Font by Mehr Nastaliq Web

پھڑکنے دے رہا ہے گر پھڑکتا ہے مچلتا ہے

بہزاد لکھنوی

پھڑکنے دے رہا ہے گر پھڑکتا ہے مچلتا ہے

بہزاد لکھنوی

MORE BYبہزاد لکھنوی

    پھڑکنے دے رہا ہے گر پھڑکتا ہے مچلتا ہے

    سمجھ رکھا ہے ظالم نے پھنسا دل کب نکلتا ہے

    مرے قلب پر ارماں کا عجب عالم ہے اے ہمدم

    نہ ٹھہرائے ٹھہرتا ہے نہ بہلائے بہلتا ہے

    ہمیں کیا ہے کہ ہم تو رنگ عالم سے گزر آئے

    سنا ہے آج کل پہروں کوئی ہاتھوں کو ملتا ہے

    تری برق تجلی کی کرم باری نہیں جاتی

    کہ اب بھی ہوش اڑتے ہیں کہ اب بھی طور جلتا ہے

    میں پہروں دیکھتا ہوں ان کو اور اس قلب مضطر کو

    وہ جب اٹھتے ہیں یہ کمبخت بھی کروٹ بدلتا ہے

    کسی عالم کسی عنواں نہیں تسکین دل ہوتی

    کسی صورت کسی انداز کب یہ دل بہلتا ہے

    سنا بہزادؔ اب سونی پڑی ہے بزم جاناں بھی

    نہ اب شمعیں ہی جلتی ہیں نہ اب پروانہ جلتا ہے

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے