حضرت فریدالدین طویلہ بخش اور ان کا خانوادہ
بہار میں جن خانوادوں سے تصوف کو فروغ ملا ان میں حضرت فریدالدین طویلہ بخش اور ان کا خانوادہ نمایاں کردار ادا کرتا ہے، انہوں نے یہاں روحانیت اور اس کی عظمت کا ایسا سلسلہ قائم کیا جس کی چمک تقریباً تین صدیوں پر محیط ہے، کسے پتا تھا کہ بہار شریف میں ملّا چاند کی آباد کردہ سرزمین پر صوفیانہ رنگ چڑھنے والا ہے، خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار حضرت فریدالدین طویلہ بخش کا خاندان بدایوں سے بنگال اور بنگال سے بہار شریف میں آباد ہوا، تاریخ کی قدیم کتابیں اس بات کی شاہد ہیں کہ بہار میں سلسلۂ چشتیہ کا فیضان آپ سے خوب ہوا، شاید ہی کوئی خانوادہ ہوگا جنہیں آپ کا فیضان نہ پہنچا ہو، حضرت فرید اور ان کے خانوادہ کے علم و عمل اور زہد و ورع نے عام لوگوں کی زندگی سنوارنے میں بڑی اہم خدمات انجام دی ہے، دولت و جاہ کے نشے میں سرشار انسان ان کی خاموش اور پرسکون زندگی سے اثر قبول کیے بغیر نہ رہ سکتے تھے، ان کی تعلیم و تبلیغ سے لوگ اپنی لغزشوں سے تائب ہونے پر مجبور ہوجاتے تھے۔
آپ بنگال کے شہرِ مالدہ میں نویں صدی ہجری کے اوائل میں حضرت سید ابراہیم بن سید جمال الدین کے یہاں پیدا ہوائے، رشتۂ خاندانی کے لحاظ سے حضرت بدرِ عالم زاہدی کے بھانجہ اور حضرت نور قطبِ عالم پنڈوی کے خالہ زاد بھائی ہوتے ہیں۔
سید ابراہیم بن سید جمال الدین اپنے والد کے زمانۂ حیات میں نہایت کم سن تھے، خورد سال ہی میں آپ کے والد نے رحلت فرمائی، خواجہ نظام الدین اؤلیا نے پرورش کی اور اپنے زیرِ نگرانی رکھا، جب حضرت اخی سراج الدین کو بنگال جانے کا حکم ہوا تو محبوبِ الہٰی نے سید ابراہیم کو بھی ان کے ساتھ کر دیا، اخی سراج اپنے ساتھ لکھنوتی (مالدہ) لے گئے اور ان کی تعلیم و تربیت کی، جب جوان ہوئے تو آپ کا نکاح حضرت فخرالدین زاہدی کی صاحبزادی یعنی حضرت علاؤالحق پنڈوی کی زوجِ ہمشیرہ سے کردیا، یہ بی بی حضرت بدرِ عالم زاہدی کی حقیقی ہمشیرہ ہوتی ہیں، جن سے حضرت فریدالدین طویلہ بخش پیدا ہوئے۔
اس کی وضاحت کریم الدین احمد بہاری یوں کرتے ہیں کہ
’’و می گویند کہ حضرت شیخ نور قطبِ عالم پنڈوی و حضرت فرید طویلہ بخش ہردو ہمشیرۂ زادگان حضرت پیر بدرِ عالم زاہدی قدس سرہٗ اند‘‘(مخزن الانساب، ص172)
حضرت شاہ عطا حسین فانی نے ’’کنزالانساب‘‘، کریم الدین احمد بہاری نے ”مخزن الانساب“ اور شاہ محمد واجد ابوالعلائی نے ’’تذکرۃ الابرار‘‘ میں آپ کو خواجہ نظام الدین اولیا کا ہمجد لکھا ہے اور وہ اس طرح کہ خواجہ نظام الدین اؤلیا کے والد دو بھائی تھے، سید احمد اور سید محمد، سید احمد کے صاحبزادے خواجہ نظام الدین اؤلیا اور سید محمد کے صاحبزادے سید جمال الدین، یہ محبوبِ الہٰی کے مرید و خلیفہ ہوئے، ان کے صاحبزادے سید ابراہیم تھے۔
حضرت شاہ عطا حسین فانیؔ رقمطراز ہیں کہ
’’سید محمد بدایونی را یک فرزند حضرت جمال اؤلیا کہ مرید و خلیفہ حضرت محبوبِ الہٰی برادر عمزاد بودند فرزند رتبۂ بلند ایشاں سید شاہ ابراہیم ایشاں را تربیتِ ظاہری و باطنی از پدرِ بزرگوار خود بود‘‘(ص 87)
’’مخزن الانساب‘‘ میں ایک جگہ محبوبِ الہٰی اور سید جمال الدین کو حقیقی بھائی لکھا گیاہے لیکن حاشیہ پر ایک دوسری روایت یہ بھی لکھی ہے کہ چچا زاد بھائی تھے، اس روایت سے ’’کنزالانساب‘‘ کی تائید ہوتی ہے، یہ حیدرآباد کے قریب کسی علاقہ میں رہے اور وہیں اُن کا مزار ہے، کریم الدین احمد بہاری لکھتے ہیں کہ
’’گویند کہ قبل از تشریف آوردن و قیام فرمودن حضرت شیخ المشائخ بدہلی یک برادرِ حقیقی آنحضرت کہ جمال الدین نام داشت بقصبہ پسرے خورد سال را گذاشتہ رحلت فرمودہ بود ۔مرقد پاکش ہماں جا۔۔نام آں پسر سید ابراہیم است‘‘(مخزن الانساب، ص 172)
مزید حاشیے میں رقمطراز ہیں کہ
’’بعضے بر آنند کہ سید جمال الدین کہ مزارش قریب حیدرآباد دکن واقع است، برادر عمزاد حضرت سلطان المشائخ نظام الدین بدایونی بود و حضرت مخدوم فرید طویلہ بخش بہاری از اولاد ہمیں بزرگ است۔‘‘(ص 172)
یہ تحقیق طلب موضوع ہے کہ سید جمال الدین کا مزار حیدرآباد کے قریب میں کیوں کر واقع ہے اور اگر وہ محبوبِ الٰہی کے مرید و خلیفہ ہوئے تو کسی کتاب میں اس تعلق کے ساتھ ذکر کیوں نہیں؟ ہاں البتہ شیخ عبدالرحمٰن لکھنوی نے ’’مراۃ الاسرار‘‘ میں مولانا جمال الدین نامی خلیفہ کا ذکر کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ آپ کا وصال محبوبِ الٰہی کی زندگی میں ہوا، ممکن ہوکہ ان بزرگ کی طرف ہی اشارہ ہو مگر خاندانی طور پر بہار کے علاوہ دوسری ریاستوں یا چشتیہ تذکرے کی قدیم کتب میں اس طرح کے واقعات کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ آپ اور محبوبِ الٰہی کے ہمجد دونوں ایک نہیں ہیں۔
کریم الدین احمد بہاری ’’مخزن الانساب‘‘ میں نسب نامۂ پدری یوں لکھتے ہیں۔
فریدالدین طویلہ بخش بن ابراہیم بن جمال الدین بن احمد بن علی بن عبداللہ بن حسن بن علی بن احمد بن عبداللہ بن علی اصغر مدنی بن جعفر ثانی بن امام محمد نقی بن امام محمد تقی بن امام علی رضا بن امام موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن امام حسین بن علی مرتضیٰ۔(ص 173)
اسی طرح حضرت داؤد قریشی کے خاندانی سفائن میں بھی نام لکھے ہیں اور انہیں محبوبِ الٰہی کا ہمجد تسلیم کیا گیا ہے، حضرت یحییٰ علی نے بھی آپ کو محبوبِ الٰہی کا ہمجد تسلیم کیا ہے، شاہ محمد واجد ابوالعلائی لکھتے ہیں کہ
’’اور آپ والدۂ ماجدہ کی طرف سے حضرت سلطان الاؤلیا حضرت نظام الدین اؤلیا چشتی قدس سرہٗ سے لے کر حضرت علی موسیٰ رضا اور دیگر ائمہ بالا رضوان اللہ علیہم تک جا ملتا ہے‘‘(تذکرۃ الابرار)
حکیم شعیب احمد پھلواروی لکھتے ہیں کہ
’’حضرت فریدالدین طویلہ بخش نے لکھنوتی پنڈوہ میں نشو و نما پائی، علومِ ظاہری و باطنی میں کمال پیدا کرکے اپنے خالہ زاد بھائی حضرت نور قطبِ عالم پنڈوی سے بیعت ہوکر ان کی زیرِ نگرانی ریاضات و مجاہدات میں محنتِ شاقہ اور سعی بلیغ کرتے رہے‘‘(تجلیاتِ انوار، جلد اول)
بروایتِ ’’تجلیاتِ انوار‘‘ حضرت علاؤالحق پنڈوی کی خانقاہ میں نفس کشی پر خاص توجہ رہتی تھی، جب تک ذرا بھی نفس کا شائبہ ہوتا، ترقیات مسدود رہتی تھیں، سالہا سال حضرت علاؤالحق کے صاحبزادے حضرت نور قطبِ عالم نے خانقاہ کی غلاظت صاف کی ہے، غلام نبی خاں فردوسی منیری لکھتے ہیں کہ
’’ایک روز حسبِ معمول پائخانہ صاف کر رہے تھے، کسی فقیر نے پائخانہ پھرا کہ وہ سب آپ کے کپڑوں پر پڑا اور آپ بالکل اس نجاست سے بھر گئے، والد ماجد آپ کو اتفاقاً اسی طرف سے آ نکلے، فرمایا حق خدمت ادا ہوا، اب دوسری خدمت کرو۔۔۔‘‘(مراۃ الکونین، ص 365)
حضرت نور قطبِ عالم نے بھی اپنے مرید حضرت فریدالدین طویلہ بخش سے ایسی ہی کڑی محنت لی، آپ کو حکم تھا کہ شاہراہ پر زیرِ سایہ درخت بیٹھ کر مسافروں کے کپڑے سئیں، چنانچہ آپ نے اپنا یہ معمول بنا لیا کہ روزانہ شاہراہ پر زیرِ درخت بیٹھ کر خیاطی کا کام کرتے، یہ معمول سردی، گرمی، برسات ہر موسم میں رہا کرتا، سلائی کی کوئی اُجرت متعین نہیں تھی، اگر کسی نے کچھ دے دیا تو عطیۂ الہٰی سمجھ کر لے لیا، اگر نہ دیا تو طلب بھی نہیں کرتے، اسی طرح شدید ریاضات و مجاہدات اور نفس کشی کی بدولت ولایت کے اعلیٰ رتبہ پر پہنچے اور صاحبِ معرفت و کرامات ہوکر اپنے شیخ کی طرف سے خرقۂ خلافت و اجازت سے بہرۂ مسند ہوئے۔ (تجلیاتِ انوار، جلد اول)
’’طویلہ بخش‘‘ مشہور ہونے کی وجہ تسمیہ صاحبِ ’’تجلیاتِ انوار‘‘ کچھ یوں لکھتے ہیں کہ
’’ایک روز حسبِ معمول شاہراہ پر زیرِ درخت کپڑے سی رہے تھے، گھوڑے سوار سودا گروں کا ایک قافلہ وہاں پہنچا، ان میں سے ایک شخص آپ کے پاس آیا اور اپنے کپڑے سینے کے لیے دیئے، آپ نے کپڑے لے لیے اور محض واقفیت حاصل کرنے کے خیال سے اس سے پوچھا کہ یہ گھوڑے کہاں سے آتے ہیں اور کہاں جائیں گے، اس نے کہا تم اپنا کام کرو! تمہیں اس سے کیا بحث، یہ گھوڑے کہاں سے آتے ہیں اور کہاں جائیں گے، جئیں گے یا مریں گے، آپ نے فرمایا جئیں یا مریں مجھ کو کیا؟ شام کے وقت آپ اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے اور سودا گر اپنے قافلے میں گیا، جب صبح ہوئی تو سودا گروں کے بہت سے گھوڑے مردہ پائے گئے، اس واقعہ سے سب کو حیرانی و پریشانی ہوئی کہ بیک دفع کل گھوڑے کیوں مر گئے؟ وہی شخص جس نے گذشتہ دن آپ سے تلخی سے گفتگو کی تھی، اس کو اپنی بات یاد آئی، اس وقت اس نے خیال کیا کہ یہ خیاط نہ تھا بلکہ کوئی صاحبِ دل تھا، جس کی بد دعا کا یہ ثمرہ ہے، تحقیقات سے معلوم ہوا کہ وہ حضرت علاؤالحق پنڈوی کے داماد اور حضرت نور قطبِ عالم کے مرید و مسترشد ہیں، جنہوں نے سترِ حال اور نفس کشی کے لیے خیاطی کا کام اختیار کر رکھا ہے۔
تمام سودا گر حیران و پریشان حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کل ماجرا بیان کیا، حضرت نے آپ کو طلب فرما کر ارشاد فرمایا کہ
’’جوانی کے غصہ کو قابو میں رکھنا جواں مردی ہے، کل تمہارے غضب آمیز جملے نے غریب سودا گروں کے گھوڑوں کا کام تمام کر دیا‘‘
حضرت فریدالدین نے اپنے اسی جملہ کو الٹ کر عرض کیا کہ ’’حضور! مجھ کو کیا گھوڑے مرتے ہو یا جیتے ہوں‘‘ ادھر آپ کی زبان سے یہ جملہ نکلا ادھر سب گھوڑے زندہ کھڑے ہوگئے، حضرت نے سودا گروں سے فرمایا کہ ’’اب جاؤ! گھوڑے زندہ ملیں گے‘‘ جب سودا گر وہاں سے واپس آئے سب گھوڑے زندہ کھڑے تھے، اس ظہورِ کرامت کے بعد آپ کا لقب ’’طویلہ بخش‘‘ مشہور ہوگیا۔ (جلد اول)
آپ کے عقد و بیعت کے تعلق سے کریم الدین احمد بہاری لکھتے ہیں کہ
’’۔۔۔۔از دختر حضرت شیخ علاؤالحق پنڈوی منسوب (فریدالدین طویلہ بخش) گشتند و صاحبِ اولاد شدند، آنحضرت را بیعت و خلافت از برادرِ خالائی و نسبتی خود شیخ نور قطبِ عالم پنڈوی حاصل گردید‘‘(ص172)
واضح ہوکہ حضرت علاؤالحق کے دوسرے داماد حضرت مولانا تاج الدین اسبیجانی تھے، جنہیں شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے ’’سمجھدار عالم کہا ہے‘‘(اخبارالاخیار، تذکرہ شیخ سخائی)
مولانا شاہ حسین الدین احمد منعمی لکھتے ہیں کہ
’’بہر حال! سید ابراہیم حضرت محبوبِ الٰہی کی خدمت ہی میں تھے کہ مخدوم سراج الدین کو بنگالہ جانے کا حکم ہوا اور سید ابراہیم بھی ہمراہ ہوئے، پنڈوہ میں کچھ دنوں رہنے کے بعد مولانا علاؤالحق نے اپنی سالی سے ان کی شادی کر دی‘‘(پنڈوہ، ص 28)
شاہ حسین الدین احمد نے حضرت علاؤالحق کی اہلیہ کا نام حافظہ بی بی جمال بتایا ہے مگر اس کی صحت پر شک و شبہات بھی ظاہر کئے ہیں، لکھتے ہیں کہ
’’حضرت مخدوم علاؤالحق کی اہلیہ محترمہ حافظہ بی بی جمال تھیں، کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت مخدوم سید بدرالدین پیر بدر عالم کی بہن تھیں مگر کسی کتاب سے اس کا ثبوت نہ مل سکا، ان کا مزار حضرت مخدوم کے پائیں میں احاطہ سے نیچے زینہ سے پچھم واقع ہے‘‘(پنڈوہ، ص 20)
بہت حد تک ممکن ہے کہ قدیم سفائن میں اس کا تذکرہ موجود ہو جیسا کہ صاحبانِ کنزالانساب و مخزن الانساب نے تحریر کیا ہے، حضرت علاؤالحق کے گیارہ صاحبزادے اور چار صاحبزادیاں تھیں، چاروں صاحبزادیوں کی قبریں بھی آپ کے مزار سے متصل پورب طرف واقع ہیں۔(پنڈوہ، ص 20)
شاہ حسین الدین احمد کی اس تحریر سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ آپ کی زوجۂ اولیٰ کا انتقال پنڈوہ میں ہی ہوا جس کے بعد آپ نے دوسرا عقد کیا، حضرت فرید کے دوسرے عقد کا تذکرہ صاحبِ مخزن میں یوں ہے۔
’’باید دانست کہ حضرت میر سید محمد سہروردی مذکور را از محل دوم کہ بخاندان حضرت مخدوم شیخ فرید طویلہ بخش چشتی النظامی منسوب بود یک پسر میر سید صدر عالم بوجود آمدند‘‘(ص141)
حضرت فریدالدین خرقۂ خلافت حاصل کرنے کے بعد حسبِ ارشاد پیر و مرشد بہار شریف تشریف لائے اور محلہ چاند پورہ میں سجادۂ رشد و ہدایت قائم کیا، اطراف صوبۂ بہار میں بہت کم خاندان ایسے ہوں گے جہاں آپ کا سلسلہ نہ پہنچا ہو۔(پنڈوہ، ص 29)
صاحبِ ’’کنزالانساب‘‘ رقمطراز ہیں کہ
’’سید فرید طویلہ بخش در بہار حسبِ ولایت چشتیاں اقامت پذیر شدند بمحلہ چاند پورہ‘‘(ص 87)
اسی طرح کی تحریر صاحبِ مخزن نے بھی صفحہ 172 پر درج کیا ہے، صفحہ 200 پر چاند پورہ کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ
’’بمحلہ چاند پورہ چند مکانات فرزندانِ حضرت مخدوم فرید طویلہ بخش رحمۃ اللہ علیہ موجودہ اند و چند مکانات از اقوامِ اراذل ہم واقع اند حالا صاحبِ سجادۂ درگاہ شریف جناب برادرم سید شاہ محمد عسکری اند کہ از فرزندانِ حضرت مخدوم علیہ الرحمۃ اند‘‘
حضرت فرید کی آمد سے چاند پورہ کی تاریخ میں زریں باب کا اضافہ ہوتا ہے، ان کی خانقاہ سے تعلیمات کی نشو و نما ہوئی، جس سے بہار شریف ہی نہیں بلکہ صوبۂ بہار کے اکثر خانوادے فیضیاب ہوئے، ان کے عہد میں کیا تعلیم دی جاتی رہی، کس طرح مسترشدین کی تربیت ہوئی، خانقاہی رسم و رواج کیسے رہے اس کا اندازہ ان کے ایک مکتوب سے لگائیے، مکتوب کا چند حصہ خانقاہ چشتیہ مودویہ، چھوٹا شیخ پورہ میں محفوظ ہے جس کے کاتب شاہ مراداللہ فردوسی ہیں، یہ تحقیق کا نازک مسئلہ ہے جس کی بازیافت ہونی چاہیے، لیکن افسوس کہ اس کا قدیم نسخہ اب نایاب ہے۔
حضرت فرید کی شخصیت کے بعد ان کے صاحبزادگان بھی انہیں اوصاف و کمالات کے حامل ہوئے، صاحبِ ’’کنزالانساب‘‘ لکھتے ہیں کہ
’’اولاد ایں بزرگ کہ بسرایر ۔۔۔ مشائخِ کبار فرزند رتبۂ بلند آنحضرت سید معین الدین بہاری‘‘(ص87)
صاحبِ مخزن لکھتے ہیں کہ
’’و از زبان اکثرے ازیں جا بارہا بسماع آمد کہ ہرکہ از قوم شان را وز فرزندان مخدوم بتافت بہر در کہ شد ہیچ عزت نیافت۔۔۔بعضے خود را از نسل خلیفۂ آنحضرت کہ بنام ملا چاند شہرت دارند و قبرستان نزد خطیرۂ حضرت مخدوم فرید طویلہ بخش قدس سرہٗ واقع است بے شمارند‘‘(ص 179)
صاحبِ مخزن رقمطراز ہیں کہ
برصغیر میں علمِ فقہ اور منطق کے مشہور عالم ملا محب اللہ بہاری آپ ہی کے خاندان میں مرید ہوئے اور آستانہ حضرت طویلہ بخش، چاند پورہ کے احاطہ میں آسودۂ خاک ہیں۔(ص 200)
آپ کا انتقال 6 جمادی الثانی 897ھ میں ہوا، مزار چاند پورہ میں مرجع خلائق ہے۔ (پنڈوہ، ص 29)
حضرت سید معین الدین چشتی اپنے والد حضرت فرید کے مرید و خلیفہ و جانشیں تھے، راقم کی تحقیق کے مطابق آپ کی پیدائش پنڈوہ میں ہوئی اور اپنے نانا و ماموں کی صحبت بھی پائی، حکیم شعیب احمد پھلواروی لکھتے ہیں کہ
’’سلسلۂ چشتیہ فریدیہ کو آپ سے بہت فروغ ہوا اور صدہا تشنگان وادیٔ طلب آپ کے چشمۂ فیض سے مستفیض ہوئے، سنۂ وفات 912ھ ہے، آپ کے صاحبزادے مخدوم سید نصیرالدین چشتی تھے ان سے بھی بے انتہا اشاعت ہوئی، 930ھ میں رحلت فرمائی‘‘(تجلیاتِ انوار، جلد اول)
حضرت نصیرالدین چشتی کے دو صاحبزادے ہوئے، پہلے حضرت سید سلطان چشتی اور چھوٹے حضرت سید بہاؤالدین چشتی، یہ دونوں بزرگ اپنے والد کے مرید و خلیفہ تھے، ثانی الذکر بزرگ بہار شریف کے تکیہ خورد میں جابسے، آپ کے صاحبزادے دیوان شاہ جمال الحق چشتی ہوئے، ان کے صاحبزادے دیوان شاہ شعیب الحق چشتی ہوئے، ان کے صاحبزادے دیوان شاہ عبیداللہ چشتی ہوئے اور ان کے صاحبزادے حضرت دیوان شاہ عبدالوہاب چشتی ہوئے، یہ اپنے عہد کے نامور بزرگ گزرے ہیں، تکیہ خورد میں آپ کا دیوان خانہ آباد تھا جس کے سجادہ نشیں آپ کے پرپوتے شاہ عطا حسین چشتی بن محمد اسحاق چشتی بن محمد آفاق بن علیم الدین بن منوراللہ بن غلام محمد بن کمال الدین بن جمال الدین بن دیوان عبدالوہاب تھے۔ (مخزن الانساب، ص 179)
صاحبِ مخزن لکھتے ہیں کہ
’’زیارت گاہ حضرت دیوان بہ تکیہ خورد معروف است و ہمہ شیخ زادگان دوازدہ مواضعات کہ بہ بارہ گانواں شہرت دارند و بہ ہردو جانب مغرب و مشرق بہار آباد اند۔ معتقد خاندان و فرزندانِ حضرت مخدوم شیخ فرید طویلہ بخش چشتی النظامی اند‘‘(ص 179)
اس خانوادہ میں بڑے بڑے مشائخ اور یادگارِ روزگار اشخاص ہوئے ہیں جن سے ایک زمانہ فیضیاب ہوا ہے، ہمارے کرم فرما جنابِ سید شاہ محمد عطا منعم کا نسبِ پدری بھی آپ ہی سے جا ملتا ہے اور وہ اس طرح ہے۔
سید محمد عطا منعم بن محبوب جاوید اصغر بن علی اصغر بن عبدالعزیز بن عبدالکریم بن عنایت کریم بن رحیم بخش بن امام بخش بن بزرگ بن محمد منعم بن محمد شریف بن عبدالطیف بن دیوان عبدالوہاب چشتی۔
جاننا چاہیے کہ حضرت شاہ محمد شریف چشتی کے دو صاحبزادے ہوئے، شاہ محمد منعم اور شاہ غلام مجتبیٰ، آپ کی نسل میں ایک بزرگ حضرت شاہ عبدالکریم عرف دمڑی بہار شریف کے اطراف میں بڑے رئیس اور کامیاب بزرگ گزرے ہیں، شاہ محمد واجد ابوالعلائی نوآبادی نے تذکرۃ الابرار میں کئی جگہ آپ کا تذکرہ کیا ہے، آپ شاہ امین احمد بہاری کے خالہ زاد بھائی ہوتے ہیں، حضرت مخدوم حسن علی کا روضہ آپ نے ہی تعمیر کرایا، آپ کے نسب چند واسطہ سے حضرت غلام مجتبیٰ سے جا ملتا ہے، شاہ عبدالکریم بن محمد امام بن اظہر علی بن ذکی الدین بن غلام مجتبیٰ۔
حضرت شاہ محمد اکبر ابوالعلائی داناپوری رقمطراز ہیں کہ
’’آپ کو بیعت جناب مولانا سید شاہ اشرف علی خلف الرشید جناب حضرت شاہ یحییٰ علی قدس سرہ سے ہے اور تعلیم و ارشاد و خلافت جناب حضرت سید شاہ ولایت علی قدس سرہ سے ہے، آپ بہار کے ایک معزز رئیس اور بالنسب روشن درویش ہیں، اپنے پیر و مرشدکے عاشق، زاداللہ عشقہٗ‘‘(نذرِ محبوب، ص؍۴۸)
آپ کا خانوادہ پٹنہ کے بی، ایم، داس روڈ میں آباد ہے۔
حضرت سلطان چشتی کے تعلق سے حکیم شعیب احمد پھلواروی رقمطراز ہیں کہ
’’صاحبِ تصرفات و کرامات بزرگ گزرے ہیں، اپنے والد کے بعد مسند ارشاد پر جلوہ افروز ہوئے اور انوارِ چشتیہ کو صوبۂ بہار میں نور پاشی کی، 950ھ میں رحلت فرمائی‘‘(تجلیاتِ انوار، جلد اول)
آپ کے اجل خلفا میں ایک صاحبزادے حضرت سید مظفر چشتی اور دوسرے حضرت احمد چشتی نوآبادی تھے، ان سے اس سلسلے کا خوب اجرا ہوا، بہار میں آپ کا سلسلہ انہیں بزرگ سے جاری ہوا، اس کی اجازت و خلافت خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور میں آج بھی رائج ہے، صاحبِ مخزن لکھتے ہیں کہ
’’اسم شریف ایشاں حضرت مخدوم سلطان چشتی است ایں حضرت پیر و مرشد حضرت مخدوم شیخ احمد چشتی تاج فقیہی نوآبادیست کہ صاحبِ مزار نوآباد خورد و کلاں است‘‘(ص 199)
حضرت احمد چشتی اور حضرت اخی سراج کے درمیان چھ واسطہ ہے، تعجب ہے کہ شاہ محمد کبیر ابوالعلائی داناپوری نے صرف چار واسطوں کا ذکر کیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ
’’آپ کو بیعت خلافت چار واسطہ کی درمیانگی سے حضرت اخی سراج سے تھی‘‘(تذکرۃ الکرام، ص648)
ممکن ہے کہ حضرت طویلہ بخش کو اجازت حضرت علاؤالحق پنڈوی سے ہو، یہاں تک کہ حضرت سلطان چشتی کو بھی اپنے دادا حضرت معین الدین چشتی سے اجازت و خلافت حاصل ہو، واللہ اعلم بالصواب۔
تعجب ہے کہ حضرت شاہ قطب الدین احمد منیری کے مرید غلام نبی فردوسی نے ’’مرآۃ الکونین‘‘ نامی اتنی ضخیم کتاب تصنیف کر ڈالی مگر حضرت فرید یا پھر ان کے خانوادے میں سے کسی کا کوئی ذکر نہیں کیا؟
قصہ مختصر یہ کہ حضرت مظفر چشتی اپنے والد کے مرید و خلیفہ تھے، 990ھ میں وفات پائی، پھر آپ کے صاحبزادے حضرت منصور چشتی اپنے والد کے مرید و خلیفہ ہوئے، 1010ھ میں وفات پائی پھر ان کے صاحبزادے حضرت محبوب چشتی اپنے والد کے مرید و خلیفہ ہوئے، 1028ھ میں وفات پائی، پھر ان کے صاحبزادے حضرت مسعود چشتی اپنے والد کے مرید و خلیفہ ہوئے، پھر ان کے صاحبزادے حضرت عنایت اللہ چشتی پھر ان کے صاحبزادے حضرت امیراللہ چشتی اپنے والد کے مرید و خلیفہ ہوئے، آپ کے چار صاحبزادے ہوئے۔
(۱) حضرت صفی اللہ چشتی
(۲) حضرت احسان اللہ چشتی
(۳) حضرت اہل اللہ چشتی
(۴) حضرت فخراللہ فخری چشتی
حضرت شاہ احسان اللہ چشتی : آپ علومِ ظاہری و باطنی کے لحاظ سے اپنے معاصرین میں ممتاز مقام رکھتے تھے، علم و فضل اور زہد و اتقا کی وجہ سے عوام میں بہت محبت اور عقیدت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے، خانقاہ معظم، بہار شریف کے سجادہ نشیں حضرت شاہ علیم الدین فردوسی سے آپ کے گہرے اور مخلصانہ مراسم رہے، آپ کی ہستی علومِ ظاہر و باطن میں مغتنماتِ زمانہ سے تھی، کریم الدین احمد بہاری نے آپ کو ’’سر آمدِ اولیائے وقت‘‘ جیسے القاب سے یاد کیا ہے۔
خاندانِ فریدیہ میں آپ سب سے بافیض اور کامیاب بزرگ گزرے ہیں جن کی خدمات اور کارنامے عوام و خواص میں جگ ظاہر ہیں، سالِ پیدائش و وفات کا ذکر اب تک کسی کتاب میں نظر سے نہیں گذرا اس لیے قیاسِ اغلب ہے کہ آپ کا زمانہ 1120ھ سے 1210ھ تک رہا ہو، بیعت و خلافت نیز تعلیم و تربیت کل اپنے والد حضرت شاہ امیراللہ چشتی سے حاصل تھی، والد کے بعد خاندانی سجادہ پر رونق افروز ہوئے اور اس خدمت کو تاعمر بخوبی انجام دیا۔
شاہ احسان اللہ فارسی اور اردو دونوں کے قادرالکلام شاعر تھے، آپ کے فارسی کلام تو کچھ مل بھی جاتے ہیں، اردو کلام ابھی تک پردۂ خفا میں ہے، فخری تخلص کیا کرتے، آپ نے حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری کی منقبت میں ایک اردو نظم 1185ھ میں تحریر فرمائی تھی جو حضرت شاہ علیم الدین فردوسی کی نرینہ اولاد کے تولد ہونے کے لیے دعا کے طور پر لکھی تھی، واقعہ یوں ہے کہ حضرت شاہ علیم الدین فردوسی کو پہلی دو بیویوں سے کوئی اولادِ نرینہ نہ ہوئی تو سب لوگوں کو بڑی تشویش اور فکر دامن گیر ہوئی، خود شاہ علیم الدین بھی بہت مغموم رہا کرتے تھے، آخر لوگوں کی رائے ہوئی کہ تیسری شادی کی جائے، چنانچہ تیسری شادی شاہ منور علی کی صاحبزادی بی بی جعفرہ سے کی، کچھ عرصہ تک ان سے بھی اولاد نہ ہوئی تو انہوں نے اپنا داغِ نہانی اپنے قلبی دوست حضرت شاہ احسان اللہ چشتی سے ظاہر کیا، شاہ احسان اللہ بہت زیادہ متاثر ہوئے اور ایک منقبت حضرت مخدومِ جہاں کی شان میں لکھ کر شیرینی اور پھول وغیرہ کے ساتھ آستانۂ مخدوم پر حاضر ہوئے اور فاتحہ کے بعد نہایت رقت سے اپنی منقبت کو پڑھا اور مراد برآری کے لیے دعا مانگی، اللہ پاک نے بہ فیضِ مخدوم آپ کی دعا قبول فرمائی اور کبرِ سنی میں شاہ علیم الدین فردوسی کے نرینہ اولاد پیدا ہوئی اور نام ولی اللہ رکھا گیا، یہ بزرگ شاہ امین احمد فردوسی کے دادا ہیں، اس کی وجہٖ تنظیم حضرت شاہ نجم الدین احمد فردوسی نے ’’حیاتِ ثبات‘‘ میں اس طرح لکھا ہے کہ
”می آرند کہ حضرت شاہ علیم الدین فردوسی را کسے از اولاد ذکور نہ بود، عمرش کثیر چوں فلک پیر و موئش سفید مثال خورشید می دمید، روزے داغ نہانی و غم پنہانی فرزند بقائے نام و نشانی بر شاہ احسان اللہ چشتی آشکارا کرد، ازاں کہ میاں ایں دو بزرگوار مودت و محبت بے نہایت بود، وے حضرت مسند سجادگی صاحب الولایت از خلفِ رشید و اولادِ سعید خالی دیدن نمی تو انست حسرتہا خورد و پس مشورہ قائم کرد، وہم چناں ساز کرد تا روزے حضرت شاہ علیم الدین رابا خوان چادر و شیرینی و گلہا بخورہا از خانقاہ حضرت مخدوم جہاں ہمراہ گرفتہ است و خراماں و اشک ریزاں و ایں منقبت در حال خواناں تا بارگاہ مخدوم جہاں رسیدہ اند و ما وجب گردانیدہ خود بہ مواجہ مزار شریف مراقب شدہ است و شب در آنجا گزر ایندہ آخر بشارت یافتہ است برائے پسر ذیجاہ و ہم چناں بہ وقوع آمدہ کہ حضرت شاہ ولی اللہ محبوب ترین فرزنداں مخدوم جہاں پناہ چوں ماہ نیمہ ماہ ظاہر شد، الحمد للہ علی ذالک“(حیاتِ ثبات، ص 28)
ترجمہ : منقول ہے کہ حضرت شاہ علیم الدین فردوسی کو کوئی اولاد نرینہ نہ تھی، آپ کی عمر زیادہ ہوچکی تھی، پیری کی وجہ سے سب بال سفید ہوگئے تھے، بقائے نام و نشان کے لیے فرزند کی تمنا تھی، جس کے نہ ہونے کی وجہ سے غمگین اور رنجیدہ رہا کرتے تھے، ایک روز آپ نے اس غمِ پنہاں کو حضرت شاہ احسان اللہ چشتی سے ظاہر فرمایا، جن سے غایت محبت اور مودت تھی، یہ سن کر شاہ احسان اللہ کو بڑی حسرت ہوئی کہ اس خانوادۂ مخدوم کی مسندِ خلافت خلفِ رشید نہ ہونے کی وجہ سے خالی رہا چاہتی ہے، آخرکار مشورہ کے بعد ایک روز ایک خوان چادر شیرینی پھول اور عود و لوبان کے ساتھ حضرت شاہ علیم الدین کو ہمراہ لے کر خانقاہ حضرت مخدومِ جہاں سے بچشمِ گریاں بحالِ زار منقبت میں نظم پڑھتے ہوئے روانہ ہوئے اور درگاہ شریف حضرت مخدوم الملک تک پہنچے اور حاضری کے ضروری آداب بجا لا کے مزار شریف کے مواجہ میں مراقب ہوگئے اور رات اسی جگہ گزاری، آخرکار فرزندِ ذیجاہ کی بشارت پائی اور فی الواقع ایسا ہی ہوا کہ بحمدللہ حضرت شاہ ولی اللہ نہایت خوبصورت چودہویں چاند کی مانند تولد ہوئے جو حضرت شاہ علیم الدین کے محبوب ترین فرزند تھے۔
وہ منقبتیہ نظم جو آپ نے حضرت مخدومِ جہاں کی شانِ اقدس میں تحریر فرمائی ہے، ملاحظہ ہو۔
یا شرف دیں تجھ شرف سے جملہ عالم پُر شرف
جملہ عالم پُر شرف ہے تجھ شرف سے ہر طرف
ظلم کرنا چاہتا ہے حاسد نادان حرف
مشکلیں آساں کرو میری پئے شاہِ نجف
ایک تو میں ہوں اکیلا دوسرے سنسان ہے
تس اوپر ان حاسدوں کے راہ کا گھمسان ہے
تم کرو آباد اس جنگل کو جو ویران ہے
مشکلیں آساں کرو میری پئے شاہِ نجف
سگ ہوں میں در کا تمہارے اپنا جھوٹا دو مدام
مت کھلاؤ تم کبھی ناپاک کے گھر کا طعام
گرچہ سختی ہو مجھے پر دور رکھو از حرام
مشکلیں آساں کرو میری پئے شاہِ نجف
جو مرادیں تھیں مری سب تم نے برلایا شتاب
شاد ہیں سب دوست میرے اور ہیں دشمن کباب
آرزو اک اور میں رکھتا ہوں اے عالی جناب!
مشکلیں آساں کرو میری پئے شاہِ نجف
وہ مراد اب دل کی میری زود تم حاصل کرو
حاسد بد خواہ کی باتوں کے تئیں باطل کرو
دین اور دنیا میں تم مجھ پر نظرکامل کرو
مشکلیں آساں کرو میری پئے شاہِ نجف
یا شرف دیں تجھ سے ہی رکھتا ہوں میں یہ التجا
شاہ علیم الدین دے تو اک پسر بہرِ خدا!
ورنہ چنگل میرا اور دامن ترا روزِ جزا
مشکلیں آساں کرو میری پئے شاہِ نجف
سالِ ہجری گیارہ سو اسی اور اس پر پانچ ہے
یہ حکایت بولتا ہوں تم سنو سب سانچ ہے
لگ رہی اب دل میں میرے عشق کی سو آنچ ہے
مشکلیں آساں کرو میری پئے شاہِ نجف
رات دن ہے درد فخریؔ یا مظفر شاہِ دیں
یا مظفر شرفِ دیں حاجت روائے سر زمیں
آزرد کو تم سے پوچھوں دل کو میرے یقیں
مشکلیں آساں کرو میری پئے شاہِ نجف
اسی طرح جب شاہ ولی اللہ فردوسی کی سجادگی کا مسئلہ اٹھا تو اس وقت بھی شاہ احسان اللہ پیش پیش رہے اور اس مسئلہ کو بہت آسانی سے حل کرکے انہیں اپنے والد کی سجادگی پر بیٹھایا۔ (حیاتِ ثبات، ص 30)
البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بہار شریف اور اس کے اطراف کے مشائخ میں شاہ احسان اللہ چشتی کی خدمات اور ان کے کارنامے لائقِ تحسین ہیں، حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری اور ان کے سجادگان سے آپ کے دیرینہ مراسم رہے، آپ کا مزار حضرت طویلہ بخش کے آستانہ میں واقع ہے، صاحبِ مخزن رقمطراز ہیں کہ
’’سر آمدِ اؤلیائے وقت حضرت سید شاہ احسان اللہ چشتی قدس سرہٗ کہ مزارِ پاکش بہ محلہ چاند پورہ من محلات شہرِ بہار واقع است‘‘(ص 105)
آپ کے بعد آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت محمد بخش چشتی سجادہ نشیں ہوئے۔
شاہ احسان اللہ کے صاحبزادگان کے سلسلے میں کریم الدین احمد بہاری رقمطراز ہیں کہ
’’واضح باد کہ سید احسان اللہ بن سید امیراللہ چشتی النظامی مذکور را دو پسر یکے سید محمد بخش و یگرے سید شاہ محمد قطب و یک دختر مسماۃ بی بی (سلطانی) دھومن والدۂ مخدوم سید شاہ یحیٰ علی نوآبادی قدس سرہٗ بوجود آمدند‘‘(مخزن الانساب، ص 173)
آپ کے نواسے حضرت یحیٰ علی کی پیدائش 1191ھ میں چاند پورہ میں ہوئی، پیدائش کی خبر پاکر آپ اندرونِ حویلی تشریف لے گئے اور بچشمِ خود ملاحظہ فرما کر بہت تعریف کیا اور دعائیں دے کرکے اسمِ پاک آپ کا ’’مظہر ولی‘‘ رکھا، یہ نام تاریخِ پیدائش پر مشتمل ہے۔ (تذکرۃ الابرار)
حضرت شاہ محمد بخش چشتی: آپ کی پہلی شادی شاہ محمد دائم بن شاہ اللہ بخش زاہدی کی صاحبزادی سے ہوئی جن سے دو صاحبزادے سید شاہ محمد سلطان ثانی اور سید شاہ محمد جان چشتی ہوئے اور دوسری محل سے ایک صاحبزادے سید محمد وحید عرف وحدو اور ایک صاحبزادی بی بی واجن جو سید محمد سبحان بن سید شاہ قطب سے منسوب ہوئیں، جن سے ایک صاحبزادے شاہ محمد مہدی (بھینسا سور) ہوئے، شاہ مہدی کے محل اولیٰ سے ایک بیٹی بی بی عبدالنسا ہوئیں جو میر مرحمت علی بن میر عنایت علی میردادی سے منسوب تھیں، ان کے دو بیٹے ڈاکٹر سید وزیرالدین احمد (داماد شاہ محمد مسعود چشتی) اور دوسرے سید منیرالدین احمد عرف منا (داماد حکیم ہادی حسین خاں، رسول پور) ہوئے ۔اور دو بیٹی پہلی مولانا محمد محسن (نگر نہسہ) سے اور دوسری سید سخاوت حسین (بھاگل پور) سے منسوب ہوئیں، یہ دونوں صاحبِ اولاد ہوئیں۔ (مخزن الانساب، ص 173)
واضح رہے کہ سید شاہ قطب بخش کے دو فرزند ہوئے، سید محمد ابراہیم عرف درگاہی اور سید محمد سبحان، شاہ ابراہیم درگاہی مولانا واجد علی میردادی کی بڑی صاحبزادی بی بی واجن سے بیاہے گئے، ان کو ایک صاحبزادے سید حیدر بخش اور چار صاحبزادی ہوئیں، آپ کا دوسرا نکاح سید حسین علی بن مولانا سید اشرف علی نوآبادی کی صاحبزادی بی بی الطاف النسا سے ہوا، ان سے تین پسر اور ایک دختر پیدا ہوئیں۔
حضرت شاہ سلطان ثانی چشتی : آپ اپنے وقت کے مشاہیر اؤلیا میں سے تھے، کریم الدین احمد بہاری لکھتے ہیں کہ
’’دور متاخرین سید محمد سلطان ثانی کہ بتقویٰ و طہارت ظاہری و باطنی آراستہ بود و صاحبِ کرامات و مقاماتِ عالی بود از فرزندانِ صحیح النسب حضرت مخدوم فرید طویلہ بخش بود‘‘(ص 173)
حضرت سلطان ثانی اور حضرت یحییٰ علی کے چند ایک واقعات ’’تذکرۃ الابرار‘‘ میں درج ہے، جس کا دل چاہے اس کا مطالعہ کرے، آپ کو اپنے والد حضرت محمد بخش چشتی سے اجازت و خلافت حاصل تھی، آپ اپنے والد کے جانشیں ہوئے۔
زیارت گاہ بلچھی : یہاں مناسب ہے کہ بلچھی کا تذکرہ بھی کردوں، یہ بہار شریف کا ایک دیہی علاقہ ہے، یہاں خواجہ عثمان ہارونی کی زیارت گاہ اور قطب الدین بختیار کاکی کا خرقہ دفن ہے، اس میں کچھ جائداد بھی وقف ہے، ہر سال 15 شوال المکرم کو عرس ہوتا ہے اور دور دراز سے فقرا اور صوفیا آتے ہیں، بروایت ’’تذکرۃ الابرار‘‘ حضرت یحییٰ علی بلچھی تشریف لے جایا کرتے تھے، اس عہد کے مشائخ کا وہاں جانا قدیم نسخے سے ثابت ہے، خواجۂ عثمان کا وہاں تصرف اب بھی جاری ہے، حکیم شعیب احمد پھلواروی لکھتے ہیں کہ
’’قصہ یوں سننے میں آیا ہے کہ ایک خاتون آپ کی مریدہ تھیں اور آپ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ میں تمہارے یہاں آؤں گا مگر جب انہوں نے سنا کہ آپ کا وصال ہوگیا ہے تو وہ رنجیدہ خاطر ہوئیں مگر ایک روز دیکھا کہ حضرت عثمان ہارونی یہاں پر لیٹے ہوئے ہیں تب ہی سے وہاں ایک اچھی خاصی مزار بنی ہوئی ہے‘‘(تجلیاتِ انوار، جلد اول)
بلچھی کے تعلق سے صاحبِ مخزن لکھتے ہیں کہ
’’بلچھی نام دہ است کہ بفاصلہ سہ چہار کردہ از شہرِ بہار واقع است و حسبِ شہرتِ عام در آنجا مزار حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہٗ است و بزعم محرر ایں سطور حضرت خواجہ عثمان سنجری کہ ہم خرقہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی بود آسودہ اند‘‘(ص 140)
چاند پورہ کی سجادگی کے ساتھ ہی ساتھ بلچھی کی سجادگی بھی حضرت سلطانِ ثانی ہی کے ذمہ رہی جو آپ کی اولاد میں منتقل ہوتی چلی گئی، کریم الدین احمد بہاری نےآپ کو سجادۂ بلچھی لکھا ہے، مخزن الانساب (ص 360) میں لکھتے ہیں کہ
’’۔۔۔۔قدوۃ السالکین، زبدۃ الواصلین، حضرت سید شاہ محمد سلطان قدس سرہ چشتی النظامی، سجادہ نشیں درگاہ حضرت مخدوم فریدالدین طویلہ بخش رحمۃ اللہ علیہ و درگاہ بلچھی شریف۔۔‘‘ اسی طرح صفحہ 355 اور 379 پر انہیں چاند پورہ اور بلچھی دونوں کا سجادہ لکھا ہے جبکہ 423 صفحہ پر صرف بلچھی کی درگاہ کا سجادہ لکھا ہے۔
مولانا شاہ محمد واجد ابوالعلائی نے حضرت سلطانِ ثانی کو سجادۂ خواجہ عثمان ہارونی لکھا ہے، اصل عبارت اس طرح ہے۔
’’جنابِ حضرت شاہ محمد سلطان چشتی النظامی سجادہ نشیں آستانۂ فیض کاشانہ حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس اللہ سرہما‘‘(تذکرۃ الابرار، متعلقہ تذکرہ کرامات سوم)
آپ کی پہلی شادی حضرت مظفر علی خسرو پوری کی صاحبزادی بی بی رحمانی سے ہوئی، یہ حضرت یحییٰ علی کی ہمشیرہ اور شاہ احسان اللہ چشتی کی نواسی تھی، جن سے دو صاحبزادے سید محمد باقر چشتی اور سید محمد اسمعٰیل چشتی ہوئے اور دوسری محل سے ایک صاحبزادے حضرت شاہ امجد حسین فروسی ہوئے، یہ اپنے والد کے مرید و خلیفہ ہیں اور اپنے خسر یعنی خانقاہ منیر شریف کے سجادہ نشیں حضرت شاہ قطب الدین احمد فردوسی سے بھی اجازت و خلافت حاصل ہے، خانقاہ منیر شریف کا سلسلۂ خاندانی اب آپ ہی سے رائج ہے۔
جاننا چاہیے کہ سید محمد اسمعٰیل چشتی کے صاحبزادے سید علی حسن چشتی ہوئے، آپ کا عقد حضرت اشرف علی بن یحییٰ علی کی دوسری صاحبزادی بی بی فلیحن سے ہوا، عقد کے بعد چاند پورہ سے منتقل ہوکر خسروپور میں مستقل قیام کیا، آپ کے صاحبزادے سید حسن ہوئے، جن کا عقد ۲۱ صفرالمظفر ۱۲۸۹ھ کو حضرت شاہ تبارک حسین کاکوی کی صاحبزادی کنیز فاطمہ سے ہوا، ان سے بیرسٹر آل حسن، امیر حسن، مظہر حسن اور ایک صاحبزادی (منسوب خان بہارد سید محمد محبوب عالم، پنجوڑہ) پیدا ہوئے، بیرسٹر آل حسن کا عقد حقیقی ماموں شاہ مبارک حسین مبارکؔ کی صاحبزادی سے ہوا، ان سے تین صاحبزادے ہوئے، ولی حسن، نبی حسن عرف نبو اور محمد حسن عرف جبھو یہ بسملؔ عظیم آبادی کے نام سے ادبی حلقے میں مشہور ہیں، امیر حسن کے دو لڑکے ذکی حسن اور سید حسن ہوئے، مظہر حسن کا عقد مشہور وکیل سید امیر حیدر کی صاحبزادی ام سلمیٰ سے ہوا ان سے دو لڑکی اور دو لڑکے اختر حسن اور منظر حسن ہوئے، اسی طرح بسملؔ کے پانچ لڑکے ہوئے احمد حسن، مہدی حسن، ہادی حسن نسیمؔ، حامد حسن، جمال حسن اور تین لڑکیاں ہوئیں،
یہاں یہ بھی وضاحت کرتا چلوں کہ حضرت غفورالرحمٰن حمد کاکوی نے بھی حضرت فریدالدین کے جد کو خواجہ نظام الدین اؤلیا کا عم زاد قرار دیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ
’’آپ حضرت شاہ فریدالدین طویلہ بخش جو کہ خواجہ نظام الدین اؤلیا کے عم زاد بھائی سید جمال الاؤلیا کے پوتے اور حضرت علاؤالحق پنڈوی کے خلیفہ ہیں، ان کی اولاد زکور سے ہیں‘‘(آثارِ کاکو)
حضرت شاہ محمد باقر چشتی : آپ اپنے والد کے بعد چاند پورہ اور بلچھی کے سجادہ نشیں ہوئے، آپ حضرت یحییٰ علی کے بھانجہ اور ان کے فیض یافتہ تھے، آپ کا زیادہ تر وقت خسرو پور میں گذرتا، اپنے ماموں کی صحبت سے فیض اٹھاتے، صاحبِ ’’تذکرۃ الابرار‘‘ لکھتے ہیں کہ
’’بماہ شعبان المعظم کی تاریخ میں جناب شاہ محمد باقر قدس سرہٗ کہ ہمشیرہ زادہ حقیقی حضرت کے تھے اور خلف اکبر جناب شاہ محمد سلطان چاند پوری قدس اللہ سرہ کے تھے، حضرت (یحیٰ علی) نے ان کو بلا کر رسالہ ’’مجاہدِ صوفیہ‘‘ پر کہ رسالہ تصنیفات حضرت پیرانِ پیر سید محمد جعفر قدس اللہ سرہ کے ہے، مثال و اجازت نامہ لکھوایا اور دستِ خاص سے دستخط اپنے مزین و مرتب کرکے حضرت مولانا سید اشرف علی قدس سرہٗ صاحبزادۂ اکبر کو اپنے سپرد فرمایا‘‘
آپ کا نکاح سید شاہ احمد حسین بن نورالدین (خسرو پور) کی دوسری صاحبزادی بی بی رجبن سے ہوا جن سے چار صاحبزادے اور دو صاحبزادی ہوئیں، ان میں ایک صاحبزادی کا نکاح حاجی مولانا محمد یوسف (صدر گلی) سے ہوا، یہ ان کی دوسری اہلیہ ہوئیں، ان کی اولاد کم سنی میں انتقال کر گئیں اور ایک کا صاحبزادی کا نکاح حضرت شاہ امان اللہ بن فضل حسین منیری سے ہوا مگر آپ کا انتقال ہوگیا پھر ان خاتون کا نکاح دوبارہ ہوا جن سے دو بیٹے اور ایک بیٹی گیا میں بسے، چھوٹے کا عقد مولانا یوسف مذکور کی چھوٹی بیٹی سے ہوئی اور ان سے دو صاحبزادیاں ہیں۔
(۱) سید محمود چشتی ( آپ کا نکاح حاجی امیر حسن خاں رسول پوری کی بیٹی بی بی فضیلت النسا سے ہوا، یہ لاولد گزر گئے)
(۲)سید مسعود چشتی
(۳) سید مقصود چشتی
(۴) سید مودود چشتی
حضرت شاہ مسعود چشتی : آپ کی عرفیت ماسو تھی، آپ اپنے والد کے مرید و مجاز تھے، آپ کا نکاح میر محبوب شیر (نگر نہسہ) کی ہمشیرہ سے ہوا جن سے دو صاحبزادی ہوئیں۔ پہلی میر محب حسین بن میر ذیشان حسین (نگر نہسہ) سے اور دوسری ڈاکٹر سید وزیرالدین احمد سے۔(مخزن الانساب، ص 158، 174)
آپ کا مزار خسروپور میں ہے اور اب عرس ہوتا ہے، قصہ یوں ہے کہ آپ کی قبر وصال کے تقریباً ۵۰ سال بعد کھل گئی اور جسد بلکل صاف اور ٹھیک تھا تو مقامی لوگوں نے عرس کرنا شروع کر دیا۔
ڈاکٹر وزیر اپنے عہد کی نامور شخصیات میں سے تھے، انگریزوں سے ان کے مراسم بڑے اچھے تھے، بحیثیت معالج دور دور تک ان کی شہرت و وسعت تھی، بلچھی کی سجادگی شاہ مسعود چشتی نے اپنے بعد اپنے آپ کو سونپ دی، صاحبِ مخزن رقمطراز ہیں کہ
’’نسب پدری جناب برادرم ڈاکٹر سید شاہ وزیرالدین صاحب کہ از طرف خسر خود جناب سید شاہ مسعود بن سید شاہ محمد باقر مرحوم چاندپوروی شرفِ سجادگی درگاہ بلچھی کہ بحوالی قصبہ بہار واقے است ہم دارند بدیں نہج بہ میر سید محمد سہروردی مذکور می رسد۔۔۔‘‘(ص 140)
ڈاکٹر وزیرالدین احمد حضرت میر محمد سہروردی کی اولاد میں سے ہیں، صاحبِ مخزن لکھتے ہیں کہ
’’حضرت میر سید محمد مذکور بتاریخ دوازدہم ماہ خور داد الٰہی بسال ششم از جلوس شاہجہاں بادشاہ غازی بہ بہار آمدہ بمحلہ سکونت شیخ سہروردی کہ بزمان ماضی بزرگان سہروردیہ بدآنجا سکونت داشتند قیام اختیار کرد و جائے قیام خدمت ایشاں بمحلہ میرداد شہرت یافت‘‘(ص 139)
حضرت شاہ عطا حسین فانی نے میر مذکور کو زیدی النسب لکھا ہے، جبکہ صاحبِ مخزن جعفری النسب لکھتے ہیں۔
وزیرالدین احمد بن میر مرحمت علی بن میر عنایت علی بن میر لطف علی بن میر غلام محی الدین بن میر محمد فصیح بن میر امام الدین بن میر قیام الدین بن دیوان عبدالفتاح بن میر سلطان بایزید بن میر سید محمد سہروردی بن احمد بن میر جیو بن میر حسن بن میر قطب الدین بڈ بن میر صادق عرف سید سالار بن قطب الدین میر عرض بن میر احمد بن میر محمود بن میر عبدالحئی بن میر عبدالوہاب بن میر نصیرالدین بن میر محمد بن میر یعقوب بن میر احمد بن میر اسحاق بن میر محمد بن فرید بن میر ابو شعیری یحییٰ بن میر قاسم العریضی بن میر محمد بن امام جعفر صادق۔(ص 141)
جاننا چاہیے کہ حضرت سید محمد سہروری بہار میں قاضی اور خطیب مقرر ہوکر آئے اور جب تک عہدِ انگلشیہ میں مسلمانوں کو ان قدیم عہدوں پر بحال رکھا گیا، بہار کی قضا اور خطابت انہیں کے گھر میں رہی، آپ کا عقد حضرت طویلہ بخش کے خانوادہ میں ہوئی تھی، یہ بزرگ حضرت سید سالار سمنانی کی اولاد میں ہیں جوکہ شہنشاہ بابر کے عہد میں واردِ ہندوستان ہوئے اور کشمیر میں قیام کیا، بعد میں ان کا خاندان دہلی اور پھر بانگر مؤ میں منتقل ہوتا رہا۔ (سفرنامۂ مظہری، ص؍۱۹۷)
موجودہ عہد میں بلچھی کے سجادہ نشیں ڈاکٹر وزیر کے لکڑپوتے محبی سید یوسف شہاب بن شجاع محمد بن شہاب الدین محمد بن سلطان الدین محمد بن ڈاکٹر وزیر ہیں اور اس خدمت کو بخوبی انجام دے رہے ہیں، خدا انہیں کامیاب و بامراد بنائے۔
حضرت شاہ محمد جان چشتی : جاننا چاہیے کہ حضرت سلطان ثانی کے صاحبزادگان کا قیام جب چاند پورہ میں کم رہنے لگا تو آپ نے تمام نظم و نسق اپنے حقیقی بھائی شاہ محمد جان چشتی کے سپرد کردیا، اس روز سے سجادگی اور خانقاہ داری کا بار آپ کے سر آگیا، آپ بھی امورِ خانقاہ بہ حسن خوبی انجام دیتے رہے، صاحبِ مخزن لکھتے ہیں کہ
’’چوں پسرانِ سید محمد سلطان ثانی چشتی مذکور را بہ سبب مصاہرت بہ بہار اتفاق۔۔۔کمترمی افتاد خدمت سید محمد سلطان چشتی کاروبار سجادگی درگاہ حضرت مخوم فرید طویلہ بخش چشتی النظامی قدس سرۂ را بہ برادر اصغر حقیقی خود سید محمد جان چشتی تفویض نمود‘‘(ص 176)
پہلی محل سے کوئی اولاد نہیں اور دوسری محل سے چار صاحبزادے ہوئے۔
(۱) سید محمد عابد
(۲) سید محمد زاہد
(۳) سید محمد آصف
(۳) سید محمد کبیر
حضرت شاہ محمد عابد چشتی : آپ اپنے والد کے بعد سجادۂ چاند پورہ ہوئے، آپ کا نکاح شاہ فرزند علی بن شاہ اشرف علی زاہدی سے ہوا جن سے چار صاحبزادیاں اور ایک صاحبزادے شاہ محمد عسکری چشتی ہوئے، شاہ عابد کی صاحبزادیاں اس طرح منسوب ہوئیں۔
اہلیہ میر نثار علی بن میر واہب حسین دمڑی (بارہ دری)
اہلیہ شاہ محمد صادق شعیبی (شیخ پورہ)
اہلیہ شاہ وحیدالدین
اہلیہ شاہ فریدالدین احمد بن شاہ امجد حسین فردوسی (منیر شریف)
حضرت شاہ محمد عسکری چشتی : یہ بزرگ اپنے والد کے بعد سجادہ نشیں ہوئے، آپ کے عہد میں خانقاہ فریدیہ کی سرگرمیاں اپنے عروج پر رہیں، خانقاہی جائیداد کی حفاظت اور اس کی بقا کی لیے آپ ہمیشہ کوشاں و سرگرداں رہے، آپ کا عقد میر سخاوت حسین بن میر ہدایت حسین کی صاحبزادی سے ہوا جن سے چند صاحبزادیاں اور ایک صاحبزادے غلام خواجہ چشتی ہوئے، ان میں ایک صاحبزادی کا عقد اپنے بھتیجے شاہ محمد نصیر بن محمد کبیر سے کیا۔واضح ہو کہ خانقاہ معظم کے سجادہ نشیں حضرت شاہ امین احمد فروسی کا دوسرا عقد میر ہدایت حسین کی صاحبزادی سے ہوا تھا۔(ص176)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.