زندگی تھی اک حباب اور اس کو کیا سمجھا تھا میں
زندگی تھی اک حباب اور اس کو کیا سمجھا تھا میں
ہاں حیات جاودانی سے سوا سمجھا تھا میں
کوئی سمجھائے کہ آخر کیا برا سمجھا تھا میں
ان کی لغزش کو اگر اپنی خطا سمجھا تھا میں
سادگی کہئے اسے میری کہ حسن اتفاق
تھے وہی قاتل جنہیں درد آشنا سمجھا تھا میں
کچھ عجب ماحول تھا میری شب اندوہ کا
قطب کی آواز کو تیری صدا سمجھا تھا میں
درد دل کو میں برا کہتا یہ ممکن ہی نہ تھا
درد دل کو بھی تمہاری ہی عطا سمجھا تھا میں
غور سے دیکھا تو پایا اس کو شہ رگ کے قریب
اپنی ہی کوتاہ بینی سے جدا سمجھا تھا میں
سجدہ گاہ قدسیاں صد سجدہ گاہ انس و جن
حسن میں جلوہ اسی کا ہے بجا سمجھا تھا میں
یہ غلط فہمی نہ تھی تو اور پھر کیا چیز تھی
ابتدائے عشق کو بھی انتہا سمجھا تھا میں
زندگی کے ساتھ ہیں بیتاب ساری کلفتیں
کیا غلط تھا درد دل کو لا دوا سمجھا تھا میں
- کتاب : تذکرہ شعرائے اتر پردیش حصہ سوئم (Pg. 82)
- Author : عرفان عباسی
- مطبع : ` (1983)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.