گاہے ادھر کی فکر ہے گاہے ادھر کی ہے
گاہے ادھر کی فکر ہے گاہے ادھر کی ہے
مٹی غرض خراب جہاں میں بشر کی ہے
معصوم کو بھی نزع ہے ہرگز نہیں مفر
مظلوم کی دعا کو بھی حاجت اثر کی ہے
چوٹی میں اور جوڑے میں ظالم کے فرق ہے
یہ راہ عمر بھر کی ہے وہ سال بھر کی ہے
گل گیر کا خطر تو پتنگوں کی ہے خلش
آفت میں جان شام سے شمع سحر کی ہے
اجڑی پڑی ہیں تربتیں شاہان دہر کی
پھولوں کی چادریں ہیں نہ بتی اگر کی ہے
ہوتا ہے زندگی کا کوئی دم میں فیصلہ
دن بھر کی بات ہے نہ پہر دو پہر کی ہے
قدرت تو چار سو تری روشن ہے دہر میں
حاجت نہ شمس کی نہ ضرورت قمر کی ہے
قاتل وہ شاخ ہے تری یہ تیغ آب دار
جس کو نہ گل کا غم ہے نہ حاجت ثمر کی ہے
سب کچھ خدا نے مجھ کو دیا عرشؔ بے طلب
دختر کی آرزو نہ تمنا پسر کی ہے
اے عرشؔ آؤ خاک میں دلی کے سو رہیں
مٹ کر بھی خواب گاہ یہ اہل ہنر کی ہے
- کتاب : کلیات عرشؔ موسوم بہ نظم نو نگار و کیسۂ جواہر (Pg. 112)
- Author : ضمیرالدین عرشؔ گیاوی
- مطبع : پنجاب فائن آرٹس پریس، کلکتہ (1932)
- اشاعت : 2nd Edition
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.