپرستی فرما رہے تھے۔ جن میں حضرت امین احمد فردوسی (سجادہ نشین: خانقاہِ معظم حضرت مخدوم جہاں، بہار شریف)، حضرت مولانا سید شاہ محی الدین قادری (سجادہ نشین: خانقاہِ مجیبیہ، پھلواری شریف)، حضرت مولانا سید شاہ محمد محسن ابوالعلائی (سجادہ نشین: خانقاہِ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور شریف)، حضرت مولانا سید شاہ عزیز احمد قمری (سجادہ نشین: خانقاہ منعمیہ قمریہ، میتن گھاٹ، پٹنہ)، حضرت مولانا سید شاہ نصیر الدین چشتی (سجادہ نشین: خانقاہِ چشتیہ، نوآبادہ خورد، پٹنہ)، حضرت مولانا سید شاہ شہود الحق چشتی (سجادہ نشین: آستانہ چشتی چمن، پیربیگھ) وغیرہ شامل تھے۔

    جلسہ ندوۃ العلماء منعقدہ پٹنہ میں شام سات بجے تاج الفحول حضرت مولانا عبدالقادر بدایونی نے فرمایا کہ برکت کے لیے کچھ جناب بھی فرمائیں۔ جنابِ حضور نے فرمایا کہ آپ لوگ عالم ہیں، شوق سے بیان کیجیے۔ مگر مولانا ممدوح کے اصرار اور حاضرینِ جلسہ کی آرزو بھری تائید نے آپ کو مستعد کیا۔ آپ منبر پر گئے، پہلے پانچ چھ منٹ تک ساکت رہے۔ اس وقت کا سماں سبحان اللہ! پورا پِنڈال کیفیت اور نسبت سے معمور ہو رہا تھا۔ تب آپ نے یہ حدیث پڑھی:

    ’’اللّٰہم احْیِنی مسکینا و اَمِتْنی مسکینا و احْشُرنی فی زمرۃ المساکین۔‘‘

    پھر ترجمہ کیا جس سے سامعین کو رقّت ہوئی۔ آپ کے بعد مولانا عبدالقادر صاحب بدایونی منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا:

    ’’جس نے صحابہ کرام کو نہ دیکھا ہو وہ حضرت کو دیکھے، اور موتوا قبل ان تموتوا کی تفسیر دیکھنی ہو تو وہ حضرت مخدوم جہاں کے سجادہ نشین کو دیکھے۔‘‘

    پھر اسی مذکورہ بالا حدیث سے بیان شروع کیا۔

    اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی جب جلسہ مصلحین ندوۃ العلماء میں شرکت کے لیے پٹنہ تشریف لائے تو جنابِ حضور سے ملنے کو برابر آتے رہے۔ جنابِ حضور سے جو خلوص تھا، اس کا اظہار اعلیٰ حضرت نے چند اشعار میں کیا ہے۔ اپنے عربی قصیدہ آمال الابرار والام الاشرار میں آپ کا ذکر فرمایا ہے۔

    بقیتہ الاولیاء امین احمد

    امین احمد امن ِ حمود

    شمائلہُ تذکرنا الصحابۃ

    سحائبۃ علی کل تجود

    دوسری جگہ صمصام حسن بردابر فتن میں حضرت حسن ؔبریلوی فارسی مثنوی میں لکھتے ہیں۔

    واں چمن آرائے بہار بہار

    شاہِ امین احمد عالی وقار

    حامی دی اختر برج شرف

    پیر ہدیٰ گوہر درج شرف

    یہی نہیں بلکہ جنابحضور کے صاحبزادہ والاتبار سید شاہ محمد سعید احمد فردوسی صاحب کے متعلق لکھتے ہیں۔

    ع و تجل جناب مولینا سعید اور ہمارے جنابحضور کے صاحبزادے مولینا شاہ سعید احمد

    ختمت کما بدات بہ لہینیک

    حسن البدر والرجعی وحیدؔ

    جیسا کہ جناب حضور کے نام سے آغاز ہوا تھا، اسی پر انجام بھی ہوا۔ تجھے خوبی و دنیا و آخرت کی اے وحیدؔ! علاوہ ازیں، اس تحریک میں خلوص و اعتقاد کے ساتھ جناب حضور کے علاوہ ان کے صاحبزادگان و خلفاء بھی شریک رہے۔ ان میں مولانا سید شاہ سعید احمد فردوسی (صاحبزادے)، سید شاہ وصی احمد فردوسی عرف براتی (صاحبزادے)، سید شاہ فاضل فردوسی بہاری (خلیفہ)، سید شاہ فضیلت حسین فردوسی پٹنہ (خلیفہ)، شیخ خیرات حسین فردوسی بہاری (خلیفہ) وغیرہ کے علاوہ اصحابِ فکر و فن بھی شامل تھے۔ ان میں خصوصاً مولانا عبدالواحد خاں رام پوری بہاری، مولانا قاری نور محمد دہلوی بہاری، مولانا حافظ فتح الدین (پیش امام، مدرس و صدر مجلس اہل سنت)، مولانا امیر علی (مدرسِ اعلیٰ نارمل اسکول، نائب صدر مجلس اہل سنت) سرِ فہرست ہیں۔

    خود تحریک کی سب سے متحرک و فعال شخصیت قاضی عبدالوحید فردوسی آپ کے دائرۂ ارادت میں داخل ہوکر تحفظ و بقا کی خاطر نکل پڑے اور حد درجہ کامیاب و کامران ہوئے۔ یاد رہے کہ علمائے اہل سنت فاضل بریلوی کے ہمراہ جناب حضور کی دعوتِ خاص پر خانقاہِ معظم حضرت مخدومِ جہاں حاضر ہوئے اور صبح سے شام تک جامع مسجد میں جامع و مانع تقاریر سے سامعین لطف اندوز ہوتے رہے، جس کی صدارت خود شاہ صاحب قبلہ فرما رہے تھے۔

    الغرض یہ ذات تمام اوصاف و کمالات کی جامع معلوم ہوتی ہے۔ خود ہمارے گل سرسبد سلسلۂ ابوالعلائیہ، مسند نشین طریقۂ ابوالعلائیہ حضرت سید شاہ محمد اکبر ابوالعلائی داناپوری متوفیٰ 1327ھ اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ’’نذر محبوب‘‘ میں آپ کا ذکر کچھ اس طرح کرتے ہیں:

    آپ کے اوصافِ حمیدہ اور اخلاقِ پسندیدہ حدِ تحریر سے باہر ہیں۔ تمام تعریف اور اوصاف کا ماخذ یہی ہے کہ آپ حضرت مخدوم الملک کی اولاد اور سجادہ ہیں۔ ہمارے حضرت پیر و مرشد برحق مولانا سید شاہ محمد قاسم رضی اللہ عنہ سے بھی آپ مشرف بہ معانقہ ہوئے ہیں، اور حضرت والد (سید شاہ محمد سجاد ابوالعلائی داناپوری قدس سرہ) سے متواتر مجالسِ عرس میں ہنگامۂ وجد کے دوران معانقہ فرمایا ہے۔ حضرت قدس سرہ کی کتاب نجاتِ قاسمؔ کو آپ نے فارسی نظم میں (گلِ بہشتی کی شکل میں) نہایت خوب ترجمہ کیا ہے۔ فنِ شعر میں یدِ طولیٰ حاصل ہے۔ ابھی سے سجادگی کے واسطے اپنے فرزندِ رشید نورچشم برہان الدین سلمہ اللہ تعالیٰ کو نامزد کردیا ہے۔ یا اللہ! یہ متبرک سجادہ تاقیام، پاک نفس اور برگزیدہ لوگوں سے خالی نہ رہے۔ آمین ثم آمین۔

    بے جوڑ اس ننگِ خاندان کا واسطہ نسب بھی حضرت مخدوم الملک شرف الدین بہاری رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔

    کوئی مجھ سا بھی صحیح النسب اکبرؔ کم ہے

    سلسلہ اپنا کسی زلف سے جا ملتا ہے

    کیا لکھوں اور کیا کہوں! ایک دن یہ ستارہ بھی اپنی چند جھلکیوں کے ساتھ ڈوب کر خلا پیدا کرگیا، اور کیوں نہ ڈوبتا، کہ ڈوب کر بحرِ محبت سے نکلنے کا سوال ہی نہیں۔ پار ہونے کی تمنا ہے تو ڈوبے رہنا۔

    72 برس کی عمر میں، 4 جمادی الآخر 1321ھ بمطابق 29 اگست 1903ء کو روح قفسِ عصری سے پرواز کر گئی۔ مرقدِ انور آستانہ حضرت مخدومِ جہاں قدس سرہ کے پائیں حلقۂ سجادہ نشینان میں ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے