دور سے آئے ہیں ہم اے ساکنان کوئے دوست
دور سے آئے ہیں ہم اے ساکنان کوئے دوست
دو جگہ ہم کو بھی تھوڑی سی میان کوئے دوست
رہتے ہیں تسبیح میں تقدیس میں تحلیل میں
قدسیوں سے کم نہیں ہیں ساکنان کوئے دوست
جھک گئی گردن گریباں کی طرف جب وقت فکر
نحن اقرب سے ملا ہم کو نشان کوئے دوست
گلشن جنت کی کیا پروا ہے اے رضواں انہیں
ہیں جو مشتاق بہشت جاودان کوئے دوست
اے ہما بے فائدہ تو نے قدم رنجہ کیا
مستحق ان ہڈیوں کے ہیں سگان کوئے دوست
دیکھوں اے واعظ کسے سنتے ہیں دل سے سامعین
وصف تو فردوس کا کر میں بیان کوئے دوست
جب کھلا تفسیر سے مضمون جنات نعیم
میں یہ سمجھا ہے یہ قرآں میں بیان کوئے دوست
میری اشکوں سے جو دریا موج زن ہے رات دن
مردم آبی بنے ہیں رہروان کوئے دوست
ہے نیا عالم ہے اس عالم سے وہ عالم جدا
اور ہی کچھ ہیں زمین و آسمان کوئے دوست
جب قدم رکھا زمیں پر آسماں پر جا پڑا
بارہا ہم نے کیا ہے امتحان کوئے دوست
نامہ بر میں جانتا ہوں پر بتا سکتا نہیں
دل میں ہے لب تک نہیں آتا نشان کوئے دوست
چاہتے ہو داب لو اس کو بغل میں اے امیرؔ
بوستاں سعدیؔ کی ٹھہرا بوستان کوئے دوست
- کتاب : کلام امیر مینائی (Pg. 38)
- Author : امیر مینائی
- مطبع : مشورہ بک ڈپو، دہلی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.