کھنچی ہے شمشیر ناز قاتل چلے ہیں مشتاق مرگ گھر سے
کھنچی ہے شمشیر ناز قاتل چلے ہیں مشتاق مرگ گھر سے
کفن لپیٹے ہوئے کمر سے کوئی ادھر سے کوئی ادھر سے
وہ گل بدن جاں ہے چمن کی یہ جانتا ہوں میں پیشتر سے
ہنسا تو کلیاں چٹک کے نکلیں کیا تکلم تو پھول برسے
دکھائیے آج روئے زیبا اٹھائیے درمیاں سے پردہ
کہاں سے اب انتظار فردا یہی تو سنتے ہیں عمر بھر سے
جفائے معشوق کا گلہ کیا صعوبت دشت کربلا کیا
قدم بھی ہٹتے ہیں عاشقوں کے اگر برستی ہے آگ برسے
دکھاؤں اشکوں کی گر روانی گھٹا ہو غیرت سے پانی پانی
ابھی کھلے حال لن ترانی ہٹاؤں دامن جو چشم تر سے
نہ بے قراری کا ڈھنگ آیا نہ اشک پر خوں کا رنگ آیا
چمک کے بجلی ہزار تڑپی گرج کے بادل ہزار برسے
ادھر سے چلمن ہٹا کے جھانکا ادھر سے پردہ ہٹا کے دیکھا
لگایا ظالم نے تیر ہم پر کبھی ادھر سے کبھی ادھر سے
- کتاب : بہار میں اردو کی صوفیانہ شاعری (Pg. 179)
- Author : محمد طیب ابدالی
- مطبع : اسرار کریمی، الہ آباد (1988)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.