Font by Mehr Nastaliq Web

ذکرِخیر حضرت نثارعلی اکبرآبادی

ریان ابوالعلائی

ذکرِخیر حضرت نثارعلی اکبرآبادی

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    چودھویں صدی ہجری میں ہندوستان کی سرزمین سے کئی ایسی ہستیاں پیدا ہوئیں جنہوں نے اپنی کردار و عمل اور اپنے قلم سے تاریخ میں نام پیدا کیا۔ شعر و سخن کا جب تذکرہ چھڑتا ہے تو اکبرآباد کا تذکرہ سرفہرست نظر آتا ہے، میر ہوں یا غالب، نظیر ہوں یا شہید، سبھوں نے اکبرآباد کی سرزمین سے پروان چھڑی اور زمانے میں نام پیدا کیا۔ اسی فہرست میں ایک نام نثارؔ اکبرآبادی کا بھی ہے جنہوں نے اردو شاعری کی ایک زمانے تک خدمت کی۔ وہ ایک صوفی مُنش اور شاعر مشاق گزرے ہیں۔ آپ کا حلقہ تلامذہ وسیع و عریض پیمانے پر پھیلا ہوا، جن میں بیدمؔ وارثی کو خاصی شہرت حاصل ہوئی۔

    حضرت نثارؔ اکبرآبادی کا تعلق قصبہ نیتونی ضلع لکھنؤ سے ہے۔ آپ کے والد ماجد میر مشتاق علی ابن سعادت علی آگرہ میں وکالت اور فوجداری وغیرہ کا شغل کرتے تھے، نہایت مہذب اور نستعلیق بزرگ تھے، مذہب ان کا اثنا عشری تھا مگر متعصب نہ تھے۔ آپ کے جد امجد سید سعادت علی بسلسلہ کوتوال آگرہ آئے۔ بقول مفتی انتظام اللہ شہابی

    ’’یہ جگہ کچھ ایسی بھائی کہ یہیں کے ہورہے، میر مشتاق علی آگرہ ہی میں پیدا ہوئے بعد تحصیل علم و کالت کا امتحان دیا بعد کامیابی شغل وکالت رہا، صدر نظامت کے وکلا میں نام آور تھے، مفتی انعام اللہ خاں الشابی خان بہادر سے بے حد راہ و رسم تھی۔ اس وقت آگرہ میں مفتی صاحب کے مکان واقع نیل کھاتہ میں ایک مجلس اہل علم کی قائم تھی جس میں مولانا محمد قاسم داناپوری، مولانا غلام امام شہیدؔ، خواجہ منشی غلام غوث خان بہادر ذوالقدر بیخبرؔ، مولوی محمد شفیع وکیل، مولوی قمرالدی خاں قمرؔ (مدیر: سعدالاخبار)، منشی نبی بخش حقیرؔ، بابو بین پرشاد وکیل، مولوی طفیل احمد خیرآبادی، مفتی محمد حسنؔ گوپاموی، مفتی نوراللہ، مفتی کریم الدین وغیرہ جیسے لوگ شریک تھے۔ میر صاحب پُرانے وضع کے بزرگ تھے، علمی دلچسپی تھی، شریف گھرانہ میں شادی کی، ان سے حضرت نثارؔ پیدا ہوئے، غدر کے وکیل صاحب کا انتقال ہوا۔‘‘ (ماہنامہ شاعر، آگرہ، جنوری 1938ء، ص27)

    نثارؔ اکبرآبادی کے ابا اثناعشری تھے۔ خود نثارؔ اس بات کو لکھتے ہیں کہ

    ’’میں نابالغی کے زمانے تک اُس مذہب پر رہا، جب مجھ کو شعور ہوا تو میں نے اپنی استعداد کے موافق تحقیقات کی۔‘‘ (دل، ص3)

    کہا جاتا ہے کہ نثارؔ کی پیدائش 20 ربیع الثانی 1268ھ کے آس پاس ہوئی۔ آپ کا پدری نسب حضرت امام زین العابدین سے جا ملتا ہے۔ آپ قصبہ نیوتنی کے معزز اور علم دوست خانوادے کے چشم و چراغ تھے۔

    ابتدامیں نثارؔ اکبرآبادی دینی و مذہبی کتابیں اپنے والد سے پڑھیں، پھر کچھ دنوں بعد مرزا ہاتم علی بیگ مہرؔ کی صحبت میں بیٹھے اور مہرؔ کی جمالیات شخصیت سے نثارؔ نے کافی استفادہ کیا۔ مہرؔ کی نظر شفقت بھی ان پر کم نہ تھی جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ بہت کم عمر میں نثارؔ نے عربی و فارسی، اردو اور ہندی سے گہری واقفیت حاصل کرلی۔ نثارؔ کو جو اپنے بڑوں کی صحبت ملی تھی وہ کسی استاد سے کم نہ تھی۔ اس لئے مفتی انتظام اللہ شہابی لکھتے ہیں کہ

    ’’فارسی عربی کی استعداد معقول تھی، مطالعہ کتب رفیق طبیعت تھی، ہندی بھی خوب جانتے تھے۔‘‘ (ماہنامہ شاعر، آگرہ، جنوری 1938ء، ص27)

    نثارؔ اکبرآبادی آگرہ میں علمی اوصاف و کمالات حاصل تھے۔ وہ اکثر و بیشتر ادبی محافل میں علمی موضوعات پر روشنی ڈالتے تھے اور قواعد کے اصولوں سے اپنے احباب کو واقف کراتے تھے۔ انہوں نے عربی و فارسی سے اپنی خاص دلچسپی حاصل کرلی تھی۔ نثارؔ عہد شباب میں پہنچے تو معاش کی فکر نے انہیں ملازمت کی طرف راغب کیا۔ والد کے انتقال کے بعد مفتی انتظام اللہ شہابی لکھتے ہیں کہ

    ’’اولاً باپ کے اثاثہ سے گذران کیا، پھر درس و تدریس کا شغل اختیار کیا، معلمی تابہ مرگ رہا، مکتب داری کے پابند رہے، انگریزی مدارس کے طلبہ کو پڑھاتے، آخر عمر میں نواب محمد اسمٰعیل خاں مرحوم کے یہاں معلمی پر منسلک ہوگئے تھے۔ نواب صاحب آپ کی توقیر و منزلت کرتے تھے۔‘‘ (ماہنامہ شاعر، آگرہ، جنوری 1938ء، ص27)

    نثارؔ خط و کتابت بھی کیا کرتے تھے۔ وہ نستعلیق اور تعلیق دونوں پر مہارت رکھتے تھے۔ مطبع اور پریس وغیرہ میں نثارؔ بطور کاتب بھی کام کرتے تھے۔ نثارؔ اکبرآبادی سے حضرت شاہ اکبر داناپوری کی خط و کتابت بھی خوب ہوا کرتی تھی، اس کا ایک مجموعہ ’’مکتوبات اکبر‘‘ کے نام سے سید شاہ عبدالوکیل اکبری ہلسوی نے جمع کیا ہے۔ اس میں نثارؔ کے علم دوستی کا بین ثبوت ہے۔ شاہ اکبر داناپوری کے تلامذہ اور خلفانے قادیانی گروہ کے خلاف بھی نثار نے پیش قدمی کی ہے۔

    نثارؔ اکبرآبادی خوش اخلاق، نیک خو، ہر ایک شخص سے خوش خلقی سے پیش آتے، آپ کے انکسار پر ہر شخص پر پڑتا تھا۔ ہر شخص آپ کے ساتھ تواضع سے پیش آتا تھا۔ مفتی انتظام اللہ شہابی لکھتے ہیں کہ

    ’’معلمی افتخار کا پیشہ ہے، تمام گھر کے کام کاج شاگردوں کے ہاتھوں انجام پاتے ہیں، مگر مولوی نثار علی صاحب خود لکڑیاں بغل میں دبائے لے جاتے، انگرکھے کے دامن میں دوسرا سودا ہے، ہاتھ میں گھی کی پیالی ہے، شاگرد ساتھ ہیں مگر کسی کو چھونے نہیں دیتے۔‘‘ (ماہنامہ شاعر، آگرہ، جنوری 1938ء، ص28)

    نثارؔ اکبرآبادی چوگشیہ ٹوپی پہنتے، انگرکھا اور صدری، پائخوں کا پائجامہ، سلیم شاہی جوتہ، کاندھے پر رومال، گردن میں خلال، پاجامہ ٹخنے سے اونچا۔ سانولا رنگ، دبلا جسم، اوسط قد، ریشی کے ساتھ مونچھیں ترشی ہوئی۔

    مولانا عبدالنعیم ظفری لکھتے ہیں کہ

    ’’کبھی کسی کازیر بار احسان ہونا گوارا نہ کیا، درس و تدریس مشغلہ حیات تھا، اکابر و اصاغر شاگرد تھے اور بے نیاز رہے، انتہائی عزت کے علاوہ خدمت کو سعادت سمجھتے تھے، لیکن آپ نے متوکل علی اللہ آخردم تک دنیا کی مکر وہات سے بے نیاز رہے اور کبھی کسی سے سوال ڈالنا ننگ سمجھا۔‘‘ (تذکرہ بزم ابوالعلاء، جلد دوم، ص224)

    نچار نو عمری میں مہرؔ، باطنؔ، بیخبرؔ، ساحرؔ، راجہؔ کے مشاعروں میں شریک ہوتے۔ مفتی افہام اللہ ساحرؔ نیل کھاتہ میں مشاعرہ کرتے۔ راجہ بلوان سنگی کے شیخ کے یہاں شعرا کی محفل گرم ہوتی۔ مہرؔ (تلمیذ ناسخؔ) کے مکان پر پندرہ روزہ مجلس شعرا منعقد ہوتی۔ قاضی باقر علی خاں کے برادر زادہ منشی سید نظام علی خاں افضلؔ (منصف فتح آباد) کے یہاں بڑے پیمانے پر مشاعرہ اور دعوت و طعام ہوتی۔ نثارؔ کو بھی شعر کہنے کا شوق ہوا، فکر سخن کرتے رہے اور مہرؔ سے مشورہ لیا۔

    ابھی کچھ ہی روز گزرے تھے کہ حضرت شاہ اکبر داناپوری کی خدمت میں آنے جانے لگے اور پھر ان کے ہوگئے۔ نثارؔ خود کہتے ہیں کہ

    ’’طفویت سے مجھے خدمت میں حضرت مرشدی و مولائی وملجائی وماوائی پیر دستگیر امامنا و ہادینا سید شاہ حاجی محمد اکبر صاحب ابوالعلائی داناپوری مدظلہ العالی کا شرف صحبت حاصل رہا، تو کچھ ایسی موافقت قلبی ہوگئی کہ بتوسل مکرمی و معظمی فخر برادران جناب اخریاض الدین صاحب ابوالعلائی الاکبری دامت برکاتہ دست حق پرست پر حضرت صاحب قبلہ کے داخل سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ ابوالعلائیہ ہوگیا۔‘‘ (دل، ص5)

    حضرت شاہ اکبر داناپوری کے مرید ہوئے اور پھر ان سے ہی اپنے کلام پر اصلاح لینے لگے۔ صوفیا کی صحبت اور متسوفانہ کتب کا مطالعہ، پیر و مرشد کے ارشادات و ملفوظات نے نثارؔ کو اولیا و اصفیا کا دلدادہ اور پاک خلق خدا کا دیوانہ بنادیا۔ آپ میلاد شریف بڑے ذوق و شوق سے پڑھتے تھے، آواز نہایت خوبصورت اور رد بھری ہوتی تھی، پڑھتے پڑھتے آنکھوں سے اشکوں کی برسات ہونے لگتی۔

    نثارؔ اکبرآبادی اپنے عہد کے استاد، شاعر، اور شعرا ئے متاخرین میں قابل فخر ہستی تھے۔ ان کے کلام کی فصاحت و نظام کی مقبولیت ان کی حیات ہی میں ہوچکی تھی۔ بقول شہابی

    ’’میلاد خوانوں نے بزم میلاد میں، موسیقی نوازوں نے بزم عیش و نشاط میں خوب خوب دادِ کلام دی، ہر طبقہ میں مولانا کا کلام مرغوب و مقبول تھا۔‘‘ (ماہنامہ شاعر، جنوری 1938ء، ص28)

    نثارؔ اکبرآبادی کی زبان صاف، شستہ بندش چست، شوکت معانی سے لبریز، ہر شعر سے ظاہر، کہیں شوخی کہیں متانت۔ اپنی وضع داری آخر تک بنا کر رکھی۔ نواب یا غریب سب کو ایک نظر سے دیکھتے، شاگردوں میں بڑے نوابین بھی شامل ہوئے، لیکن کبھی کسی قسم کی خدمت نہیں لی۔ ماسٹر شنکر دیال (تلمیذ غالبؔ) اپنے فرزند شام کو آپ کی شاگردی میں دیا۔

    بیدمؔ وارثی، مظہرؔ اکبرآبادی، صوفیؔ اکبرآبادی، سراجؔ اکبرآبادی، مفیدؔ اکبرآبادی، محفوظؔ اکبرآبادی، شفیقؔ اکبرآبادی وغیرہ پر بھی بے حد نوازشات رہیں۔ نثار کے غزل پڑھنے کا انداز تھا کہ آہستہ آہستہ تحت اللفظ پڑھتے، ارباب محفل بے انتہا محظوظ ہوتے۔

    اساتذہ وقت میں ایک دوسرے میں چشمک رہاکرتی تھی، مگر نثارؔ ہی ایک ایسے تھے کہ آگرہ کے استاد شعرا میں مرزا رئیس اکبرآبادی، واصف علی اکبرآبادی، بزرگ علی عالیؔ اکبرآبادی بھی ان کا احترام کرتے تھے۔

    صباؔ اکبرآبادی لکھتے ہیں کہ

    ’’آپ اساتذہ میں امتیازی شان رکھتے تھے، متوکل گوشہ نشین، نام و نمود سے بے پرواہ، خوش اخلاق، صاحب علم و فضل اور صوفی کامل تھے۔ آپ کا کلام معرفت و تصوف کے بیش بہا مضامین سے مالامال تھا۔‘‘ (ماہنامہ مشورہ، آگرہ، جولائی 1936ھ، ص71)

    میکشؔ اکبرآبادی رقم طراز ہیں کہ

    ’’مولانا نثار علی صاحب نثارؔ کو میں نے اچھی طرح دیکھا ہے، چوگشیا کڑگی ہوئی ٹوپی، چشمہ لگائے، صدری، گندمی رنگ، شرعی داڑھی، آنکھوں میں آشوب چشم، یہ ان کی وضع قطع تھی۔ مولانا بڑے خلوص اور قاعدے سے شریک ہوتے، اچھے شعروں کی داد دیتے، اور آخر میں اپنی غزل سناتے، کبھی کسی کے شعر پر اعتراض نہ کرتے۔ بڑے درویش صفت آدمی تھے۔‘‘ (آگرہ اور آگرے والے، ص57)

    مجید احمد مجیدؔ ناروی لکھتے ہیں کہ

    ’’…نثارؔ اکبرآبادی کا نام آج بھی ادبی خدمات میں نمایاں رہ رہا ہے۔‘‘ (اعجاز نوح، ص87)

    آج بیدمؔ وارثی کے کلام پر رقص کرتے ہوئے داد و تحسین دیتے ہیں، مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ بیدمؔ کو شعر و سخن کا فیض جناب نثارؔ سے حاصل ہوا۔ نثارؔ ہر سہ زبان میں اپنی فوقیت رکھتے۔ افسوس کہ نثارؔ کا دیوان طبع نہ ہوسکا، وگرنہ آج ان کی شخصیت کچھ اور ہی ہوتی۔

    نثارؔ اکبرآبادی بظاہر شاعر معلوم ہوتے ہیں، مگر حقیقت میں صوفی تھے، اور دل کو مطمئن رکھنے کے لئے شعری ذوق کو زندہ رکھتے تھے۔ ان کی شاعری میں معرفت، عبادت اور فنائیت کے مضامین پائے جاتے۔ وہ محاورے یا شاعری بھی کرتے، جیسے

    آنسؤں سے بجھ گئی نارِ جہیم

    حشر میں کام آ گئیں آنکھیں

    نثارؔ کا زیادہ تر وقت آستانہ حضرت ابوالعلاء پر گزرتا تھا۔ وہ مشاعروں میں جانے سے گریز کرتے تھے، احباب اور شاگردوں کی محبت کی وجہ سے چند مشاعروں میں شرکت کی، جہاں ان کی آمد و رفت دہلی، یوپی، غازی آباد، بنارس، لکھنؤ وغیرہ میں ہوئی۔

    حضرت نثارؔ اکبرآبادی کے تعلق سے صباؔ اکبرآبادی لکھتے ہیں کہ

    ’’نثارؔ کا کلام لوگوں کے دل میں چبھ کر انہیں داد دینے پر مجبور کرتا تھا۔ اوائل عمر میں رنگ سخن زمانہ کی ہوا، مگر عمر کے آخری حصوں میں جوانی کی شوخی اور جذبات کی بے اختیاری متانت اور پاکیزگی میں تبدیل ہوگئی، اور رفتہ رفتہ یہ چیز ان کے کلام کی خصوصیات اور تخیل بندی تھی۔ اسی خصوصیات نے انہیں اکبرآباد کے اساتذہ کی صف اول میں بیٹھا دیا۔ شاعر اور درویشی دونوں باتیں اپنے مرشد زبدۃ العارفین مولانا شاہ محمد اکبر ابوالعلائی داناپوری سے حاصل کیں، اور صحیح مفہوم میں نثارؔ اپنے استاد کی یادگار بن گئے۔‘‘

    (ماہنامہ شاعر، آگرہ، جون و جولائی 1936ھ، ص64)

    اگر ہم نثارؔ کے معاصرین کا جائزہ لیں تو خصوصیت کے ساتھ چند نام شامل رہیں گے: مرزا رئیسؔ اکبرآبادی، ماسٹر تصوف حسین واصف اکبرآبادی، شیخ بزرگ علی عالیؔ اکبرآبادی، شاہ محسنؔ داناپوری، حمدؔ کاکوی، شوقؔ اجمیری، فضاؔ اکبرآبادی، امیرؔ مینائی، جلیلؔ مانکپوری، سیمابؔ اکبرآبادی وغیرہ۔

    حضرت اکبر داناپوری نے نثارؔ کی اعلیٰ قابلیت کو دیکھتے ہوئے انہیں اجازت و خلافت عنایت فرمائی، جس کا اثر مولانا کی ذات پر خوب ہوا۔ نثارؔ شاہ اکبر داناپوری کے تلامذہ میں سب سے کامیاب شعر گو ثابت ہوئے۔ ان کی دیوان دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس پایہ کے شاعر تھے۔ اردو ادب میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ انہوں نے مختلف انداز کی غزلیں، حمد، نعت، منقبت، مسدس، قصیدہ، قطعات، قطعات تاریخ، نظم، شجرات وغیرہ کہی۔

    نثارؔ کی مطبوعہ تصنیفات میں مذاق عشق، خمار عشق، دل وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ایک مکمل دیوان اور ایک غیر مکمل دیوان کے علاوہ فارسی کلام اور ہندی کا مجموعہ بھی ہے، جو ہنوز طبع تشنہ طبع ہے۔ نثارؔ نے اپنے پیر و مرشد حضرت اکبر کے ملفوظات کو جمع کرکے دل کے عنوان سے 1311ھ میں آگرہ سے شائع کرایا۔ اس کے علاوہ پیر و مرشد کی اکثر تصنیف پر قطعات تاریخ بھی لکھے۔

    شفقؔ اکبرآبادی کا کہنا ہے کہ

    ’’نثارؔ ایک صاحب دل بزرگ تھے، انہوں نے عبادت و ریاضت بکثرت کی، ان کی ذات سے کرامات کا صدور بھی ہوا ہے۔‘‘ (تذکرہ بزم ابوالعلاء، جلد دوم، ص227)

    نثارؔ کا عقد میر کرامت علی اکبرآبادی کی صاحبزادی محمدی بیگم سے ہوا، جن کا خاندان عظمت و شوکت اور نجابت و شرافت کے لحاظ سے آگرہ میں مشہور تھا۔ اللہ نے آپ کو پانچ اولاد سے نوازا، ایک صاحبزادہ احسان علی اور چار صاحبزادیاں: کلثم بیگم، حبیبیہ بیگم، الطافی بیگم اور وحیدن بیگم۔ چھوٹی صاحبزادی کے علاوہ آپ کی تمام اولاد انتقال کر گئی۔ نثارؔ کو تاحیات اس کا صدمہ رہا۔

    نثارؔ ایک عرصہ تک آشوب چشم میں مبتلا رہے، لیکن شاعری نہیں چھوڑی۔ آخر 16 شعبان 1339ھ موافق 27 اپریل 1922ء کو رہگرائے عالم جاودانی ہوئے اور حسب و صیت آستانہ حضرت ابوالعلاء میں مدفون ہوئے۔ شاہ محسنؔ داناپوری اور سیمابؔ اکبرآبادی نے قطعہ تاریخ لکھا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے