پلا ساقیا اب مے سرخ رنگ
پلا ساقیا اب مے سرخ رنگ
کہ اس قید قالب سے ہے روح تنگ
شب و روز ہے نفس کافر کمیں
فتح دے کہاں تک کروں اس سے جنگ
ترے فضل کا اب ہوں امیدوار
ہے یہ نفس امارہ مثل نہنگ
پلا شربت مصری یوسف میرے
کہ تشنہ کو کب صبر از آب خنک
عجب حال ہے اہل دنیا کا آہ
اٹھاتے ہیں فتنہ کو کیسے ہیں ڈھنگ
کمال فقیری کہاں اور تمیز
مداری فقیر و گدا ہوں ملنگ
دو رنگی میں ہے میرا فعل اور قول
اے عاشق صادق تو ہو ایک رنگ
کیا نام پیروں کا بدنام میں
مجھے شرم آتی ہے اور عار ننگ
گلستان محبت کا تازہ ہو گل
محبت ہو جس کی وہ ہے اس کے سنگ
مدد پیر مسکین جب تک نہ ہو
سمجھ لے کہ ہے آئینۂ دل پہ زنگ
نہیں کوئی محمودؔ کا یار اب
ہے خانہ نشیں کیا ہوا پائے لنگ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.