آج اک اجنبی سے نگاہیں ملیں صرف اک لمحۂ مختصر کے لیے
آج اک اجنبی سے نگاہیں ملیں صرف اک لمحۂ مختصر کے لیے
دل کچھ اس طرح سے مطمئن ہو گیا جیسے کچھ پا لیا عمر بھر کے لیے
ہر قدم کشمکش ہر نفس الجھنیں زندگی وقف ہے درد سر کے لیے
پہلے اپنے ہی درماں کا غم تھا ہمیں اب دوا چاہیے چارہ گر کے لیے
میں نے بخشی ہے تاریکیوں کو ضیا اور خود اک تجلی کا محتاج ہوں
روشنی دینے والے کو بھی کم سے کم اک دیا چاہیے اپنے گھر کے لیے
اے شکیلؔ ان کی محفل میں بھی کیا ملا اور کچھ بڑھ گئیں دل کی بے تابیاں
سب کی جانب رہی وہ نگاہ کرم ہم ترستے رہے اک نظر کے لیے
- کتاب : سرودِ روحانی (Pg. 315)
- اشاعت : Second
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.