Sufinama

داتا گنج بخش شیخ علی ہجویری

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

داتا گنج بخش شیخ علی ہجویری

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    خم خانۂ تصوف، باب 1

    حضرت شیخ علی ہجویری سلطان الطریقت، گنج حقیقت اور برہان الشریعت ہیں۔

    خاندانی حالات : آپ ساداتِ حسنی سے ہیں، آپ کا سلسلۂ نسب چند واسطوں سے حضرت سیدنا زید شہید ابن امیرالمومنین حضرت سیدنا امام حسن پر منتہی ہوتا ہے، آپ کے آبا و اجداد غزنی کے رہنے والے تھے، آپ کے دادا کا نام حضرت علی ہے۔

    والد ماجد : آپ کے والد ماجدکا نام عثمان ہے۔

    ولادت : آپ غزنی میں پیدا ہوئے۔

    نام : آپ کا نام ”علی“ ہے، ہجویر شہر کا نام نہیں ہے بلکہ غزنی کے ایک محلے کا نام ہے اس لئے آپ ”علی ہجویری“ کہلاتے ہیں۔

    کنیت : آپ کی کنیت ”ابوالحسن“ ہے۔

    لقب : آپ “داتا گنج بخش“ کے لقب سے پکارے جاتے ہیں۔

    لقب کی وجہ تسمیہ : خواجۂ خواجگان خواجہ معین الدین حسن چشتی سنجری جب لاہور میں رونق افروز ہوئے تو آپ کے مزارِ مبارک پر اعتکاف فرمایا، چلتے وقت خواجہ غریب نواز نے حسب ذیل شعر پڑھا۔

    گنج بخش فیض عالم مظہر نورِ خدا

    ناقصاں را پیرِ کامل کاملاں را رہنما

    اس روز سے آپ داتا گنج بخش مشہور ہوئے، بعض لوگ تو آپ کو ”گنج بخش“ کے لقب سے پکارا کرتے ہیں۔

    تعلیم و تربیت : آپ علومِ ظاہری کی تحصیل سے فارغ ہوکر علومِ باطنی کی طرف متوجہ ہوئے، آپ کے استاد شیخ ابوالقاسمِ آپ سے فرماتے تھے کہ

    ”فقیر کے لئے حاضریِ مرشد سے بہتر اور کوئی چیز نہیں ہے، فقیر کو چاہئے کہ حاضریِ مرشدی کی تمنا رکھے، مرشد وہ ہوتا ہے جو کہ غواص ہو نہ کہ متصل، فقیر کو چاہئے کہ اگر اپنے میں قوت پائے تب بیعت کرے اور اپنے میں قوت نہ ہو تو دونوں خراب ہوں گے‘‘

    بیعت و خلافت : آپ شیخ ابوالفضل بن حسن ختلی کے مرید ہیں، وہ مرید حضرت خضری کے اور وہ مرید حضرت شیخ شبلی کے ہیں۔

    سیر و سیاحت : آپ نے خراستان، ماوراءالنہر، مرو، آذر بائیجان وغیرہ کی سیر و سیاحت فرمائی، بہت سے درویشوں سے ملے اور بہت سی برگزیدہ ہستیوں سے استفادہ کیا، حضرت شیخ ابوالقاسم گرگانی، حضرت شیخ ابوسعید ابوالخیر اور حضرت شیخ ابوالقاسم قشیری کے روحانی فیوض سے مستفید و مستفیض ہوئے۔

    پیر و مرشد کا حکم : آپ اپنے پیر و مرشد کے حکم سے ہندوستان تشریف لائے، واقعہ اس طرح ہے کہ آپ نے ایک رات اپنے پیر روشن ضمیر کو خواب میں دیکھا کہ آپ فرماتے ہیں کہ

    ”تم کو لاہور کا قطب بنایا گیا ہے، لاہور تمہارے سپرد کیاگیا، لاہور جاؤ“

    آپ نے خواب ہی میں اپنے پیر سے عرض کیا کہ لاہور میں پہلے سے خواجہ حسن زنجانی موجود ہیں، ان کی موجودگی میں میرا لاہور جانا بیکار ہے۔

    آپ کے پیر و مرشد نے آپ کو جواب دیا کہ بحث و مباحثہ کی ضرورت نہیں، دیر نہیں لگانا چاہئے، جلد روانہ ہونا چاہئے۔

    روانگی : حکم پاتے ہی لاہور روانہ ہوئے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ سلطان مسعود بن سلطان محمود غزنوی کے لشکر کے ساتھ ہندوستان تشریف لائے اور بعض لوگ اس سے متفق نہیں، ان کا کہنا ہے کہ آپ شیخ احمد جمادی سرخسی اور شیخ ابوسعید ہجویری کے ہمراہ ہندوستان تشریف لائے۔

    نماز جنازہ : لاہور میں پہنچ کر رات ہوجانے کی وجہ سے آپ نے شہر سے باہر قیام کیا، صبح کو جب شہر میں داخل ہوئے تو ایک جنازہ آتے دیکھا، دریافت کرنے پر آپ کو معلوم ہوا کہ حضرت شیخ حسن زنجانی کا جنازہ ہے جن کا گزشتہ شب انتقال ہوگیا، جنازہ کی نماز آپ نے پڑھائی۔

    لاہور میں سکونت : اب آپ کو معلوم ہوا کہ پیر و مرشد کے فرمان میں کیا مصلحت تھی، آپ نے لاہور میں مستقل سکونت اختیار فرمائی اور تعلیم و تلقین اور رشد و ہدایت میں مشغول ہوئے۔

    وفات : آپ نے 465ھ میں اس جہانِ فانی سے سفرِ دارالآخرت فرمایا، بعض کے نزدیک آپ کا وصال 456ھ میں ہوا، مزارِ پُرانوار لاہور میں فیوض و برکات کا سرچشمہ ہے۔

    سیرت : آپ قطبِ زمانہ تھے، ذکر و فکر، مراقبہ و محاسبہ اور عبادت و ریاضت میں مشغول رہتے تھے، دنیاوی آلائش سے پاک و صاف تھے، آپ کی ذات ستودہ صفات سے بہت سے بندگانِ خدا کو فیض پہنچا ہے، تصرفات آپ کے بے شمار ہیں۔

    علمی ذوق : آپ ایک عالم تھے، آپ نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں، آپ کی تصانیف حسب ذیل ہیں۔

    منہاج الدین، کتاب البیان لاہل العیان، اسرارلخرق والمؤنات، کشف الاسرار، الرعایۃ بحقوق اللہ، کشف الحجوب۔

    شعر و شاعری : آپ شاعر بھی تھے، آپ کا تخلص ”علی“ ہے، آپ صاحبِ دیوان ہیں جیسا کہ آپ خود فرماتے ہیں کہ

    ”میں نے بیت اور اشعار بہت سے کہے ہیں اور ایک دیوان بھی کہا ہے۔۔۔۔“ آپ کی ایک مشہور غزل حسبِ ذیل ہے۔

    غزل

    شوقِ تو در روز و شب دارم دلا

    عشقِ تو دارم بہ پنہان و ملا

    جاں بخواہم دادمن در کوئے تو

    گر مرا آزار آید یا بلا

    عشقِ تو دارم میانِ جان و دل

    میدہم از عشقِ تو ہر سو صلا

    یاخداوندا رقیباں را بکش

    یا مرا دریا دکُن مست ہلا

    جامِ من دارد شرابِ یار خود

    مہرباں کن برمن وہم مبتلا

    اے چساکز تو اگر خواہم لقا

    گرکنی آرے مکن ہرگز تو لا

    اے علیؔ تو فرخی در شہر وکو

    دہ ز عشقِ خویشتن ہر سو صلا

    تعلیمات : آپ کی تعلیمات معرفت کا بیش بہا خزانہ ہیں۔

    نفسانی غرض : آپ فرماتے ہیں کہ

    ’’جس کام میں نفسانی غرض آجائے اس سے برکت اٹھ جاتی ہے اور دل راستی اور آزادی کے راستے سے نکل کر کجی اور پابندی میں پڑ جاتا ہے اور یہ صورت دوحال سے خالی نہیں یا تو نفس کی غرض پوری ہوگی یا نہ ہوگی۔۔۔“

    صوفیوں کی صحبت : آپ فرماتے ہیں کہ

    ’’جو کوئی صوفیوں کی صحبت کا ارادہ کرتا ہے وہ چار معنوں سے باہر نہیں ہوتا، بعض کو باطن کی صفائی، دل کی روشنی، طبیعت کی پاکیزگی مزاج کا اعتدال، نیک خصلت کی صحبت، ان کے بھیدوں سے دیدار دیتی ہے تاکہ تحقیق کرنے والوں کا قرب اور اُن کی بزرگی کی بلندی دیکھیں، اُن کے حال کی ابتدا احوال کے کشف، حرص سے الگ ہونے اور نفس سے منہ پھیر لینے پر ہوتا ہے اور بعض دوسروں کو بدن کی بہتری، دل کا سکون اور پاکی اور سہنے کی سلامتی ان کے ظاہر سے دیدار دیتی ہے تاکہ شریعت کے اختیار کرنے اور اسلام کے ادبوں کو نگاہ رکھنے اور ان کے معاملوں کی خوبی کو دیکھیں۔۔۔ اور ان کے حال کی ابتدا اور مجاہدہ اور معاملہ کی خوبی پر ہوتاہے اور بعض دوسروں کو انسان کی مروت، آپس میں میل کرنے کا طریق، خصلت کی خوبی ان کے فعلوں کی طرف راستہ دکھلاتی ہے تاکہ ان کی زندگی کےظاہر کو مروت سے آراستہ دیکھیں، بڑوں کے ساتھ عزت سے چھوٹوں کے ساتھ جواں مردی سے، اپنے نزدیکوں کے ساتھ خوشی سے، زیادہ طلبی سے آسودہ اور قناعت پر آرام کیا ہو اور اس سے ان کی صحبت کا ارادہ کریں اور کوشش اور محنت اور دنیا کے طلب کرنے کا طریق اپنے پر آسان کریں اور بعض دوسروں کو طبیعت کی سستی نفس کی خودرائی اور سرکشی، اسباب کے موجود ہونے کے سوا ریاست کی خواہش بزرگوں کے بغیر صدر نشینی کا ارادہ، بغیر علم کے خصوصیت پانے کی تلاش ان کے فعلوں کی طرف راستہ دکھلاتی ہے اور سمجھتے ہیں کہ اس ظاہر کے سوا اور کوئی کام نہیں (پس) صوفیوں کی صحبت کا ارادہ کرتے ہیں اور وہ خلق اور کرم سے اس گروہ کے آدمیوں کی رعایت اور خوشامد کرتے ہیں۔۔۔ کیوں کہ ان کے دلوں میں حق کی بات نہیں ہوتی اور تنہائی میں مجاہدہ کرنے سے طریقت کے طلب کرنے میں سے کچھ نہیں ہوتا، یہی چاہتے ہیں کہ لوگ ان کی ایسی عزت کریں جیسے محققوں کی، اور ایسی عظمت جیسے خداوندِ تعالیٰ کے خاصوں کی صوفیوں کی صحبت اور تعلق سے یہی چاہتے ہیں کہ اپنی آفتوں کو ان کی صلاح میں چھپائیں اور ان کا جامہ پہنیں، یہ جامہ جو بغیر معاملہ کے ہوتا ہے ان کے جھوٹ پر زور سے پکارتا ہے کہ یہ فکر اور غرور کا لباس ہے اور قیامت کے دن حسرت کا باعث۔۔۔۔“

    مجاہدۂ نفس : آپ فرماتے ہیں کہ

    ”رسواللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفس کے مجاہدہ کو جہاد پر بزرگ رکھا ہے کیونکہ اس کا رنج زیادہ ہوتا ہے، وجہ یہ ہے کہ نفس کا مجاہدہ حرص و ہوا کا دور کرنا ہے۔۔۔“

    فقیر : آپ فرماتے ہیں کہ

    ”فقیر کو چاہئے کہ بادشاہوں و حاکموں کی آشنائی و معرفت کو سخت خطرناک سانپوں اور بڑے بھاری اژدھاؤں کی معرفت و آشنائی سمجھے اور جانے کیوں کہ جب بادشاہ کا تقرب فقیر کو حاصل ہوا تو جانے کہ اس کا زاد اور توشہ برباد ہوگیا۔۔۔۔ جب ترکی ٹوپی تو نے سر پر رکھ لی تو اس سے کچھ فقیری حاصل نہیں ہوتی۔ اور وہاں کافروں کی ٹوپی سرپر رکھ لے اور فقیر صادق ہوجا اور جو کچھ اللہ تعالیٰ کی رضا ہو اس پر مستقل اور قائم رہ“

    دس چیز : آپ فرماتے ہیں کہ

    ’’ایک بزرگ کا فرمودہ ہے کہ یہ دس چیزیں اپنے مقابل دس چیزوں کو کھا لیتی ہیں۔

    اول : توبہ گناہوں کو کھا جاتی ہے۔

    دوم : جھوٹ رزق کو چٹ کر جاتی ہے۔

    سوم : غیبت عمل کو کھا جاتی ہے۔

    چہارم : غم عمر کو کھا کر کم کر دیتا ہے۔

    پنجم : صدقہ بلا کو کھا کر دور کر دیتا ہے۔

    ششم : غصہ عقل کو کھا جاتا ہے۔

    ہفتم : پشیمانی سخاوت کو کھا جاتی ہے۔

    ہشتم: تکبر علم کو کھا لیتا ہے۔

    نہم : نیکی بدی کو کھا جاتی ہے۔

    دہم : ظلم عدل کو کھا جاتا ہے۔

    آٹھ کلمات : آپ فرماتے ہیں کہ

    ”لقمان حکیم سے مذکور ہے کہ میں چار سو پیغمبروں کی خدمت بجا لایا اور ان سے آٹھ ہزار کلمے میں نے حاصل کئے، ان میں سے آٹھ کلمے میں نے ایسے انتخاب کئے ہیں کہ ان سے تجھ کو خداشناسی حاصل ہو اور وہ آٹھ سخن یہ ہیں کہ

    اول : جب تو نماز میں ہو توا پنے دل کو نگاہ رکھ

    دوم : جماعت کے ساتھ یار اور رفیق رہ

    سوم : جب کسی کے گھر جائے تو اپنی آنکھ کو نگاہ رکھ

    چہارم : جب لوگوں میں آئے تو اپنی زبان کو نگاہ رکھ

    پنجم : خدا تعالیٰ عزوجل کو فراموش مت کر

    ششم : موت کو بھلائے مت رکھ

    ہفتم : جب کہ تونے کسی کے حق میں نیکی کی ہو تو اس کو بھول جا

    ہشتم : جس نے تیرے حق میں کوئی بدی کی ہو اس کو فراموش کر دے

    اقوال : دولت کو ایک عذاب جان اور اس کو اہل فاقہ لوگوں کو دے دے اور تصدق کر کیونکہ آخر قبر میں کیڑے کھائیں گے اور اگر تونے یہ بخشش میں دے دی تو وہ تیرے دوست دار رہیں گے۔

    طالب کو چاہئے کہ خودی، خودپسندی، شیخی و تکبر کو چھوڑ دے اور ان کو اپنے وجود سے بالکل نکال ڈالے۔

    مبتدی کو چاہئے کہ وہ سماع کے نزدیک نہ جائے اور اس سے کنارہ کش رہے۔

    دنیا ایک کشتی ہے جوکہ پانی پر ہو اور ملک ہے جو بے آب ہو تو غواص غوطہ خور ہوجاؤ اور غرق ہوجانے والا مت ہو۔

    دنیا کو بہت ہی ادنیٰ اور ذلیل و حقیر جان۔

    طالب عقبیٰ کا مت ہو عقبیٰ کو عقوبت یعنی عذاب سمجھ، طالب مولیٰ کار ہو کیونکہ اس کا طالب مذکر اور دانا اور بہادر ہوگا۔

    طالب حق ہو۔

    فقیری مشکل ہے۔

    علم پڑھ، حلم سیکھ اور عمل کر۔

    جو کچھ خدائے تعالیٰ عنایت کرے اس پر راضی رہ اور اگر وہ بے وطنی دے وے تو اس پر قانع رہ جو کچھ خدائے تعالیٰ بخشش کرے اس پر شکر گزار ہو اگر گدڑی دیوے تو اس کو پہن لے اگر لباسِ پشمینہ دیوے تو اس کو مت پھینک دے اور اگر سواری کو گدھا دے وے تو اس پر سوار ہو اگر گھوڑا بخشے تو اس کو اپنے سے دور مت کر جو کچھ دیوے لے لے اور جو کچھ وہ نہ دیوے اس پر صبر کر تاکہ تو راہ کا ہووے اور تاکہ تو حق تک پہنچے۔

    صبر ایک عجیب چیز ہے۔

    ورد و وظیفہ : آپ فرماتے ہیں کہ

    ”اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے اسم یا حبیب اور یا لطیف کے معنوں کو اپنے وجود میں رکھ لے اور ان کو اپنا ورد بنالے“

    کشف و کرامات : لاہور میں سکونت اختیار کرنے کے بعد آپ نے ایک مسجد تعمیر کرانا شروع کی، مسجد کی سمت قبلہ رو نہ ہونے کی وجہ سے علما نے اعتراض کیا، آپ نے کسی کے اعتراض کا جواب نہ دیا، اس مسجد کی محراب جنوب کی طرف معلوم ہوتی تھی، مسجد کی تعمیر کا کام ہوتا رہا، جب مسجد بن کر تیار ہوگئی، آپ نے علما و مشائخ کو بلایا، سب نے وہاں نماز پڑھی، آپ نے امامت فرمائی۔

    نماز سے فارغ ہوکر آپ نے حاضرین سے فرمایا کہ ذرا غور کریں کہ کعبہ کس طرف واقع ہے، آپ نے توجہ فرمائی، حجابات اٹھ گئے، سب نے دیکھا کہ کعبہ سامنے ہے اور مسجد کی سمت صحیح ہے۔

    ترکِ دنیا گیر تا سلطاں شوی

    ورنہ ہمچو چرخ سرگرداں شوی

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے