یہ کس کے آستانے کی زمیں معلوم ہوتی ہے
یہ کس کے آستانے کی زمیں معلوم ہوتی ہے
کہ جنبش میں مری لوح جبیں معلوم ہوتی ہے
دو رنگی دیر و کعبہ کی نہیں معلوم ہوتی ہے
حقیقت آشنا میری جبیں معلوم ہوتی ہے
میں چاہوں بھی تو سنگ آستاں سے اٹھ نہیں سکتا
کہ جزو آستاں اپنی جبیں معلوم ہوتی ہے
دواں ہو کشتئ عمر رواں یوں بحر ہستی میں
کہیں ابھری کہیں ڈوبی کہیں معلوم ہوتی ہے
یہ اک بے ربط سی جامہ دری اور اپنے ہی ہاتھوں
جہاں پہلے تھا دامن آستیں معلوم ہوتی ہے
یہ جلوہ زار دنیا بھی عجب آئینہ خانہ ہے
کہ ہر تصویر حسرت آفریں معلوم ہوتی ہے
بتاتا گو ہے جذب شوق کوسوں عشق کی منزل
مگر کہتا ہے یوں گویا یہیں معلوم ہوتی ہے
تجلی حسن جاناں کی نہیں موقوف ایمن پر
جہاں محسوس کرتا ہوں وہیں معلوم ہوتی ہے
نظر آتے ہیں جلوے دو جہاں کے ان کی چوکھٹ پر
خدائی اب مرے زیر نگیں معلوم ہوتی ہے
اتر آیا ہے نقشہ آستان یار کا افقرؔ
جبین شوق اب میری جبیں معلوم ہوتی ہے
- کتاب : نظرگاہ (Pg. 84)
- Author : افقرؔ وارثی
- مطبع : صدیق بک ڈپو، لکھنؤ (1961)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.