کام کے دونوں ہیں پر دونوں ہیں اے یار عبث
کام کے دونوں ہیں پر دونوں ہیں اے یار عبث
کفر میں سبحہ عبث دین میں زنار عبث
لڑے مرتے ہیں یوں ہی کافر و دیندار عبث
ان کی رنجش ہے عبث ان کی ہے تکرار عبث
پگڑی بن جائے نہ مے خواروں کی دستار شریف
محتسب کرتے ہو مے نوشوں سے تکرار عبث
نہ کمر اس کی نظر آئے ثابت ہو دہن
گفتگو اس میں عبث اس میں ہے تکرار عبث
باغ دنیا میں جو آئے تو یہی پھل پایا
ہو گئے ہم سے سبک دوش گراں بار عبث
ہے ترے خون جگر سے نہیں کم بادۂ ناب
تو نہ ہو ساتھ تو ہے سیر چمن یار عبث
دام گیسو سے رہائی ہو تو پہنچوں تجھ تک
فکر میری ہے مجھے حلقۂ زنار عبث
ایک دن بھی نہ مرے دل کے پھپھولے ٹوٹے
نوک کی لیتی ہے مژگاں صفت خار عبث
قتل عشاق کو کیا جنبش ابرو کم ہے
دست نازک میں ہے یہ نیمچہ اے یار عبث
رحمت ساقیٔ کوثر ہے شفاعت کے لیے
مے کشو چھوڑتے ہو خانۂ خمار عبث
حامی ان کے ہیں شفیع دو جہاں اے اکبرؔ
ڈرتے ہیں مالک دوزخ سے گنہ گار عبث
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.