امیر خسرو اور افضل الفوائد
امیر خسرو نے اپنے مرشد خواجہ نظام الدین اؤلیا کے کچھ ملفوظات افضل الفوائد کے نام سے جمع کئے مگر کچھ محققین ایسے بھی حال ہی میں پیدا ہوگئے ہیں جو اس خیال کے ہیں کہ اس کو امیر خسرو نے خود مرتب نہیں کیا بلکہ ان کے نام سے موسوم کر دیا گیا ہے اگر یہ پرزور طریقہ پر بابت کیا جاسکتا ہے کہ اس کو امیر خسرو نے جمع نہیں کیا تو اس سے زیادہ طاقتور طریقہ یہ ثابت ہوسکتا ہے کہ امیر خسرو ہی نے اس کو ترتیب دیا۔
خواجگانِ چشت میں سے حضرت عثمان ہرونی، حضرت خواجہ معین الدین چشتی حضرت قطب الدین بختیار کاکی اور حضرت فریدالدین گنج شکر کے ملفوظات کے مجموعوں کے ساتھ افضل الفوائد کو بھی سب سے پہلے پروفیسر محمد حبیب (سابق استاد تاریخ : مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) نے اکتوبر 1950عیسوی میں انگریزی رسالہ مڈپول انڈیا کوارٹرلی (علی گڑھ) میں جعلی، نقلی اور فرضی قرار دیا، اس کا جواب راقم نے اکتوبر نومبر اور دسمبر 1964عیسوی کے معارف میں دیا جو میری کتاب بزمِ صوفیہ کے دوسرے ایڈیشن کے آخر میں بھی شامل ہے، اس جواب سے یہ اثر ہوا کہ ایک علمی حلقہ ان ملفوظات کے مجموعوں کے قطعی طور پر جعلی، نقلی اور فرضی سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہوا۔
1974عیسوی میں دہلی کے رسالہ منادی کا حضرت بابا فرید نمبر شائع ہوا جس میں پروفیسر محمد حبیب کی آواز بازگشت پھر سنائی دی، جناب نثار احمد فاروقی (شعبۂ عربی : دہلی کالج دہلی یونیورسٹی) نے بھی راحت القلوب، اسرارالاؤلیا اور فوائدالسالکین کو جعلی اور فرضی ثابت کرنے کی کوشش کی مگر جب انہوں نے خواجہ رکن الدین دبیر کاشانی کی کتاب شمائل الاتقیا در ذائل الاشقیا میں راحت القلوب کا حوالہ دیکھا تو انہوں نے دسویں یا گیارہویں صدی میں راحت القلوب کے گڑھے جانے کے خیال سے رجوع کیا مگر یہ بھی اسی کے ساتھ لکھا ہے کہ اگرچہ ابھی تک اس کتاب کے مستند ہونے کے بارے میں قطعیت کے ساتھ مطمئن نہیں ہوں، (منادی حضرت امیر خسرو، صفحہ 79) منادی کے امیر خسرو نمبر میں جناب نثار احمد نے امیر خسرو کی افضل الفوائد پر بھی بحث کی ہے جس کے مطالعہ سے کوئی اس نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتا ہے کہ انہوں نے اس کو اصلی قرار دیا ہے یا نقلی، اس کے مباحث سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس کو جعلی قرار دینا چاہتے ہیں مگر وہ یہ بھی لکھتے ہیںمیں امیر خسرو سے منسوب ان دونوں کتاب یعنی افضل الفوائد اور راحت المحبین) کے جعلی ہونے کا اعلان قطیعت کے ساتھ بھی نہیں کرسکتا ہوں کہ بعض شواہد ان کے حق میں مل جاتے ہیں (صفحہ 77) پھر اسی مضمون کے آخر میں لکھتے ہیں کہ یہاں میں نے دونوں کتابوں کا تعارف قدرے تفصیل سے پیش کر دیا ہے، جن دلائل کی بنیاد پر ان کتابوں کو جعلی سمجھا گیا ہے ان کے ساتھ ہی وہ پہلو بھی پیش کر دیتے ہیں جن سے ان کا پایۂ استنا و معتبر ہوتا رہا ہے لیکن جب تک ان دونوں کتابوں کے متعدد قلمی نسخے سامنے ہوں، یہ فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ انہیں قطعاً جعلی سمجھا جائے یا امیر خسرو کی مستند تصانیف میں ان کا شمار کیا جائے، ایک دشواری یہ ہے کہ ان کا متن تحقیق کے ساتھ مرتب ہوکر ابھی تک نہیں چھپا ہے اور تراجم شائع ہوئے ہیں، ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ (ص 88)
جناب نثار احمد فاروقی کو اگر یقین تھا کہ افضل الفوائد جعلی ہے تو اس کو پروفیسر محمد حبیب کی طرح دونوں کے ساتھ ایسا ہی ثابت کرنا چاہئے تھا اور اگر اس کے جعلی ہونے میں شک تھا تو اپنے اس مضمون کے شائع کرانے میں عجلت نہ کرتے، خواہ مخواہ اپنے ناظرین کو اس ذہنی کشمکش میں مبتلا کر دیا کہ یہ جعلی بھی ہوسکتا ہے اور مستند بھی۔
سوال یہ ہے کہ ان تمام ملفوظات کو جعلی ثابت کرنے کی مہم کیوں چلائی گئی ہے، اگر ایسی ساری باتیں محض حقیقت پسندانہ تحقیق کی خاطر لکھی گئی ہیں تو ایسے محقق کے متعلق کیا رائے ہے جس نے ایسی ہی تحقیقی کی آڑ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہےکہ کربلا کا واقعہ پیش ہی نہیں آیا، امام حسین کربلا میں مدفون ہی نہیں، آج کل ایک حلقہ میں معروضیت سے بھری تحقیقی مہم جاری ہے کہ آگرہ کے تاج محل اور دہلی کے لال قلعہ کو شاہجاں نے نہیں بنوایا، بعض حلقوں میں تو یہ بھی ثابت کیا جارہا ہے کہ امیر خسرو نہ صوفی تھے اور نہ حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا کے مرید تھے، ایک صاحب نے تو یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا جہاں مدفون ہیں وہ ان کا اصلی مرقہ نہیں، کچھ ایسے بھی محققین ہیں جن کا یہ خیال ہے کہ حضرت علاؤالدین صابر جیسے بزرگ کی کوئی شخصیت ہی نہیں، کلیر شریف میں ان کا مزار فرضی ہے، ایسی تحقیقات کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ بعض تلوار کے دھنی خوا مخواہ فساد فی الارض برپا کردیتے ہیں، اسی طرح قلم کے بعد پُرجوش و معنی اپنی تحقیقی سرگرمیوں سے فساد فی العلم فساد فی التاریخ، فساد فی الروایت اور فساد فی الرسوخ فی العقیدہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
خواجگانِ چشت کے جن ملفوظات کو جعلی اور فرضی قرار دیا جاتا ہے، اس کا محض قیاس ایک بہم اور غیر واضع بیان سے کیا جاتا ہے، حضرت نصیرالدین چراغ دہلوی کے مجموعۂ ملفوظات خیرالمجالس کی مجلس یازدہم میں ہے کہ اس کے مرتب حمید قلندر نے عرض کیا کہ فوائدالفواد میں ہے کہ ایک شخص نے شیخ الاسلام شیخ نظام الدین قدس سرہ العزیز سے عرض کیا کہ
من بر شخصے کتابے دیدہ، ام از تصنیف شیخ
تو حضرت شیخ نے فرمایا۔
او تفاوت گفتہ، است امن ہیچ کتاب تصنیف نہ کردہ ام خواجگان ماینر نہ کردہ اند
لیکن حمید قلندر نے فوائد الفواد کے حسن ملفوظ کا ذکر کیا ہے وہ اس کے موجودہ مطبوعہ نسخہ میں نہیں ہے کہ خواجگان مانیز نہ کردہ اند۔ (صفحہ45)
اس راقم نے پہلے بھی لکھا تھا اور اب بھی یہ لکھنے میں تامل نہیں کہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا مجموعہ ملفوظات کو کوئی مستقل تصنیف قرار نہیں دیتے تھے کیونکہ فوائد الفواد ہی میں ہے کہ انہوں نے اپنے مرشد کے ملفوظات جمع کئے جو 707ہجری تک ان کے پاس تھے (فوائدالفواد، صفحہ 31،30 ) اور اگر انہوں نے جمع کئے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ مرشد کے ملفوظات سے جمع کرنے کی روایت تھی اور اگر جمع کرنے کی روایت نہیں تھی اور ان سے پہلے کے خواجگانِ چشت اپنے ملفوظات کو جمع کرانا پسند نہ کرتے تھے تو پھر خواجہ نظام الدین اولیا نے حسن سنجری کو اپنے ملفوظات جمع کرنے کی کیوں اجازت دی؟ اس سے تو ان کے مرشد اور مرشد کے مرشد کی روایت کی خلاف ورزی ہوئی اور جب ان کے ملفوظات جمع ہوئے تو پھر ان کے پیشرو خواجگانِ چشت کے ملفوظات کے جمع ہونے سے انکار کیوں کیا جائے۔
ان ملفوظات کے منکرین بیسویں صدی عیسوی ہی میں پیدا ہوئے اس سے پہلےان مجموعوں کو کسی نے جمعلی قرار دے کر رد نہیں کیا، حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا کے زمانہ بلکہ اس سے پہلے بھی ان سے استفادہ کیا جاتا رہا ہے، راقم نے اب سے بہت سے پہلے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ سیرالاؤلیا چشتیہ سلسلہ پر قدیم ترین تذکرہ ہے، اس کے مؤلف امیرِ خورد امیر خسرو کے معاصرین ان کا جابجا بیان ہے کہ
در ملفوظات شیخ الاسلام شیخ معین الدین سنجری مشبۃ دیدہ ام‘‘ (صفحہ 466)
کاتب حروف در ملفوظات حضرت شیخ الاسلام معین الدین قدس اللہ سرہٗ العزیز بنشتہ دیدہ است‘‘ (صفحہ 491)
دربیان بعضے ملفوظات شیخِ شیوخ العالم فریدالحق قدس اللہ سرہٗ العزیز سلطان المشائخ قدس اللہ سرہٗ العزیز بخط مبارک خود در قلم آوردہ‘‘۔۔۔(صفحہ 74)
بزرگے از ملفوظات شیخ شیوخ العالم فریدالحق الدین قدس اللہ سرہٗ العزیز پانصد کلمہ جمع کردہ است اذان چند کلمہ آوردہ شد‘‘ (صفحہ 76)
کیا یہ تحریریں جھوٹی ہیں اگر جھوٹی نہیں ہیں تو ظاہر ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اور حضرت خواجہ فریدالدین گنج شکر کے ملفوظات مرتب ہوئے۔
حضرت نصیرالدین چراغ دہلوی کے ملفوظات کا ایک مجموعہ مفتاح العاشقین مرتبہ مولانا محب اللہ ہے، یہ مطبع مجتبائی دہلی میں چھپ گیا ہے، اس میں حضرت نصیرالدین چراغ دہلی کی زبانی انیس الارواح (صفحہ 18) دلیل العارفین (صفحہ 30) اور اسرارالاؤلیا (صفحہ 15) کے حوالے موجود ہیں مگر مفتاح العاشقین کو بھی خوامخواہ جعلی مجموعہ قرار دیا گیا ہے پھر ظاہر ہے کہ اس کی روایت کیسے قابلِ قبول ہوگئی جناب نثار احمد فاروقی نے خود اس کی طرف توجہ دلائی ہے کہ حضرت امیر اخسرو کے انتقال کے چودہ سال کے بعد حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کے خلیفہ حضرت برہان الدین غریب کے حکم سے شمائل الاتقیاء در نوائل الاشقیاء لکھی گئی ہے، اس میں بھی انیس الارواح، دلیل العارفین، فوائد السالکین، راحت القلوب، اسرارالبحرین کے علاوہ راحت المحبین ملفوظات شیخ نظام الدین جمع تالیف امیر خسرو کا بھی ذکر ہے (صفحہ 78) شمائل الاتقا حیدرآباد میں 1347ہجری میں چھپ گئی تھی، اس کے مجموعہ نسخہ سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔
حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کا ابتدائی زمانہ حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا ہی کا تھا، ان کی وفات 782ہجری میں یعنی حضرت نظام الدین اولیا کے وصال کے 57 سال بعد ہی ہوئی، ان کے مجموعۂ ملفوظات خوان پُرنعمت میں صاف طور پر ذکر ہے کہ شیخ عثمان ہارونی کے ملفوظات کو حضرت خواجہ معین الدین نے جمع کیا ہے۔ (صفحہ 88)
اسی طرح ان کے مجموعہ ملفوظات مخ المعانی میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے ملفوظات کے حوالے ہیں، (صفحہ 29-51) ان سے حضرت شرف الدین یحییٰ منیری نے استفادہ بھی کیا پھر شیخ عبدالحق محدث دہلوی کے مطالعہ میں بھی یہ ملفوظات رہے، انہوں نے واضح طور پر اخبارالاخیار میں لکھا ہے کہ خواجہ بختیار اوشی نے حضرت خواجہ معین الدین قدس سرہ کہ ملفوطات جمع کئے (صفحہ 22-25) اور حضرت گنج شکر کے ملفوظات شیخ نظام الدین اولیا نے مکتوب کئے (صفحہ 52)
جب ان ملفوظات سے صدیوں تک استفادہ کیا جا رہا تو اب ان کو جعلی اور فرضی قرار دینا کہاں تک صحیح ہے، اس راقم نے پہلے ہی لکھا تھا اور اب بھی یہ اعادہ کرتا ہے کہ جن دلائل کے ساتھ خواجگانِ چشت کے ملفوظات جعلی قرار دیئے جارہے ہیں، ان ہی کی روشنی میں فوائدالفواد، خیرالمجالس اور جوامع الکلم کا مطالعہ کیا جائے تو ان پر بھی ایک ناقد اپنی عیب جوئی اور خردہ گیری سے اسی قسم کے اعتراضات کرسکتا ہے جس طرح کہ خواجگانِ چشت کے ملفوظات پر کئے جا رہے ہیں، ایک حلقہ تصوف ہی کا منکر ہے اور تصوف کے سارے لٹریچر کو غیر اسلامی سمجھتا ہے تو پھر جو روحانی سرمایہ ہم کو ورثہ میں ملا ہے، اس کو اپنی ذہنی عیاشی میں تحقیقات کے نام پر دریا برد کرنے میں کون سی مفید خدمت ہوگئی یہ سوچنے کی بات ہے۔
ملفوظات کے مذکورۂ بالا مجموعے کسی ریسرچ روم میں قلمبند نہیں کئے گئے، ان کا اندازِ بیان مؤرخانہ، محققانہ اور ناقدانہ نہیں، ان میں جو باتیں قلم بند ہوئیں، وہ مریدوں کی مجلسوں میں کہی گئیں جن کا انداز و اعظانہ، ناصحانہ اور معلمانہ ہوتا، مریدوں کے جذبات کو ابھارنے اور ان کے احساسات کو متاثر کرنے کے لئے بعض اوقات ایسی تفسیر ایسی حدیث، ایسی روایت، ایسی کرامت، ایسے واقعات اور ایسے مشہور قصوں کا سہارا لیا جاتا جن کا سو فیصدی صحیح ہونا ضروری نہیں ہوتا، اسی لئے مستند سے مستند مجموعۂ ملفوظات کو تاریخی تحقیق اور عقل کی خراد پر چڑھا دیا جائے تو اس میں بہت سی باتیں قابلِ قبول نہ ہوں گی، بعض تو ایسی ہیں جو موجودہ دور میں کسی مجلس میں بیان نہیں کی جاسکتی ہیں، (مثال کے لئے دیکھو فوائد الفواد مجلس سی ویکم میں 13 لاہور ایڈیشن) مولانا اشرف علی تھانوی کے عہد میں روایت اور تحقیق اور تدقیق کے معیار بہت اونچا ہوچکا تھا وہ اپنی ایک مجلس میں فرماتے ہیں۔
حضرت سلطان اؤلیا نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ کے جنازہ کے ساتھ کسی مرید نے غلبۂ محبت میں بار بار یہ شعر پڑھا۔
سروِ سمینیا بہ صحرا می روی
سخت بے مہری بے مامی روی
اے تماشہ گاہِ عالم روے تو
تو کجا بہرِ تماشائی می روی
اس کا یہ اشعار پڑھنا تھا کہ سلطان جی کی نعش کو وجد ہوا اور ہاتھ کفن سے باہر اونچا ہوگیا، اس پر لوگوں نے اس مرید کو خاموش کیا کہ یہ کیا غضب کرتے ہو قیامت برپا ہوئے گی، جنازہ کے ساتھ خاموشی سے چلو، دیر میں سکون ہوا اور ہاتھ بدستور کفن کے اندر ہوگیا، دیکھیے اہل محبت خواجہ معین الدین چشتی کے فیوض و برکات سے ہندوستان اسلام کے نور سے منور ہوگیا وہ وارث النبی فی الہند ہوکر یہاں جلوہ افروز رہے مگر طبقات ناصری، تاج المآثر اور فخرِ مدبر کی تاریخ مبارک شاہی جیسی معاصر تاریخوں میں ان کے کار ناموں کا مطلق ذکر نہیں، ان کا اسم گرامی بھی ان تاریخوں کےصفحات میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا، اب کوئی عیب جو اہل قلم یہ دعویٰ کرے کہ ان کے کارناموں کو بعد کے تذکرہ نگاروں نے محض گڑھ لیا ہے تو یہ ہندوستان کے مسلمانوں کے روحانی تاریخ پر شدید ضرب کاری لگائی ہوگی۔
منادی کے امیر خسرو نمبر میں بڑے وثوق کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ حضرت نظام الدین اولیا کے ملفوظات میں فوائدالفواد کے علاوہ ایک مجموعہ انوارالمجالس سید محمد امام بن خواجہ بدرالدین اسحاق دہلوی نے مرتب کیا تھا، تیسرا عزیزالدین صوفی نے تحفۃ الابرار و کرامۃ الاخیار ترتیب دیا، اسے بھی حضرت نظام الدین نے ملاحظہ فرما کر تصحیح کی تھی، چوتھا مجموعہ حضرت کے بھانجے ابوبکر مصلیٰ بردار کے فرزند عبدالعزیز نے تیار کیا تھا اور اس کا نام مجموعہ الفوائد رکھا تھا، پانچویں کتابیں ملفوظات المشائخ تھی جسے خواجہ شمس الدین دھاری نے ترتیب دیا تھا، زبانِ عربی میں حضرت نظام الدین اولیا کے ملفوظات پر ایک تالیف خلاصۃ اللطائف مولانا علی بن محمود جاندار نے لکھی تھی جس کا ایک اقتباس سیرالاؤلیا میں مجود ہے اور وہیں سے شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اخبارالاخیار میں نقل کیا ہے، ساتواں مجموعہ درنظامی ہے، اس کے مؤلف یہی علی بن محمود جان دار ہیں، اس کا اردو ترجمہ بھی چھپ گیا ۔ (صفحہ 76)
اگر یہ حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا کے اصلی ملفوظات ہیں تو کیا ان کے گہرے مطالہع کے بعد یہ اطمینان کرلیا گیا ہے کہ ان سب کے حوالے فوائدالفود، درنظامی، خیرالمجالس، سیرالاؤلیا اور جوامع الکلم جیسی قدیم تالیفات میں پائے جاتے ہیں، کیا یہ اسرائیلیات، قصص الانبیاء کے اقتباسات، مافوق الفطرت عناصر، غیر معمولی مجاہدات و کرامات اور مبالغہ آمیز فضائل کی مسلسل داستانوں سے خالی ہیں؟ کیا ان میں تاریخیں قلم بند کرنے کا وہی اہتمام ہے جو فوائد الفواد میں پایا جاتا ہے؟ کیا ان سے فوائدالفواد ہی کی طرح زندگی کی ہمک مول کو سرور اور دماغ کو نور حاصل ہوتاہے، کیا ان میں جتنی تاریخیں لکھی گئی ہیں وہ اکثر غلط ہونے کے بجائے بالکل صحیح ہیں۔
اگر کوئی عیب جو اور خردہ گیر ناقد ان ملفوظات میں کچھ تھوڑی بہت باتیں وہی نکال دے جو مذکورۂ بالا ملفوظات خواجگانِ چشت میں نکالی جارہی ہیں تو کیا یہ سب ملفوظات جعلی قرار دے دیئے جائیں گے اور اگر یہ جعلی نہیں ہیں تو اس سے ظاہر ہے کہ حضرت نظام الدین اؤلیا نے اپنے ملفوظات جمع کرنے کی عام اجازت دے رکھی تھی پھر امیر خسرو اس اجازت سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے خصوصاً جب ان کو اپنے مرشد سے سرشارانہ اور والہانہ محبت تھی، ان کو امیر حسن سنجری کی فوائدالفواد پر اس حدتک رشک تھا کہ وہ کہہ اٹھے تھے کہ کاش امیر حسن سنجری ان کی تمام تصانیف ان سے لے لیتے اور فوائدالفواد ان کی طرف منسوب کر دیتے (سیرالاؤلیا ص 308) اگر اسی رشک میں انہوں نے اپنے مرشد کے ملفوظات کو جمع کرنا شروع کیا تو اس میں شک کیوں پیدا کیا جائے، یہ اور بات ہےکہ ان کا مجموعہ فوائدالفواد کی طرح مقبول نہ ہوا وہ قصیدوں اور مثنویوں کے لکھنے میں اساتذۂ فن کا مقابلہ کرتے رہے، اگر اسی جذبہ سے وہ اپنے پیر بھائیوں کے مقابلہ کے میں اپنے مرشد کے مجموعۂ ملفوظات لکھنے لگے تو تعجب کرنے کی کوئی وجہ نہیں وہ اپنے مرشد کے ساتھ برابر ہتے، ان کے ملفوظات کو جمع کرنے کا شوق نہ پیدا ہوتا تو یہ تعجب کی بات ہوتی، یہ کہہ کر فوائدالفواد میں امیر خسرو کانام صرف ایک جگہ ضمناً آیا ہے، ورنہ وہ حاضرین مجلس کے درمیان بھی نظر نہیں آتے، اگر یہ اثر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہےکہ امیر خسرو اپنے مرشد کی مجلسوں میں بالکل شریک نہیں ہوتے تھے، تو دونوں کے روحانی تعلقات پر خاک ڈالنا ہے جب وہ اپنے مرشد کی مجلسوں میں شریک ہوتے رہے تو ان کے ملفوظات کو اگر قلم بند کیا تو یہ کون سی بعید از قیاس بات ہے، یہ کہنا بالکل صحیح نہیں کہ امیر خسرو خزائن الفتوح میں تو بہت ہی مرصع نگار ہیں لیکن اعجاز خسروی کے رسائل میں انہوں نے فارسی نثر کے جو نمونے پیش کئے ہیں، ان میں کسی کا اسٹائل بھی افضل الفوائد سے نہیں ملتا اگر یہ کہا جائے کہ امیر خسرو نے جیسا سنا ویسا ہی قلم بند کیا جائے جو عموماً جامعین ملفوظات کرتے بھی ہیں تو افضل الفوائد کے اسلوب کو فوائد الفواد کے طرز سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہونا چاہئے (صفحہ 84)
اس کے کہنے میں جو اعتراج وارد ہوتا ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے اوپر کی عبارت میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر جیسا سنا گیا ویسا ہی قلم بند کیا گیا تو پھر اس کا اسلوب فوائد الفوا دسے بہت زیادہ مختلف نہیں ہونا چاہئے تھا۔
اگر خواجہ نظام الدین اؤلیا کے ملفوظات کے مجموعوں کے اصلی ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ان کا اسلوب بیان فوائدالفواد سے مشابہ ہو تو پھر خواجہ صاحب کے ان ملفوظات کے مجموعوں کا اسلوب بیان بھی فوائدالفواد ہی کی طرح ہونا ضروری ہے جن کا ذکر اوپر آیا ہے، اگر ان کا ایسا ہی اسلوب بیان ہے تو پھر یہ فوائدالفواد کی طرح مقبول کیوں نہیں ہوئے اور اب تک لوگوں کی نظروں سے کیوں ایسے اوجھل رہے کہ صدیوں کے بعد ان کی نشاندہی کرنی پڑی، افضل الفوائد کے ناقدوں کے لئے شاید یہ بات قابلِ قبول نہ ہو، اگر یہ کہا جائے کہ حسن سنجری کی علمی و ادبی سرگرمیاں امیر خسرو کے مقابلہ میں کم رہیں، ان کو کافی فرصت میسر تھی، اس لئے فوائدالفواد کو محنت سے مرتب کیا، اس کی نوک پلک کو درست کرنے میں برابر لگے رہے، امیر خسرو کا علمی و ادبی ذہن تو ایک مشین سے کم نہ تھا، اس سے جو سانچہ ڈھل کر نکل گیا اسی پر انہوں نے اکتفا کیا ان کے اہم ترین قصائد ہوں یا نظمیں اور مثنویاں ہوں، ان پر کبھی ان کو نظر ثانی کرکے ترحیم، تنسیق یا اضافہ کرنے کا موقع ہی نہیں ملا، جو جیساایک بار لکھ گیا وہی لوگوں کے سامنے آگیا یہی بات افضل الفوائد کے متعلق کہی جاسکتی ہے،امیر خسرو نے اس کو مرتب کردیا پھر ان کو اس کی فکر نہیں رہی کہ اس کا اسلوب فوائدالفواد کے برابر ہے کہ نہیں۔
افضل الفوائد پر یہ بھی اعتراض ہے کہ ا س کی مجلسوں کی بیشتر تاریخوں کا مقابلہ تقویم سے کیا گیا تو مطابقت نہیں پائی گئی مگر یہ اعتراض اسی وقت صحیح ہوسکتا ہے جب جس تقویم سے مقابلہ کیا جائے اس کو بالکل صحیح اور مستند تسلیم کر لیا جائے۔
اعتراض ہے کہ 12 محرم 714ہجری تو تقویم کے لحاظ سے شنبہ ہونا چاہئے مگر وہاں یعنی افضل الفوائد میں اس تاریخ کو دن چہار شنبہ بتایا ہے (صفحہ 82) دارالمصنفین میں جو قلمی نسخہ ہے اس میں بتاریخ دوازدہم روز شبنہ ماہ محرم الحرام 714عیسوی ہی مرقوم ہے اور بعد کی تاریخ بستم ماہ محرم 714عیسوی روز یک شنبہ لکھی ہوئی ہے، اس طرح جس نسخہ میں چہار شنبہ دیکھا گیا ہے وہ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے، اس سے ظاہر ہے کہ ان ملفوظات کی کتابت میں لاپروائی برتی گئی جس سے غلط فہمی پیدا ہوئی اگر مختلف نسخوں کو ملا کر ایسی غلطیاں دور کردی جائیں تو یہ غلط فہمی پیدا نہ ہو اور اگر تقویم کے لحاظ سے روز کا کہیں فرق ہو تو اس کو قمری مہینوں میں چاند کے 29 یا 30 تاریخ کے دیکھنے کا فرق سمجھا جاسکتا ہے پھر یہ بھی سوچنےکی بات ہے کہ جو جعل ساز ایسے ملفوظات مرتب کرسکتا ہے جن سے صدیوں تک لوگ غلط فہمی میں مبتلا رہ سکتے ہیں وہ تاریخ اور سنتیں قلم بند کرنے میں کیوں غیر محتاط اور لاپروارہ ہوسکتا ہے۔
افضل الفوائد کے جعلی ہونے کی ایک قوی ترین شہادت یہ پیش کی گئی ہے کہ حضرت خواجہ نظام الدین کی ایک محفل سماع میں مولانا جمال الدین ہانسوی کی بھی موجودگی دکھائی گئی ہے جو حضرت بابا فریدالدین گنج شکر کی حیات ہی میں وفات پا چکے تھے پھر ان کے ساتھ ہی محفل سماع میں رقص کرنے والے شیخ عثمان سیاح ہیں جو شیخ جمال ہانسوی سے عمر اور مرتبہ میں بہت کم تھے، ان کے ساتھ محفلِ سماع میں وجد کرنا ادب کے خلاف تھا (صفحہ 82) اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ یہ مولانا جمال الدین ہانسوی حضرت بابا فرید کے خلیفہ اول نہ تھے بلکہ اسی نام کے حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا کے مرید تھے تو پھر یہ اعتراض جاتا رہتا ہے، اسی لئے یہ لکھنا صحیح تھا کہ وہ آئے اور آداب بجا لاکر بیٹھ گئے اور اپنے سے کم عمر حاضرینِ مجلس کے ساتھ رقص میں شریک ہوگئے۔
یہ جواب اس خیال سے رد کیا جاسکتا ہے کہ یہ محض حسن ظن پر منبی ہے مگر خواجگان چشت کے ملفوظات کو جعلی قرار دینے والوں کو اس خیال سے متفق ہونے میں تامل اس لئے نہ کرنا چاہئے کہ ان کے سارے اعتراضات ظنیات ہی پر مبنی ہیں مگر اوپر کا بیان طنیات سے خالی بھی ہے کیونکہ فوائدالفواد میں کئی جمال الدین مثلاً مولانا جمال الدین (صفحہ 18) جمال الدین نیشاپوری (صفحہ 109) در خواجہ جمال ملتانی (صفحہ 351) کا ذکر ہے، 707 کی مجلس دہم میں ہے۔
جمعے ز عزیزان چوں مولانا وجیہ الدین پائیلی ومولانا حسام الدین حاجی و مولانا تاج الدین یار و مولانا جمال الدین دیار ان دیگر حاضربودند‘‘(صفحہ 18)
ممکن ہے کہ یہی مولانا جمال الدین مراد ہوں ہانسویں کا اضافہ غلطی سے ہوگیا ہو، ایک اعتراض یہ ہے کہ افضل الفوائد اور فوائدالفواد کی قریبی مجلسوں میں نہ وہ شخصیات نظر آتی ہیں، نہ وہ موضوعات ہیں جو امیر خسرو کے مرتب کردہ ملفوظات میں ملتے ہیں، (صفحہ 82) اسی قسم کے ملفوظات کے نہ ہونے پر تعجب کرنے کی ضرورت نہیں ، عام طورسے نئے موضوعات ہی زیادہ قلم بند کرنے کی کوشش کی جاتی مگر افضل الفوائد اور فوائدالفواد میں ملے جلے موضوعات کی کمی بھی نہیں، نمازِ عیدالفطر، صحاب سلوک، تصوف، توبہ، محبت، صبر، نفس، درویش، سماع اور مختلف قسم کی نفل نمازوں پر دونوں مجموعوں میں ملفوظات ملیں گے مگر مشکل یہ ہے کہ اگر یہ بالکل ملے جلے ہیں تو یہ کہا جائے گا کہ یہ سرقہ ہے کہ اگر یہ ملے جلے نہیں ہیں تو کہا جائے گا کہ ویسے کیوں نہیں اور اگر کچھ مختلف ہیں تو کہا جائے گا کہ یہ الحاقی ہیں، اس لئے کہ یہ فوائدالفواد میں نہیں ہیں، ان دلائل کے تشفی بخش جوابات کسی گوشہ سے نہیں مل سکتے۔
یہ اعتراض بالکل بے جا ہے کہ افضل الفوائد میں وہ شخصیات نہیں ہیں جو فوائدالفود میں ہیں، افضل الفوائد میں جن حاضرین کے نام ملتے ہیں وہ یہ ہیں۔
مولانا شمس الدین یحییٰ، مولانا فخرالدین زرادی، مولانا وجیہہ الدین پائلی، مولانا شہاب الدین میرلئی، مولانا جمال الدین، شیخ عثمان سیاح، مولانا برہان الدین غریب، شیخ حسین نبیرۂ شیخ بختیار اوشی، حسن سنجری، خواجہ عزیز ایبک، مولانا نصیر الدین کتابیٔ، مولانا محمدشیخ یوسف اور مولانا علاؤالدین چندپوری وغیرہ۔
فوائدالفواد کی شخصیات یہ ہیں:-
مولانا وجیہہ الدین پائلی، مولانا حسام الدین حاجی، مولانا تاج الدین، مولانا جمال الدین، مولانا سراج الدین، حافظ بداؤنی، مولانا برہان الدین غریب، مولانا محمود اودھی وغیرہ۔
افضل الفوائد میں شخصیات زیادہ ہیں مگر کچھ مشترک بھی ہیں، افضل الفوائد میں زیادہ شخصیات ہونے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس میں اسماء کے لکھنے میں فوائدالفواد سے نسبتاً زیادہ توجہ کی گئی ہے، فوائدالفوادکے لکھ جانے سے سرقہ کا الزام رکھ دینا کیا صحیح ہوگا؟ نام ہم نیکو کردہ ای اور نام ہم نیکو نہادۂ میں فرق ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ بعض مصنفوں نے خود افضل الفوائد سے ملفوظات لفظاً و معناً نقل کئے ہیں تو تعجب کرنے کی بات نہ ہونی چاہئے مثلا سیرالاؤلیا کے مؤلف امیر خسرو کے معاصر ہیں، انہوں نے جو عبارتیں افضل الفوائد سے نقل کی ہیں ان کے کچھ نمونے یہاں پر درج کئے جاتے ہیں:-
افضل الفوائد
دست بہ کف دست نز نند کہ آں بلہو می ماند بلکہ پشت دست بر کف دست بزنند یعنی در منع دستک چندیں احتیاط آمدہ است بس در منع مزامیر بطریق اولیٰ بعد از آں فرمود کہ اگر یکے از مقامے بیفتد باری باید کہ در شرع افتد مبادا اگر از شرع بیردن افتد پس او را چہ ماند بعد ازاں فرمود کہ سماع مشائخ کبار شندہ اندو آں کہ اہل ایں کار اند و کسیکہ صاحبِ ذوق است و درد دست بہ یک بیت کہ ازیندہ بشنود او را وقتی شود اگر چہ درمیان اگر باشد یا نباشد اما در عالمِ ذوق خبر ندارد پیش او گویندگان باشند ہر جنس مز مار باشد مشو چوں او از اہل و نیست پس معلوم شد کہ تعلق بہ درد دارد نہ۔ (قلمی نسخہ دارلمصنفین صفحہ 185)
دریں محل فرمود کہ وقتے خواجہ ہیم ادہم را سوال کرند اعظم یاد داری بگواست جواب داد کہ را از لقمہ حرام پاک و دل راز محبت یا خالی کس بعد ازاں کہ سمی خوانی اسم اعظم۔ (صفحہ 186)
سیر الاولیاء
پشت دست برکف دست زندوکف دست برکف دست نذندکہ آں بلہومی ماند تا ایں غایت از ملا ہے وامثال پر ہیز آمدہ است پس در سماع طریق اولیٰ کہ ازیں بابت نپاشد یعنی در منع دسکت چندیں۔
آمدہ است پس در سماع مزامیر بطریق اولیٰ منع است، بعد ازاں فرمود کہ سماع مشائخ شنیدہ اندو آں اہل ایں کار اند و آں کس صاحب درد و ذوق است کہ بہ یک بیت کہ از گویندہ شفود اور وقتے پیدا آید اگر مزار درمیان باشد بانباشد اما آں کہ از عالم ذوق خبرندارد، اگر پیش، گوبندگان باشند از ہر جنس مزامیر باشد چہ سود دارد چوں از اہل درد نیست پس معلوم شد کہ کار تعلق بہ درد دارد نہ بہ مزامیر۔ (سیرالاؤلیا، صفحہ522-523)
می فرمود از خواجہ ابراہیم سوال کردند کہ اسم اعظم یاد داری بگو جواب گفت مدہ را زلقمہ حرام پاک دار و دل از محبت دنیا و در کن بعدہ بہرام سے کہ خدا اے را نجوا می ہماں اسم اعظم است۔ (صفحہ 426)
اسی قسم کے اور نمونے ملیں گے اگر یہ خیال ہو کہ افضل الفوائد میں سیرالاؤلیا سے ایسی رواتیں لی گئی تو یہ صحیح نہیں کیونکہ سیرالاؤلیا میں فوائدالفود اور تاریخ فیروز شاہی سے بلا تکلف عبارتیں لفظاً و معناً نقل کرلی گئی ہیں مثلاً
فوائدالفواد
فرمود کہ چوں من ایں سخن ازاں درویش شنیدم باخود مقرر کردم کہ دریں شہر نباشم، چند جائےدل من می شد کہ بردم، لختے، دل کردم کہ در قصبۂ پٹیالی بردم درآں ایام ترک آنجا بودہ است مقصودازیں ترک امیر خسرو بود عصمہ اللہ باز فرمود کہ یک دل کردم کہ در بسنالہ بردم کہ موضع منزہ است الغرض در بسنالہ رفتم سہ روز آں جا بودم دریں سہ روزہیچ خانہ نیافتم نہ کرایہ و نہ کردی نہ بہای دریں سہ روز ہر روز مہمان یکی بودم چوں از آنجا باز گشتم ایں اندیشہ در خاطر می بود تا وقتی جانب حوض رانی بودم دوباغی کہ آں را باغ جسرت گویند باخدائے عزوجل مناجات کردم وقتے خوش بود گفتم کہ خداوندا مرا می باید کہ ازیں شہر بروم و جاے باختیار خود نمی خواہم آنجا کہ خواہست توباشد آنجا باشم دریں میان آوازِ غیاث پور آمدمن ہیچ وقت غیاث پور را ندیدہ بودم ونمی دانستم کہ غیاث پور کجاست چوں ایں آواز شنیدم بردوستی رفتم آن دوست را نقیبی بود نیشاپوری چوں در خانۂ او رفتم مرا گفتند او در غیاث پور رفتہ است من بادل خود گفتم ایں ہماں غیاث پور است الغرض در غیاث پور آمدم آں روز ایں مقام چنان آباد آں نبودہ است موضعی مجہول بود و خلق اندک بیامدم و سکونت کردم تا آنگاہ کہ کیقباد در کیلوکری ساکن شد در آں عہدِ خلق ایں جا نبوہ شد از ملوک وا مراد وغیرہ آں آمدہ شد خلق بسیار شد من باخود گفتم کہ ازیں جاہم ببابد رفت دریں اندیشہ بودم تابزرگی کہ استادمن بود در شہر وفات کرد من بادل خود راست گرفتم کہ فردا کہ از وفات او سوم خوابد بودم بر زیارت او ہردم دہم شہر در بناشم ایں عزیمت برخود مقرر کردم ہماں روز نماز دیگر جوانی در آمد صاحب حسنی اما نزار گشتہ واللہ اعلم از مردان غیب بود باکہ بود الغرض چو بیامدا دل سخن کہ بامن گفت ایں بود آں روز کہ مہ شدی نمی دانشی کانگشت نمائی عالمی خواہی شد امروز کہ زلفت دل خلقی بر بود
در گوشتہ نسستنت نمی دارد سود۔ (صفحہ 242-243)
سیر الاولیاء
می فرمود چوں من ایں سخن ازاں کہ درویش شنیدم باخود مقرر کرد کہ دریں دریں شہر نباشم چند جائے دلمن شد کہ بردم لختے دل کردم کہ در قصبۂ پٹیالی بردم درآں آیام ترک آنجا بودہ است مقصود از ایں ترک امیر خسرو بود، یک دل کردم کہ در بسالہ بردم کہ موضع نزدیک است الغرض در بسالہ بردم سہ روز آنجا بودم ہیچ خانہ نیافتم نہ گردی نہ کر ای دریں سہ روز مہمان یکی بودم چوں از انجاباز گشتتم ایں اندیشہ در خاطر می بود تا وقتے جانب حوض رانی بودم در باغے کہ آن را باغ جسرت گویند باخدائےمناجات کردم وقتے خوش بود گفتم کہ خداوندا! مرا می باید کہ کہ ازیں شہر بردم وجائے باختیار خود نمی خواہم آنجا کہ خواست تو باشد آنجا باشم، دریں میاں آواز آمد کہ غیاث پور و من ہیچ وقتے غیاث پور راندیدہ بودم و نمی دانستم کہ غیاث پور کجاست چوں ایں آواز شنیدم بر دوستے رفتم ان دوست را نقیبے بود نیشاپوری چوں در کانہ اور رفتم مرا گفتند کہ در غیاث پور رفتہ است من با دل خود گفتم کہ ایں آں غیاث پور است الغرض با او شدہ در غیاث پور آمدہ آں روز آں مقام ہم چنیں آبادان نبود موضعےمجہول بود بہادم سکونت کردم تا آنگاہ کہ کیقباد کہ در کیلو کہری ساکن شددران ایں جا خلق انبوہ شد از ملوک وامرا وغیر آں مدد شد خلق و مزاحمت ایشاں بسیار شد باخود گفتم ازیں جا باید وقت دریں اندیشہ بودم ہمان روز نماز دیگر جوانے در آمد صاحب حسنے امانز، رگشتہ واللہ علم از مردان غیب بود یا کہ بود الغرض چوں بیامد اول سخن بامن ایں گفت آں روز کہ مہ شدی نمی دا نستی کانگشت نمای عالمی خواہی شد امروز کہ زلفت دل خلقی بربود در گوشہ نشستنت نمی دارد سود۔ (صفحہ 110-111)
تاریخ فیروز شاہی
الفضل و الکمال و الفنون و البلاغ صوفی مستقیم الحال بود و بیشتری عمراد در صیام و قیام و تعبد و قرآن خوانی گذشتہ است وبہ طاعت متعدبہ و لازمہ بگانہ شدہ بود و دایم روزہ داشتی و از مریدان خاصہ شیخ بود و آں چنان مریدی معتقد من دیگری راند یدہ ام واز عشق و محبت نصیبے تمام داشت و صاحب سماع و صاحبِ و جد و صاحب حال بود و در علم موسیقی گفتن و ساختن کمالی داشت و ہر چہ نسبت بہ طبع لطیف و موزون گفتند باری تعالیٰ او را در آں ہنرسر آمدہ گردایندہ بود و وجودے عدیم المثال آفریدہ و در قرون متاخر از نوادر اعصار پیدا آوردہ۔ (صفحہ 359)
سیر الاولیاء
الفضل و الکمال و الفنون و البلاغ صوفی مستقیم الحال بود و بیشتر عمر او در صیا و قیام و تعبد و تلاوت گذشتہ است و از مریدان خاصۂ حضرت المشائخ شیخ الشیوخ العالم سید نظام الحق والدین محمد احمد بدوانی البخاری الچشتی قدس اللہ سرہ العزیز بود و آں چنان مرید و معتقد من دیگرے را ندیدم و از عشق و محبت نصیبے تمام داشت و صاحب سماع و وجد و صاحب حال بود و در علم موسیقی کمال داشت و ہرچہ نسبت طبع لطیف و موزوں کند باری تعالیٰ اور را دران ہنر سر آمد گردایندہ بود وجودے عدیم المثال آفریدہ و در قرون متاخر از نوادر اعصارپیدا آوردہ۔ (صفحہ 588)
مذکورہ بالا اقتباسات سے ظاہر ہے کہ سیرالاؤلیا کے مؤلف نے جس طرح فوائدالفواد اور تاریخ فیروز شاہی سے عبارتیں لے لی ہیں، اسی طرح افضل الفوائد سے بھی لی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے پیش نظریہ مجموعۂ ملفوظات بھی رہا اور وہ اس کو مستند سمجھے۔
ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ جعلی ملفوظات میں ایسا مواد بالکل نہیں ہے، جو اس عہد کے سیاسی اور معاشی حالات پر روشنی ڈالتا ہو، یہی کیف افضل الفوائد کی بھی ہے۔(صفحہ83)
اگر اس عہد کے سیاسی اور معاشی حالات سے حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا کے زمانہ کے حالات مراد ہیں تو فوائدالفواد میں سلطان غیاث الدین بلبن سے لے کر سلطان محمد بن تغلق کے دور کے سیاسی و معاشی حالات ملنے چاہیں مگر ان سلاطین کا اس میں مطلق ذکر نہیں، البتہ محمود غزنوی، شمس الدین ایلتمش، رضیہ اور ناصرالدین محمود کا ذکر ضرور ہے مگر افضل الفوائد میں بھی محمود غزنوی، معزالدین سام اور شمس الدین ایلتتمش کا ذکر ہے، اس سے نسبتاً زیادہ تفصیلی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔
فوائدالفواد میں محمود غزنوی کا ذکر احترام سے کیا گیا ہے، یہی احترام افضل الفوائد میں ہے جو حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا کی مجلس کی حسبِ ذیل روایت سے ظاہر ہے۔
حضرت خواجہ نے فرمایا کہ سلطان محمود غزنوی کے دو زنار دار یعنی ہندو اس کے یہاں روتے ہوئے واپس گئے اور اپنے بت خانہ میں پہنچے، انہوں نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا کہ الٰہی! اگر ہم لوگ اسلام (مسلمانی) سے دور ہیں، تو ہم لوگوں کو تُو ہی نے پیدا کیا ہے، تمام بندے تیرے ہی پیدا کئے ہوئے ہیں، اگر تو ہمارے ساتھ انصاف نہ کرے گا تو ہم اس جگہ سے باہر نہ جائیں گے اور نہ ایک دوسرے سے بات کریں گے پھر وہ دونوں مندر (بت خانہ) میں بیٹھ گئے، اسی روز سلطان محمود اناراللہ برنانہ کے پیٹ میں درد اٹھا، کبھی تخت پر سے زمین پر گرجاتا اور کبھی زمین پر سے تخت پر آجاتا، اؤلیا اور حکماء اس کے گرد جمع ہوگئے، علاج ہوا، دعائیں ہوئیں مگر کوئی فائدہ نہیں ہو بلکہ اور حالت خراب ہوتی گئی اور جب سب عاجز ہوگئے تو سلطان محمود نے حسن میمندی کو بلایا اس سے کہا کہ لوگوں کی کوئی تدبیر کام نہیں کر رہی ہے، اب خدا ہی کچھ کرسکتا ہے، خواجہ بہلول دیوانہ کے پاس جاؤ اور ان سے درخواست کرو، شاید صحت پا جاؤں جب حسن میمندی خواجہ بہلول کے پاس پہنچا تو خواجہ نے تبسم کیا اور فرمایا محمود کو کوئی ضرورت آ پڑی ہے، اسی لئے تجھ کو بھیجا ہے، بتاؤ کیا بات ہے، سلطان محمود کے پیٹ کے درد کا حال ان سے کہا گیا تو وہ ہنسے اور بولے کہ جاؤ کہہ دو کہ وہ اپنے قصر کے در پر طبل بجانے کا حکم دیں، اس وقت بھلا ہوجائے گا، حسن میندی نے یہ بات سنی تو واپس ہوا، سلطان سے یہ سب کچھ کہا پھر ایسا ہی کیا گیا جب قصر کے اوپر طبل بجا تو وہ دونوں ہندو ایک دوسرے سے بولے کہ شاید سلطان محمود کی وفات ہوگئی ہے یا کسی نے ہم لوگوں کا حال اس سے بیان کیا ہے، اسی لئے یہ طبل بجا ہے، جس وقت ان دونوں نے یہ بات کہی تو سلطان کے پیٹ کا درد جاتا رہا، سلطان گھوڑے پر سوار ہوکر خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بہت معذرت کی، خواجہ نے کہنا شروع کیا کہ دوسرے لوگ رہزانی کرتے ہیں اور تمہارے پیٹ میں درد ہوتا ہے، ملازمین ظلم کرتے ہیں، اور بلا ان کے مالک پر نازل ہوتی ہے، خواجہ نے ان ہندوؤں کی کیفیت سلطان کو مطلع کیا، وہاں سے واپس ہوا تو ان ہندوؤں کے پاس پہنچا، ان کو خوش کیا اور بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ ان کو واپس کیا، یہ حکایت سنا کر حضرت خواجہ (خواجہ نظام الدین اؤلیا) کی آنکھیں پُر آب ہوگئیں، روئے اور فرمایا، یگانوں کو ستانے میں تو یہ حال ہوتا ہے، بیگانوں کو ستانے میں قیات کے روز کیا حال ہو۔ (قلمی نسخہ صفحہ 118-119)
یہ حکایت امیر خسرو ہی خاص طور سے قلم بند کرسکتے تھے، کیونکہ ان کے دل میں ہندوؤں کی جو محبت بھری تھی، اس کا اظہار انہو ں نے اپنی مثنوی نہ سپہر میں کیا۔
(تفصیلات کے لئے دیکھو میرا رسالہ ہندوستان امیر خسرو کی نظر میں)
سلطان شہاب الدین غوری یعنی سلطان معززالدین سام کے کردار کے متعلق ایک سبق آموز روایت حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کی مجلس میں اس طرح بیان کی گئی ہے۔
فرمایا کہ سلطان معزالدین محمد سام اناراللہ برہانہ کی عادت تھی کہ جب کوئی بوڑھا آدمی اس کے پاس آتا تو وہ تخت سے اٹھ جاتا، کھڑا رہتا اور ان کی باتیں پوری کرتا، وزراء نے عرض کیا کہ یہ بات ٹھیک نہیں کہ وہ کھڑے ہو جائیں، سلطان نے کہا کہ تم جانتے ہو کہ اس کا مقصد کیا ہے، انہوں نے جواب دیا ہم کیا جانیں، حضرت خلیفہ بہتر جانتے ہیں، فرمایا کہ میں سفید بال کی عزت میں اٹھ جاتاہوں تاکہ کل قیامت کے روز میرا حشر بھی ان بوڑھوں کے ساتھ شاید ہوجائے اور دوزخ کی آگ سے نجات ہو، حق تعالیٰ نے سفید بالوں میں اپنے نور کا اضافہ کیا ہے، اس نور کی عزت سے شاید میری نجات بھی ہوجائے۔ (قلمی نسخہ صفحہ 28)
جوامع الحکایات و لوامع الروایات مرتبہ سدیدالدین محمد غونی میں شہاب الدین غوری کے کردار کی خوبیوں کے متعلق کچھ ایسی روایتیں ہیں، سلطان شمس الدین ایلتتمش کی سیرت سے متعلق بھی افضل الفوائد میں ایک روایت ہے جو فوائدالفواد میں بھی ہے، دونوں کی عبارت یہ ہیں۔
افضل الفوائد
فرمود کہ سلطان شمس الدین اناراللہ برہانہ را رسم بود کہ نیم شب در عبادت مشغول شدے و آں زمان کہ برخاستے خود آب بستدی و وضو کردے و ہیچ کس را از بندگان بیدار نہ کردے تا وقتے ازیں حال سوال کردند فرمود چرا باشد کہ رنج بردیگران نہیم و ایشاں را از خواب بیدارکنیم۔ (صفحہ 26)
فوائدالفواد
از عقیدۃ خواب او (ایلتتمش) فرمود کہ شبہا بیدار بودے و چوں از خواب بیدار شدی وضو ساختے، دوگانہ بگزاردی و باز در خواب شدہ و ہیچ کس را بیدار نہ کردے۔
اوپر کے دونوں اقتباسات لفظ بہ لفظ نہیں ہیں، معناً یکساں ضرور ہیں، ممکن ہے کہ یہ روایت امیر خسرو کے سامنے بھی دہرائی گئی ہو پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسی باتیں نہ ہوتیں تو کہا کہ افضل الفوائد میں وہ موضوعات نہیں ہیں جو فوائدالفواد میں ہیں اور اگر ایسی باتیں پائی جاتی ہیں تو کہا جاتا ہے کہ فوائدالفواد ہی کے مضامین دہرادئے گئے ہیں۔
اگر افضل الفوائد پر یہ اعتراض ہے کہ اس سے اس عہد کے سیاسی حالات پر روشنی نہیں پڑتی ہے۔ (صفحہ 83) تو یہ اعتراض فوائدالفواد پر بھی کیا جاسکتا ہے مگر ملفوظات کے مجموعے تاریخ کی کتابیں نہیں ہوتی ہیں جن میں سیاسی، سماجی اور معاشی مواد کا ہونا ضروری ہو، ضمناً ایسی باتیں آجاتی ہیں تو ان سے معلومات حاصل کرلی جاتی ہیں، ورنہ ان میں زیادہ تر مذہبی اور روحانی باتیں بیان کی جاتی ہیں، اگر کبھی ان میں معاشرہ سے متعلق باتیں آجاتیں تو یہ سمجھنا نامناسب نہ ہوگا کہ اس زمانہ کے معاشرہ کو سنوارنے کے لئے یہ باتیں کہی گئی ہیں، افضل الفوائد میں ہے کہ ایک مجلس میں یہ بیان کیا گیا کہ آسمان سے بڑی چیز بہتان تراشی اور دروغ گوئی ہے، زمین سے بھی فراخ تر چیز سچائی کا اعلان ہے اور دریا سے زیادہ توانگر چیز خردمند دل کا قول ہے اور آگ سے بھی زیادہ گرم چیز مردم حریص کا قول ہے اور زمہریر سے زیادہ سرد چیز یہ ہے کہ اپنے رشتہ داروں، قرابت مندوں اور دوستوں کی حاجب روائی نہ کر کے ان کو ناامید کیا جائے اور پتھر سے زیادہ سخت کافروں کا دل ہے اور یتموں سے زیادہ خوار تر چیز چغل خوری ہے، تمام گناہوں میں بہتان باندھنے سے زیادہ ہولناک کوئی اور گناہ نہیں ہے۔ (صفحہ 44) کیا ان ملفوظات سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا ہے کہ اس زمانہ کے معاشرہ کے بعض حلقہ میں بہتان تراشی، دروغ گوئی اور رشتہ داروں کی حاجت روائی سے بے اعتنائی اور چغل خوری وغیرہ رائج تھی، یہ ساری باتیں ان کی اصلاح کے لئے کہی گئی ہیں۔
معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں عورتوں میں شرم، حیاء اور عفت کا معیار گر گیا تھا، گانا بجانا زیادہ ہونے لگا تھا، علماء بے عمل ہو گئے تھے، مغنی، مطرب، مسخرے اور اہل فساد بڑھ گئے تھے اور ان کی سرپرستی ہونے لگی تھی، مرد رنگین کپڑے پہننے لگے تھے، حاکم حکم کو فروخت کرنے لگے تھے، دنیا کے مال کی خاطر حق کو ناحق قرار دیا جانے لگا تھا، معاشرہ کی ان ہی باتوں کو سامنے رکھ کر حضرت خواجہ نے حدیث کا حوالہ دے کر فرمایا کہ جب ایسی باتیں ہوں گی تو زمین سے اگنے والی نباتات میں برکت نہ ہوگی، آسمان سے بارش کم ہوگی اور اگر ہوگی تو بے وقت ہوگی۔ (صفحہ 148) ایسی حدیثیں ترمذی ابواب الفتن اور بخاری و مسلم میں ملیں گی۔ (مشکوٰۃ، جلد 3، صفحہ 21-23)
حدیث اور ملفوظات کی باتیں جب باضاطبہ ملائی جائیں گی تو یہ ضروری نہیں کہ ملفوظات میں حدیث کی باتیں لفظ بہ لفظ دہرائی گئی ہوں وہی فرق ہوگا جو کتاب کو دیکھ کر پڑھنے اور اسی بات کو زبانی دہرانے میں ہوگا، مجلس میں زبانی باتیں کہنے کا انداز ہی کچھ اور ہوتا ہے، کہنے میں بعض اوقات کچھ باتیں اس طرح بڑھ جاتی ہیں یا کم ہوجاتی ہیں کہ اصل سے مختلف ہوجاتی ہیں مگر مفہوم میں زیادہ فرق نہیں ہوتا، ان میں جو مفید باتیں ہوں، ان سے درس حاصل کیا جائے نہ کہ تحقیقات کے پردے میں ہر قسم کی خامیاں دکھائی جائیں، آج کل بھی بعض باتیں ایسی کہی جاتی ہیں جن میں ایک عیب جو ہر قسم کی خامیاں دکھا سکتا ہے، مثلاً مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنےایک وعظ میں نصاب الاحتساب کے مصنف قاضی ضیاؤالدین سنامی اور خواجہ نظام الدین اؤلیا کی ایک حکایت سنائی جو انہوں نے اپنے ایک بزرگ سے الہٰ آباد میں سنی، ان بزرگ نے یہ حکایت اپنے کسی بزرگ کی کسی کتاب سے نقل کی ہے اور وہ ایسے بزرگ تھے جن سے حضرت خضر علیہ السلام ملا کرتے تھے، ان کے یہاں ایک کتاب حضرت خضر علیہ السلام کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ہے، شاید انہوں نے حاشیہ کے طور پر کوئی فائدہ لکھنا چاہا تھا، حرف لکھ کر آگے نہیں لکھ سکے، وہ کتاب تبرک کے طورپر ان کے کتب خانہ میں رکھی ہوئی ہے، ان ہی بزرگ نے حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا اور قاضی ضیاؤالدین سنامی کی یہ حکایت سنائی۔
قاضی صاحب (قاضی ضیاؤالدین سنامی) کا وقت وصال سلطان جی (خواجہ نظام الدین اؤلیا) سے پہلے آیا، سلطان جی ان کی عیادت کو گئے دروازہ پر پہنچ کر اجازت مانگی، قاضی صاحب نے فرمایا سلطان جی سے کہہ دو کہ یہ وقت وصالِ حق کا ہے، اس میں بدعتی کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتا، سلطان جی نے جواب دیا کہ قاضی صاحب سے عرض کردو کہ وہ بدعتی ایسا بے ادب نہیں کہ بارگاہِ سنت میں بدعت سے ملوث ہوکر آتا وہ حضرت والا کے مذاق سے واقف ہے اور آپ کے مذاق کو پوری رعایت کر کے حاضر ہوا ہے، میں اس بدعت سے توبہ کر کے حاضر ہوا ہوں، یہ جواب سن کر قاضی صاحب پر حالت طاری ہوگئی اور آبدیدہ ہوکر اپنا عمامہ سر سے اتار کر خادم کو حکم دیا کہ سلطان جی سے کہو کہ اس عمامہ پر پاؤں رکھتے ہوئے تشریف لائیں، بس ان میں ایک کسر تھی جو جاتی رہی، باقی ان کے مقامات عالیہ اور کمالات سے میں ناواقف نہیں ہوں۔
گر بر سرو چشمِ من نشینی
نازت بکشم کہ ناز نینی
خادم قاضی صاحب کا عمامہ لے کر سلطان جی کے پاس حاضر ہوا، تو آپ نے عمامہ کو سر پر رکھ لیا یہ عمامۂ شریعت ہے، اس کو اپنے سر پر رکھ کر حاضر ہوں گا، چنانچہ تشریف لائے اور قاجی صاحب نے فرمایا۔
آنانکہ خاک را بہ نظر کیمیا کنند
آیا بود کہ گوشۂ چشمے بماکنند
حضرت اب میرا آخری وقت ہے اور میرے اوپر توجہ فرمائیے، چنانچہ حضرت سلطان جی نے توجہ شروع کی اور ایسی توجہ کی کہ قاضی صاحب کی روح نہایت فرح و شادمانی کے ساتھ عالم بالا کو پرواز کر گئی، حضرت قاضی صاحب کا وصال ہوگیا تو سلطان جی روتے تھے اور فرماتے تھے کہ افسوس شریعت کا ستون گرگیا، اس حکایت کو ذکر کر کے وہ بزرگ فرماتے ہیں کہ نہ میں نظام الدین ہوں جو اجازت دوں، نہ ضیاؤالدین ہوں کہ جو منع کروں یہ حکایت میں نے اخبار الاخیار میں دیکھی ہے مگر مختصر تو حضرت یہ تھا کہ ہمارے سلف صالحین کا طریقہ امر بالمعروف میں کہ ایک دوسرے کا ادب کرتے تھے اور نصیحت بھی کرتے تھے۔ (الحدود والقیود، صفحہ 39)
یہ حکایت اخبار الاخیار سے لی گئی ہے جس میں مولانا ضیاؤالدین کے تذکرہ میں اس طرح درج ہے:-
مولانا ضیاؤالدین سنامی دیانت اور تقویٰ میں مقتدائے وقت تھے، شریعت کی پابندی میں بڑے راسخ تھے، شیخ نظام الدین اؤلیا کے معاصر تھے، ان سے سماع سے متعلق احتساب کرتے، شیخ ان سے معذرت کرتے ہوئے، ان کی تعظیم میں کوئی فرد گذاشت نہ کرتے، ان کی ایک کتاب نصاب الاحتساب ہے جو بدعت کے دقائق اور احتساب کے ساتھ احکامِ شریعت پر مشتمل ہے، شیخ نظام الدین اؤلیاء مولانا ضیاؤالدین کے مرض الموت میں ان کی عیادت کو گئے تو مولانا نے اپنی دستار شیخ کے قدموں میں ڈال دی شیخ نے دستار کو اٹھا کر اپنی آنکھوں سے لگایا اور جب وہ مولانا کے پاس بیٹھے تو مولانا آنکھیں چار نہ کرسکے، جب شیخ اٹھ کر باہر آئے تو مولانا کی وفات کی خبر گونجی، شیخ رونے لگے اور افسوس کرتے ہوئے کہا کہ شریعت کی حامی، ایک ذات تھی وہ نہ رہی، رحمۃ اللہ علیہما۔ (اخبارالاخیار، صفحہ 1-102)
اخبارالاخیار کی روایت کیا تھی اور مولانا اشرف علی تھانوی کے مواعظ میں محض اثر پیدا کرنے کے لئے کیا سے کیا کر دی گئی، اب کوئی عیب جو اور خردہ گیر مولانا تھانوی کی روایت کو جعلی اور فرضی قرار دے تو اس کا کیا علاج ہے۔
افضل الفوائد میں حقوق ہمسایہ، عیادت، بیمار پرسی، دل جوئی، رواداری اور نفس کشی وغیرہ پر بہت سے ملفوظات ملیں گے جو احادیث یا بزرگان دین کے عمل کی روشنی میں بیان کئے گئے ہیں، ان میں جو تعلیم و تلقین کا رنگ ہے، اس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے، اس عہد کے معاشرہ میں یا تو ان کی کمی تھی جن کو پورا کرنے کا جذبہ تھا یا یہ اوصاف موجود تھے تو ان کو اور بہتر طریقہ سے سنوار نے کی کوشش تھی۔
افضل الفوائد پر یہ بھی اعتراض ہے کہ اس میں تصوف اور مذہب کی کتابوں کے حوالے کثرت سے شک انگیز حد تک آئے ہیں، ان میں کچھ کتابیں اور وظائف کے مجموعے ہیں، کچھ تصوف، کچھ فقہ اور کچھ تفسیر کی کتابیں، تفسیر کشاف، تفسیر امام زاہدی، تفسیر امام ناصری، تفسیر امام مجاہد، تفسیر خواجہ شفیق بلخی کے حوالے ہیں پھر خواجہ حمیدالدین ناگوری کی دو کتابوں راحت الارواح اور لوائح کے بھی نام آئے ہیں، ایک تصنیف تحفۃ العارفین کا بھی ذکر ہے۔ (صفحہ 83)
ان کتابوں کے نام آنے کی وجہ سے افضل الفوائدکو جعلی قرار نہیں دیا جاسکتا ہے خواجہ نظام الدین اؤلیا کی مجلسوں میں ان کتابوں کے حوالے نہ آتے تو اور کن کتابوں کا ذکر آتا، خود فوائدالفواد میں احیاؤالعلوم، الکتاب، ایجاز التفسیر امام ناصری، جوامع الحکایات، روح الارواح، شافی، صحیحین، طبقات ناصری، قوت القلوب، کشاف، کشف المحجوب، لوائح، مخ المعانی، مرصاد العباد، مشارق الانوار، مکتوبات عین القضاۃ ہمدانی، نافع نوادر الاصول اور ہدایہ کا ذکر ہے، فوائد الفواد میں خواجہ فریدالدین عطار کا نام آتا ہے مگر تذکرۃ الاؤلیا ذکر نہیں اگر چہ ا سے سے بہت سی باتیں لی گئی ہیں، افضل الفوائد میں تودلیل السالیکن، کتاب العارفین اور انیس الانس کے بھی حوالے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کتابیں، اس زمانہ میں رائج تھیں اور جب افضل الفوائد میں بار بار یہ ذکر آتا ہے کہ
در او را و خواجہ یعنی شیخ الاسلام خواجہ عثمان ہرونی دیدہ ام در اور را و شیخ قطب الدین بختیار اوشی بنشتہ دیدہ ام فرمود کہ شیخ معین الدین سنجری در او را و خود ایں بنشتہ۔
فرمود کہ در او را و شیخ الاسلام فریدالحق والدین قدس اللہ سرہٗ العزیز بنشتہ دیدہ ام
کیا یہ سب فرضی ہیں؟ کیا شروع کے خواجگانِ چشت کی تعلیمات کہیں قلمبند ہی نہیں ہوئیں؟ کیا ان بزرگانِ دین کے حالات اور خیالات صرف فوائدالفواد اور سیرالاؤلیا ہی سے معلوم ہوسکتے ہیں، محض یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ یہ ملفوظات دوسری کتابوں کو سامنے رکھ کر وضع کر لئے گئے ہیں (صفحہ 72) جب تک یہ پتہ نہ چلے کہ یہ ملفوظات کن کن کتابوں سے ماخوذ ہیں، محض قلم کے زور سے ان کو فرضی قرار دینا صحیح نہیں، یہ کہہ دینا بھی کافی نہیں کہ ان ملفوظات میں معمولی مضامین ہیں اور ان میں زیادہ تر قصص الانبیاء میں فوائدالفوائد میں بھی حضرت حوا، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسی علیہ السلام، حضرت ہود علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا ذکر ملے گا اور اپنے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر مبارک سے تو کتاب بھری ہوئی ہے اور جس طرح افضل الفوائد میں خواجہ ذوالنون مصری، خواجہ فضیل، عیاض، حضرت ابراہیم ادھم، خواجہ ذوالنون مصری، خواجہ فیضل عیاض، حضرت ابراہیم ادھم، خواجہ ابو تراب بخشی، خواجہ جنید بغدادی، خواجہ ابو بکر شبلی، شاہ شجاع کرمانی، خواجہ عبداللہ سہیل تستری، شیخ شہاب الدین تستری، داؤد طائ، ابو سلیمان، رابعہ بصری اور حسین منصور حلاج کا ذکر ہے، اسی طرح فوائدالفواد میں ابراہیم ادھم، شیخ ابوالاسحاق گازرونی، خواجہ اجل شیرازی، شیخ احمد معشوق، حضرت بایزید بسطامی، خواجہ شاہی موتاب، شیخ شبلی، شیخ علی ہجویری اور شیخ یوف ہمدانی کا ذکر ہے۔
ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ افضل الفوائد اور راحت المحبین میں حضرت نظام الدین اؤلیا یا آپ کے شیوخ یا معاصرین کے بارے میں کوئی نکتہ ایسا نہیں ہے جو دوسری کتابوں میں نہ ملتا ہو یا اس کتاب میں زیادہ صحت وضاحت یا جزئی تفصیلات کے ساتھ درج ہو، (ص 84) اگر افضل الفوائد کے مستند ہونے کا ثبوت یہ ہوسکتا ہے کہ اس میں حضرت نظام الدین اؤلیا اور ان کے مرشد کے متعلق ایسی روایتیں ہوں جو دوسرے مجموعے ملفوظات میں نہ ملیں تو ایسی بہت سی روایتیں افضل الفوائد میں مل جائیں گی، کچھ مثالیں یہ ہیں۔
ایک مجلس جاری تھی کہ حسن سنجری اور خواجہ عزیز ایبک آگئے، یہ ندیم خاص میں تھے، دونوں نے حضرت خواجہ کے سامنے اپنے سروں کو زمین پر رکھا، خواجہ پر غلبہ طاری تھا، ان پر بڑی شفقت فرمائی، کہا کہ بیٹھو پھر خواجہ ذکرہ اللہ بالخیر نے عزیز سے کہا کہ ایک غزل سناؤ کہ حق تعالیٰ نے اس وقت تم کو یہاں بھیج دیا ہے، خواجہ عزیز نے جب غزل شروع کی تو خواجہ عزیز اورتمام مجلس والوں پر ایسی کیفیت طاری ہوگئی، کہ یہ ہم اور فہم میں نہیں آسکتی، خواجہ ذکرہ اللہ بالخیر نے اپنا خاص جامہ خواجہ عزیز اور برادرم حسن کو عطا کیا، اس طرح اس روز سعادت پر سعادت حاصل ہوئی، خواجہ عزیز نے جو غزل سنائی وہ یہ تھی، میرے پیش نظر قلمی نسخہ میں اشعار جس طرح درج ہیں اسی طرح نقل کئے جاتے ہیں۔
گر پردہ برکشائی ازاں دری در بہشت
روشن شود براہل نظر حالِ خوب وزشت
گل را صفت کنم مہ وخور شید را اگر
اے ہر کہ خوب خوب بہ پیش تو زشت زشت
رضواں اگر بہ بیند خشتِ درت کنند
جملہ نگار خالہ فردوس خشت خشت
کاغذز گریہ ترشد وخامہ ز آہ سوخت
حال دلِ خراب بگو چو توان بنشت
گشت امید گشتم تو توابررحمتی
بگذر دکشت زار کہ رست کشت کشت
چندیں حسن بریشہ جہاں دل چہ بستہ
سلست اگر کسست زیں سر سرشت رشت
یہ امیر حسن سنجری ہی کی غزل ہے مگر ان کے مطبوعہ دیوان میں مذکورہ بالا اشعار دو علٰحدہ علٰحدہ غزلوں میں روح ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ عزیز ایبک نے دونوں عزلوں کے کچھ اشعار کو لے کر ایک ساتھ لگادیا اور بقیہ اشعار کو چھوڑ دیا، میرے پیش نظر قلمی نسخہ میں اشعار کی کتابت میں بڑی غلطیاں ہیں، مطبوعہ نسخہ میں مطلع پہلا مصرع اس طرح ہے:-
گرپردہ برکشائی ازاں روئے چوں بہشت
قلمی نسخہ میں یہ مصرع اس طرح لکھا ہے۔
گر پردہ برکشائی ازاں روئے در بہشت
دوسرے شعر کے پہلے مصرع میں مطبوعہ نسخہ میں مہ و خورشید را اگر کے مہ و خورشید را کراہے، اسی کے دوسرے شعر میں اے ہر کہ کے بجائے آنکہ ہے، تیسرے شعر کے پہلے مصرع میں مطبوعہ نسخہ میں رضواں اگر بہ بیند(؟) ہے، ۔۔ تھے شعر کا دوسرا مصرع نسخہ میں بالکل بدلا ہوا ہے اور وہ ہے:-
شرع فراق خویش بتو چوں تواں نوشت
پانچویں شعر کے پہلے مصرع میں مطبوعہ نسخہ میں کشت امید کے بجائے غم امید ہے، دوسرا مصرع یہ ہے۔
بگذر بکشت زار کہ زارست حال کشت
آخری شعر کے پہلے مصرع میں چنداے حسن بریشہ جاں کے بجائے مطبوعہ نسخہ میں حسن برشتۂ جاں ہے اور اس کا دوسرا مصرع اس طرح ہے:-
سلست گر گسست چہ شد مربمش سرشت
کتابت کی ان غلطیوں کو نظر انداز کر کے اس مجلس میں جو کیفیت طاری ہوئی اس کے ایسا نقشہ فوائدالفواد میں نہیں ملتا، اسی طرح افضل الفوائد میں ہے کہ ایک موقع پر فرمایا کہ میں نے قصص الانبیا میں لکھا دیکھا کہ حضرت داؤد علیہ السلام اس قدر روئے تھے کہ ان کے گوشت پوست اور رخسار کی ساری چیزیں بہہ گئی تھیں، آپ سے پوچھا گیا کہ آپ یہ کیا کرتے ہیں، جواب دیا کہ میں کیا کروں، کہ میرا یہ دیدہ ان چیزوں کو دیکھتا ہے جن کو نہ دیکھنا چاہئے، میں حق تعالیٰ سے مغرفت چاہتاہوں کہ وہ مجھ کو اس کے لئے بخش دے، جب خواجہ ذکراللہ! بخیر نے یہ حکایت بیان کی تو حسن سنجری مجلس میں حاضر تھے وہ جھکے اور عرض کیا کہ اسی بات کو اس نے چند مصروعوں میں ادا کیا ہے، اگر حکم ہو تو عرض کروں، فرمایا سناؤ، وہ اشعار یہ ہیں:-
شبے آن چشم مست وآں لب خونخوار را دیدم
زگریہ چشم من خون شد پشیمانم چرا دیدم
ندید ایں چشم من بر سرزلف بلا شوری
ازیں چشم پریشاں بیں ہمیشہ ایں بلادیدم
خواجہ ذکرہ اللہ بالخیر نے ان اشعار کو سن کر بڑی تعریف کی، (صفحہ 38-37) اوپر جن دونوں میں مجلسوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان دونوں میں امیر حسن سنجری موجود تھے، انہوں نے اپنی فوائدالفواد میں ان کا ذکر نہیں کیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کہہ رہے تھے کہ ان کو امیر خسرو قلم بند کر رہے ہیں پھر ان کو اپنی فوائدالفواد میں کیسے ذکر کرتے حسن سنجری کے مطبوعہ نسخہ میں مذکورۂ بالا غزل ہے جس میں چھ اشعار ہیں مگر افضل الفوائد میں صرف تین ہی اشعار حسب مطلب نقل کئے گئے ہیں، اوپر کے دوسرے شعر میں کتابت کی بھونڈی غلطیاں ہیں، اس کا پہلا مصرع مطبوعہ دیوان میں اس طرح ہے۔
ندید ایں چشم من جز در سر زلف بلا شورش
اب کتابت کی ان غلطیوں کو دیکھ کر کوئی یہ کہے کہ یہ شعر جعلی ہے تو کیا یہ کہنا صحیح گا، اسی طرح آخری شعر کا دوسرا مصرع مطبوعہ نسخہ کے مصرع سے بالکل مختلف ہے، مطبوعہ نسخہ میں یہ مصرع اس طرح ہے۔
مرا گفتند گفت دل مکن کردم سزا دیدم
اس اختلاف سے کیا نتیجہ نکالا جاسکتا ہے، ایک تو یہ کہ یہ سب کچھ جعلی اور فرضی ہیں، دوسری یہ کہ کتابت غلطیاں ہیں یا یہ کہ ملفوظات قلم بند کرنے میں سہو ہوگیا ہو، اس کے بعد یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایسی بہت سی غلطیاں اور ہوں گی جن کو دیکھ کر یہ فرضی بات گڑھنے آسانی ہوگئی کہ یہ ملفوظات جعلی ہیں، اگر ذہن صاف ہو تو اوپر کی جن دو مجلسوں کی پرکیف باتوں کا ذکر آیا ہے ان میں سے نکتے پیدا کئے جاسکتے ہیں جو اور دوسے مجموعۂ ملفوظات میں نہ ملیں گے، ایسے ہی اور مجلسوں میں بھی پائے جاتے ہیں، مثلاً
ایک بار عشق پر کچھ باتیں نکل پڑیں تو خواجہ ادام اللہ برکاتہٗ کی آنکھیں پُر آب ہو گئیں یہ اور شعر زبان پر لائے۔
فلولا کم ماعرفنی الھویٰ
ولولا الھویٰ ماعرفنا کم
پھر شوق و اشتیاق (جذبۂ عشق) سے مغلوب ہوکر یہ دو شعر پڑے۔
گر عشق نبودی وغمِ عشق نبودی
چندیں سخت عشق کہ گفتی کہ شنودی
گر باد نبودی سر زلفش کہ ربودی
رخسارۂ معشوق بہ عاشق کہ نمودی
ایک دوسری مجلس میں ہے کہ خواجہ کی چشم پُر آب ہوگئی اور فرمایا کہ عشق کا سرمہ ایسا سرمہ ہے کہ اگر یہ آنکھوں میں لگا لیا جائے تو فرش سے عرش تک کوئی حجاب نظر نہیں آئے پھر یہ دو مصرے زبانِ مبارک پر لائے۔ (ص 39)
عشق آئینہ ایست کاندر وزنگی نیست
نامرداں را ازیں گل رنگی نیست
اگر یہ ساری باتیں لفظ بہ لفظ کسی اور مجموعہ و ملفوظات میں پائی جائیں تو پھر یہی سمجھا جائے گا کہ یہ ملفوظات مسروقہ ہیں ورنہ یہ سمجھنے میں تامل نہ ہونا چاہئے کہ یہ باتیں ایک عارف باللہ ہی کی زبان سے نکل سکتی ہیں اور ایک صاحب دل ہی ان کو قلم بند کرسکتا ہے ورنہ ایسی مجلسوں سے دور رہ کر کوئی محض ملفوظات کے ایک مجموعہ کو فروخت کرنے کی خاطر نہیں لکھ سکتا۔
افضل الفوائد میں حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا کی زبانی ان کے مرشد سے متعلق جو بعض باتیں ہیں وہ ان ہی سے معلوم ہوسکتی ہیں، یہ اور دوسرے ملفوظات میں نہیں گئی مثلا ایک موقع پر فرمایا کہ ایک بار شیخ الاسلام فریدالحق والشرع والدین قدس سرہٗ العزیز بیٹھے تھے کہ سات درویش آئے ان میں ہر ایک کچھ نہ کچھ سوچ رہا تھا، ان کے سامنے میوہ کے ساتھ کھانا رکھا گیا، ہر ایک نے اقرار کیا کہ ہم لوگ بیس سال سے ایک مردِ خدا کی طلب کر رہے تھے، کسی کو نہیں پایا مگر خواجہ جی کو پالیا۔ (صفحہ 16)
ایک اور موقع پر فرمایا کہ شیخ الاسلام فریدالحق والدین کو انگور بہت پسند تھا، ایک بار حالت تفکر میں تھے کہ نفس کا تقاضہ ہوا کہ انگور کھائیں، اسی وقت قسم کھائی کہ جب تک میں زندہ ہوں اپنے نفس کی اس آرزو کو پورا نہ کروں گا، مولانا بدرالدین شیخ الاسلام کی صحبت میں رات دن رہتے تھے، انہوں نے بھی قسم کھالی کہ شیخ زندگی میں انگور نہ کھائیں گے، یہاں تک کہ وہ اپنے نفس پر غالب آ جائیں۔ (198)
ایک مجلس کے ذکر میں ہے کہ خواجہ ذکرہ اللہ بالخیر نے زبان مبارک سے فرمایا کہ شیخ الاسلام فریدالحق والدین کا معمول تھا کہ جب وہ عالم تحیر میں ہوتے تو ایک روز میں ہزار سجدے کرتے پھر اٹھتے یہاں تک کہ ان کی چشمِ مبارک سے خون رواں ہوجاتا اس وقت عالم صحو میں آتے۔ (صفحہ 99)
ایک اور مجلس میں فرمایا کہ مولانا بدرالدین اسحٰق نے بتایا کہ وہ ایک بار شیخ الاسلام فریدالحق والدین کے ساتھ سفر میں تھے وہ ایک دریا کے کنارے پہنچے وہاں کوئی کشتی نہ تھی، شیخ الاسلام نے میری طرف نظر کی اور بولے کہ میرے اور اپنے جوتے ہاتھ میں لو اور آؤ پانی کے اندر داخل ہوجائیں اپنی آنکھوں کو سامنے رکھو میں نے ایسا ہی کیا مجھ پر ایسی دہشت طاری تھی کہ میں کچھ بول نہیں سکتا تھا، ہم لوگ اپنی منزل پر پہنچ گئے تو میں نے پوچھا یہ کیسے ہوا فرمایا کہ سورہ مزمل پڑھ کر پانی پر پھونک دیا پھر اس کے اندر راہ مل گئی۔ (صفحہ 145)
نفل نمازوں کی برکتیں تو بہت ہی جزوی تفصیلات کے ساتھ بیان کی گئی ہیں، مثلاً ایک مجلس میں فرمایا کہ میں نے شیخ الاسلام فریدالحق والشرع والدین قدس سرہ العزیز سے سنا کہ جو شخص ہر مہینہ یہ نماز پڑھے تو اس کا درجہ بہشت میں اعلیٰ ہو، وہ نماز یہ ہے کہ چار رکعت کی نماز ایک سلام میں پڑھے، ہر رکعت میں الحمداللہ ایک بار پھر جو سورہ یاد ہو پڑھے پھر اٹھارہ بار سبحان اللہ تین بار سبحان ربی العظیم اور دس بار سبحان اللہ کہہ کر سر اٹھائے اور سمع اللہ لم حمدہ کہے، دس بار سبحان اللہ اور الحمداللہ آخر تک کہے، حالت قومہ اور تحیات سجود میں دس بار سبحان اللہ کہے، اس کے بعد سجدہ میں جائے سبحان ربی الاعلیٰ تین بار اور دس بار سبحان اللہ پڑھے سجدہ میں سر اٹھائے تو گیارہ بار سبحان اللہ کہے، دوسرے سجدہ میں اسی طرح دس بار سبحان اللہ کہے، اسی ترتیب کے ساتھ پوری نماز ادا کرے۔ (صفحہ 21)
افضل الفوائد میں جس وضاحت اور جزوی تفصیلات کے ساتھ حضرت فریدالدین گنج شکر کی رحلت کا واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ کسی اور مجموعہ ملفوظات میں نہیں، ناظرین ملاحظہ کریں۔
ایک سال 5 محرم کو خواجہ شیخ الاسلام فریدالحق والدین کا عرس تھا، مولانا وجیہ الدین پائلی، مولانا شمس الدین یحییٰ، مولانا برہان الدین غریب، شیخ عثمان سیاح، شیخ حسین نبیرۂ شیخ قطب الدین بختیار اوشی، مولانا زرادی، مولانا شہاب الدین میرٹھی، مولانا نصیر الدین کتابیٰ، حسن علا سنجری اور دوسرے عزیز خدمت میں حاضر تھے، خواجہ ذکرہ اللہ بالخیر نے شیخ فرید کی بزرگی اور اخلاق پسندیدہ کی باتیں شروع کیں تو رونے لگے، تمام حاضرین پر بھی اثر پڑا، اس کے بعد خواجہ ذکرہ اللہ بالخیر نے زبان مبارک سے فرمایا کہ حضرت خواجہ فرید نے 5 محرم کو وفات پائی جس رات کو خواجہ کبیر کی رحلت ہوئی، بندہ کو یہ کہہ کر یاد کیا کہ مولانا نظام الدین نہیں ہیں، اس کے بعد فرمایا کہ جب ان کی وفات کی ساعت قریب آئی تو وہ اٹھے، کھڑے ہوئے، صبح سے چاشت تک پانچ بار قرآن ختم کیا اس کے بعد ذکر میں مشغول ہوئے اتنا ذکر کیا کہ جسم سے خون رواں ہوگیا، جو قطرہ زمین پر گرتا اس سے اللہ کا نقش ظاہر ہوتا یہ رباعی پڑھ کر سجدہ کیا اور پھر سر اٹھا لیا۔
بوئے خوش تو زپیرہن می شنوم
شرح غم تو زخویشتن می شنوم
گر ہیچ نباشد کہ کسے بہ نشانم
تانام قومی گوید ومن می شنوم
اس کے بعد ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے، لوگ شیخ کے گرد جمع ہوئے تو ان کی طرف مخاطب کر کے کہا کہ وہ سب باہر بیٹھ جائیں، جب میں بلاؤں تو آئیں سب باہر بیٹھ گئے کچھ دیر کے بعد آواز آئی کہ یہی وقت ہے کہ دوست دوست سے ملے، یہ سن کر سب اندر چلے آئے، تو خواجہ کو دیکھا کہ وہ کسی اور ہی عالم میں ہیں، عشا کی نماز کا وقت ہوا تو چار بار نماز پڑھی، اس کے بعد سر بسجود ہوگئے اور اپنی روح حق کے حوالے کر دی پھر آواز بلند ہوئی جو ان کے تمام لوگوں نے سنی کہ ایک امانت رو نے زمین پر تھی، اب وہی امانت خدا کے سپرد ہوگئی، جب یہ باتیں ختم کیں تو پوری مجلس سے ہائے کانعرہ بلند ہو اور ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ کسی وقت ایسی نہیں ہوئی تھی۔ (صفحہ 121-122)
اعتراض تھا کہ افضل الفوائد میں وضاحت اور جزوی تفصیلات کے ساتھ باتیں نہیں کہی گہی ہیں اور حضرت فرید گنج شکر کی رحلت وضاحت اور جزوی تفصیلات سے بیان کی گئی ہے تو اعتراض ہے کہ اس میں بعض باتوں کے الحانی ہونے کا شبہ ہے، کیونکہ ایسی مبالغہ آمیز باتیں حضرت نظام الدین اؤلیا نے اپنی ان مجلسوں میں بیان نہیں کیں جو ملفوظات کی دوسری کتابوں میں ملتی ہیں۔ (صفحہ 86)
اور اگر اس کی نشاندہی کر دی جائے کہ فوائدالفواد میں بھی ایسی باتیں ہیں جو دوسروں کی نظروں میں مبالغہ آمیز معلوم ہوں تو کیا افضل الفوائد کو مستند تسلیم کر لیا جائے گا پھر فوائدالفواد سے ایسی کچھ باتوں کی مثالیں یہ ہیں:-
فرمایا کہ قاضی حمیدالدین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ کعبۂ مبارک کا طواف کر رہے تھے تو انہوں نے ایک بزرگ کو طواف میں دیکھا وہ ان کے پیچھے ہوگئے، جہاں وہ قدم رکھتے تھے تو اسی جگہ وہ بھی اپنا قدم رکھتے تھے، ان پیر روشن ضمیر یعنی بزرگ نے یہ دیکھ کر کہا کہ میری ظاہری متابعت کرتے ہو، میری وہ متابعت کرو جو میں کرتا ہوں، قاضی حمیدالدین علیہ الرحمۃ نے پوچھا آپ کیا کرتے ہیں، پیر صاحب نے فرمایا کہ میں ہر روز سات سو بار قرآن ختم کرتا ہوں قاضی حمیدالدین کو سخت تعجب ہوا اور وہ سونچنے لگے کہ قرآن کے معانی کو خیال میں لاتے ہوں گے اور خیال ہی میں پڑھتے ہوں گے لیکن پیر صاحب نے کہا لفظ بہ لفظ پڑھتا ہوں، خیال میں نہیں پڑھتا ہوں، جب خواجہ ذکرہ اللہ بالخیر نے یہ حکایت ختم کی تو اعزاالدین علی شاہ سلمہ اللہ تعالیٰ جو خاص مریدوں میں ایک تھے، وہاں موجود تھے، انہوں نے کہا یہ تو کرامت ہی ہے، خواجہ نے فرمایا کہ ہاں کرامت ہے جو معاملہ عقل میں نہ آئے وہ کرامت ہی ہوتی ہے۔ (فوائد الفواد، صفحہ 9)
فرمایا ایک بادشاہ بہت ہی صلاحیت والا اور صاحبِ کشف تھا، اپنے تخت پر بیٹھا تھا، اس کی نظر اپنے اصطبل کی طرف بھی جاتی تھی، اس کی ملکہ بھی اس کے پہلو میں تخت پر بیٹھی تھی، اس نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور دیر تک اس کی طرف آنکھ لگائے رکھی پھر اپنے اصطبل کی طرف دیکھا پھر اوپر کی طرف نظر کی، دیر تک آسمان کی طرف دیکھتا رہا، اس کے بعد اپنی ملکہ کو دیکھا اور رونے لگا ملکہ نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے کہ آپ نے دیر تک آسمان کو دیکھا پھر اصطبل کی طرف نظر کی اور پھر آسمان کو دیکھا پر میری جانب دیکھ کر رونے لگے؟ بادشاہ نے کہا کہ اس سوال کو چھوڑو، یہ کہنے کے لائق نہیں ہے، ملکہ نے اصرار کیا کہ ضرور بتاؤ، بادشاہ نے کہا اب تم اصرار کرتی ہو تو کہتاہوں، اس کے بعد بولا کہلو سنو اس وقت میری نظر لوح محفوظ پر گئی دیکھتا ہوں کہ میرا نام زندوں کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے، میں سمجھ گیا کہ میرے جانے کا وقت آگیا دوسری بار دیکھا اور خیال آیا کہ میری جگہ کون ہوگا تو ایک حبشی نظر آیا جو اس اصطبل میں ہے وہ میری جگہ ہوگا اور تو اس کے نکاح میں آئے گی (فوائد الفواد، صفحہ 283-282) اور یہی ہوا۔
فرمایا کہ شیخ شہاب الدین سہروردی نے اپنی کتاب میں یہ حکایت لکھی ہے کہ ایک جوان تھا، اسے قزوینی کہتے تھے اس کے گھر میں مردانِ غیب جمع ہوا کرتے تھے، نماز کے وقت لوگوں صف در صف کھڑے ہوتے، مردانِ غیب میں ایک شخص امامت کرتا، جماعت بلند قرأت، تسبیحات اور جو کچھ نماز میں ہوتا سنتی لیکن اسے نہ دیکھتی، بس وہ قزوینی ہی دیکھتا، شیخ شہاب الدین نے فرمایا کہ ان ہی مردانِ غیب میں ایک نے قزوینی کے ہاتھ ایک مہرہ میرے پاس بھیجا تھا اور وہ مہرہ ابھی تک میرے پاس ہے، اس کے بعد فرمایا کہ مردانِ غیب پہلے آواز دیتے ہیں اور اپنی آواز سناتے ہیں اس کے بعد ملاقات کرتے ہیں پھر اڑالے جاتے ہیں، آخر میں زبانِ مبارک سے فرمایا کہ راحت کا کیا مقام ہے جہاں وہ کسی کو لے جاتے ہیں،
فوائدالفود میں جو یہ روایت بیان کی گئی ہے کہ سورہ یٰسین پڑھ کر امام ناصری مر کر اور دفن ہوجانے کے بعد قبر سے باہر زندہ نکل آئے اس کی تفصیل تو افضل الفوائد کی روایتوں سے زیادہ حیرت انگیز ہے۔ (صفحہ 30)
ایک اعتراض یہ ہے کہ افضل الفوائد میں بہت سے مضامین وہ ہیں جو دوسری کتابوں میں تقریباً اسی انداز سے بیان ہوئے ہیں (صفحہ 85) لیکن اس سے پہلے یہ بھی اعتراض کیا گیا ہے کہ افضل الفوائد اور فوائدالفواد دونوں کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو معیار و اعتبار کا نمایاں فرق نظر آئے گا (صفحہ 84) یعنی افضل الفوائد میں وہ باتیں نہیں ہیں جو فوائدالفواد میں ہیں اور پھر یہ بھی کہ وہی باتیں دہرا دی گئی ہیں، اس دلیل کی تائید میں فوائدالفواد سے دو مثالیں دی گئی ہیں، ایک تو شمس الدین ایلتتمش کی سیرت سے متعلق ہے جس کا ذکر پہلے آچکا ہے اور اس میں یہ دکھایا جا چکا ہے کہ اگر اس روایت کی عبارت فوائدالفواد سے سرقہ کی جاتی تو اس کے الفاظ بالکل ملے جلے ہوتے دوسری روایت خواجہ بایزید بسطامی سے متعلق ہے، ہم یہاں پر افضل الفوائد اور فوائدالفواد دونوں کی عبارتیں نقل کرتے ہیں۔
افضل الفوائد
ہم دریں محل ایں حکایت فرمود کہ جہودے دیگر ہمسایہ خواجہ بایزید بود او را گفتند کہ مسلمان چرا نمی شوی او جواب داد کہ اگر مسلمانی اینست کہ بایزیز می کند من نمی توانم کردد اگر اینست کہ شما می کنید ازیں ننگ دارم۔ (صفحہ 29)
فوائد الفواد
آں گاہ ہم از نسبت صدقہ و دیانت در اسلام و اسلامیات حکایت فرمود کہ جہودی در جوار خانہ، بایزید بسطامی قدس اللہ سرہ العزیز خانہ داشت، چوں خواجہ بایز نقل کرد آں جہود را گفتند کہ تو چراس مسلمان نمی شوی؟ جہود گفت چہ مسلمان شوم اگر اسلام آنست کہ بایزید دانست آں اسلام از من نیاید و اگر اینست کہ شما دارید مرا ازیں اسلام عار می آید۔ (صفحہ 308)
یہ روایت جیسا کہ معترض کا بھی بیان ہے کہ خواجہ فریدالدین عطار کی تذکرۃالاؤلیا میں اس طرح ہے۔
گبرے را گفتند کہ مسلمان شو، گفت اگر مسلمان است کہ بایزید می کند من طاقت ندارم، و نتوانم کرد اگر اینست کہ شما می کنیدید من ہیچ اعتبار ندارم
اگر کوئی عیب جو ناقد یہ کہے کہ فوائدالفواد کی روایت بھی جعلی ہے، کیونکہ تذکرۃالاؤلیا کی رویت کچھ اور ہی ہے، تو کیا یہ تسلیم کر لیا جائے گا؟ پھر فوائدالفواد اور افضل الفوائد میں مذکورۂ بالا روایت کا مطالعہ لحاظ سے بھی کیا جائے کہ دونوں میں یہ روایت کس سلسلہ میں بیان کی گئی ہے تو فوائدالفواد سے یہ روایت مستعار لینے کا شبہہ ہی نہیں پیدا ہوگا، فوائدالفود میں یہ بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ کے عراق کے ایک بادشاہ کی فراست اور دانائی کے ذکر کے بعد کہی گئی ہے لیکن افضل الفوائد میں یہ روایت حقوق ہمسایہ میں بیان کی گئی ہے اگر یہ وضاحت اور جزوی تفصیلات ناظرین کے لئے گراں نہ ہوں تو اس کا سیاق و سباق ملاحظہ ہو۔
حقوقِ ہمسایہ پر گفتگو شروع ہوئی تو زبانِ مبارک سے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے مجھ کو ہمسایہ ہے کہ متعلق اتنی نصیحتیں کیں کہ گمان ہونے لگا کہ کہیں ہمسایہ کو مال بھی وراثت کا حق نہ ہو جائے، اس کے بعد حضرت خواجہ نے فرمایا کہ تذکرۃ الاؤلیا میں لکھا ہوا دیکھا کہ حضرت خواجہ بایزید بسطامی کے ہمسایہ میں ایک یہودی رہتا تھا وہ کسی سفر پر چلا گیا، اس کی بیوی کو حمل تھا، بچہ پیدا ہوا تو اس عورت کے گھر میں کوئی ایسی چیز نہ تھی کہ اس سے اپنا چراغ جلائے، بچہ تاریکی میں رویا کرتا تھا جب یہ خبر حضرت بایزید بسطامی کو ہوئی تو وہ ہر رات دوکان سے تیل لا کر اس یہودی عورت کو دیتے جب وہ یہودی سفر سے واپس آیا تو اس کی بیوی نے یہ تمام کیفیت بیان کی وہ یہودی شرمندہ ہوا، حضرت بایزید کی خدمت میں پہنچا اور پوچھا کہ آپ نے انتا لطف و کرم کیوں کیا؟ جواب دیا کہ ہمسایگی کے سبب سے کیونکہ ہمسایہ کا حق بہت بڑا ہے، اس کے بعد وہ یہودی مسلمان ہوگیا، اسی کے بعد حضرت خواجہ نظام الدین الاؤلیا نے یہ حکایت بیان کی کہ خواجہ بایزید کا ایک دوسرا یہودی بھی ہمسایہ تھا، اس سے لوگوں نے پوچھا کہ تم کیوں نہیں مسلمان ہوتے ہو تو اس نے جواب دیا کہ اگر مسلمانی وہی ہے جس پر بایزید عمل کرتے ہیں، تو میں اس پر عمل نہیں کرسکتا ہوں اور اگر مسلمانی وہ ہے جو تم کرتے ہو تو اس سے شرم آتی ہے۔
اگر ذہن صاف ہو تو پھر افضل الفوائد میں جس سلسلہ میں یہ روایت بیان کی گئی ہے اس سے یہ شبہہ نہیں پیدا ہوتا ہے کہ یہ فوائدالفواد سے لی گئی ہے، خصوصاً جب تذکرۃ الاؤلیا کا حوالہ صاف طور پر موجود ہے۔
اسی طرح یہ اعتراض ہے کہ اضل الفوائد میں ہے کہ ایک مرتبہ مولانا کیتھلی میرے پاس آئے کھانا موجو تھا، مبشر کو کہا کہ لاؤ اس نے لانے میں دیر کردی، میرے پاس ایک چھوٹی چھڑی تھی، اس کی پیٹھ پر ماری، مولانا کیتھلی نے اس طرح آہ کی گویا انہیں کی پیٹھ پر لگی ہے، میں نے پوچھا آپ نے آہ کیوں بھری، فوراً پیٹھ سے کرتا اتار کر مجھے دکھایا، جب میں نے نگاہ کی تو اس چھڑی کا اثر آپ کی پیٹھ پر موجود تھا، یہ واقعہ سیرالاؤلیا وغیرہ میں بھی بیان ہوا ہے۔ (ص 84)
میرے سامنے افضل الفوائد کا جو قلمی نسخہ ہے اس میں یہ واقعہ میری نظر سے نہیں گذرا مگر فوائدالفواد (112) اور سیرالاؤلیا (صفحہ 537) میں یہ ملفوظات ہیں، سیرالاؤلیا کی روایت تو فوائدالفواد ہی سے تقریباً لفظ بہ لفظ مستعار ہے مگر افضل الفوائد میں جو روایت بیان کی گئی ہے وہ کچھ مختلف ہے، فوائدالفواد میں ہے کہ بیشتر میرا خدمت گار بھی بچہ ہی تھا، اس نے بے ادبی کی تو اس کو ایک چھڑی ماری گئی، مولانا کیتھلی نے ایسے درد کا اظہار کیا کہ تم کہو گے کہ وہ چھڑی ان ہی کو ماری گئی وہ رونے لگے اور بولے کہ میری شومیت کی وجہ سے یہ المناک ہوئی، فوائدالفواد کی روایت میں یہ نہیں ہے کہ میں نے پوچھا آپ نے آہ کیوں بھری؟ فوراً پیٹھ سے کرتا اٹھا کر مجھے دکھایا جب میں نے نگاہ کی تو دیکھا اس چھڑی کا اثر آپ کی پیٹھ پر موجود تھا، اتنا ٹکڑا سیرالاؤلیا میں بھی نہیں ہے اگر یہ ملفوظات فوائدالفواد اور سیرالاؤلیا سے سرقہ کئے گئے ہیں تو اسے ٹکڑے کو کس مصلحت سے بڑھایا گیا کیا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حضرت خواجہ نے اپنی مجلس میں اس واقعہ کو اس طرح دہرایا جس طرح کہ افضل الفوائد میں منقول ہے؟ پھر سیرالاؤلیا اور فوائدالفواد کی عبارتوں میں بھی کچھ تھوڑا سا فرق ہے، فوائدالفواد میں ہے۔
مبشر کہ خدمت گار نست ہنو ز طلف بود مگر او بے ادبی کرد
سیرالاؤلیا میں ہے۔
’’بیشتر خدمتگاران پیش من جمع شدہ بودند، یکے ازان بے ادبی کرد
دونوں عبارتوں میں جو تھوڑا اختلاف ہے اس کے متعلق ایک خردہ گیر ناقد کی کیا رائے ہوسکتی ہے۔
افضل الفوائد اور فوائدالفواد کی ملی جلی روایت کی ایک مثال کی اور نشاندہی کی گئی ہے، دونوں عبارتیں ملاحظہ ہوں۔
افضل الفوائد
’’بعد اثران فرمود کہ شبیدہ ام از زبان شیخ الاسلام فریدالحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کہ وقتے در نیشاپور مغل در آمد وجملہ نیشاپور را گرد گرفت خلیفہ آں شہر کماں را نزد خواجہ فریدالدین عطار فرستاد وگفت بردید و بگوئید کہ دعا کنید، خواجہ فرمود کہ عار دعا گذشت بلائے خدا را ساختہ باید تقدیرایں ست، بدعائے تقدیر را بدل نتوانم کرد، پس راضا باشد، بہرچہ تقدیر است خدائے را’’ (صفحہ 91)
فوائدالفواد
’’ملائم ایں سخن حکایت فرمود کہ در آنچہ خروج کفار تتار شد چوں بلائے مغل بہ نیشاپور رسید بادشاہی کہ آنجا بود کس بر شیخ فریدالدین عطار فرستاد قدس اللہ سرہ العزیز کہ دعائے بکن! او جواب گفت کہ وقت دعا گذشت وقت نرضا است یعنی بلائے خدا نازل شد تن برضا باید داد، بعد ازاں فرمود کہ بعد از نزول بلا ہم دعا باید کرد، اگر چہ بلا دفع نشود اما صعوبت بلا کم شود‘‘ (89)
سیرالاؤلیا میں بھی یہ ملفوظات ہیں جو اس طرح درج ہیں۔
ملائم فرمود چوں ندانے بلائے مغل نیشاپر رسید حاکم آنجا کس برشیخ فریدالدین عطار فرستاد کہ درعا بکن او جواب گفت وقت دعا گذشت و کنوں وقت رضاست، بعد از آں فرمود کہ بعد نزول بلا بہم دعا باید خواند اگر چہ بلا دفع نشود اما صعوبت بلا کم شود، و بعدہٗ فرمود چوں بلا نازل شد باید کہ ازان بلا ہیچ کر، ماہیت ندارد‘‘ (ص424)
ان تینوں کتابوں میں جو یہ ملفوظات نقل کئے گئے ان کے سیاق و سباق مطالعہ کرنا ضروری ہے، افضل الفوائد میں یہ ملفوظات اس گفتگو کے موقع کے ہیں جب مجلس میں اس کا ذکر تھا کہ جو کچھ تقدیر میں ہے وہ بدلا نہیں جاسکتا، فوائدالفواد میں یہ ملفوظات اس موقع کے ہیں جب یہ ذکر تھا کہ نزول بلا سے پہلے کی دعا قبول ہوتی ہے، سیرالاؤلیا میں یہ ملفوظات ادعیہ ماثورہ کے بیان کے سلسلہ میں درج ہیں پھر سیرالاؤلیا اور فوائدالفواد کے کچھ الفاظ تو مشترک ہیں مگر افضل الفوائد کے ملفوظات معناً تو یکساں ہیں لیکن لفظاً مختلف ہیں جو اس بات کا ثبوت ہوسکتا ہے جو یہ عبارتیں فوائدالفواد یا سیرالاؤلیا سے سرقہ نہیں کی گئی ہیں پھر افضل الفوائد میں خلیفہ فوائدالفوائد میں بادشاہ اور سیرالاؤلیا میں حاکم کیوں درج ہے، اس اختلاف کی وجہ سے کیا بتائی جاسکتی ہے، کیا یہ دلیل قابل قبول ہوسکتی ہے کہ اس روایت کو بیان کرتے وقت خود حضرت خواجہ کی زبانِ مبارک سے مختلف مجلسوں میں یہ اختلاف پیدا ہوگیا۔
افضل الفوائد اور فوائدالفواد دونوں میں شیخ فریدالدین عطار کی تذکرۃ الاؤلیا سے روایتیں نقل کی گئی ہیں، ان ہی میں افضل الفوائد کی ایک روایت کا اردو ترجمہ منادی کے امیر خسرو نمبر کے صفحہ 86 پر درج ہے جس کا فارسی متن یہ ہے۔
بعد ازاں سخن در برکت یافتن خواجہ حسن بصری حکایت فرمود کہ خواجہ حسن طفل طود، روزے در کوزہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم آب بخورد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سید کہ ازیں کوزہ آب کہ خورد' گفتند حسن چنانچہ ازیں کوزہ آب بخورد علم برو سرایت کند‘‘ (افضل الفوائد قلمی نسخہ صفحہ 164)
یہ روایت تذکرۃ الاؤلیا میں اس طرح درج ہے۔
نقل است کہ حسن طفل بود یک روز از کوزہ پیغامبر علیہ السلام آب خورد در خانۂ ام سلمہ رضی اللہ عنہا، پیغامبر گفت علیہ السلام ایں آب کہ خورد گفت چندانک ازیں آب خوردلم من بد وشرایت کند۔ (صفحہ 24)
افضل الفوائد اور تذکرۃ الاؤلیا کی روایتیں معناً ایک ہیں مگر لفظاً ایک نہیں ہیں جس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ تذکرۃالاؤلیا سے نقل نہیں کر لی گئی ہیں بلکہ یہ زبانی دہرائی گئیں جو اسی طرح قلم بند کر لی گئیں۔
افضل الفوائد میں یہ بھی روایت بیان کی گئی ہے کہ:-
مادر خواجہ حسن بصری از موالی حضرت ام سلمہ بود چوں مادرش بہ شنوں شدی خواجہ حسن بگریستی کہ ہنوز شیر نمی خوردہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا پستان شریفہ خود در دہان او نہادی نابمکیہ ہی وفطرہ شیر پدید آمدی، بعد ازاں خواجہ ذکرہ اللہ بالخیر بر لفظ مبارک راند کہ چوں ہزار برکت کہ حق تعالیٰ در دی پدید آورد و آں از برکت او بود‘‘ (صفحہ 164)
تذکرۃ الاؤلیا میں یہ روایت اس طرح درج ہے۔
مادر او از موالی ام سلمہ رضی اللہ عنہا بود چوں مادرش بہ کاری مشغول شدی، حسن در گریہ آمدی، ام سلمہ رضی اللہ عنہاپستان خود در دہایش نہادی تا او بمکیدی، فطرۂ چند شیریں پدید آمدی، چنداں ہزار برکات کہ حق از وپدید آورد ہمہ ازاثر شیر ام سلمہ رضی اللہ عنہا بود’’ (صفحہ 24)
یہ روایت بھی معناً ایک ہے لیکن تذکرۃ الاؤلیا سے نقل کی ہوئی نہیں ہے کیونکہ اس کو بیان کرنےسے پہلے حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا نے یہ فرمایا کہ۔
سخن در بزرگی شیخ معین الدین سنجری افتاد، حکایت فرمود کہ آں روز کہ شیخ معین الدین بخدمت شیخ عثمان ہارونی نوراللہ مرقدہٗ پیوست و بیعت اورد و نیز برفوائد کہ از زبان گوہر بیان شیخ می شنید آں را بقلم آدرد، چنانچہ ایں حکایت در بزرگی خواجہ بصری در آں فوائد بنشتہ دیدہ ام‘‘ (صفحہ 163)
اس سے ظاہر ہے کہ خواجہ حسن بصری سے متعلق چشتیہ سلسلہ کے بزرگوں میں ایسی روایتیں برابر بیان کی جاتی رہیں جو غالباً تذکرۃ الاؤلیا ہی کی ہوتیں تذکرۃ الاؤلیا کی ان ضعیف روایتوں کے دہرانے اور ان کو ملفوظات کے کسی مطبوعہ میں قلم بند کرنےسے پورا مجموعہ جعلی قرار نہیں دیا جاسکتا ہے، پہلے ذکر آ چکا ہے کہ صوفیائے کرام کی مجلسوں میں اثر پیدا کرنے کی خاطر موضوع حدیثوں کے ساتھ غیر مستند روایتوں کا سہارا بھی لے لیا جاتا۔
افضل الفوائد اور فوائد میں مشترک اشعار کے ہونے سے دلیل فراہم نہیں کی جاسکتی ہے کہ یہ سب کچھ فوائدالفوائد سے سرقہ ہے اگر فوائدالفواد کے اشعار در نظامی میں پائے جاتے ہیں تو وہ فرضی نہ سمجھے جائیں لیکن وہی اشعار افضل الفوائد میں پائے جائیں تو یہ مسروقہ قرار دیئے جائیں، یہ عجب منطق ہے۔
اشعار کے غلط نقل ہونے کی مثالیں گذشتہ اوراق میں آچکی ہیں اس لئے وزن کی غلطیاں بھی ملفوظات کے فرضی ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتیں۔
اگر مختلف نسخوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ سارے شکوک آسانی سے رفع ہوسکتے ہیں‘‘۔
یہ اعتراض بھی صیحح نہیں کہ افضل الفوائد میں حضرت خواجہ بختیار کاکی کی وجہ تسمیہ غلط بتائی گئی ہے، معلوم نہیں کاکی کی وجہ تسمیہ کتنی بتائی گئی ہے اور اب تک یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کون سی صیحح ہے۔
شروع کے خواجگانِ چشت کے ساتھ افضل الفوائد پر یہ بھی اعتراض ہے کہ ان جعلی ملفوظات کی تاریخیں بھی اکثر غلط ہیں، اس کا یہ جواب کیا قابل قبول ہوسکتا ہے کہ طبقات ناصری بہت اہتمام سے لکھی گئی ہے، پھر بھی اس میں بہت سے سنین صیحح ہیں تو کیا پھر طبقاتِ ناصری جعلی قرار دی جائے گی تاریخ فرشتہ میں ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی غزنین سے لاہور سے دہلی ہوتے ہوئے اس وقت اجمیر آئے جب کہ سید حسین مشہدی المشہور بہ جنگ سوار اجمیر کے داروغہ تھے اورتاریخ 10محرم 560 ہجری بتائی ہے جو یقیناً غلط ہے (جلد دوم صفحہ 377) یہی روایت سیرالعارفین میں ہے (صفحہ 12-13) کیا حضرت خواجہ معین الدین چشتی شہاب الدین غوری کے ہندوستان کے حملہ کے موقع پر اجمیر میں نہ تھے؟ سیرالعارفین میں ہے کہ لاہور میں حضرت شیخ سعدالدین حمویہ کے پیر شیخ زنجانی حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی بے حد دوستی اور محبت ہوگئی تھی مگر یہ صحیح نہیں کیونکہ شیخ حسین زنجانی شیخ علی ہجویری کے پیر بھائی تھی جو شیخ علی ہجویری کے لاہور آنے سے پہلے وفات پا گئے تھے، اسی طرح سیرالعارفین میں ہے کہ جس سال حضرت خواجہ معین الدین لاہور پہنچے اسی سال حضرت علی ہجویری کا انتقال ہوا تھا یہ روایت بھی صحیح نہیں کیونکہ حضرت علی ہجویری کی وفات 465ہجری کے آغاز تک بتائی جاتی ہے جس سے یہ ظاہر ہے کہ حضرت خواجہ کی پیدائش سے بہت پہلے حضرت علی ہجویری کا وصال ہو چکا تھا، سیرالعارفین اور تاریخِ فرشتہ میں سنن اور واقعات کی ان غلطیوں کی وجہ سے کیا یہ دونوں کتابیں جعلی اور فرضی سمجھی جانے کی مستحق ہیں۔
یہ بھی اعتراض ہے کہ ان جعلی ملفوظات کے مجموعوں میں زندگی کی ہمک اور موضوعات میں تنوعات بھی نہیں، ان کے مطالعہ میں دل کو سرور اور دماغ کو نور حاصل نہیں ہوتا ہے۔ (صفحہ 77) سرور اور نور کا حاصل کرنا ایک اضافی چیز ہے، بزرگانِ دین کو تصوف کے ذریعہ سے تصفیۂ قلب، تجلیہ باطن، عشقِ الٰہی، اسرار الٰہی اور نورِ الٰہی حاصل ہوا کئے ہیں، صوفیائے کرام نے اسلام کی جو خدمات انجام دی ہیں، ان سے اسلام کی روحانی اور اخلاقی تعلیمات کی تاریخ جگمگا اٹھی ہے مگر 1976عیسوی میں دہلی میں امیر خسرو کا جو بین الاقوامی سمینار ہوا، اس میں ایک بیرونی ملک کے ایک بہت ہی ممتاز نمائندہ نے یہ دعویٰ کیا کہ تصوف کا کوئی تعلق اسلام سے نہیں، اس کی تائید ہندوستان کے ایک پروفیسر صاحب نے بھی کی پھر 1977عیسوی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسلام کی تشکیلِ جدید پر جو سمینار ہوا اس میں ایک متقشف عالم نے مجھ سے کہا کہ اسلام کو تصوف سے جتنا نقصان پہنچا ہے کسی اور چیز سے نہیں پہنچا، موجودہ دور کے بہت بڑے متکلم اسلام مولانا مودودی کا بیان ہے کہ تصوف کا کام افیون کا چکا لگا کر تھپک تھپک کر سلا دینا ہے اور اس کو چنیا بیگم قرار دے دیا، اس کے ماننے والے کو مزمن مریض کہا ہے۔ (تجدید و احیاء دین، صفحہ 73-74)
مگر اسی چنیا بیگم کے عشاق میں سے حضرت خواجہ حسن بصری حضرت بایزید بسطامی حضرت جلال الدین رومی، حضرت عبدالقادر جیلانی، حضرت شہاب الدین سہروردی، حضرت ابوالحسن علی ہجویری، حضرت خواجہ معین الدین چشتی، حضرت بختیار کاکی، حضرت فریدالدین گنج شکر، حضرت نظام الدین اؤلیا، حضرت باقی باللہ، حضرت مجدد الف ثانی، حضرت شاہ ولی اللہ اور ان ہی کی طرح اور بزرگانِ دین اور مردانِ حق رہے، کیا وہ مزمن مریض رہے کیا ان سے اسلام کو نقصان پہنچتا رہا اگر ان کے اسمائے گرامی اسلام کی تایخ سے نکال دئے جائیں تو اسلام کی کوئی روحانی تاریخ مرتب نہیں ہوسکے گی۔
اگر تصوف سے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوتا تو اس کے لئے تصوف نہیں بلکہ تاریک ذہن اور بیمار دل مورد الزام ہے، رہا نور اور سرور کا حاصل ہونا تو کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کو نور اور سرور اس میں حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی تحقیقات سے یہ ثابت کر دکھائیں کہ امیر خسرو عاشق مزاج اور عشق باز تھے، وہ مسلسل عشق کرتے رہنے میں ایمان رکھتے، وہ ایک گائک اور نالک بھی تھے، ان کی صحبت ڈھاری، ڈفالی اور سازندوں کے ساتھ رہتی تھی، انہوں نے نہ تو کبھی اپنے کو پارسا ظاہر کیا اور نہ صوفیت بگھاری، بلکہ ہمیشہ اپنے ایک رند اور قلندر ہونے پر فخر کیا وہ طماع، ہوس زر میں مبتلا، کذب گو اور سیبہ رو شاعر تھے، اس قسم کے مباحث پروفیسر ممتاز حسین کی کتاب، امیر خسرو حیات اور شاعری میں ملیں گے جو پاکستان میں امیر خسرو کے ساتھ سو سالہ جشن کی کمیٹی کی طرف سے شائع ہوئی ہے، پروفیسر صاحب کو اس قسم کی باتیں لکھنے میں خاص نور اور سرور حاصل ہوا مگر یہ وہ لوگ ہیں جو ہماری مذہبی روحانی اور ثقافلی وراثت کا تمسخر کر کے ہم کو اپنے ماضی کی عظمت سے بیگانہ کرنا چاہتے ہیں، اسی لئے ہم کو یہ احتیاط کرنی چاہئے کہ ہم ان جیسے لوگوں کے لئے اپنی تحریروں میں ایسا مود نہ فراہم کر دیں جن سے فائدہ اٹھا کر وہ تحقیق کی آڑ میں اسلام اور تصوف دشمنی کا ثبوت دیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.