صنم کے جسم میں آ کر نفس کا تار کہتے ہیں
صنم کے جسم میں آ کر نفس کا تار کہتے ہیں
برہمن بن کے خود گردن میں ہم زنار رکھتے ہیں
جو مورت بن کے پہنچے ہیں جہاں کہ بت کدہ میں ہم
سراسر خود وجود احمد مختار رکھتے ہیں
ہمارا عشق ہے مذہب ہے صلح کل ہے دین اپنا
ہیں سارے ایک آپس میں نہ ہم تکرار رکھتے ہیں
جو ہم جلوت میں بیٹھے ہیں ہے خلوت ساتھ ہی اپنے
بغل میں ظاہر و پوشیدہ ہم دل دار رکھتے ہیں
سر مشرق سے مغرب تک جو ناظر آپ ہیں اپنے
منور اینما سے مصحف رخسار رکھتے ہیں
ہماری چشم کی پتلی کے نقطہ میں ہے خود لیلیٰ
نظر کی بن کے مجنوں ہم نگاہ یار رکھتے ہیں
نظر کس کو کریں اب ہم ہیں آپ ہی وامق و عذرا
کہ وحدت میں نہ مطلق خواہش دیدار رکھتے ہیں
خدا خود شش جہت سے ہے سدا حیرت کدہ اپنا
پرے ہم لا مکان کے ہیں کہاں دیوار رکھتے ہیں
بنا کر شکل یوسف کی خدا کو جب سے بیچا ہے
تبھی سے عشق کا سودا سر بازار رکھتے ہیں
نظر میں اپنی ہر اک شب تصور ان کا رہتا ہے
جو بند آنکھ اپنی کرتے ہیں دل بیدار رکھتے ہیں
وہی منصور ہیں ہم بھی انا الحق کہتے جائیں گے
چڑھیں گے پھر بھی سولی پر نہ خوف وار رکھتے ہیں
جو بہرے بن کے سنتے ہیں بغیر از تار صورت ہو
بنا کر روزن دل سے نئے مضمار رکھتے ہیں
دکھا دیتے ہیں گم کر کے اسی قالب میں آدم کو
ہم الانسان سری ہیں بڑا اسرار رکھتے ہیں
بنا ہے جبہہ ہستی کا تعشق سے جو عالم میں
سزا سر آلۂ ناسوت پر دستار رکھتے ہیں
نہ ہو کیوں برزخ کبریٰ کا ہم کو خاص دعوی یہاں
سراپا میم کے نقطہ سے ہم انوار رکھتے ہیں
ملا ہے وصل کا جرعہ جو ہم کو ساغر دل سے
مئے وحدت سے آنکھیں ہم سدا سرشار رکھتے ہیں
کلام اپنی صفت ہے جو زبان چلتی ہے خود اس سے
رہیں خاموش کیوں کر ہم لب گفتار رکھتے ہیں
معین الدین چشتی کے جو کہلاتے ہیں ہم عاشق
جہاں میں خاص عشق حیدر کرار رکھتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.