کیا بتائے کوئی اس کو کہ کہاں رہتا ہے
کیا بتائے کوئی اس کو کہ کہاں رہتا ہے
نور آنکھوں کا ہے آنکھوں میں نہاں رہتا ہے
میرے ہی دل میں ہے مجھ سے ہی نہیں ملتا وہ
روح بن کر رگ جاں میں جو نہاں رہتا ہے
ساری دنیا کو تصور ہے ترے عارض کا
ہر نظر میں یہی آئینہ نہاں رہتا ہے
میرے اشکوں کی روانی نہ رکی روکے سے
یہی دریا ہے جو ہر وقت رواں رہتا ہے
دم فرشتوں کا گھٹا کیوں نہ زمیں پر اتریں
آسماں پر مری آہوں کا دھواں رہتا ہے
مجھ سے کیا پوچھتے ہیں آپ پتہ اکبرؔ کا
مرد آوارہ ہے کیا جانے کہاں رہتا ہے
- کتاب : جذباتِ اکبر (Pg. 140)
- Author :شاہ اکبرؔ داناپوری
- مطبع : آگرہ اخبار پریس، آگرہ (1915)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.