Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

عشق کی بربادیوں کو رائیگاں سمجھا تھا میں

جگر مرادآبادی

عشق کی بربادیوں کو رائیگاں سمجھا تھا میں

جگر مرادآبادی

MORE BYجگر مرادآبادی

    عشق کی بربادیوں کو رائیگاں سمجھا تھا میں

    بستیاں نکلیں جنہیں ویرانیاں سمجھا تھا میں

    بے حجابی کو حجاب درمیاں سمجھا تھا میں

    سامنے کی بات تھی لیکن کہاں سمجھا تھا میں

    ہر نگہ کو طبع نازک پر گراں سمجھا تھا میں

    وہ بھی کیا دن تھے جب اس کو بد گماں سمجھا تھا میں

    شاد باش و زندہ باش اے عشق خوش سودائے من

    تجھ سے پہلے اپنی عظمت بھی کہاں سمجھا تھا میں

    کیا خبر تھی خود وہ نکلیں گے برابر کے شریک

    دل کی ہر دھڑکن کو اپنی داستاں سمجھا تھا میں

    یاد ایامے کہ جب ذوق طلب کامل نہ تھا

    ہر غبار کارواں کو کارواں سمجھا تھا میں

    آدمی کو آدمی سے بعد وہ بھی کس قدر

    زندگی کو زندگی کا رازداں سمجھا تھا میں

    کیا بتاؤں کس قدر زنجیر ما ثابت ہوئے

    چند تنکے جن کو اپنا آشیاں سمجھا تھا میں

    زندگی نکلی مسلسل امتحاں در امتحاں

    زندگی کو داستاں ہی داستاں سمجھا تھا میں

    اس گھری کی شرم رکھ لے اے نگاہ ناز دوست

    ہر نفس کو جب حیات جاوداں سمجھا تھا میں

    میری ہی روداد ہستی تھی مرے ہی سامنے

    آج تک جس کو حدیث دیگراں سمجھا تھا میں

    پردہ اٹھا تو وہی صورت نظر آئی جگرؔ

    مدتوں روح القدس کو ہم زباں سمجھا تھا میں

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے