اس بزم کا نقشہ ہی انوکھا ہے نیا ہے
دلچسپ معلومات
تضمین
اس بزم کا نقشہ ہی انوکھا ہے نیا ہے
جبریل امیں باندھے ہوئے ہاتھ کھڑا ہے
حوروں کی زبانوں پہ یہاں صل علیٰ ہے
اے مجرئی تعظیم ہو جتنی ہو بجا ہے
دربار حسینی ہے یہاں عرش جھکا ہے
مہتاب بھی قربان ہے وہ حسن ملا ہے
جرأت ہے وہ جرأت کوئی ہمسر نہ ہوا ہے
کیا صورت و سیرت ہو بیاں صاف کھلا ہے
ہم شکل نبی ہے پسر شیرِ خدا ہے
وہ لال ہے جو گود میں زہرا کے پلا ہے
لوگوں نے یہ سرکار کا ارشاد سنا ہے
یہ مجھ سے ہے میں اس سے رہا فرق ہی کیا ہے
یہ مرتبہ اوروں کو ملے گا نہ ملا ہے
دربارِ رسالت سے یہ اعلان ہوا ہے
کونین کا مختار امام دوسرا ہے
ایمان کی کہتا ہوں یہ ایمان مرا ہے
دیکھا ہے سنا ہے، یہ حقیقت ہے بجا ہے
مشکل میں جہاں یاد کیا دور بلا ہے
کیا نام حسین ابن علی نامِ خدا ہے
ہر دور کا درماں ہے وہ ہر دکھ کی دوا ہے
اکبر سے جواں بیٹے کا وہ داغ لگا ہے
عباس علمدار کمر توڑ گیا ہے
اس پر بھی یہ اللہ ری آئین وفا ہے
ہر حال میں شاکر ہے نہ شکوہ نہ گلا ہے
اک صبر کا بندہ ہے کہ راضی بہ رضا ہے
مظلوم ہے، بیکس ہے، غریب الغربا ہے
اک پیکر طاعت ہے کہ تصویرِ وفا ہے
چپ چاپ زمانہ کی ہوا دیکھ رہا ہے
ہر حال میں شاکر ہے نہ شکوہ نہ گلا ہے
اک صبر کا بندہ ہے کہ راضی بہ رضا ہے
ڈرتا ہے بہادر کہیں افواجِ دنی سے
آنکھیں وہ لڑا لیتا ہے نیزوں کی انی سے
میدان کوئی لے تو لے میداں کے دھنی سے
بیعت کی طلب اور امام مدنی سے!
اک بڑہے شرابی کی یہ ہذیان ہوا ہے
واقف نہیں کیا مرتبۂ پنج تنی سے
آتا نہیں کیوں باز بھلا بد سخنی سے
جاتے رہے کیا ہوش بھی اعضا شکنی سے
بیعت کی طلب اور امامِ مدنی سے!
اک بڑہے شرابی کی یہ ہذیان ہوا ہے
دم بھر کی نمائش ہے یہ سب جلوہ نمائی
باقی جو رہے گی تو وہی شانِ خدائی
کس بات پہ نخوت ہے یہ کیا دل میں ہے آئی
دنیا کے لیے مالک عقبیٰ سے لڑائی
دنیا کی حکومت تو یہ دو دن کی ہوا ہے
انجام دکھا دیں یہیں ہر دشمنِ دیں کو
چکرا دیں اشاروں ہی میں اس چرخِ بریں کو
اعدا پہ الٹ دیں ابھی مقتل کی زمیں کو
وہ چاہیں تو فی النار کریں فوجِ لعیں کو
وہ مالکِ کل ہیں انہیں دشوار ہی کیا ہے
گستاخیاں یہ باد شہِ عرشِ نشیں سے
کم بخت پھرا جاتا ہے کیوں قبلۂ دیں سے
دوزخ کے بنا ڈالے ہیں سامان یہیں سے
اتنا تو کوئی پوچھ لے اس شمرِ لعیں سے
ظالم تجھے کچھ پاسِ نبی خوفِ خدا ہے؟
یہ نازشِ قدرت ہے، یہ ہے حق کی صداقت
یہ فخر امامت ہے یہی جانِ خلافت
کم ہوگی قیامت سے نہ کچھ اس کی شہادت
ظالم تجھے معلوم ہے شبیر کی عظمت
یہ اس کا نواسہ ہے جو محبوبِ خدا ہے
خوشنودیٔ خالق کے طلب گار ہیں مولا
دیدار کی رحمت کے خریدار ہیں مولا
ہر رسمِ محبت سے خبردار ہیں مولا
جاں دینے کو سو جان سے تیار ہیں مولا
ہر حال میں راضی ہیں یہ آئین وفا ہے
ہاں ذوقِ شہادت کی ہے توقیر نرالی
پیشانیٔ طاعت کی ہے تنویر نرالی
تعلیم رسالت کی ہے تاثیر نرالی
تکمیل شہادت کی ہے تصویر نرالی
خم ہے سرِ تسلیم کی مولا کی رضا ہے
ڈر ہے کہ بپا اور ہی کہرام نہ ہو جائے
آغاز جسے کہتے ہیں انجام نہ ہو جائے
اس صبح قیامت کی یہیں شام نہ ہو جائے
محشر بھی کہیں قتل گہہ عام نہ ہو جائے
خونِ شہِ مظلوم ہے خود بول اٹھا ہے
جس وقت اسیرو ں کو نظر آیا مدینا
کچھ کہہ نہیں سکتا جو قیامت ہوئی برپا
ہر بی بی کے لب پر تھی صدا یا شہِ بطحا
فریاد کہ تاراج، ہوا گلشنِ زہرا
سادات کا یہ قافلہ غربت میں لٹا ہے
چہرہ بھی ہے مغموم تو آنکھیں بھی ہیں پُر نم
ہر سانس کی آواز میں ہے نالۂ پیہم
عارفؔ سے چھپاؤ گے کہاں تک الم و غم
سر دھنتے ہوئے بیٹھے ہوئے کیسا ہے یہ ماتم
کیوں غم کی چڑھاتی ہے خلیلؔ آج یہ کیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.