جب تک نگاہ شوق رہی اختیار میں
جب تک نگاہ شوق رہی اختیار میں
وہ رات دن رہے ہیں مرے انتظار میں
چالیں نئی نئی سی ہیں رفتار یار میں
پڑ جائے گا خلل روش روزگار میں
رہنا ہے چار دن چمن روزگار میں
دو دن خزاں میں جائیں گے دو دن بہار میں
جو ایک رنگ پر ہو خزاں و بہار میں
وہ پھول ہی نہیں چمن روزگار میں
ساری بہار اس سے ہے فصل بہار میں
بس ایک پھول ہے چمن روزگار میں
دھوکہ ہوا کہ ہنستے ہوئے آ رہے ہیں آپ
بجلی چمک گئی جو شب انتظار میں
دنیا کو لوگ چھوڑ کے عقبیٰ پہ کیوں مریں
جو نقد میں مزا ہے کہاں ہے ادھار میں
ہیں وقت کے غلام زمیں اور آسماں
یہ کیا شریک ہوں گے مرے کار و بار میں
مجبور بندگی میں کہاں شان بندگی
رہنے دو کچھ نہ کچھ تو مرے اختیار میں
پیری میں ہوگا غفلت یاد خدا کا درد
ابھرے گی یہ بھی چوٹ لہو کے اتار میں
اک تازہ واردات ہے اک تازہ دم کے ساتھ
میرے ارادے آ نہیں سکتے شمار میں
کوئی نہ پوچھے خیر نکیرین ہی سہی
پردے کی بات جا کے کہوں گا مزار میں
آؤ تو اس طرح مرے مہماں رہا کرو
امید جس طرح دل امیدوار میں
میں جبر و اختیار کی الجھن میں پڑ گیا
کیا کہہ گئے وہ اک نگۂ شرمسار میں
اپنی اگر نہیں ہے تو اپنوں کی فکر ہے
ہر آدمی ہے ایک نہ اک خلفشار میں
نالہ خلاف وعدہ کیا ہائے کیا کیا
وہ سن چکے تو فرق پڑا اعتبار میں
کہتے ہیں لوگ موت سے بد تر ہے انتظار
میری تمام عمر کٹی انتظار میں
مجنوں اگر نہیں نہ سہی کوہ کن تو بن
اتنا تو ہو کہ موت رہے اختیار میں
وہ خون ہی ہماری رگوں میں نہیں رہا
دیوانگی کا خوف ہو جس سے بہار میں
سو مہربانیوں کے عوض مسکرا دیا
سرکار نے کمال کیا اختصار میں
ایسے کہ انتظار کی گھڑیاں نہ پوچھئے
جس کا کوئی شریک نہ ہوا انتظار میں
پیدا کرو کسی بھی طرح دل پہ اختیار
دل اختیار میں ہے تو سب اختیار میں
کیوں نا امید آپ کا امیدوار ہو
سب کچھ ہے کیا نہیں نگۂ شرمسار میں
یا موت آئے گی مجھے یا نیند آئے گی
اک اور شب گزار تو دوں انتظار میں
عشق اور آپ واہ صفیؔ واہ واہ واہ
غم اور ہائے زندگی مستعار میں
- کتاب : گلزار صفی (Pg. 82)
- Author : صفیؔ اورنگ آباد
- مطبع : گولڈن پریس، حیدرآباد (1987)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.