نورتن بازو پہ جب وہ باندھ مہ پیکر اٹھا
نورتن بازو پہ جب وہ باندھ مہ پیکر اٹھا
لیلئ شب نے رکھا پرویں کا پھر جھومر اٹھا
دیکھنے کو تو نہ آئینہ بت کافر اٹھا
درمیاں بہر خدا مت صد اسکندر اٹھا
قد موزوں جب کہ دکھلانے مرا دلبر اٹھا
صاحب تکبیر قد قامت ہی پھر کہہ کر اٹھا
چشم نم اور خشک لب میں ساتھ کیا لے کر اٹھا
آج کوچے سے ترے سلطان بحر و بر اٹھا
چشم مست یار کو ڈرتا ہوں دل دیتے ہوئے
ہے یہ شیشہ پھینک دے اس کو نہ پتھر پر اٹھا
ہے نگو ساری بھی ساتھ اے مردم دنیائے دوں
شکل فوارہ نہ اپنے اوج پر تو سر اٹھا
رات دن تیرا تصور تھا انہیں اے خار چشم
کیا گنہ آنکھیں مری تلووں سے کیوں مل کر اٹھا
دیکھیے کیا سر پہ ہو آسودگان خاک کے
آج پھر وہ فتنۂ برپا کن محشر اٹھا
میرے ہوتے غیر کی جانب ترے ابرو ہلیں
دوستی بالائے طاق اپنی رکھ اے دلبر اٹھا
ایک شب تو بیٹھ میرے حلقۂ آغوش میں
یار مہ پیکر قدم ہالے سے مت باہر اٹھا
گر یہی تیری نہیں ہے جان من تو ہم نہیں
ہاں بھی کر حرف نہیں لب سے سخن پرور اٹھا
اپنے کشتے کو جلایا تو نے اک ٹھوکر سے جب
چرخ چارم کو مسیحا چھوڑ یہ سن کر اٹھا
عاقبت ہوتا ہے رتبہ مرد حق گو کا بلند
دار پر ہی چڑھ کے ہاں منصور بالاتر اٹھا
ہوں مریض چشم اس کا اس سے ہے تسکین دل
باغباں مت سامنے سے دستۂ عبہر اٹھا
- کتاب : کلیات شاہ نصیرؔ مرتب: تنویر احمد علوی (Pg. 354)
- Author : شاہ نصیرؔ
- مطبع : مجلس ترقی ادب، لاہور (1971)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.