تیر کھانے کی ہوس ہے تو جگر پیدا کر
تیر کھانے کی ہوس ہے تو جگر پیدا کر
سرفروشی کی تمنا ہے تو سر پیدا کر
کوہ کن کوہ کنی شیوۂ عشاق نہیں
ہے جو عاشق دل معشوق میں گھر پیدا کر
رنگ چاہے اگر اس باغ میں آزادی کا
نکہت گل کی طرح شوق سفر پیدا کر
قطرۂ اشک بنے گوہر گوش جاناں
آبرو اتنی تو اے دیدۂ تر پیدا کر
اڑ چلے گا ابھی اے یار ذرا بال تو کھول
تجھ کو بننا ہے پری زاد تو پر پیدا کر
کون سی جا ہے جہاں جلوۂ معشوق نہیں
شوق دیدار اگر ہے تو نظر پیدا کر
میرے ہی دل پہ گرے کاش یہ بجلی بن کر
اے فلک آہ میں اتنا ہی اثر پیدا کر
آخرت میں عمل نیک ہی کام آئیں گے
پیش ہے تجھ کو سفر زاد سفر پیدا کر
عشق حسن نمکیں کا جو اٹھانا ہے مزا
پہلے کچھ ذائقۂ زخم جگر پیدا کر
اپنی گردش پہ بہت ہے تجھے اے چرخ گھمنڈ
جب میں جانوں کہ شب غم کی سحر پیدا کر
صدمے الفت کے اٹھانے ہیں الٰہی مشکل
دل اگر ایک دیا لاکھ جگر پیدا کر
عشق بازی کا اگر حوصلہ رکھتا ہے امیرؔ
دل جو لوہے کا تو پتھر کا جگر پیدا کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.