کیوں عشق کے دعویدار بنے جب ضبط کا یارا ہو نہ سکا
کیوں عشق کے دعویدار بنے جب ضبط کا یارا ہو نہ سکا
اس روئے منور کا ہم سے اک لمحہ نظارا ہو نہ سکا
سب ہوش و حواس و عقل و خرد کھو بیٹھے ہیں تیرے کوچے میں
جس دل پہ ہمیں تھا ناز بہت وہ دل بھی ہمارا ہو نہ سکا
یہ نظرِ عنایت، لطف و کرم سرکار نے قدموں میں رکھا
دنیا نے نظر انداز کیا آقا سے گوارا ہو نہ سکا
طوفاں کے تھپیڑے کھا کھا کر کشتی تھی بھنور میں ڈوب چلی
اک یاد تیری نے کام کیا اور کوئی سہارا ہو نہ سکا
کوہِ طور بھی جل کر خاک ہوا چمکی جو ضیائے حسنِ نبی
موسیٰ سے تقاضا آج تلک ارنی کا دوبارہ ہو نہ سکا
تجھ کو ہو مبارک اے واعظ! کعبہ کی زیارت لاکھ دفعہ
جس بت کی بدولت کفر ملا اس بت سے کنارا ہو نہ سکا
آخر کو امیرِؔ صابری نے ٹھانی یہ تیرے ملنے کے لیے
مرنے کے سوا چوکھٹ پہ تیری اور کوئی بھی چارا ہو نہ سکا
- کتاب : Kalaam-e-Ameer Sabri (Pg. 70)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.