اس پہ کیوں مرتے ہیں کیوں اس کی تمنا دل میں ہے
اس پہ کیوں مرتے ہیں کیوں اس کی تمنا دل میں ہے
بات کچھ کھلتی نہیں جو خنجر قاتل میں ہے
دور ساغر کی طرح گردش ہے اہل بزم کو
آپ سے باہر ہے وہ جو آپ کی محفل میں ہے
دیکھیے آکر یہاں رنگین پھولوں کی بہار
اک شگفتہ باغ ہے جو داغ میرے دل میں ہے
ناصح مشفق نصیحت اپنی رہنے دیجیے
عشق کا جوہر ازل سے میرے آب و گل میں ہے
ایک ہی صورت کو دو کر کے دکھا دیتا ہے یہ
جوہر آئینہ پنہاں خنجر قاتل میں ہے
غیر ہنستا ہے ادھر مجھ کو لب جاں دیکھ کر
میں ادھر خوش ہوں کہ کشتی دامن ساحل میں ہے
ہوش کس کو ہے جو لے اٹھ کر قیامت کی خبر
دم بہ خود ہر اک عدم کی پہلی ہی منزل میں ہے
حشر میں ہم داد چاہیں اور ان کے سامنے
رعب اتنا ہے کہ منہ کی منہ میں دل کی دل میں ہے
قبر میں آتے ہی روشن ہو گیا محشر کا حال
آخری منزل کا منظر پہلی ہی منزل میں ہے
چھپ نہیں سکتا چھپائے سے غبار آئینہ
صاف چہرے سے عیاں ہے جو تمہارے دل میں ہے
مل کے وہ کھچتا ہے اور یہ کھچ کے ملتا ہے خلشؔ
بڑ کے قاتل سے یہ خوبی خنجر قاتل میں ہے
- کتاب : تذکرۂ ہندو شعرائے بہار (Pg. 137)
- Author : فصیح الدین بلخی
- مطبع : نینشل بک سینٹر، ڈالٹین گنج پلامو (1961)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.