فضا بدلی ہوئی تھی عالم ہستی کے گلشن کی
فضا بدلی ہوئی تھی عالم ہستی کے گلشن کی
مجھے جب ہوش میں لائیں ہوائیں ان کے دامن کی
کوئی میرے سوا سمجھا نہ رمز اس چشم پر فن کی
ہمیشہ کشمکش چلتی رہی شیخ و برہمن کی
بچی جو بجلیوں کے بعد خاکستر وہ باقی تھی
کوئی ہیت نہ تھی میرے نشیمن میں نشیمن کی
الٰہی کون وہ محو خرام ناز ہے جس سے
فضائیں مست ہوتی جارہی ہیں آج گلشن کی
کسی صورت نہیں کھلتا گلوں کا راز بلبل پر
کھلی ہے آنکھ نرگس کی زباں ہے بند سوسن کی
نہ ہو شامل اگر حسن نظارہ سوز کی فطرت
کریں گی خود حفاظت بجلیاں میرے نشیمن کی
بڑھی ہیں ناخن وحشت کی چیرہ دستیاں اتنی
گریباں پرزے پرزے ہو چکا اب خیر دامن کی
مری تربت پہ یارب کون یہ محشر خرام آیا
کہ مٹی خود بخود اڑنے لگی ہے میرے مدفن کی
وفاؤں میں تو اے قاتلؔ نہیں فریاد کی وسعت
نکالو اب نئی طرز فغاں نالوں کے شیون کی
- کتاب : دیوان قاتل (Pg. 298)
- Author : شاہ قاتلؔ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.