کریں آہ و فغاں پھوڑیں پھپھولے اس طرح دل کے
کریں آہ و فغاں پھوڑیں پھپھولے اس طرح دل کے
ارادہ ہے کہ روئیں عید کے دن بھی گلے مل کے
تماشے دیکھتے ہیں آج کل وہ رقص بسمل کے
سنے ہم نے بھی غیروں سے یہ قصے ان کی محفل کے
کہانی میں تسلسل ہے نہ موزوں ہے کوئی قصہ
فسانے بھی پریشاں ہیں ہمارے مضطرب دل کے
کریں کیا غیر سے تکرار وہ نا اہل و ناداں ہے
جو عاقل ہیں و منہ لگتے نہیں بے مغز و جاہل کے
جگہ رونے کی ہے مدہوش پا کر باغ عالم میں
میری غفلت پہ یہ غنچے بھی اب ہنستے ہیں کھل کھل کے
پریشاں کیوں نہ ہو دکھتا ہوا دل سیر گلشن سے
کہ اہل درد سن سکتے نہیں نالے عنادل کے
یہ بولا دیکھ کر آئینہ مجھ سے وہ میرا خودبیں
کہو خوش رو جہاں میں اور ہیں میرے مقابل کے
بلایا پہلے مقتل میں کیا ہے ذبح خود مجھ کو
قیامت تک نہ بھولوں گا یہ احساں اپنے قاتل کے
تجھے مشکل کشا سمجھوں نہ کیوں کر اے میرے وارثؔ
تیرے ہاتھوں سے حل ہوتے ہیں عقدے میری مشکل کے
غم و رنج و الم کا سامنا اوگھٹؔ نہ کیوں کر ہو
کہ راہ عشق میں یہ مرحلے ہیں پہلی منزل کے
- کتاب : فیضان وارثی المعروف زمزمۂ قوالی (Pg. 9)
- Author : اوگھٹ شاہ وارثی
- مطبع : جید برقی پریس، دہلی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.