سامنے اس ترک کے دل رکھ دیا سر رکھ دیا
سامنے اس ترک کے دل رکھ دیا سر رکھ دیا
پاس تھا موجود جو کچھ ہم نے لا کر رکھ دیا
گردنیں شوق شہادت میں جھکی ہیں سینکڑوں
نیمچہ کیوں ہاتھ سے ترک ستم گر رکھ دیا
چاند سی پیشانی سندور کا ٹیکا نہیں
بام کعبہ پر چراغ اس نے جلا کر رکھ دیا
خامشی بھی ہے دلیل کامیابی نامہ بر
غم نہیں گر نامۂ شوق اس نے پڑھ کر رکھ دیا
وصل میں جھگڑا بکھیڑا رات بھر ان سے رہا
ساہی کا کانٹا عدو نے زیر بستر رکھ دیا
جب کہا مجھ سا حسیں دنیا میں اب کوئی نہیں
مسکرا کر ہم نے آئینہ برابر رکھ دیا
اپنے دل میں یار نے دشمن کو پھر کیوں دی جگہ
کیا غضب ہے بت کو پھر کعبہ کے اندر رکھ دیا
ایک پہلو میں جگر ہے دوسرے پہلو میں دل
تیغ و خنجر کے لیے حصہ برابر رکھ دیا
غش جو آیا دولت پا بوس جاناں مل گئی
گرتے گرتے میں نے پائے یار پر سر رکھ دیا
نازک بیداد سے کب چشم پوشی ہم نے کی
خون دل لخت جگر جو تھا میسر رکھ دیا
مجھ کو کوثرؔ پیار سے اس نے گلے لپٹا لیا
ہو کے جب بیتاب میں نے پاؤں سر پر رکھ دیا
- کتاب : تذکرہ شعرائے وارثیہ (Pg. 81)
- مطبع : فائن بکس پرنٹرس (1993)
- اشاعت : 2nd Edition
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.