اک برق تجلی نے میری تعمیر کے ٹکڑے کر ڈالے
اک برق تجلی نے میری تعمیر کے ٹکڑے کر ڈالے
تدبیر کے ٹکڑے کر ڈالے تقدیر کے ٹکڑے کر ڈالے
پایا نہ تھا جب تک اس بت کو میں اپنی پرستش کرتا تھا
ہاتھ آگئی جب اصلی صورت تصویر کے ٹکڑے کر ڈالے
بھولا ہوا جب تک تھا چپ تھا جب آگئی اس کو یاد وطن
اک چشم زدن میں قیدی نے زنجیر کے ٹکڑے کر ڈالے
شہ رگ کے قریب وہ رہتا تھا کس طرح گلا کٹ سکتا تھا
نازک سی رگ گردن نے میری شمشیر کے ٹکڑے کر ڈالے
افسانہ غم کہنے کے لیے سوچے تو بہت کچھ تھے امجدؔ
اک تیز نظر نے ظالم کی تقدیر کے ٹکڑے کر ڈالے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.