Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

مثنوی ترابؔ دکنی

شاہ میاں تراب دکنی

مثنوی ترابؔ دکنی

شاہ میاں تراب دکنی

MORE BYشاہ میاں تراب دکنی

    ترابؔ اب کر رقم رنگیں بیان او

    سنے جو خلق سارا داستان او

    اتے او داستان کہتا ہوں یاراں

    ہوئے گا خلق سب سن اشک واراں

    بھئی اس کے کام ہے معلوم کس کوں

    اپس کا بھید نئی دیتا ہے کس کوں

    دوانے کو میانا کر دکھاتا

    سیانے کو دوانہ کر بتاتا

    سنا ہوں گلشن آباد ایک نگر تھا

    وہا اکھ مہ جبیں گل رو کا گھر تھا

    نہایت حسن میں اوتار تھی او

    کل پنچار میں خونخوار تھی او

    اتھی یو پاک دامن پارسا نار

    نماز پنچ وقتہ ہور ذکر چار

    کبھی ناغہ نہیں کرتی تھی اکثر

    چتر سب عورت میں تھی بیچتر

    خسم راضی رضامند سب قبیلہ

    نہ جانے عورت کا مکر و حیلہ

    اچھے ہل مل ہمیشہ او خسم سوں

    کے جیوں ہے آشنا ثابت قدم سوں

    کبھی کوئی نئیں ہوا آزوداں خاطر

    اتھی خوش خلق مو دلبر وظاہر

    جہاں آواز نامحرم کا آوے

    وہ توبہ کر وہاں سوں اٹلی جاوے

    اوچا گھونگھٹ نہ سارا منہ کو کھولے

    نہ باتاں شوخ مل شوخیاں سوں بولے

    و لیکن سر‌و قد نازک بدن تھی

    سکل خوباں منے جادو نین تھی

    کمان ابرو نگاہے خنجر پلک تیر

    ادا سیف دو دھارا زلف زنجیر

    سر پا نازنین دل دار دل بر

    بلا تھی ظلم تھی ظالم ستم گر

    کہاں لگ اس پری رو کو سراؤ

    دل عاشق مرا کر کیوں جلاؤں

    گیا تھا نوکری کو اس کا خاوند

    اکیلی گھر میں تھی دل دار دل بند

    ہوئے تھے دن جو کوئی شاطر نا آیا

    خبر بھی خیریت کی کوئی نہ لایا

    پر اس نگر او گل بدن نار

    کہیں مارے گیا یا او بیمار

    کہے پھر دائی کو او یوں بلا کر

    بلا بلا کو دائی جلد جا کر

    بھوت دن سو نہیں آئی خبر ہے

    نہ جانے کیا سبب ان کے اوپر ہے

    او اب لگ نوکری کس کا کیے نئیں

    جو گھر کی کچھ خبر ہرگز لیے نئیں

    یا کئی لشکر میں جا سپڑے ہیں رن میں

    یا کرئی اٹکے ہیں شوق و راگ رنگ میں

    یا کوئی سوتن نے دل ان کا بہلائی

    یا کس کے جا ہوئے ہیں گھر جنوائی

    بہوت جادو گراں راڈاں وہاں ہیں

    اونو جا کر رہے چاکر وہاں ہیں

    میرے بن یک گھڑی رہتا نہیں تھا

    میرے بن بات کرئی کرتا نہیں تھا

    عطا بھیجا نئی جھوٹی کتابت

    کیا ہے جا کے شاید وہاں کی عورت

    کیا تو خوب ہے جیتا رہے او

    خبر آئی تو اس کی بس ہے دیکھو

    سنی یو بات سو دائی چلی بھار

    بیچاری نار کوں کرنے گرفتار

    جہاں پڑتے تھے لڑکے بہوت سے مل

    وہاں بیٹھا تھا ملا یک فاضل

    لے تسبیح ہات میں کرتا ذکر تھا

    لگن کے درد سوں او بے خبر تھا

    رکھے شملہ چیرہ بادھے مدور

    کرے شانی شریعت کام اکثر

    سناوے سب کتیں مسلہ مسائل

    کری تسلیم جا کر اس کو دائی

    حقیقت بول خط لکھنے بلائی

    سنا سو دائی سوں ملا نے یو بات

    چلا لے کر قلم داوات سنگات

    خبر بی بی کو دے آیا ہے ملا

    کہے بی بی اسے گھر میں بلا یہاں

    انیں بت گھر میں گوشہ کر بلائی

    بچھونا کرتے پردے کن بٹھائی

    اپی بیٹھی سندر پردے کے اندر

    بلا ملا کوں اپنے گھر بھیتر

    بٹھا پردے کنے ملا بچارہ

    سنو باری لگن کا یک نظارہ

    گنوایا پارسا کی پارسائی

    کیا زہد و ریا کی جگ ہنسائی

    پوچھا لے ہات میں ملا خامہ

    حقیقت کیا لکھوں سو وہ نامہ

    دیکھا تو او پری رو جھاکتی تھی

    غرور حسن میں جیوں مدمتی تھی

    ہوئے ایک بار جو چک چار دونوں

    رہے حیرت سوں ہو لاچار دونوں

    یکایک دیکھ دیوانہ ہوا تب

    لگا کہنے کو بولو کیا لکھوں اب

    کہے او نازنیں سب اپنا احوال

    نہ سمجی او ہوا سو دیکھ بے حال

    حقیقت سب سنا بولی سو سندر

    کہا بھی کیا لکھوں گر

    کہے بھی او پری رو کر کے تکرار

    دیکھو پھر کیا لکھوں بولا گرفتار

    کہی دو چار بار اس کتیں تب

    سمج کے دل منے دیوانہ ہے تب

    دیکھی تو کچھ بھی پڑتا نہ لکھتا

    چپی چپ کیا لکھو کہہ کر بلکھتا

    قلم یک ہات اور یک ہات قرطاس

    بیٹھا حیرت زدہ پردے کے ہے پاس

    کہی تب دائی کو غصے میں آ کر

    تو دیوانہ کو کیوں لائی بلا کر

    گیا تھا کاں تیرا تب ہوش دائی

    جو ایسے مست دیوانہ کوں لائی

    کہی تب دائی میں لائی تھی سیانا

    ایتا دستا ہوا اجڑا دوانہ

    بھلا چنگا سوں ملا او دسیا تب

    بسر سب ہوش دیوانہ ہوا اب

    لگا اب کے ابھی میں اس کو شیطان

    ہوا یک بارگی بد بخت مستان

    ہمارے شہر میں تھا آ ای چہ نامی

    موت عالم تو کرتا ہے غلامی

    موا سب فاضلوں میں او بڑا ہے

    نہ جانو کیا سبب اس پر کھڑا ہے

    ہے سارے ملک میں اس کا پکارا

    جو کرتا خوب ہے صدقہ اتارا

    جہاں لگ بہوت شیطاں و خبثاں

    اترتے اس کے تعیذاں سوں یک ساں

    موے تلپٹ کی سب سن کر بھلائی

    مونڈی کاٹے کو میں لکھنے بلائی

    موے کے جیو کے گن میں جانتی کیا

    کرے گا یو ککر پچھانتی کیا

    کہی تب دائی کو دے اس کو جانے

    بہوت عالم میں ہیں سیانے دوانے

    کہی تب دائی میاں تم بھار جاؤ

    نکو چپ کیا لکھوں کر گل مچاؤ

    بلا لیئوں تم تو تب نئیں تھے دوانے

    بھلے چنگے دسے تب مجکو سیانے

    یکایک کیا ہوا میں تم پو واری

    بسر کر عقل کا گئی ہے تماری

    بڑ فاضل تمیں ملا کلا کر

    بھئی کس اچھر کا پکڑا تم کو چھر

    بھلا اب جاؤ اپنے گھر کو پیارے

    ہوا کیا تم کو میں باری تمارے

    بسر شملہ اٹھے کملا کے ملا

    رہا نئیں یاد تسبیح اور مصلیٰ

    قلم داوات اسی جاگے سارا

    اٹھا سو کیا لکھوں کر ہانکا مارا

    لگا جب عشق کا سیف دو دھارا

    پڈیا عالم میں اس کا کیا لکھوں نام

    رہا ہو کر خاک گوئی گلفام

    نہیں ہرگز کہیں کھاتا تھا کھانا

    تھا پھرتا کیا لکھوں کرتا دوانہ

    سنے یو بات جو شاگرد سارے

    ننگے پاواں چہ دوڑے سب بچارے

    دیکھے استاد کتے کر قدم بوس

    لگے ملنے کو سارے دستے افسوس

    کے اے صاحب کرم فیاض عالم

    یہ تا کس پاس جانا درس کو ہم

    تمے کاں گئے تھے خط لکھنے کی خاطر

    یکایک کیا گھرا تمن پر

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے