Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

زندگی تھی اک حباب اور اس کو کیا سمجھا تھا میں

بیتاب کالپوی

زندگی تھی اک حباب اور اس کو کیا سمجھا تھا میں

بیتاب کالپوی

زندگی تھی اک حباب اور اس کو کیا سمجھا تھا میں

ہاں حیات جاودانی سے سوا سمجھا تھا میں

کوئی سمجھائے کہ آخر کیا برا سمجھا تھا میں

ان کی لغزش کو اگر اپنی خطا سمجھا تھا میں

سادگی کہئے اسے میری کہ حسن اتفاق

تھے وہی قاتل جنہیں درد آشنا سمجھا تھا میں

کچھ عجب ماحول تھا میری شب اندوہ کا

قطب کی آواز کو تیری صدا سمجھا تھا میں

درد دل کو میں برا کہتا یہ ممکن ہی نہ تھا

درد دل کو بھی تمہاری ہی عطا سمجھا تھا میں

غور سے دیکھا تو پایا اس کو شہ رگ کے قریب

اپنی ہی کوتاہ‌‌ بینی سے جدا سمجھا تھا میں

سجدہ گاہ قدسیاں صد سجدہ گاہ انس و جن

حسن میں جلوہ اسی کا ہے بجا سمجھا تھا میں

یہ غلط فہمی نہ تھی تو اور پھر کیا چیز تھی

ابتدائے عشق کو بھی انتہا سمجھا تھا میں

زندگی کے ساتھ ہیں بیتاب ساری کلفتیں

کیا غلط تھا درد دل کو لا دوا سمجھا تھا میں

مأخذ :
  • کتاب : تذکرہ شعرائے اتر پردیش حصہ سوئم (Pg. 82)
  • Author : عرفان عباسی
  • مطبع : ` (1983)

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے