سانسیں اکھڑ رہی ہیں مرے اعتبار کی
سانسیں اکھڑ رہی ہیں مرے اعتبار کی
اب ختم داستاں ہو شب انتظار کی
چھیڑا جہاں پہ ذکر قیامت نے یار کا
گردش ٹھہر گئی وہیں لیل و نہار کی
اک آئینہ بدن کے قدم چومنے لگا
آنکھوں کو بھا گئی یہ ادا آبشار کی
کیوں خار و خس کو مسند توقیر کی عطا
اے وقت تونے کیسی روش اختیار کی
دست دعا بلند کیے ہے ہوائے شب
لو تھرتھرا رہی ہے چراغ مزار کی
پرچم مرے چراغ کی لو کر لے تو بلند
تاریکیوں سے کرنی ہے جنگ آر پار کی
بام افق پہ روشنیوں نے کیا طلوع
یہ آخری گھڑی ہے شب انتشار کی
تیر و تبر سے کام جو ممکن نہ ہو سکا
وہ کام کر گئی تری چٹکی غبار کی
سانسیں سلگتے جلتے ہوئے دشت کی تھمیں
رفتار دیکھ کر مرے ناقہ سوار کی
کاغذ نے میرے سامنے آکر کیا قیام
چھیڑی جو بات خامۂ منظر نگار کی
اے نورؔ اس کو دیکھ کے محسوس یہ ہوا
تصویر میں نے دیکھی ہے موج بہار کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.