Font by Mehr Nastaliq Web

ذکر خیر خواجہ رکن الدین عشقؔ

ریان ابوالعلائی

ذکر خیر خواجہ رکن الدین عشقؔ

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    اس بر صغیر میں سلسلۂ ابوالعلائیہ کا فیضان اور مقبولیت اِس قدر ہوئی کہ ہر خانقاہ سے اس کا فیض جاری و ساری رہا۔ سلسلۂ ابوالعلائیہ کے بانیٔ مبانی، محبوب جل و علا حضرت سیدنا شاہ امیر ابوالعلاء اکبرآبادی قدس سرہ، متوفیٰ 1061ھ ہیں۔ یہ سلسلہ دراصل نقشبندیہ کے اصول تعلیم کا مختصر نصاب ہے، اس لیے اس میں عشق و توحید کی تعلیم لازمی ہے۔ ظاہری وجاہت اور شان و شکوہ کے پردے میں فقیری پوشیدہ ہے، وجد و سماع کا شغف خاص ہے۔

    محبوب جل وعلا کے ممتاز خلیفہ، حضرت سید دوست محمد ابوالعلائی برہانپوری، متوفیٰ 1090ھ، وہ بزرگ ہستی ہیں جن کے دستِ حق پر حضرت شاہ رکن الدین عشقؔ کے جد فاسد، حضرت شاہ مرزا محمد فرہاد ابوالعلائی دہلوی، متوفیٰ 1135ھ، مرید ہوکر سلسلہ کے مجاز ہوئے اور اپنے پیرِ بے نظیر کے حکم کے مطابق برہانپور سے دہلی آ کر اپنا چشمۂ فیض جاری کیا۔

    بقول میرے دادا مکرم، شاہ اکبر داناپوری کہ

    آستانہ حضرت فرہاد کا

    خاص موقع ہے خدا کی یاد کا۔

    یہ سلسلہ ہندوستان میں کافی فروغ پایا۔ مثلاً اندھرا پردیش، اتراپردیش، مدھیہ پردیش وغیرہ میں اس کی بڑی مقبولیت ہوئی۔ لیکن صوبۂ بہار میں حضرت خواجہ شاہ رُکن الدین عشقؔ عظیم آبادی کے ذریعہ اکثر خانقاہوں میں اس کے فیوض و برکات جاری و ساری ہوئے۔

    حضرت رُکن الدین عشقؔ کی تاریخ ولادت میں تذکرہ نویس کی مختلف رائے ہے۔ کیفیت العارفین، تذکرۃ الصالحین نے 1137ھ لکھی، یادگارِ عشقؔ کے مطابق 1103ھ، علاوہ درجنوں مورخین نے 1137ھ کی روایت کو قبول کیا۔ لیکن نانا حضرت شاہ فرہاد دہلوی کی ضعیف العمری اور کم سنی کے واقعات (نسخۂ کیمیا) صاحبِ نجاتِ قاسم کے مطابق مذکورہ واقعات سے مختلف ہیں۔

    جائے پیدائش دہلی، اپنے نانا کی قیام گاہ تھی۔ قیاس اغلب یہ ہے کہ پیدائش تقریباً 1125ھ کے درمیان ہوئی ہو۔ والد کی جانب سے آپ فاروقی ہیں، بقول صاحب کنزالانساب:

    شیخ محمد کریم ابن شیخ طفیل علی کہ نسب نسبت داشتہ فاروقی از اولاد حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ۔

    والدہ، مسماۃ بی بی عصمت النساء بیگم عرب بوبو صاحبہ، بنت حضرت فرہاد ہیں۔

    آپ کے نام میں لفظ 'مرزا' نانا کی وجہ سے اضافہ ہوا، جس کو فقیری کی شان کہتے ہیں۔ خود ایک شعر میں ظاہر کرتے ہیں:

    خطاب آتا ہے ہر دم اے عشقؔ

    مبارک ہو تجھے یہ مرزائی

    ابتدائی تعلیم و تربیت یقیناً اپنے نانا کے زیر نگرانی ہوئی ہوگی۔ بڑے خوبرو اور خوش اخلاق خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ بقول صاحب صوفیائے بہار اردو

    دہلی کے بہت ہی ذی عزت صوفی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ دُرانیوں کے حملے کے بعد جو طوائف الملوکی کا شکار ہوئی، اس سے گھبرا کر انہوں نے ترک وطن کیا۔

    آپ حملے کے بعد شاہجہان آباد کی طرف آئے۔ بقول صاحب گلشنِ ہند

    ایام شباب میں شاہجہان آباد سے مرشد آباد آئے اور خواجہ محمدی خان (مرید حضرت فرہاد) کے ہمراہ ایک مدت تک ایام حیات بعزت تمام بسر کیے۔

    اگرچہ نہ کچھ خدمت کام رکھتے تھے، لیکن آنکھوں میں امرایانِ بادشاہ مرشد آباد کی نہایت احترام رکھتے تھے۔ بقول صاحب تذکرہ ہندی۔

    بہت عزت اور حرمت کے ساتھ بسر کرتے۔

    جناب میر حسن دہلوی نے اپنی کتاب تذکرہ شعرائے اردو میں نوکری و پیشہ کا لفظ استعمال کیا، ممکن ہے آپ اِس طرح زندگی کے کچھ وقت بسر کرتے رہے، لیکن یہ روایت قابل قبول نہیں کہ میر قاسم کی رفاقت میں آپ فوج کے سپہ سالار یا ملازم تھے، کیونکہ میر قاسم 1764ء کے درمیان شجاع الدولہ کے ہاتھوں قید کیے گئے۔

    غرض، حضرت عشقؔ تک ملازمت ہوئی، دل میں عشقِ حقیقی کی آگ لگی، طلب پیر کا جذبہ پیدا ہوا، اور دنیاسے کنارہ کش ہوئے۔ بقول صاحب اخبارالاؤلیا

    شروع شروع میں آپ کی طبیعت طریقۂ سرہندیہ کی طرف مائل تھی۔

    تذکرۃ الصالحین کے مطابق

    اول طریقہ سرہندیہ حضرت سید احمد سرہندی سے حاصل کیا، بعد اس کے شوق ہوا کہ اپنے نانا کے حلقے میں دیکھیں۔

    ایک دفعہ حضرت شاہ برہان الدین خدانما لکھنوی، متوفیٰ 1187ھ، جو فقہ و اصول فقہ کے لیے دہلی میں مشہور تھے، نے اک پاکیزہ محفل میں عین عالم و جدّا آپ سے معانقہ فرمایا۔ صرف اسی معانقہ کے ذریعہ آپ کے طریقۂ سرہندیہ مجددیہ کی جانب میلان پیدا ہوا اور ارشاد فرمایا کہ خاندانی طریقہ حاصل کریں۔

    چنانچہ مدت تک ان کی صحبت میں حاضر رہے۔ بعد از تعلیم، اپنے شباب کے زمانے میں بطور سیر، دہلی سے پورب کی طرف چند لوگوں کے ہمراہ تشریف لے گئے۔ بقول صاحب تذکرۃ الکرام

    آپ اسی نوکری کے ذریعہ دہلی سے عظیم آباد آئے، اور جب حضرت شاہ محمد منعِم پاکباز قدس سرہ کی فیض بخش کا حال سنا تو آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

    جب گفتگو ہوئی تو معلوم ہوا کہ حضرت شاہ منعِم پاکباز آپ کے نانا کے فیض یافتہ ہیں، اس سبب سے آپ کے فیضِ صحبت سے کامل اور اکمل ہوئے۔ بقول صاحب اخبارالاخیار

    اور یہاں پورا چھ مہینہ حضرت قطب العالم کی صحبت میں زیر تربیت رہے۔

    بلکہ صاحب حجۃ العارفین کے مطابق بارہ برس تک فیض سے مستفید ہوتے رہے۔ صاحب تذکرۃ الابرار

    بس آپ عظیم آباد ہی میں رہ گئے، حضرت شاہ منعِم پاکباز قدس سرہ نے آپ کا بڑا احترام کیا۔

    چھ مہینہ تک آپ حضرت شاہ منعِم قدس سرہ کے حلقہ میں بیٹھے، بعد اس کی اجازت سے آپ گولیار آئے۔ بقول صاحب تذکرۃ الصالحین

    بعد حصول بیعت حضرت مولانا (برہان الدین) نے قابلیت و افراد دیکھ کر خلافت و اجازت سلسلۂ ابوالعلائیہ فرہادیہ سے سرفراز فرماکر رخصت فرامایا۔

    دو بار جب آپ عظیم آباد تشریف لائے تو اس طرف کا تمام ملک آپ کے فیضان سے سیراب ہو رہا تھا۔ بقول صاحب مراۃ الکونین

    آپ کی بزرگی شہر عظیم آباد میں زبان زد خلائق ہے، اپنے وقت کے شیخِ عصر تھے۔

    بڑے بڑے عالی شان پٹنہ کے حلقۂ ارشاد میں داخل ہوئے، اور یہ حالت ہوئی جیسے امراء کے واسطے اسباب دنیاوی عزت و تفاخر کا سبب ہوتا ہے، اس سے بھی بڑھ کر حضرت عشقؔ کے حضور میں حاضری علماء و امرا اپنے واسطے مرتبۂ بلندی سمجھتے تھے۔ بقول صاحب یاد شعرا

    متوکل ہونے کی وجہ سے لوگوں کے دل میں ان کی بڑی عزت تھی۔

    ناحؔ نے سخن شعراء میں 'صاحب کمال' کہا، شیفتہؔ نے گلشن بے خار میں 'سخن پرداز' کہا، خلیلؔ نے گلزار ابراہیم میں 'صاحب حال' کہا، صاحب مسرتؔ نے 'افزائے عالی شان' کہا۔ طبقات الشعراء نے 'مرد بزرگ، درویش وضع، صاحب ارشاد' اور صاحب یادگار دوستاں نے 'درویش و درویش زادہ عالی نسب' جیسے عزت مآب القاب سے یاد کیا۔

    دیکھتے ہی دیکھتے، بقول صاحب اخبارالاولیا

    حضرت برہان الدین کے انتقال کے بعد ان کی صاحبزادی سے عقد فرمایا۔ آپ کے دو بیٹے تھے، اور دختر منسوب خواجہ محسن بن خواجہ آفتاب احمد بن خواجہ وجیہہ اللہ خان نوراللہ مرقدہ۔

    حضرت عشقؔ کے بڑے صاحبزادے، شاہ محمد حسین، تیرہ برس کی عمر میں وفات پا گئے اور دوسرے شاہ احمد حسین، متوفیٰ 1237ھ، جو خواجہ سید ابوالبرکات سے تعلیم و خرقہ یافتہ تھے۔ جب نعمتِ باطنی سے سرفراز ہوئے، تو عظیم آباد میں بقول صاحب اخبارالاولیا

    لبِ دریا ایک کشادہ اور بلند مکان تعمیر فرماکر قیام پذیر ہوئے، کہ اب تک یہیں آپ کی تکیہ واقع ہے۔

    رشد و ہدایت کے لیے ایک خانقاہ قائم کی، جو بارگاہِ عشقؔ سے موسوم ہوئی۔ بقول صاحب مقام محمود

    آپ صوفی سجادہ نشین تھے۔

    آپ کے اس سلسلہ کا فیضان خوب سے خوب جاری ہوا۔ مریدان و معتقدانِ عشقؔ بکثرت ہوئے، جن میں نواب احمد علی خان گیا، خواجہ محترم علی خان، خواجہ علی اعظم خان حاجیؔ، خواجہ عاصم خان، خواجہ مکرم خان حریفؔ (ابنان خواجہ محمدی خان)، میر غلام حسین شورشؔ عظیم آبادی، متوفیٰ 1195ھ، اور محمد علی عرف بھجو فِدوی عظیم آبادی وغیرہ شامل ہیں۔

    خلفا میں خواجہ سید شاہ ابوالبرکات ابوالعلائی عظیم آبادی، متوفیٰ 1256ھ، خلیفہ اعظم ہوئے۔ علاوہ ازیں شاہ عبدالرحمن شیرگھاٹوی، متوفیٰ 12??ھ، سید کبیر علی عرف دانش عظیم آبادی، میر عسکری عظیم آبادی، متوفیٰ 1252ھ، میر حیدر جان دہلوی ثم عظیم آبادی، شاہ علی بہاری، شاہ نصر اللہ بنارسی، شاہ پیر محمد واصل مجذوبین (مدفون: بارگاہِ عشقؔ) شامل ہیں۔

    بقول صاحب تذکرۃ الابرار

    آپ کا جمال ظاہری ایسا تھا جس کو دیکھ کر آدمی متاثر ہوجایا کرتا تھا۔

    تذکرہ عشقیہ نے آپ کی حسن و عشق کو یوں ظاہر کیا

    حسن پرست، درد مند، صاحب حال و بود، از لذت عشق و مزاق صوفیہ چاشنی معقول داشت۔

    حال باطنی تو پوچھنا ہی نہیں، یعنی آپ کی ذات والادرجات، اخلاق محمدی کا آئینہ تھی، اور اسی آئینہ روشن کی جلوہ گری تادمِ آخر رہی۔ سلسلہ کی روز افزوں اشاعت میں، اخلاقی پہلو سب سے زیادہ نمایاں تھا، یارواغیار سب پر آپ کے خلق و محبت کا اثر یکسر رہتا۔ خاکساری و انکساری داخل فطرت تھی، ہجوم سے نفرت اور خلوت سے رغبت تھی۔ سلوک تو آپ میں داخل فطرت ہوچکا تھا، مگر شورش کے وقت جذبی حالت کا ظہور ہوتا تھا۔

    خلاصۂ کلام یہ کہ آپ کی ذات جامع کمالات صوری و معنوی تھی۔ یایوں سمجھیں کہ اس پردہ کے پیچھے، اپنے پیر رُون ضمیر اور اپنے نانا کی روحانیت کی جلوہ گری تھی۔ جیسے جیسے آپ کی شخصیت میں عشقؔ و توحید کی تعلیم لازمی ہوتی گئی، ویسے ویسے شاعری میں درد، سوز اور کیفیت کا اضافہ عشقؔ کے چکی میں پیس کر ہوتا گیا۔

    بقول قاضی حمیدالدین ناگوری، رسالہ عشقیہ میں

    اے دل! تو کب تک ان تفرقوں میں متفرق رہے گا؟ نفس و شیطان، خلقت و دنیا، کفرو اسلام، نیکی و بدی، بہشت و دوزخ سب کو محبت کے دائرے میں جمع کرا، اور محبت کی چکی میں پیس کر عشق کے ہاتھ سے گولی بنا کر وحدت کے دریا میں پینک دے، یعنی ولا یشرک بعبادۃ رب احدا۔

    شب و روز رشد و ہدایت اور تعلیم و تربیت میں مصروف رہنے کے باوجود، چند علمی تحریریں آپ کی یادگار ہیں، جن میں دودوادین بزبان فارسی و اردو، کئی مثنویات، ساقی نامہ، اور امواج البھار فی سرالانہار، علاوہ حضرت عشقؔ اپنے پیر و مرشد کے ملفوظات برہان العشقؔ کے نام سے جمع فرمایا، عشقؔ کے ملفوظ کو ان کے مرید میر غلام حسین شورشؔ نے بھی مرتب کیا، لیکن یہ اب نایاب ہے۔

    یہ بات بالکل غور طلب ہے کہ عشقؔ اپنی شاعری سے آج تک لوگوں میں زندہ ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ، صوفیانہ اور عاشقانہ شاعری میں آپ کا منفرد صوفی رنگ ہے۔ صاحبزادگانِ خواجہ محمدی خان کی سنگت نے عنوان شباب ہی سے شاعری کا مزہ چکھا، اور بعد میں عاشقانہ شاعری میں مست الست ہوگئی۔

    بعض تذکرہ نویس نے آپ کی شاعری نقل کی، لیکن یہاں فقط مسائل تصوف میں میکشؔ اکبرآبادی نے جو نقل کیے، وہ رقم کیے جاتے ہیں، جس سے آپ کی عارفانہ شاعری کا لطف ملتا ہے۔

    اس کے چہرہ پر خدا جانے یہ کیسا نور تھا

    ورنہ یہ دیوانگی کب عشق کا دستور تھا

    سرمۂ وحدت جو کھینچا عشق نے آنکھوں کے بیچ

    جوں سا پتھر نظر آیا وہ کوہِ طور تھا

    پاس آنے کو مرے مسافت کچھ نہ تھی

    غور کیا تو میں بھی دل سے ترے دور تھا

    لگ گیا ناگاہ اس پر یہ تیرا تیرگاہ

    دل کا شیشہ جو بغل میں ہم نے دیکھا وہ چور تھا

    دل کو تیرے دکھ دیا ہے عشقؔ، کن نے ہم سے کہا؟

    شوخ تھا، بے باک تھا، خونخار تھا، معزور تھا

    علاوہ ایک رباعی اور ایک شعر

    کوئی بت کہتے ہیں، کوئی خدا کہتے ہیں

    ہم سے جو پوچھو تو دونوں سے جدا کہتے ہیں

    دل کے دینے کے برابر کوئی تقصیر نہیں

    جو مجھے کہتے ہیں سو یارو بجا کہتے ہیں

    شعر۔

    بات کہنے کی نہیں طاقت، تو شکایت کیا کرو

    عشقؔ رخصت دے تو شورِ حشر اب برپا کرو

    واضح ہو کہ حضرت شاہ اکبر ابوالعلائی داناپوری نے اپنی دیوان اول تجلیاتِ عشقؔ کو حضرت عشقؔ کی طرف منسوب کیا۔ علاوہ اپنے دوسرے دیوان جذباتِ اکبرؔ میں فرماتے ہیں کہ

    عشق است کہ ہست ہم تجلیٰ ہم طور

    عشق است کہ ہست ہم سلیماں ہم طور

    عشق است کہ ہست کاسۂ دست گدا

    عشق است کہ ہست تاج فرق مغفور

    تکیہ کہ شد او خوابگہ حضرت عشق

    واللہ بود خزانۂ دولتِ عشق

    دار و ہر گوشہ اش دو صد طور بحبیب

    عالم روشن ز جلوۂ نسبتِ عشق

    علالت وصال کے متعلق صاحب اخبارالاولیاء رقم طراز ہیں کہ

    ایک روز کسی ضرورت سے طبیب نے آپ کا معائینہ کیا تو حیرت زدہ رہ گیا اور اہل خانقاہ کو بتایا کہ حضرت کی نبض رکی ہوئی ہے، بھر بھی پتا نہیں کس طرح آپ زندہ ہیں۔ آپ کا انتقال کسی وقت بھی ہوسکتا ہے، حالانکہ ڈیڑھ سال تک آپ نبض کی حرکت کے بغیر زندہ رہے۔ ایک روز عشاء کی نماز کے لیے مسجد تشریف لے گئے اور اس کی سیڑھی پر بیک وقت وصال فرماگئے۔ تاریخ وفات: 8 جمادی الاول 1203ھ (1788ء، چہارشنبہ) ہے۔

    حضرت یحییٰؔ عظیم آبادی نے آفتابِ طریقت سے 1203ھ نکالی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے