جس کے تم دلبر ہو جس دل میں تمہاری یاد ہو
جس کے تم دلبر ہو جس دل میں تمہاری یاد ہو
وہ ہمیشہ خاک چھانے وہ سدا برباد ہو
کر کے زخمی چل دیا وہ میں یہ کہتا رہ گیا
اور بھی اک وار مجھ پر او ستم ایجاد ہو
مصحف رخسار جاناں حفظ کرنا چاہیے
حافظ قرآں وہی ہے جس کو قرآں یاد ہو
سیر کر دے اب کہ گلشن بیں ہے ہنگام بہار
ہم اسیروں کی رہائی اب تو اے صیاد ہو
رہزن ایمان تو جلوہ دکھا جائے اگر
بت پجیں مندر میں مسجد میں خدا کی یاد ہو
حور کا دل چھینتے ہو جن کی تم لیتے ہو جاں
پر کترتے ہو پری کے اور آدم زاد ہو
پڑھتے رہتے ہیں تمہارا ہی سبق یہ اور تم
عاشقوں کو بھول جاتے ہو بڑے استاد ہو
ہم کریں مشق محبت تم کرو مشق ستم
حرف جس کے خوب صورت ہوں اسی پر صاد ہو
قتل ہونے پر میں راضی ہوں مگر یہ شرط ہے
تیرے ہاتھوں سے گلے پر خنجر فولاد ہو
جو تمہاری بات ہے ہے وہ زمانہ سے جدا
شوخیاں ایجاد کرتے ہو بڑے استاد ہو
کھینچ کر تلوار اکبرؔ پر چلے ہو بے دریغ
بے گنہ کو قتل کرتے ہو بڑے جلاد ہو
- کتاب : ریاض اکبر: اصلی دیوان اکبر (Pg. 60)
- Author : محمد اکبر خاں وارثی
- مطبع : مطبع مجیدی، میرٹھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.