لکھنؤ کے شاعر اور ادیب
کل: 59
عالم لکھنوی
- سکونت : لکھنؤ
افقر موہانی
معروف ہندوستانی شاعر اور حاجی وارث علی شاہ کے مرید
افسرؔ میرٹھی
معروف شاعر، سچے محب وطن اور آزاد خیال قوم پرور انسان تھے
اختر گوپاموی
امین الدین وارثی
روحانی شاعر اور "وارث بیکنٹھ پٹھاون" کے مصنف
اسد علی خاں قلق
عزیزؔ لکھنوی
- پیدائش : جموں اور کشمیر
- سکونت : لکھنؤ
- Shrine : لکھنؤ
بشیر فاروقی
- سکونت : لکھنؤ
بیدم شاہ وارثی
معروف نعت گو شاعر اور ’’بے خود کئے دیتے ہیں انداز حجابانہ‘‘ کے لیے مشہور
بیخود موہانی
ادبی میدان میں ایک انفرادی رنگ کے مالک، مایۂ ناز شاعر اور ہر دل عزیز صاحب تصنیف و تالیف تھے
فقیر محمد گویا
ناسخ کے شاگرد، مراٹھا حکمراں یشونت رائو ہولکر اور اودھ کے نواب غازی الدین حیدرکی فوج کے سپاہی
غرقاب نظامپوری
- سکونت : ملیح آباد
- سکونت : لکھنؤ
حنیف اخگر
- پیدائش : ملیح آباد
- سکونت : ریاستہائے متحدہ امریکہ
حسرت موہانی
مجاہد آزادی اور آئین ساز اسمبلی کے رکن ، ’انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ دیا ، شری کرشن کے معتقد ، اپنی غزل ’ چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے‘ کے لئے مشہور
جگر بسوانی
جوش ملیح آبادی
- پیدائش : لکھنؤ
- سکونت : لکھنؤ
- Shrine : اسلام آباد
اردو ادب کے نامور اور قادر الکلام شاعر
کوکب سندیلوی
خواجہ وزیر لکھنوی
- سکونت : لکھنؤ
مرزا ابو جعفر کشفی
مرزا محمد فاخر
- Shrine : لکھنؤ
- سکونت : لکھنؤ
نجم احسن نگرامی
نشتر جائسی
مختلف زبان کے عالم اور افقر موہانی کے شاگرد
نظم طبا طبائی
- پیدائش : لکھنؤ
سید حیدر علی نام، نظمؔ تخلص، 1853ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ بہت محنت اور توجہ سے تعلیم حاصل کی۔ نوجوانی ہی میں علمیت کا ایسا چرچا ہوا کہ شہزادگان اودھ کو تعلیم دینے کی خدمت سپرد ہوئی۔ شاہ اودھ معزول کر کے کلکتہ بھیجے گئے تو یہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ چنانچہ کلکتہ کے مٹیا برج میں قیام رہا۔ وہاں شہزادوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ ایک عالم سے خود بھی علم حاصل کرتے رہے۔ واجد علی شاہ کے انتقال کے بعد نظام کالج حیدرآباد میں پروفیسر مقرر ہوئے ایک طویل عرصہ کالج کی خدمت کرنے کے بعد وظیفہ کالج حیدرآباد میں پروفیسر مقرر ہوئے۔ ایک طویل عرصہ کالج کی خدمت کے بعد وظیفہ یاب ہوئے اور ولی عہد کو تعلیم دینے کی خدمت سپرد ہوئی۔ حسن کارکردگی کے صلے میں سرکار نظام کی جانب سے نواب حیدر یار جنگ کا خطاب عطا ہوا۔ اسی اثنا میں عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا اور دارالترجمہ قائم ہوا۔ ارباب اختیار نے نظمؔ کی علمی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے خیال سے ادبی ناظر کی حیثیت سے ان کی خدمات حاصل کیں۔ ذمہ داری یہ کہ نظمؔ تراجم پر نظر ثانی کرتے اور ان کی نوک پلک سنوارتے۔ 1933ء میں ان کا انتقال ہوا۔ مرتے دم تک وہ اردو شعروادب کی خدمت کرتے رہے۔ نظمؔ نے اردو میں نئے انداز کی نظمیں لکھیں اور اس سے بڑھ کر ان کا کارنامہ یہ ہے کہ انگریزی نظموں کے انہوں نے ایسے دلکش ترجمے کیے کہ ان پر ترجموں کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ سب سے مشہور ترجمہ گرے کی نظم کا ہے۔ گرے نے ان مرنے والوں کا درد ناک مرثیہ لکھا ہے جو گمنام جیے اور گمنام مرگئے۔ نظمؔ نے مرثیے کا اردو میں ترجمہ کیا اور’گورغربیاں‘ نام دیا۔ اردو میں کوئی اور ترجمہ نہ اس پائے کا موجود ہے، نہ کسی ترجمے نے اتنی شہرت پائی۔ نظم کا آغاز اس طرح ہوتا ہے؎ وداع روز روشن ہے گجر شام غریباں کا چراگاہوں سے پلٹے قافلے وہ بے زبانوں کے قدم کس شوق سے گھر کی طرف اٹھتا ہے دہقاں کا یہ دیرانہ ہے میں ہوں اور طائر آشیانوں کے ان کی زبان سادہ ہے مگر اس سادگی میں غضب کی دلکشی ہے۔ نظم کی تشبیہیں اور استعمارے بھی بڑی جاذبیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے قصیدے بھی لکھے اور ان میں جدت پیدا کی۔ اردو شاعری کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔
نور لکھنوی
- سکونت : لکھنؤ
- سکونت : لکھنؤ
آپ کو سلسلہ عالیہ وارثیہ میں شرف بیعت حاصل ہے۔ آپ کی شاعری حضورؐ کی مدحت تک محدود تھی۔
قاتل اجمیری
قطب الدین قطب
رزمی بارہ بنکوی
افقرؔ موہانی کے شاگرد