عشق کی بربادیوں کو رائیگاں سمجھا تھا میں
عشق کی بربادیوں کو رائیگاں سمجھا تھا میں
بستیاں نکلیں جنہیں ویرانیاں سمجھا تھا میں
بے حجابی کو حجاب درمیاں سمجھا تھا میں
سامنے کی بات تھی لیکن کہاں سمجھا تھا میں
ہر نگہ کو طبع نازک پر گراں سمجھا تھا میں
وہ بھی کیا دن تھے جب اس کو بد گماں سمجھا تھا میں
شاد باش و زندہ باش اے عشق خوش سودائے من
تجھ سے پہلے اپنی عظمت بھی کہاں سمجھا تھا میں
کیا خبر تھی خود وہ نکلیں گے برابر کے شریک
دل کی ہر دھڑکن کو اپنی داستاں سمجھا تھا میں
یاد ایامے کہ جب ذوق طلب کامل نہ تھا
ہر غبار کارواں کو کارواں سمجھا تھا میں
آدمی کو آدمی سے بعد وہ بھی کس قدر
زندگی کو زندگی کا رازداں سمجھا تھا میں
کیا بتاؤں کس قدر زنجیر ما ثابت ہوئے
چند تنکے جن کو اپنا آشیاں سمجھا تھا میں
زندگی نکلی مسلسل امتحاں در امتحاں
زندگی کو داستاں ہی داستاں سمجھا تھا میں
اس گھری کی شرم رکھ لے اے نگاہ ناز دوست
ہر نفس کو جب حیات جاوداں سمجھا تھا میں
میری ہی روداد ہستی تھی مرے ہی سامنے
آج تک جس کو حدیث دیگراں سمجھا تھا میں
پردہ اٹھا تو وہی صورت نظر آئی جگرؔ
مدتوں روح القدس کو ہم زباں سمجھا تھا میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.