Font by Mehr Nastaliq Web

ذکرِ خیر حضرت حکیم شاہ کفیل احمد داناپوری

ریان ابوالعلائی

ذکرِ خیر حضرت حکیم شاہ کفیل احمد داناپوری

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    ہندوستان کی علمی، ادبی اور روحانی تاریخ میں ایسی ہستیاں بارہا جلوہ گر ہوئیں جنہوں نے اپنی ذات اور کردار سے سماج و ملت کی خدمت کی۔ انہی برگزیدہ ہستیوں میں حضرت حکیم شاہ کفیل احمد داناپوری رحمۃ اللہ علیہ کا نام نہایت نمایاں ہے۔ آپ نے ایک طرف اپنے آباء و اجداد کی خانقاہی روایت کو آگے بڑھایا اور دوسری طرف فنِ طب میں اپنی مہارت اور خدمتِ خلق کے ذریعے ناقابلِ فراموش نقوش چھوڑے۔

    حضرت سید نظام الدین قدس سرہٗ کی نویں پشت میں حضرت شاہ ابوالبرکات ابوالعلائی عرف برکت مدن پوری ثم داناپوری (وفات 1326ھ) کا شمار ہوتا ہے۔ آپ نے حضرت شاہ واجد قدس سرہٗ کی صاحبزادی نجیب النساء سے نکاح کے بعد محلہ شاہ ٹولی، داناپور کو مسکن بنایا۔ آپ کو خلافت حضرت شاہ مبارک حسین داناپوری (وفات 1271ھ) اور حضرت حکیم سید شاہ علیم الدین بلخی فردوسی (وفات 1287ھ) جیسے اجلہ مشائخ سے حاصل ہوئی۔ انہی برکتوں کے نتیجے میں سلسلۂ طریقت کو نئی جان ملی اور خانقاہ برکاتیہ کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ خانقاہ اہلِ محبت کے لیے مرجعِ خلائق رہی اور وہاں کا سالانہ عرس نہایت شاندار پیمانے پر منعقد ہوتا تھا۔

    حضرت ابوالبرکات کے صاحبزادگان میں سید شاہ خلیل احمد، مولانا سید شاہ عبدالجلیل اور حکیم سید شاہ کفیل احمد ابوالعلائی تھے۔ انہی میں سے حضرت حکیم شاہ کفیل احمد بعد میں خاندان اور شہر کی پہچان بنے۔

    حکیم شاہ کفیل احمد کی پیدائش 1885ء میں محلہ شاہ ٹولی، داناپور میں ہوئی۔ آپ نے بچپن ہی سے علمی ذوق اپنے والد کی صحبت سے پایا۔ بعد ازاں حکیم عبدالعزیز صاحب (بانی تکمیل الطب کالج، لکھنؤ) کے زیرِ سایہ رہ کر فنِ طب کی تکمیل کی۔ اسی نسبت سے آپ کو طبی دنیا میں منفرد مقام حاصل ہوا۔

    تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے محلہ شاہ ٹولی میں مطب قائم کیا۔ جلد ہی آپ کی شہرت شہر و صوبے کی حدود سے نکل کر بیرونِ صوبہ تک پھیل گئی۔ امیر و غریب سبھی آپ کے مطب پر آتے اور آپ کے علاج سے شفایاب ہوتے۔ آپ نے حکمت میں ایسے نادر نسخے منکشف کیے جو زمانے سے فراموش ہو چکے تھے۔

    نسخہ جات کی سادگی اور علاج کی سستائی کے سبب ہر طبقہ آپ سے رجوع کرتا۔ یہی نہیں بلکہ آپ عالمانہ روش کے ساتھ ساتھ خانقاہی محافل اور سالانہ عرسوں میں بھی سرگرم رہتے۔

    حکیم شاہ کفیل احمد داناپوری اپنی سادہ مزاجی، فیاضی اور مہمان نوازی کے لیے مشہور تھے۔ داد و دہش میں فراخ دل، غربا و مساکین کے ہمدرد اور اہلِ محبت کے لیے سراپا شفقت تھے۔ ان کے اخلاق و کردار سے لوگوں کو ہمیشہ تسکین اور سکون حاصل ہوتا۔

    آپ نے دو نکاح کیے۔ محل اولیٰ سے ایک دختر پیدا ہوئیں جو موضع پالی، ضلع جہان آباد میں منسوب ہوئیں۔ محل دوم سے پانچ صاحبزادے اور چار صاحبزادیاں ہوئیں جو بحمد اللہ آج بھی کراچی، جمشید پور اور داناپور میں آباد و شاد ہیں۔

    آپ کی ہمشیرہ بی بی تمیز النساء صاحبہ کا نکاح حضرت شاہ نظیر حسن داناپوری سے ہوا، جو حضرت ظفرالمکرم کی نانی صاحبہ تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت شاہ عبدالجلیل اور حضرت شاہ کفیل احمد ہمارے حضرت کو نہایت عزیز رکھتے اور خانقاہ سجادیہ کی محافل میں باقاعدگی سے شریک ہوتے۔

    حکیم شاہ کفیل احمد کا انتقال 17 شوال المکرم 1361ھ (1942ء) کو محلہ شاہ ٹولی، داناپور میں ہوا۔ آپ کے انتقال پر اہلِ محبت غمزدہ ہوئے اور ایک درخشاں باب اختتام پذیر ہوا۔ شاعر نورؔ نے قطعۂ تاریخ یوں کہا کہ

    ڈھا گیا چرخ کیا ستم پر ستم

    کس طرح تم کو یہ سنائیں ہم

    آپ کرتے تھے دل ہی دل سب کی

    آپ کا سب کسی پر دستِ کرم

    کون لے گا خبر غریبوں کی

    غم اگر ہے تو بس اسی کا غم

    خوب ہے نورؔ مصرعۂ تاریخ

    رفت جنت کفیل واے الم

    (1361ھ)

    حکیم شاہ کفیل احمد داناپوری کی حیات و خدمات نہ صرف خاندانِ ابوالعلائیہ بلکہ پورے بہار کی علمی و طبی تاریخ کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ آپ کی خانقاہی وابستگی، فنِ طب میں مہارت، اور خدمتِ خلق کا جذبہ آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اقبال کے الفاظ اس موقع پر بالکل صادق آتے ہیں۔

    ع - زوال بندۂ مومن کا بے ذری سے نہیں

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے