یہ عشق کی ہے سرکار احقرؔ غصہ بھی یہاں ہے پیار بھی ہے
یہ عشق کی ہے سرکار احقرؔ غصہ بھی یہاں ہے پیار بھی ہے
ہر زخم جگر کے پھاہے میں کافور بھی ہے زنگار بھی ہے
اے حضرت دل ناداں نہ بنو رکھو نہ قدم اس کوچہ میں
یہ اس کی گلی کا رستہ ہے پر خوف بھی ہے پر خار بھی ہے
کیا مے میں ملایا ہے تو نے کیا بات ہے اس میں اے ساقی
جو رند ہے اس میخانے کا مدہوش بھی ہے ہشیار بھی ہے
یہ راز کی باتیں ہیں اس کو سمجھے تو کوئی کیوں کر سمجھے
انسان ہے پتلا حیرت کا مجبور بھی ہے مختار بھی ہے
حیران ہے تیرے مذہب سے سب گبرو مسلماں اے احقرؔ
یہ اس کی گلی کا رستہ ہے پر خوف بھی ہے پر خار بھی ہے
ڈرتا ہی رہے انساں اس سے امید گر ہے بخشش کی
ہیں نام اسی کے یہ دونوں غفار بھی ہے قہار بھی ہے
- کتاب : بہار میں اردو کی صوفیانہ شاعری (Pg. 181)
- Author : محمد طیب ابدالی
- مطبع : اسرار کریمی، الہ آباد (1988)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.